اسلام وہ مذہب ہے، جو اتحاداخوت، انصاف، انسان دوستی اور حب الوطنی کا پیغام دیتا ہے۔ قرآن وہ مقدس کتاب ہے، جو ہمیں نہ صرف مذہبی تعلیمات سے روشناس کراتی ہے، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات بھی مہیا کراتی ہے، یعنی "Quran is a complete constitution of life for all mankind"۔ اگر ہم قرآن کریم میں درج ایک ایک آیت کے ترجمہ، تفسیر اور شان نزول کا بغور مطالعہ کریں تو زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیںہے، جس کے لےے ہمیں قرآن کریم سے رہنمائی حاصل نہ ہو۔ اگر ہم اپنی یومیہ نمازوں کو مذہبی نقطۂ نظر یعنی عبادتِ الٰہی کے ساتھ ساتھ سماجی نقطۂ نظر سے دیکھیں، تب بھی ان کی افادیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ہم اپنی پنج وقتہ نمازیں اپنے گھر پر یا اپنے گھر اورکام کی جگہ کے نزدیک کی مساجد میں ادا کرتے ہیں۔ اگر سفر کا موقع ہے تو بات دیگر ہے، وہ اس لےے کہ ہمارے گھروں میں مذہبی ماحول قائم رہے اور جب ہم اپنے گھر یا دفتر کے نزدیک کی مساجد میں نماز ادا کررہے ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے آس پاس رہنے والوں یا ساتھ کام کرنے والوں سے ملاقات کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ ہم ان کے دکھ، تکلیف اور حالات کو سمجھیں، وہ ہماری پریشانیوں کو جانیں اور جب نماز کے بعد ہم ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ہماری ایک نظر ایک دوسرے کے چہرے پر لکھی عبارت، دل کا حال پڑھ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے، پھر ہفتہ میں ایک بار ہم جمعہ کی نماز اپنے محلے یا علاقہ کی جامع مسجد میں ادا کرتے ہیں، یعنی پنج وقتہ یومیہ نمازوں کے مقابلہ جمعہ کی نماز کی افادیت اس لےے بھی زیادہ ہے کہ ہفتہ میں ایک بار یہ دائرہ کچھ بڑا ہوجاتا ہے۔ اس مرتبہ ہم نہ صرف اپنے ان بھائیوں سے ملاقات کا موقع پالیتے ہیں جو ہم سے ذرا فاصلہ پر رہتے ہےں، جو دوسرے محلوں میں مقیم ہیں، جمعہ کے روز ہمیں ان کے ساتھ بھی ملنے کا موقع ملتا ہے۔ پھر نمازِ جمعہ سے قبل ہمارے امام عالی مقام کا خطبہ ہمیں ملک اور شہر کے حالات سے روشناس کراتا ہے۔ اس مخصوص دن دئے جانے والے خطبہ میں پیغام الٰہی بھی ہوتا ہے اور حالات حاضرہ پر گفتگو بھی۔ ہمارے ملک کو، ہمارے شہر کو یا ہماری قوم کو کن حالات کا سامنا ہے، وہ کن کن پریشانیوں سے گزر رہے ہیں، اس پر سیرحاصل گفتگو ہوتی ہے۔ پھر سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازوں کے لےے یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازوں کے لےے ہم شہر کی عیدگاہوں میں جمع ہوتے ہیں، یعنی اس بار یہ دائرہ اور بھی وسیع ہوجاتا ہے۔ اب ہم اپنے محلے یا قرب و جوار کے محلوں سے زیادہ بڑے دائرے میں جاکر پورے شہر کے لوگوں کے ساتھ ملنے کا موقع حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ خوشی کا تہوار جسے ہم عیدملن کی شکل میں بھی یاد کرتے ہیں، صحیح معنوں میں سال میں دو مرتبہ یہ ہمارے ملن کا موقع ہوتا ہے اور پھر کم ازکم زندگی میں ایک بار جب پروردگارِعالم ہمیں حج کی سعادت سے نوازتا ہے تو ہمارے پاس موقع ہوتا ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں سے ایک ساتھ ملنے کا۔ حج کے ایام میں ہم دنیا کے گوشے گوشے سے پہنچنے والے ایمان والوں سے ملنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ کس ملک کے رہنے والوں کو کن مسائل کا سامنا ہے، ہم کس بین الاقوامی سازش کا شکار ہیں، ہماری اتحاد کی طاقت ہمیں کس طرح ان مسائل سے نجات دلا سکتی ہے، اس پر غوروفکر کا موقع ملتا ہے ہمیں حج بیت اللہ کی زیارت کے ساتھ جب حج کے مختلف ارکان میں ہم قدم بہ قدم اپنے ہم مذہب افراد کے ساتھ ہوتے ہیں۔
آج اس موقع پر اس گفتگو کی ضرورت اس لےے پیش آئی کہ جس مسئلہ کو ہم نے اٹھایا ہے، اسے ساری دنیا تک پہنچانے کا ایک ہی طریقہ ہے ہماری مساجد۔ ہمارے ائمہ کرام اگر بعدنما زِجمعہ ان کی دعاؤں میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہوجائے تو بیشک یہ صدا بارگاہِ رب العزت تک بھی پہنچے گی و ایوانِ اقتدار تک بھی اور انشاء اللہ شرف قبولیت بھی حاصل کرے گی۔ اگر ہمارے ائمہ کرام بروز جمعہ نمازجمعہ سے قبل اپنے خطبہ میں دیگر ان تمام مسائل کے ساتھ جو ہماری قوم و ملک کو درپیش ہیں، مسئلہ کشمیر کو بھی شامل کرلیں اور اس اتحاد کے پیغام کو ہر نمازی کے دل و دماغ تک پہنچا دیں، جس کا حکم پروردگارِعالم نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں دیا ہے تو اس مسئلہ کے حل کی تلاش ضرور کسی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔
’واعتصموا بحبل اللّٰہِ جمیعا ولا تفرقوا۔‘
ترجمہ:اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور ٹکڑوں میں نہ بٹو۔ (سورہ آل عمران، آیتـ02)
بیشک ہم اس آیت کریمہ کی تلاوت کرتے ہیں، اس کے معنی اور مفہوم کو بھی سمجھتے ہیں، لیکن کاش اس آیت کے معنی کو ہم نے اس طرح سمجھ لیا ہوتا کہ یہ پیغام ہمارے دلوں میں اترجانا ہماری زندگی کا ایک حصہ بن جاتا۔ ہمارے عمل میں نظر آتا تو یہ ملکوں کی سرحدیں ہمارے دلوں میں فاصلہ پیدا نہیں کرسکتی تھیں۔ یہ فرقہ واریت، یہ زبانوں کی تفریق ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرپاتی۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح آبادی کے لحاظ سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت ہونے کے باوجود ہم پریشان حال ہیں۔ ہم نہ صرف ٹکڑوں میں بٹے ہیں، بلکہ ہمارے جو ملک آزاد اور خودمختار نظر آتے ہیں، جنہیں پروردگارِ عالم نے بھرپور مال و دولت سے نوازا ہے اور جو ہمارے اپنوں کی حکمرانی میں ہیں، درحقیقت انہیں بھی مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔ کوئی طاقت ہے، جو درپردہ انہیں اپنی غلامی میں رکھتی ہے۔ بیشک پروردگارِعالم نے انہیں اپنی عنایتوں کی دولت سے مالا مال کیا ہے، مگر اللہ کی بخشی ہوئی اس دولت پر ان سے زیادہ غیروں کا قبضہ ہے۔ 1990میں بغداد میں خلیجی جنگ کے موقع پر اسلامی ممالک کے نمائندگان کی موجودگی میں تقریر کے دوران صدام حسین نے اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم عرب متحد ہوجائیں، پروردگارِعالم کی بخشی ہوئی اس دولت کو جو پیٹرول کی شکل میں ہمیں حاصل ہے، اپنی عیاشی پر خرچ نہ کریں، عورتوں کی منڈیاں لگانی بند کردیں، اس کا استعمال اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لےے کریں اور جس طرح کسان کو اپنے غلہ کی قیمت طے کرنے کا حق ہوتا ہے، اسی طرح ہم عرب ممالک کے حکمرانوں کو بھی اپنی زمین سے نکلنے والے پیٹرول کی قیمت طے کرنے کا حق حاصل ہو۔ ہم اپنے پیٹرول کو پونڈ میں بیچےں گے، ڈالر میں، ریال میں یا دینار میں، یہ فیصلہ کرنے کا حق ہمیں حاصل ہو۔ ہم اس معاملہ میں امریکی فیصلہ کے محتاج کیوں ہوں؟ وہ کیوں ہمارے پیٹرول کی قیمتیں طے کرے؟ صدام حسین کی زبان سے نکلنے والا یہ پیغام اتحاد جب دنیا کی اس سب سے بڑی طاقت سمجھے جانے والے ملک امریکہ کے سربراہ تک پہنچا تو اس نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار کی حکمت عملی ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے اور ہمیں ان پر حکمرانی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اگر یہ متحد ہوگئے، اپنے فیصلے خود کرنے لگے تو ہماری برتری قائم نہیں رہ سکے گی۔ نتیجہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ عراق تباہ ہوا، افغانستان تباہ ہوا، صدام حسین سے ان کی زندگی چھین لی گئی، اس سیال دولت پر امریکہ کا قبضہ ہوگیا۔
15اگست947سے پہلے 190برس تک ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی میں رہا۔ 100برس تک ہم ہندوستانی خواہ ہندو ہوں یا مسلمان، نہ صرف ان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہے، بلکہ ہم اتنی ہمت بھی نہ کرسکے کہ اپنی آزادی کے لےے آواز بلند کرسکیں۔00برس لگے، ہمیں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو یکجا کرنے میں، اپنے اندر اتنا حوصلہ پیدا کرنے میں کہ جو ہم پر مسلط ہیں، ان کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکیں۔ مذہب کے نام پر پیدا کردی گئی جن منافرتوں نے ہمارے دلوں میں فاصلہ پیدا کردیا تھا، اسے بھول کر اپنی آزادی کی خاطر متحد ہوجائیں، لہٰذا 1857میں ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ طاقت نے پہلی بار ان غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالنے کے عزم کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، پھر0برس تک ہم کاندھے سے کاندھا ملا کر یہ جنگ لڑتے رہے۔ نتیجتاً 1947میں ہمیں آزادی نصیب ہوئی، مگر وہ انگریز جس نے ریاستوں میں بٹی مملکت ہند کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا اور جو ہماری نفسیات کو بخوبی سمجھتا تھا، جاتے جاتے ہمارے درمیان انتشار کے بیج بو گیا۔ ہندوستان، پاکستان دو الگ ملک کی شکل میں سامنے آئے اور ہمیں ملا کشمیر ایک مشترکہ مسئلہ کی شکل میں۔
چند جملوں میں تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ہمیں اتحاد کے پیغام کو بھی سمجھنا ہے اور انتشار کی وجوہات پر بھی غور کرنا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج سرزمین ہند پر ہم جتنے بھی مسائل سے دوچار ہیں، وہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں اس کشمیر کے مسئلہ سے وابستہ ہیں۔ مذہبی منافرت، پاکستان کے ساتھ خراب رشتے، کشمیر میں مسلسل خونریزی اور ہندوستان میں دہشت گردانہ واقعات۔ اگر ہم ان سب کا مشاہدہ کریں تو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ذہنیت تنہا ایک شخص کی ذہنیت نہیں تھی، جس نے آزادی سے قبل کشمیری عوام کو ہزاروں زخم دئے اور آزادی کے بعد ایک ایسا ناسور، جو اب ہر طرح سے جان لیوا ثابت ہورہا ہے۔ 1931میں ریاست جموںوکشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ نے وہی کیا، جس مقصد کے پیش نظر 1901میں ہندومہاسبھا کا جنم ہوا تھا۔ اس کے بعد948میں کشمیر کے مسئلہ کو لے کر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ سے جو دو ہمسایہ ملکوں میں نفرت کا ماحول پیدا ہوا، وہ آج تک بھی جاری ہے۔ کاش شیخ محمد عبداللہ نے ہری سنگھ کی ذہنیت کو اسی وقت سمجھ لیا ہوتا، کشمیری عوام کے دل کی آواز کو سن لیا ہوتا تو دنیا کی جنت کشمیر آج جہنم کے شعلوں میں نہ جل رہا ہوتا۔ اس وقت بہت آسان تھایہ…،
مگر آج بارگاہِ الٰہی میں یہ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ سن لے ان کی صدا، جو برسوں سے تیری رحمت کے طلبگار ہیں۔
ایک مختصر سے خطبہ میں کشمیر کے تمام حالات کو سمو دینا آسان نہیں ہے، مگر مسجد کی میناروں سے یہ پیغام پوری دنیا تک پہنچنا شروع ہوجائے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان مظلومین کے حالات کی طرف متوجہ ہوں، جو آج دہشت گردی کا شکار ہیں، جنہیں انصاف نہیں مل رہا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ جب حالات بدلتے نظر آئیں۔ یہ تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے کہ کاغذ پر ہی نہیں دلوں پر لکھی عبارت کو پڑھا نہ جاسکے۔ وہ لوگ آج بھی موجود ہیں، جو ان سچائیوں کو سامنے رکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنی حکومت اور اپنے ملک کے عوام سے یہ مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ خدارا انسانیت کے ناطے اب اس مسئلہ کے حل کی جانب ایک سنجیدہ پیش رفت کریں۔
کشمیر کے حوالہ سے تحقیقی مضامین کا سلسلہ انشاء اللہ جاری رہے گا، آج کی یہ مختصر تحریر اپنے تمام ائمہ کرام کی خدمت میں ایک مؤدبانہ درخواست کی طرح ہے کہ اگر وہ اپنی صفوں سے اتحاد کے پیغام کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی جانب قوم کی توجہ مبذول کرادیں، اپنی دعاؤں میں ان مظلومین کو بھی شامل کرلیں، جو گزشتہ1برس سے دکھ، تکلیف اور پریشانیوں کے شکار ہیں۔ ان پر مظالم ڈھانے والے کوئی بھی ہوں، مگر ہماری دعا تو مظلومین کے حق میں ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مسئلہ جو گزشتہ1برس سے اپنی جگہ قائم ہے اور ہم نے کبھی اس کی طرف سنجیدگی سے غور کیا ہی نہیں۔ خدا جانے کن وجوہات کی بنا پر یا کس خوف و دہشت کے پیش نظر ہمیں ان کو نظرانداز کردیتے رہے۔ شاید اب ہماری توجہ ان کے لےے کچھ بہتری کا سامان مہیا کردے۔ کل سے پھر میں اپنی تحریر کو حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ تاریخی حوالوں کی روشنی میں کشمیر کے مکمل سچ کو سامنے رکھنے کی کوشش کی شکل میں جاری رکھوں گا۔ ساتھ ہی جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ صاحب سے درخواست بھی کروں گا کہ وہ ان تمام حقائق کی روشنی میں مرکزی حکومت سے گفت و شنید کریں، تاکہ جموںوکشمیر کے عوام کو پرامن، پرسکون اور خوشحال زندگی کا موقع مل سکے۔
آج اس موقع پر اس گفتگو کی ضرورت اس لےے پیش آئی کہ جس مسئلہ کو ہم نے اٹھایا ہے، اسے ساری دنیا تک پہنچانے کا ایک ہی طریقہ ہے ہماری مساجد۔ ہمارے ائمہ کرام اگر بعدنما زِجمعہ ان کی دعاؤں میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہوجائے تو بیشک یہ صدا بارگاہِ رب العزت تک بھی پہنچے گی و ایوانِ اقتدار تک بھی اور انشاء اللہ شرف قبولیت بھی حاصل کرے گی۔ اگر ہمارے ائمہ کرام بروز جمعہ نمازجمعہ سے قبل اپنے خطبہ میں دیگر ان تمام مسائل کے ساتھ جو ہماری قوم و ملک کو درپیش ہیں، مسئلہ کشمیر کو بھی شامل کرلیں اور اس اتحاد کے پیغام کو ہر نمازی کے دل و دماغ تک پہنچا دیں، جس کا حکم پروردگارِعالم نے قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں دیا ہے تو اس مسئلہ کے حل کی تلاش ضرور کسی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔
’واعتصموا بحبل اللّٰہِ جمیعا ولا تفرقوا۔‘
ترجمہ:اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور ٹکڑوں میں نہ بٹو۔ (سورہ آل عمران، آیتـ02)
بیشک ہم اس آیت کریمہ کی تلاوت کرتے ہیں، اس کے معنی اور مفہوم کو بھی سمجھتے ہیں، لیکن کاش اس آیت کے معنی کو ہم نے اس طرح سمجھ لیا ہوتا کہ یہ پیغام ہمارے دلوں میں اترجانا ہماری زندگی کا ایک حصہ بن جاتا۔ ہمارے عمل میں نظر آتا تو یہ ملکوں کی سرحدیں ہمارے دلوں میں فاصلہ پیدا نہیں کرسکتی تھیں۔ یہ فرقہ واریت، یہ زبانوں کی تفریق ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرپاتی۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح آبادی کے لحاظ سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت ہونے کے باوجود ہم پریشان حال ہیں۔ ہم نہ صرف ٹکڑوں میں بٹے ہیں، بلکہ ہمارے جو ملک آزاد اور خودمختار نظر آتے ہیں، جنہیں پروردگارِ عالم نے بھرپور مال و دولت سے نوازا ہے اور جو ہمارے اپنوں کی حکمرانی میں ہیں، درحقیقت انہیں بھی مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔ کوئی طاقت ہے، جو درپردہ انہیں اپنی غلامی میں رکھتی ہے۔ بیشک پروردگارِعالم نے انہیں اپنی عنایتوں کی دولت سے مالا مال کیا ہے، مگر اللہ کی بخشی ہوئی اس دولت پر ان سے زیادہ غیروں کا قبضہ ہے۔ 1990میں بغداد میں خلیجی جنگ کے موقع پر اسلامی ممالک کے نمائندگان کی موجودگی میں تقریر کے دوران صدام حسین نے اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم عرب متحد ہوجائیں، پروردگارِعالم کی بخشی ہوئی اس دولت کو جو پیٹرول کی شکل میں ہمیں حاصل ہے، اپنی عیاشی پر خرچ نہ کریں، عورتوں کی منڈیاں لگانی بند کردیں، اس کا استعمال اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لےے کریں اور جس طرح کسان کو اپنے غلہ کی قیمت طے کرنے کا حق ہوتا ہے، اسی طرح ہم عرب ممالک کے حکمرانوں کو بھی اپنی زمین سے نکلنے والے پیٹرول کی قیمت طے کرنے کا حق حاصل ہو۔ ہم اپنے پیٹرول کو پونڈ میں بیچےں گے، ڈالر میں، ریال میں یا دینار میں، یہ فیصلہ کرنے کا حق ہمیں حاصل ہو۔ ہم اس معاملہ میں امریکی فیصلہ کے محتاج کیوں ہوں؟ وہ کیوں ہمارے پیٹرول کی قیمتیں طے کرے؟ صدام حسین کی زبان سے نکلنے والا یہ پیغام اتحاد جب دنیا کی اس سب سے بڑی طاقت سمجھے جانے والے ملک امریکہ کے سربراہ تک پہنچا تو اس نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار کی حکمت عملی ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے اور ہمیں ان پر حکمرانی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اگر یہ متحد ہوگئے، اپنے فیصلے خود کرنے لگے تو ہماری برتری قائم نہیں رہ سکے گی۔ نتیجہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ عراق تباہ ہوا، افغانستان تباہ ہوا، صدام حسین سے ان کی زندگی چھین لی گئی، اس سیال دولت پر امریکہ کا قبضہ ہوگیا۔
15اگست947سے پہلے 190برس تک ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی میں رہا۔ 100برس تک ہم ہندوستانی خواہ ہندو ہوں یا مسلمان، نہ صرف ان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہے، بلکہ ہم اتنی ہمت بھی نہ کرسکے کہ اپنی آزادی کے لےے آواز بلند کرسکیں۔00برس لگے، ہمیں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو یکجا کرنے میں، اپنے اندر اتنا حوصلہ پیدا کرنے میں کہ جو ہم پر مسلط ہیں، ان کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکیں۔ مذہب کے نام پر پیدا کردی گئی جن منافرتوں نے ہمارے دلوں میں فاصلہ پیدا کردیا تھا، اسے بھول کر اپنی آزادی کی خاطر متحد ہوجائیں، لہٰذا 1857میں ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ طاقت نے پہلی بار ان غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالنے کے عزم کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، پھر0برس تک ہم کاندھے سے کاندھا ملا کر یہ جنگ لڑتے رہے۔ نتیجتاً 1947میں ہمیں آزادی نصیب ہوئی، مگر وہ انگریز جس نے ریاستوں میں بٹی مملکت ہند کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا اور جو ہماری نفسیات کو بخوبی سمجھتا تھا، جاتے جاتے ہمارے درمیان انتشار کے بیج بو گیا۔ ہندوستان، پاکستان دو الگ ملک کی شکل میں سامنے آئے اور ہمیں ملا کشمیر ایک مشترکہ مسئلہ کی شکل میں۔
چند جملوں میں تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ہمیں اتحاد کے پیغام کو بھی سمجھنا ہے اور انتشار کی وجوہات پر بھی غور کرنا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج سرزمین ہند پر ہم جتنے بھی مسائل سے دوچار ہیں، وہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں اس کشمیر کے مسئلہ سے وابستہ ہیں۔ مذہبی منافرت، پاکستان کے ساتھ خراب رشتے، کشمیر میں مسلسل خونریزی اور ہندوستان میں دہشت گردانہ واقعات۔ اگر ہم ان سب کا مشاہدہ کریں تو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ذہنیت تنہا ایک شخص کی ذہنیت نہیں تھی، جس نے آزادی سے قبل کشمیری عوام کو ہزاروں زخم دئے اور آزادی کے بعد ایک ایسا ناسور، جو اب ہر طرح سے جان لیوا ثابت ہورہا ہے۔ 1931میں ریاست جموںوکشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ نے وہی کیا، جس مقصد کے پیش نظر 1901میں ہندومہاسبھا کا جنم ہوا تھا۔ اس کے بعد948میں کشمیر کے مسئلہ کو لے کر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ سے جو دو ہمسایہ ملکوں میں نفرت کا ماحول پیدا ہوا، وہ آج تک بھی جاری ہے۔ کاش شیخ محمد عبداللہ نے ہری سنگھ کی ذہنیت کو اسی وقت سمجھ لیا ہوتا، کشمیری عوام کے دل کی آواز کو سن لیا ہوتا تو دنیا کی جنت کشمیر آج جہنم کے شعلوں میں نہ جل رہا ہوتا۔ اس وقت بہت آسان تھایہ…،
مگر آج بارگاہِ الٰہی میں یہ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ سن لے ان کی صدا، جو برسوں سے تیری رحمت کے طلبگار ہیں۔
ایک مختصر سے خطبہ میں کشمیر کے تمام حالات کو سمو دینا آسان نہیں ہے، مگر مسجد کی میناروں سے یہ پیغام پوری دنیا تک پہنچنا شروع ہوجائے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان مظلومین کے حالات کی طرف متوجہ ہوں، جو آج دہشت گردی کا شکار ہیں، جنہیں انصاف نہیں مل رہا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ جب حالات بدلتے نظر آئیں۔ یہ تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے کہ کاغذ پر ہی نہیں دلوں پر لکھی عبارت کو پڑھا نہ جاسکے۔ وہ لوگ آج بھی موجود ہیں، جو ان سچائیوں کو سامنے رکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنی حکومت اور اپنے ملک کے عوام سے یہ مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ خدارا انسانیت کے ناطے اب اس مسئلہ کے حل کی جانب ایک سنجیدہ پیش رفت کریں۔
کشمیر کے حوالہ سے تحقیقی مضامین کا سلسلہ انشاء اللہ جاری رہے گا، آج کی یہ مختصر تحریر اپنے تمام ائمہ کرام کی خدمت میں ایک مؤدبانہ درخواست کی طرح ہے کہ اگر وہ اپنی صفوں سے اتحاد کے پیغام کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی جانب قوم کی توجہ مبذول کرادیں، اپنی دعاؤں میں ان مظلومین کو بھی شامل کرلیں، جو گزشتہ1برس سے دکھ، تکلیف اور پریشانیوں کے شکار ہیں۔ ان پر مظالم ڈھانے والے کوئی بھی ہوں، مگر ہماری دعا تو مظلومین کے حق میں ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مسئلہ جو گزشتہ1برس سے اپنی جگہ قائم ہے اور ہم نے کبھی اس کی طرف سنجیدگی سے غور کیا ہی نہیں۔ خدا جانے کن وجوہات کی بنا پر یا کس خوف و دہشت کے پیش نظر ہمیں ان کو نظرانداز کردیتے رہے۔ شاید اب ہماری توجہ ان کے لےے کچھ بہتری کا سامان مہیا کردے۔ کل سے پھر میں اپنی تحریر کو حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ تاریخی حوالوں کی روشنی میں کشمیر کے مکمل سچ کو سامنے رکھنے کی کوشش کی شکل میں جاری رکھوں گا۔ ساتھ ہی جموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ صاحب سے درخواست بھی کروں گا کہ وہ ان تمام حقائق کی روشنی میں مرکزی حکومت سے گفت و شنید کریں، تاکہ جموںوکشمیر کے عوام کو پرامن، پرسکون اور خوشحال زندگی کا موقع مل سکے۔
No comments:
Post a Comment