Thursday, June 3, 2010

روزنامہ راشٹریہ سہارا اب ایک نئی منزل کی طرف…۔

عزیز برنی

M2جون یعنی ہم سب کے اپنے اخبار روزنامہ راشٹریہ سہارا کی سالگرہ کا دن۔ دیکھتے ہی دیکھتے کب 11سال گزر گئے، پتہ ہی نہیں چلا۔ ویسے تو اردو سہارا کی اشاعت کو تقریباً 20برس مکمل ہونے کو ہیں، مگر روزنامہ راشٹریہ سہارا کی شروعاتجون999کو ہوئی تھی، جو ہماری ڈپٹی منیجنگ ورکر محترمہ سوپنا رائے یعنی بڑی بھابھی جی کا جنم دن بھی ہے۔ آج صبح سے ہی مبارکباد کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ ابھی تک جاری ہے۔مبارکباد کی اس کڑی میں محترم نصرت ظہیر جیسے ادیب اور صحافی کا یہ شکوہ بھی کہ ادھر کافی روز سے میں لکھ کیوں نہیں رہا ہوں۔ بات بڑی واجب تھی، مگر اس درمیان اترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار، جھارکھنڈ اور کرناٹک کے خصوصی اجلاس سے لے کر جلسۂ عام تک درجنوں مقامات پر پہنچ کر انہیں موضوعات پر بولنے کا سلسلہ جاری رہا، جن پر لکھتا رہا ہوں۔ واقعی اب یہ بڑا دشوار نظر آتا ہے کہ اپنے قارئین اور سامعین کے درمیان توازن کس طرح قائم کیا جائے۔ روز لکھنا بھی ضروری لگتا ہے اور بولنا بھی۔ اب دیکھنا ہے کہ کس طرح یہ ممکن ہو، بہرحال میں ذکر کررہا تھا روزنامہ راشٹریہ سہارا کے 11برس مکمل ہونے پر مبارکباد کے سلسلہ کا۔ وہ تمام مضامین بھی میں نے حرف بہ حرف پڑھے ہیں، جو آج کے اخبار میں شامل اشاعت کےے گئے ہیں اور وہ بھی جو ابھی شائع نہیں ہوئے۔ ہر تحریر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ساتھ ساتھ راقم الحروف کو بھی مبارکباد کا مستحق قرار دے رہی تھی۔ اس وقت رہ رہ کر مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ مجھ سے کہیں زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں وہ تمام لوگ، جن کے تعاون کے بغیر یہ کامیابی ممکن ہی نہیں تھی اور نہ ہے۔ بالخصوص ہمارے سربراہ عالیجناب سبرت رائے سہارا ’’سہاراشری جی‘، جن کی اہمیت کا اعتراف کر کے ہمارے مضمون نگاروں نے حقیقت پسندی سے کام لیا ہے۔ ان کے علاوہ سہارا انڈیا پریوار کے تمام سینئر کارکنان، سہارا انڈیا میڈیا کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے میرے سینئر اور میرے ساتھ دیگر ذمہ داریاں سنبھالنے والے میرے ساتھی مثلاً پروڈکشن ڈپارٹمنٹ، سرکولیشن ڈپارٹمنٹ، اکائونٹس ڈپارٹمنٹ، مارکیٹنگ، ایڈمنسٹریشن، ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے وہ تمام لوگ جو پردے کے پیچھے رہ کر بھی ہر قدم پر بیحد معاون ثابت ہوتے رہے ہیں۔ فرداً فرداً سبھی کانام لکھنا ممکن نہیں۔ ہاں مگر اردو ڈپارٹمنٹ کے پرانے ساتھی جناب ماجد رمن، جناب اسدرضا، جناب قیس رامپوری، جناب نفیس عابدی، جناب مشیر قریشی، جناب سراج نقوی، بالخصوص نوشاد احمد وغیرہ کی کارکردگی کو فراموش کرنا تو دور کی بات ہے، یہ سب کے سب اس کامیابی کے لےے برابر کے حقدار ہیں۔ اُمنگ سے وابستہ جناب وسیم خان اور محترمہ آسیہ خان، دستاویز کے نگراں جناب شاہنواز صدیقی، روزنامہ کے مختلف صفحات سے وابستہ جناب منور حسن کمال، جناب قاسم سید، جناب صبیح احمد اور تمام کمپیوٹرآپریٹر صاحبان، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میرے وہ پرانے ساتھی بھی اس مبارکباد کے مستحق ہیں، جو روزنامہ کی شروعات کے وقت تو ساتھ ساتھ تھے، مگر آج نہیں ہیں۔ جناب ظفر حسن، جناب عبدالودود ساجد، جناب افضل مصباحی، جناب اسفر فریدی، جناب خالد انور، جناب عامر سلیم اور جناب محمدمستقیم خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کی اس کامیابی میں میرے کردار کا ذکر کرتے ہوئے میرے خیرخواہوں نے بہت کچھ لکھا، مگر شاید یہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ صحافتی، ادارتی و انتظامی قابلیت کسی اخبار کو چلانے کے لےے تو بہت کارگر ثابت ہوسکتی ہے، مگر اسے مخالفین کی نظربد سے بچائے رکھنے کے لےے کچھ دیگر سمجھ بوجھ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ میں نے اپنے مذکورہ بالا ساتھیوں کو کھودیا، جس کا مجھے آج تک احساس ہے۔ کچھ میری کمی رہی، ورنہ آج بھی سب ساتھ ساتھ ہوتے، بہرحال بعد میں شامل ہوئے ساتھیوں سے بھی بڑی امیدیں ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ جلد ہی ایسا وقت آئے گا کہ جب آج کی یہ کامیابی گزرے زمانے کی بات بن جائے گی۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کو ابھی اور نئی منزلیں سر کرنی ہیں، اس لےے کہ حصول انصاف کی جنگ تو اب شروع کرنا ہے۔ ابھی تک تو بس ان حقائق کو منظرعام پر لانے کی جدوجہد جاری تھی، جنہیں سازشاً، ارادتاً، وقت کی دھول کی کئی کئی پرتوں کے نیچے دبا کر چھپا دیا گیا تھا۔ اگر تاریخ کے اوراق سے اس گرد کو جھاڑپونچھ کر حقائق کو منظرعام پر نہ رکھا ہوتا تو ہندوستان کے عوام یہی مانتے رہتے کہ ملک دو قومی نظریوں کے تحت تقسیم ہوا تھا اور مسلمان اس بٹوارے کے لےے ذمہ دار ہیں۔ خدا معلوم کبھی یہ سامنے آتا بھی یا نہیں کہ وہ تو تنگ نظر، فرقہ پرست سیاست تھی، جس نے آزادی ملنے کے فوراً بعد ہی ملک کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس تقسیم کی بنیادی وجہ تھی مسلمانوں کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دینا، تاکہ وہ سیاسی اعتبار سے اس قدر کمزور اور بے حیثیت ہوجائیں کہ کبھی اپنی دعویداری کی بات ہی نہ کرسکیں۔ محمد علی جناح کو تو زمین کا ایک ٹکڑا دے کر وزارت اعظمی کی دوڑ سے باہر رکھنے کی راہ نکال لی گئی تھی۔ اگر روزنامہ راشٹریہ سہارا ایسے تمام حقائق کو منظرعام پر لانے کی جدوجہد جاری نہ رکھتا تو شاید بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ لال کرشن اڈوانی بھی پاکستان جاکر محمد علی جناح کو سیکولر قرار نہیں دیتے اور نہ ہی جسونت سنگھ کی کتاب ’’جناح، انڈیاـپارٹیشنـانڈیپنڈنٹس‘‘ ان تمام حقائق کے ساتھ منظرعام پر آتی، جنہیں گزشتہ 20برسوں میں ہم لگاتار سامنے رکھتے رہے ہیں۔ دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی کے ان لیڈران کا یہ اعتراف تو ہمارے نظریات کی تصدیق تھی۔
دامن سے تقسیم وطن کا داغ دھلا تو دہشت گردی کا کلنک پیشانی پر چسپاں کردیا گیا۔ لہٰذا پھر ایک لمبی جدوجہد درکار تھی یہ ثابت کرنے کے لےے کہ یہ بھی ایک سوچی سمجھی چال ہے اور اس سب کے پیچھے بھی ویسے ہی سازشی ذہن کارفرما ہیں، جو صرف اسلام اور مسلمانوں کے ہی نہیں، ہندوستان کے دشمن ہیں، ہندوستان کی سالمیت کے دشمن ہیں، ہندوـمسلم اتحاد کے دشمن ہیں۔ مجھے اپنی آج کی اس تحریر میں بم دھماکوں، انکاؤنٹرس بشمول بٹلہ ہاؤس پر کچھ نہیں لکھنا، اس لےے کہ 26/11کو ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے بعد ہندوستان کے عوام نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ان سیاسی چالوں کو سمجھنے لگے ہیں، لہٰذا اب بم دھماکوں کو مذہب کے چشمہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ الگ بات ہے کہ انتظامیہ اور پولس آج بھی پرانی روش پر ہی گامزن ہے، لیکن امید ہی نہیں یقین ہے کہ جس طرح عوام نے ان حقائق کو سمجھ لیا ہے، جلد ہی پولس اور انتظامیہ بھی اس سچائی کو تسلیم کرلے گی۔ ہوںگی ان کو درپیش کچھ مجبوریاں، ورنہ ایسا تو نہیں ہے کہ انہیں اپنے ملک سے پیار نہ ہو، اپنی ذمہ داری کا احساس نہ ہو۔ گزشتہ تقریباً ایک ماہ کے عرصہ میں جب سے یہ لکھنے کا سلسلہ منقطع ہوا اعظم گڑھ کے نزدیک کوپا گنج، مئو سے لے کر کرناٹک کی دینی درس گاہ بھٹکل تک درجنوں مقامات پر پہنچ کر ان حقائق کو منظرعام پر رکھنا پڑا۔ وجہ ٹوٹتے ہوئے حوصلہ کو بچائے رکھنا تھا، ورنہ مجبوری نہ ہو تو کون جسم ہی نہیں، روح تک کو جھلسا دینے والی اس گرمی میں اپنی دہلیز سے قدم باہر رکھتا ہے۔ بیشک آج آپ کے اس محبوب اخبار نے اردومعاشرے میں وہ مقام حاصل کرلیا ہے کہ بقول ہمارے قارئین روزنامہ سہارا کے بغیر صبح کا تصور بے معنی ہوگیا ہے، تاہم اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وقت کی ان بے رحم ستم ظریفیوں نے ہم ہندوستانیوں سے ہماری اس محبوب زبان کو چھین لینے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے، لہٰذا ہماری یہ مجبوری بن گئی ہے کہ ان کے درمیان جاکر بھی سہارا کے اس پیغام کو عام کیا جائے، جو اس اخبار کے بارے میں جانتے تو ہیں، مگر سب کے سب پڑھ نہیں پاتے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں دوردراز کے ایسے علاقوں میں جلسۂ عام کو خطاب کرنے پہنچا، جہاں اخبار پہنچنے کی تعداد تو چندسو بھی نہیں تھی، مگر سامعین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی۔لہٰذا اس سلسلہ کو تو ابھی جاری رکھنا ہی ہوگا، لیکن اب روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ذریعہ جو نئی منزل ہم سر کرنا چاہتے ہیں، وہ ہے حصول انصاف کی جنگ۔ کسی بے گناہ کو دہشت گردی کے الزام میں برسوں کی ذہنی، جسمانی اذیت دینے اور معاشرے میں ذلت برداشت کرنے کے بعد جیل سے بری کردیا جانا کیا مکمل انصاف ہے۔ ہم نے کیوں اسی کو انصاف مان لیا ہے کہ بالآخر سچ سامنے آہی گیا اور جو بے قصور تھا وہ بے قصور ثابت ہوکر بری ہوگیا تو کیا یہ کافی ہے۔ کیوں کرتے ہیں لوگ اپنی عزت پر کیچڑ اچھالنے والوں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ۔ کسی نے غصہ میں کوئی گالی دے دی، کوئی بری بات کہہ دی، عزت پر بٹہ لگ گیا۔ ہتک عزت کا مقدمہ دائر ہوا، عدالت میں سنوائی ہوئی، ثابت ہوگیا کہ فلاں شخص نے ان کی توہین کی تھی، عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا تھا، لہٰذا اس کی حیثیت کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔

کیا کوئی عزت نہیں ہے ان کی، جنہیں سرراہ اٹھالیا جاتا ہے، چلتی ریل گاڑیوں سے اتار کرلے جایا جاتا ہے، حتیٰ کہ عزت کی سواری تصور کےے جانے والے ہوائی جہاز سے بھی اتار کر دہشت گردی کے الزام میں پولس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ہزار سوال، قدم قدم پر تلاشی، ہتک آمیز الزامات، ذلت آمیز سوالات اور پھر جیل کی سلاخیں، آخر کیوں…؟ میرے سامنے کئی ایسے واقعات ہیں، جب ہماری اپنی کاوشوں سے یا یوں کہئے کہ ہماری انصاف کی تلاش میں جدوجہد کے نتیجہ میں تہاڑ جیل سے کچھ بے گناہ قیدیوں کو رہائی ملی۔ آج بھی میرے پاس فہیم انصاری کی بیگم کے ذریعہ بھیجا گیا وہ خط محفوظ ہے، جو ان کے شوہر نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے لکھ کر بھیجا ہے۔ واضح ہو کہ فہیم انصاری اور صباح الدین کو 26/11کے دہشت گردانہ حملہ کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا تھااور اب عدالت نے ان پر عائد اس الزام کو خارج کردیا ہے۔ یہی مکہ مسجد بم بلاسٹ کے الزام میں گرفتار کےے گئے ملزمین کے ساتھ ہوا۔ میں ایسے واقعات کو یکجاکرکے انصاف کی اس جنگ کو آگے لے جانا چاہتا ہوں۔ اگر یہ سب بے گناہ تھے، ان پر لگائے گئے الزامات جھوٹے اور بے بنیاد تھے، جیسا کہ اب عدالت نے تسلیم کرلیا ہے تو پھر انہیں کس جرم کی سزا ملی؟ کیوں یہ ذہنی اور جسمانی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہوئے؟ کیوں ان خاندانوں کو اپنے دامن پر دہشت گردی کا الزام برداشت کرنا پڑا؟ کیا وہ سب کے سب مجرم نہیں ہےں، جنہوں نے انہیں جھوٹے الزامات میں پھنسا کر دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی، یعنی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کی سازش رچی۔ انہیں ان کے خاندان، حتیٰ کہ ان کے مذہب کو داغدار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے خیال میں وہ سب کے سب سخت سے سخت سزاؤں کے مستحق ہیں، چاہے وہ پولس والے ہوں، جھوٹی گواہی دینے والے یا جھوٹے ثبوت فراہم کرنے والے۔ جب تک ان سب کو عبرتناک سزائیں نہیں ملیں گی، جھوٹے الزامات لگاکر دہشت گرد بتائے جانے کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ اچھی طرح میرے علم میں یہ بات ہے کہ جس طرح کسی جوان لڑکی کے اچانک گھر سے غائب ہوجانے کے بعد کئی روز تک اس گھرخاندان کے افراد اس شرم میں کسی کو کچھ بتانے کی ہمت نہیں کرتے کہ انہیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہی کیوں نہ پیش آیا ہو۔ کچھ اسی طرح دہشت گردی کے الزام میں اٹھائے جانے پر باوجود بے گناہ ہونے کے گھروالے کئی کئی روز تک خاموش رہتے ہیں، یہ جاننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ آخر ہوا کیا ہے۔ پولس کی منتیں کرتے ہیں، معاملہ کو رفع دفع کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

کیا اس سلسلہ کو بند کرنے کے لےے کوئی جدوجہد نہیں کرنی چاہےے؟ کیا ایسے تمام لوگوں کو ان کے حال پر تنہا چھوڑ دیا جانا چاہےے؟ سوال ہندو یا مسلمان کا نہیں، سوال مذہب کا نہیں، یہ انصاف کے بھی حق میں ہے اور اپنے ملک کے تحفظ کے لےے بھی ضروری کہ ہم بے گناہوں کو بچانے اور گنہگاروں کو ان کے کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم کرلیں۔اب اگر دیگر ہم وطنوں کے مقابلے اس کی زیادہ ضرورت ہمیں ہے تو اسے اپنی مجبوری مانیں یا ذمہ داری قبول تو کرنا ہی ہوگا، ورنہ پیچھے ہٹنے کی صورت میں تقسیم وطن کے داغ سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال ہماری منتظر ہے

No comments: