شاہ رُخ خان کی فلم ’’مائی نیم ازخان‘‘ ابھی تک نہیں دیکھی ہے میں نے۔ بڑی خواہش ہے اس فلم کو دیکھنے کی، مگر ایک ساتھ چارپانچ گھنٹے کا وقت نکالنا مشکل ہورہا ہے۔ فلم کی ریلیز سے قبل شاہ رُخ خان نے ممبئی میں اپنی رہائش گاہ ’’منت‘‘ پر کچھ مخصوص لوگوں کو دعوت دی تھی۔ اس موقع پر بھی میں نہیں جاسکا تھا اور روزنامہ راشٹریہ سہارا کی نمائندگی کی تھی میرے ساتھی شکیل حسن شمسی صاحب نے۔ میرے بہت سے قارئین نے فون پر اور ایس ایم ایس کے ذریعہ مجھے بتایا کہ فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ کا موضوع وہی ہے، جو اکثروبیشتر میرے مضامین کا ہوتا ہے اور انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بہت بااثر انداز میں شاہ رُخ خان نے اس پیغام کو بین الاقوامی سطح تک پہنچایاہے۔ مجھے یہ فلم ضرور دیکھنی چاہےے۔ ایک بار سی ڈی منگائی، تاکہ گھر ہی پر اس فلم کو دیکھا جائے، مگر وہ سی ڈی پائریٹڈ تھی اس لےے نہیں دیکھ سکا، ہاں مگر دیکھنا ضرور ہے۔
لیکن ’’فلم نیویارک‘‘ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ تمام تر مصروفیات کے باوجود پہلی فرصت میں ہی میں نے یہ فلم نوئیڈا کے ایک سنیماہال میں اپنی اہلیہ کے ساتھ جاکر دیکھی، کیونکہ وجہ میرے جذبات اور احساسات سے جڑی تھی اور یہی احساس مجھے اپنی قوم کے جذبات کو سمجھنے کا سلیقہ بھی دیتا ہے۔ جب فلم ’’نیویارک‘‘ ریلیز ہوئی، میرا بیٹا لندن میں تھا۔ ہم لوگ اس کے لےے بڑے فکرمند رہتے تھے، ہم یہاں وہ وہاں اور تنہا، نہ ملک اپنا، نہ لوگ اپنے، نہ جانے کب کوئی ناگہانی مصیبت کھڑی ہوجائے، میں جو لکھتا رہا ہوںاس سے ناخوش رہنے والوں کی بھی تو ایک بڑی تعداد ہے۔ جب سنا کہ فلم ’’نیویارک‘‘ ایک ایسی کہانی پر بنی فلم ہے، جس میں ایک مسلم نوجوان کو پھنسا کر دہشت گرد ثابت کردیا جاتا ہے۔ یقین جانئے میں اور میری بیگم جب یہ فلم دیکھ رہے تھے تو اپنے بیٹے کی خیریت کو لے کر بڑے فکرمند تھے۔ میں محسوس کررہا تھا کہ ریشماں بڑی بے چین ہے۔ سنیماہال سے نکلنے کے بعد اس کا پہلا جملہ یہی تھا ’’علی کو واپس بلا لیجئے، جو کچھ پڑھنا اور سیکھنا ہے وہ سب اپنے ملک میں رہ کر بھی ہوجائے گا۔ ہم باہری لوگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔‘‘ میں اس کے جذبات کو سمجھتا تھا، مگر بیٹے کی حوصلہ شکنی بھی نہیں چاہتا تھا۔ نہ تو یہ سب بتاکر اسے خوفزدہ کرسکتا تھا اور نہ میں اسے اس کے تعلیمی مشن سے ہٹانا چاہتا تھا، لہٰذا اپنی اور بیگم کی تسلی کے لےے میں دوروز کے لےے لندن چلاگیا، تاکہ اس کے ساتھ رہ کر اسے تمام نشیب و فراز سے آگاہ کرسکوں۔ وہ جن حالات میں رہ رہا ہے، اس کا جائزہ لے سکوں اور خدانخواستہ کوئی پریشانی سامنے آجائے تو ایسی صورت میں کیا کرنا ہے، اسے سمجھاسکوں۔ اس کے چند روز بعد ہی مجھے صدرجمہوریہ ہند کے لندن دورہ پر ان کے میڈیا ڈیلی گیشن میں جانے کا موقع ملا، پھر تین روز اس کے ساتھ رہ کر اس کے حالات کو سمجھنے اور اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ اس پر بھی جب ماں کا دل نہ مانا تو تقریباً ایک ماہ بعد تیسری بار میں اپنی بیگم کے ہمراہ لندن جاپہنچا۔ حیرانی کی بات یہ رہی کہ تین مہینے میں یہ میرا تیسرا لندن دورہ تھا، مگر پہلے دو دوروں کے دوران کسٹم کلیرنس کے وقت کوئی جانچ پڑتال نہیں، کوئی پوچھ گچھ نہیں، مگر تیسری بار اس قدر کہ بیگم کو قدموں تلے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی، پھر جب میں نے لندن میں برطانیہ کے وزیراعظم مسٹر براؤن کے ہمراہ ڈنر کے لےے اپنے نام جاری دعوت نامہ اور اس موقع پر صدرجمہوریہ ہند کے میڈیا ڈیلی گیشن کا ممبر ہونے سے متعلق دستاویز دکھائے، تب جاکر ہم ائیرپورٹ سے باہر نکل سکے۔ ایک ہفتہ کے قیام کے بعد ہم اپنے بیٹے کو لے کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ تفصیل ذاتی نوعیت کی ہے لہٰذا اس سے زیادہ لکھنا مناسب نہیں، مگر اتنا بھی لکھنا ضروری اس لےے لگا کہ میں اپنے قارئین کو اس ذہنی کیفیت کا اندازہ کراسکوں، جو ایسے حالات میں ماں باپ پر گزرتی ہے۔ میں نے فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ نہیں دیکھی، اس لےے کہ میں اپنے بیٹے کو واپس ہندوستان لے کر آچکا تھا۔ میں نے فلم ’’نیویارک‘‘ دیکھی اور تمام تر مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر لندن پہنچ گیا، کیوں کہ اپنے بیٹے کی خیریت کے لےے فکرمند تھا۔
اب جن پر نہیں گزرتی، وہ شاید محسوس نہیں کرسکتے کہ دامن پر دہشت گردی کا داغ کس قدر خون کے آنسو رلاتا ہے۔ بہت آسان ہے کسی بھی عدالت کے لےے حقائق سامنے آجانے پر دہشت گردی کا داغ برداشت کررہے کسی بھی ملزم کو باعزت بری کردینا۔ ہم اس کے لےے تمام عدالتوں اور جج صاحبان کے شکرگزار ہیں، مگر بیحد ادب واحترام کے ساتھ ان سب کی خدمت میں یہ بھی عرض کردینا چاہتے ہیں کہ ان باعزت شہریوں کی دہشت گردی کا الزام لگنے کے بعد اور باعزت بری ہونے سے پہلے کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی، اس کا بھی اندازہ کیا جائے۔ معاشرے میں کس طرح کی پریشانیوں کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے، فیصلہ کرتے وقت اگر اس بات کا بھی احساس کیا جاسکے تو شاید ہم متاثرین کے ساتھ مکمل انصاف کرسکیں۔ آج صبح میں ممبئی کی اسپیشل کورٹ میں 26/11کے حوالہ سے چل رہے مقدمہ کے دئےے فیصلے میں جسٹس ایم ایل تہلیانی کے ذریعہ فہیم انصاری اور بہار کے صباح الدین احمد کو باعزت بری کردئےے جانے پر فہیم انصاری کی بیگم یاسمین انصاری کے تاثرات پڑھ رہا تھا۔ بے شک وہ اور ان کا خاندان بہت خوش ہوں گے کہ فہیم انصاری کو باعزت بری کردیا گیا،مگر جب انہیں خیال آئے گا، تقریباً ڈیڑھ برس تک کے ان دنوں کا، ان حالات کا جب فہیم انصاری پر دہشت گرد ہونے کے الزام نے ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین چھین لیا ہوگا۔ وہ کم کھاتے ہوں گے، وہ کم سوتے ہوںگے۔ ایک بار گھر سے باہر نکلنے کے لےے سو بار سوچتے ہوں گے کہ زمانے بھر کی نگاہوں کا سامنا کیسے کریں گے۔ ان ہتک آمیز اور سوالیہ نگاہوں سے خود کو کیسے بچائیں گے، جو گھر سے باہر نکلتے ہی ان کا تعاقب کرتی نظر آئیں گی اور دروازے پر کسی بھی اجنبی کے قدموں کی آہٹ انہیں خوفزدہ کردیتی ہوگی۔ کیا ہماری کوئی بھی عدالت انہیں ان کی اس شرمندگی اور پریشانی کا بدل کسی بھی صورت میں دے سکتی ہے؟ میں اس وقت جن موضوعات پر لکھ رہا ہوں، وہ سلسلہ مکمل ہونے کے بعد یا اس سلسلے کو دیر تک چلانا مجبوری بن گئی تو اس کے ساتھ ہی ساتھ جس نئے سوال کو اٹھانا چاہتا ہوں، وہ یہی ہے کہ پولس جھوٹے ثبوتوں اور بے بنیاد الزامات کی بنا پر معصوم نوجوانوں کو گرفتار کرے، ایک لمبی چارج شیٹ داخل کرے جس میں جھوٹے گواہ اور ثبوت ہوں، جس سے پہلی نظر میں ہی وہ مجرم نظر آتے ہوں۔ ان پر دہشت گرد ہونے کا سنگین الزام لگائے، تاکہ کوئی ان کی حمایت کرنے کی ہمت بھی نہ جٹا پائے۔ عزیز واقارب، دوست احباب بھی پیروی سے دور بھاگیں۔ پھر ان میں سے اگر چند خوش نصیب جنہیں عدالت کی خصوصی توجہ حاصل ہوجائے، باعزت بری ہوجائیں تو کیا اس معاملے کو یہیں ختم مان لینا چاہےے۔ ان کے باعزت بری ہونے کے جشن میں ان اذیت ناک لمحات کو بھول جانا چاہےے، جن سے گزرنا ہر روز کا معمول بن گیا تھا۔ سوال ایک اپنے بیٹے کا نہیں ہے، اسی لےے میں نے اپنے بیٹے کے پردیس میں رہنے کے دوران اپنے جذبات کو قلمبند کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ ہرماںـباپ کے جذبات کو اسی انداز میں محسوس کرسکوں اور منظرعام پر لاسکوں۔
میرا ماننا ہے کہ کسی بھی جرم میں، کسی بھی ملزم کے باعزت بری ہونے کے بعد اس معاملے کو وہیں ختم سمجھ لینا بھاری بھول ہوگی۔ اسی وقت ایک نیا مقدمہ شروع کےے جانے کی ضرورت ہے۔ سماجی کارکنوں اور تنظیموں کو اس سمت میں حوصلہ افزائی کے لےے آگے آنا چاہےے۔ متاثرین کو بے خوف اس کی جدوجہد کے لےے تیار رہنا چاہےے۔ انہیں عدالت سے درخواست کرنا چاہےے کہ تمام ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر فلاں شخص اگر باعزت بری کردیا گیا، کوئی جرم اس پر ثابت نہیں ہوا تو پھر وہ سب کے سب مجرم اور گناہگار کیوں نہیں ہیں، جنہوں نے اسے پھنسانے کے لےے جھوٹے ثبوت اور گواہ پیش کےے۔ اگر انہیں کوئی سزا نہ ملی تو یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ ہزاروں فہیم انصاریوں اور صباح الدین احمدوں میں سے کوئی ایک دو بری ہوگئے، باقی سب کی سن گن نہ لی گئی تو یہ سلسلہ کیسے رکے گا؟ ہاں، اگر ہم تمام باعزت بری ہوجانے والے ملزموں کے کیس کو پھر سے عدالت میں لے جائیں، عدالت سے درخواست کریں کہ ان کے کیس کی فائلیں دوباری کھولی جائیں، تلاش کیا جائے کہ وہ جھوٹے گواہ کون تھے، وہ جھوٹے ثبوت کس نے مہیا کرائے، پولس کا الزام کیا تھا، کیس ڈائری کیا تھی، تیار کرنے والے کون تھے،عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ کیا تھی، کون کون اس میں شامل رہے؟ ان سب کو عدالت کٹگھرے میں لایا جائے، انہیں ایسی عبرتناک سزائیں دی جائیں کہ پھر کوئی کسی بے گناہ کو جھوٹے ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر مجرم ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمیں یہ بھی معاشرے اور عدالتوں کے ذہن نشیں کرانا ہوگا اور جج صاحبان کے سامنے بہت باعزت طریقے سے ان حالات اور واقعات کو پیش کرنا ہوگا کہ کسی ایک شخص پر دہشت گردی کاالزام اس کے خاندان کے افراد، اس کے متعلقین اور حتیٰ کہ اس کے پڑوسیوں اور شہر میں رہنے والوں تک کو کس قدر اذیت ناک لمحات سے گزرنے کے لےے مجبور کردیتا ہے۔اسے سمجھنا ہوگا اور انصاف کرتے وقت ان باتوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
آخر کسی بھی شخص کو سزا دینے کے بعد ہم جیل کے اندر کیوں ڈالتے ہیں، صرف اسی لےے نہ کہ ہم اسے معاشرے سے الگ کردیتے ہیں۔ سماج کی نظروں میں اس کے ایک مجرم ہونے کا احساس پیدا کردیتے ہیں، بہرحال ہم اسے زندہ تو رکھتے ہیں، اس کے کھانے پینے کا خیال بھی رکھتے ہیں، جیل کی کوٹھری ہی سہی سر چھپانے کی جگہ بھی دیتے ہیں، برائے نام ہی سہی وقتاً فوقتاً طبی جانچ بھی کراتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر اس کا علاج بھی کراتے ہیں۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے نہ کہ ہم اسے ایک چہاردیواری کے اندر قید رکھتے ہیں اور وہ اپنی زندگی اس مدت تک جب تک کہ بری نہ کیا جائے، احساس جرم کے ساتھ گزارتا ہے۔ انتہائی ایمانداری اور غیرجانبداری کے ساتھ اگر ہم سوچیں تو پائیں گے کہ جس پل ہم کسی پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں تو یہ سزا اسی وقت سے اس کے خاندان کے افراد کو بھی دے دیتے ہیں۔ جیل سے بھی تنگ چہاردیواری کے اندر وہ خود کو قید کرلینے کے لےے مجبور ہوجاتے ہیں۔ معاشرے سے ان کا تعلق اسی طرح ٹوٹ جاتا ہے، جس طرح جیل میں کسی قیدی کا۔ ان سے ملاقاتیں بھی کچھ اسی انداز میں ہوتی ہیں، جیسے کوئی ملاقاتی جیل کے دروازے تک پہنچتا ہے اور کھاناـپیناـسونا شاید قیدیوں سے بھی بدتر۔ اگر یہ سزا کسی جرم کے عوض ہے تب تو شاید زیادہ بحث کی گنجائش نہ سمجھی جائے اور اگر یہ سزا کسی جرم کے بغیر ایک جھوٹے الزام کی بنیاد پر ہے تو پھر اس کا نظرانداز کردیا جانا بہت بڑی ناانصافی کو دعوت دینا ہے، کیوں کہ پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں، جب جسے چاہا دہشت گردی کے الزام میں اٹھا لیا۔ جھوٹے گواہ اور ثبوت پیش کےے، اگر ثابت ہوگئے تو وہ دہشت گردسزا کا مستحق، ثابت نہ ہوئے تو باعزت بری۔ بس وہ اتنے میں ہی خوش کہ بری تو ہوگئے۔ شاید کسی نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ کیا سزا ان کو ملنا ضروری نہیں ہے، جنہوں نے انہیں مجرم ٹھہرانے کی کوشش کی۔
لیکن ’’فلم نیویارک‘‘ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ تمام تر مصروفیات کے باوجود پہلی فرصت میں ہی میں نے یہ فلم نوئیڈا کے ایک سنیماہال میں اپنی اہلیہ کے ساتھ جاکر دیکھی، کیونکہ وجہ میرے جذبات اور احساسات سے جڑی تھی اور یہی احساس مجھے اپنی قوم کے جذبات کو سمجھنے کا سلیقہ بھی دیتا ہے۔ جب فلم ’’نیویارک‘‘ ریلیز ہوئی، میرا بیٹا لندن میں تھا۔ ہم لوگ اس کے لےے بڑے فکرمند رہتے تھے، ہم یہاں وہ وہاں اور تنہا، نہ ملک اپنا، نہ لوگ اپنے، نہ جانے کب کوئی ناگہانی مصیبت کھڑی ہوجائے، میں جو لکھتا رہا ہوںاس سے ناخوش رہنے والوں کی بھی تو ایک بڑی تعداد ہے۔ جب سنا کہ فلم ’’نیویارک‘‘ ایک ایسی کہانی پر بنی فلم ہے، جس میں ایک مسلم نوجوان کو پھنسا کر دہشت گرد ثابت کردیا جاتا ہے۔ یقین جانئے میں اور میری بیگم جب یہ فلم دیکھ رہے تھے تو اپنے بیٹے کی خیریت کو لے کر بڑے فکرمند تھے۔ میں محسوس کررہا تھا کہ ریشماں بڑی بے چین ہے۔ سنیماہال سے نکلنے کے بعد اس کا پہلا جملہ یہی تھا ’’علی کو واپس بلا لیجئے، جو کچھ پڑھنا اور سیکھنا ہے وہ سب اپنے ملک میں رہ کر بھی ہوجائے گا۔ ہم باہری لوگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔‘‘ میں اس کے جذبات کو سمجھتا تھا، مگر بیٹے کی حوصلہ شکنی بھی نہیں چاہتا تھا۔ نہ تو یہ سب بتاکر اسے خوفزدہ کرسکتا تھا اور نہ میں اسے اس کے تعلیمی مشن سے ہٹانا چاہتا تھا، لہٰذا اپنی اور بیگم کی تسلی کے لےے میں دوروز کے لےے لندن چلاگیا، تاکہ اس کے ساتھ رہ کر اسے تمام نشیب و فراز سے آگاہ کرسکوں۔ وہ جن حالات میں رہ رہا ہے، اس کا جائزہ لے سکوں اور خدانخواستہ کوئی پریشانی سامنے آجائے تو ایسی صورت میں کیا کرنا ہے، اسے سمجھاسکوں۔ اس کے چند روز بعد ہی مجھے صدرجمہوریہ ہند کے لندن دورہ پر ان کے میڈیا ڈیلی گیشن میں جانے کا موقع ملا، پھر تین روز اس کے ساتھ رہ کر اس کے حالات کو سمجھنے اور اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ اس پر بھی جب ماں کا دل نہ مانا تو تقریباً ایک ماہ بعد تیسری بار میں اپنی بیگم کے ہمراہ لندن جاپہنچا۔ حیرانی کی بات یہ رہی کہ تین مہینے میں یہ میرا تیسرا لندن دورہ تھا، مگر پہلے دو دوروں کے دوران کسٹم کلیرنس کے وقت کوئی جانچ پڑتال نہیں، کوئی پوچھ گچھ نہیں، مگر تیسری بار اس قدر کہ بیگم کو قدموں تلے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی، پھر جب میں نے لندن میں برطانیہ کے وزیراعظم مسٹر براؤن کے ہمراہ ڈنر کے لےے اپنے نام جاری دعوت نامہ اور اس موقع پر صدرجمہوریہ ہند کے میڈیا ڈیلی گیشن کا ممبر ہونے سے متعلق دستاویز دکھائے، تب جاکر ہم ائیرپورٹ سے باہر نکل سکے۔ ایک ہفتہ کے قیام کے بعد ہم اپنے بیٹے کو لے کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ تفصیل ذاتی نوعیت کی ہے لہٰذا اس سے زیادہ لکھنا مناسب نہیں، مگر اتنا بھی لکھنا ضروری اس لےے لگا کہ میں اپنے قارئین کو اس ذہنی کیفیت کا اندازہ کراسکوں، جو ایسے حالات میں ماں باپ پر گزرتی ہے۔ میں نے فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ نہیں دیکھی، اس لےے کہ میں اپنے بیٹے کو واپس ہندوستان لے کر آچکا تھا۔ میں نے فلم ’’نیویارک‘‘ دیکھی اور تمام تر مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر لندن پہنچ گیا، کیوں کہ اپنے بیٹے کی خیریت کے لےے فکرمند تھا۔
اب جن پر نہیں گزرتی، وہ شاید محسوس نہیں کرسکتے کہ دامن پر دہشت گردی کا داغ کس قدر خون کے آنسو رلاتا ہے۔ بہت آسان ہے کسی بھی عدالت کے لےے حقائق سامنے آجانے پر دہشت گردی کا داغ برداشت کررہے کسی بھی ملزم کو باعزت بری کردینا۔ ہم اس کے لےے تمام عدالتوں اور جج صاحبان کے شکرگزار ہیں، مگر بیحد ادب واحترام کے ساتھ ان سب کی خدمت میں یہ بھی عرض کردینا چاہتے ہیں کہ ان باعزت شہریوں کی دہشت گردی کا الزام لگنے کے بعد اور باعزت بری ہونے سے پہلے کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی، اس کا بھی اندازہ کیا جائے۔ معاشرے میں کس طرح کی پریشانیوں کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے، فیصلہ کرتے وقت اگر اس بات کا بھی احساس کیا جاسکے تو شاید ہم متاثرین کے ساتھ مکمل انصاف کرسکیں۔ آج صبح میں ممبئی کی اسپیشل کورٹ میں 26/11کے حوالہ سے چل رہے مقدمہ کے دئےے فیصلے میں جسٹس ایم ایل تہلیانی کے ذریعہ فہیم انصاری اور بہار کے صباح الدین احمد کو باعزت بری کردئےے جانے پر فہیم انصاری کی بیگم یاسمین انصاری کے تاثرات پڑھ رہا تھا۔ بے شک وہ اور ان کا خاندان بہت خوش ہوں گے کہ فہیم انصاری کو باعزت بری کردیا گیا،مگر جب انہیں خیال آئے گا، تقریباً ڈیڑھ برس تک کے ان دنوں کا، ان حالات کا جب فہیم انصاری پر دہشت گرد ہونے کے الزام نے ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین چھین لیا ہوگا۔ وہ کم کھاتے ہوں گے، وہ کم سوتے ہوںگے۔ ایک بار گھر سے باہر نکلنے کے لےے سو بار سوچتے ہوں گے کہ زمانے بھر کی نگاہوں کا سامنا کیسے کریں گے۔ ان ہتک آمیز اور سوالیہ نگاہوں سے خود کو کیسے بچائیں گے، جو گھر سے باہر نکلتے ہی ان کا تعاقب کرتی نظر آئیں گی اور دروازے پر کسی بھی اجنبی کے قدموں کی آہٹ انہیں خوفزدہ کردیتی ہوگی۔ کیا ہماری کوئی بھی عدالت انہیں ان کی اس شرمندگی اور پریشانی کا بدل کسی بھی صورت میں دے سکتی ہے؟ میں اس وقت جن موضوعات پر لکھ رہا ہوں، وہ سلسلہ مکمل ہونے کے بعد یا اس سلسلے کو دیر تک چلانا مجبوری بن گئی تو اس کے ساتھ ہی ساتھ جس نئے سوال کو اٹھانا چاہتا ہوں، وہ یہی ہے کہ پولس جھوٹے ثبوتوں اور بے بنیاد الزامات کی بنا پر معصوم نوجوانوں کو گرفتار کرے، ایک لمبی چارج شیٹ داخل کرے جس میں جھوٹے گواہ اور ثبوت ہوں، جس سے پہلی نظر میں ہی وہ مجرم نظر آتے ہوں۔ ان پر دہشت گرد ہونے کا سنگین الزام لگائے، تاکہ کوئی ان کی حمایت کرنے کی ہمت بھی نہ جٹا پائے۔ عزیز واقارب، دوست احباب بھی پیروی سے دور بھاگیں۔ پھر ان میں سے اگر چند خوش نصیب جنہیں عدالت کی خصوصی توجہ حاصل ہوجائے، باعزت بری ہوجائیں تو کیا اس معاملے کو یہیں ختم مان لینا چاہےے۔ ان کے باعزت بری ہونے کے جشن میں ان اذیت ناک لمحات کو بھول جانا چاہےے، جن سے گزرنا ہر روز کا معمول بن گیا تھا۔ سوال ایک اپنے بیٹے کا نہیں ہے، اسی لےے میں نے اپنے بیٹے کے پردیس میں رہنے کے دوران اپنے جذبات کو قلمبند کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ ہرماںـباپ کے جذبات کو اسی انداز میں محسوس کرسکوں اور منظرعام پر لاسکوں۔
میرا ماننا ہے کہ کسی بھی جرم میں، کسی بھی ملزم کے باعزت بری ہونے کے بعد اس معاملے کو وہیں ختم سمجھ لینا بھاری بھول ہوگی۔ اسی وقت ایک نیا مقدمہ شروع کےے جانے کی ضرورت ہے۔ سماجی کارکنوں اور تنظیموں کو اس سمت میں حوصلہ افزائی کے لےے آگے آنا چاہےے۔ متاثرین کو بے خوف اس کی جدوجہد کے لےے تیار رہنا چاہےے۔ انہیں عدالت سے درخواست کرنا چاہےے کہ تمام ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر فلاں شخص اگر باعزت بری کردیا گیا، کوئی جرم اس پر ثابت نہیں ہوا تو پھر وہ سب کے سب مجرم اور گناہگار کیوں نہیں ہیں، جنہوں نے اسے پھنسانے کے لےے جھوٹے ثبوت اور گواہ پیش کےے۔ اگر انہیں کوئی سزا نہ ملی تو یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ ہزاروں فہیم انصاریوں اور صباح الدین احمدوں میں سے کوئی ایک دو بری ہوگئے، باقی سب کی سن گن نہ لی گئی تو یہ سلسلہ کیسے رکے گا؟ ہاں، اگر ہم تمام باعزت بری ہوجانے والے ملزموں کے کیس کو پھر سے عدالت میں لے جائیں، عدالت سے درخواست کریں کہ ان کے کیس کی فائلیں دوباری کھولی جائیں، تلاش کیا جائے کہ وہ جھوٹے گواہ کون تھے، وہ جھوٹے ثبوت کس نے مہیا کرائے، پولس کا الزام کیا تھا، کیس ڈائری کیا تھی، تیار کرنے والے کون تھے،عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ کیا تھی، کون کون اس میں شامل رہے؟ ان سب کو عدالت کٹگھرے میں لایا جائے، انہیں ایسی عبرتناک سزائیں دی جائیں کہ پھر کوئی کسی بے گناہ کو جھوٹے ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر مجرم ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمیں یہ بھی معاشرے اور عدالتوں کے ذہن نشیں کرانا ہوگا اور جج صاحبان کے سامنے بہت باعزت طریقے سے ان حالات اور واقعات کو پیش کرنا ہوگا کہ کسی ایک شخص پر دہشت گردی کاالزام اس کے خاندان کے افراد، اس کے متعلقین اور حتیٰ کہ اس کے پڑوسیوں اور شہر میں رہنے والوں تک کو کس قدر اذیت ناک لمحات سے گزرنے کے لےے مجبور کردیتا ہے۔اسے سمجھنا ہوگا اور انصاف کرتے وقت ان باتوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
آخر کسی بھی شخص کو سزا دینے کے بعد ہم جیل کے اندر کیوں ڈالتے ہیں، صرف اسی لےے نہ کہ ہم اسے معاشرے سے الگ کردیتے ہیں۔ سماج کی نظروں میں اس کے ایک مجرم ہونے کا احساس پیدا کردیتے ہیں، بہرحال ہم اسے زندہ تو رکھتے ہیں، اس کے کھانے پینے کا خیال بھی رکھتے ہیں، جیل کی کوٹھری ہی سہی سر چھپانے کی جگہ بھی دیتے ہیں، برائے نام ہی سہی وقتاً فوقتاً طبی جانچ بھی کراتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر اس کا علاج بھی کراتے ہیں۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے نہ کہ ہم اسے ایک چہاردیواری کے اندر قید رکھتے ہیں اور وہ اپنی زندگی اس مدت تک جب تک کہ بری نہ کیا جائے، احساس جرم کے ساتھ گزارتا ہے۔ انتہائی ایمانداری اور غیرجانبداری کے ساتھ اگر ہم سوچیں تو پائیں گے کہ جس پل ہم کسی پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں تو یہ سزا اسی وقت سے اس کے خاندان کے افراد کو بھی دے دیتے ہیں۔ جیل سے بھی تنگ چہاردیواری کے اندر وہ خود کو قید کرلینے کے لےے مجبور ہوجاتے ہیں۔ معاشرے سے ان کا تعلق اسی طرح ٹوٹ جاتا ہے، جس طرح جیل میں کسی قیدی کا۔ ان سے ملاقاتیں بھی کچھ اسی انداز میں ہوتی ہیں، جیسے کوئی ملاقاتی جیل کے دروازے تک پہنچتا ہے اور کھاناـپیناـسونا شاید قیدیوں سے بھی بدتر۔ اگر یہ سزا کسی جرم کے عوض ہے تب تو شاید زیادہ بحث کی گنجائش نہ سمجھی جائے اور اگر یہ سزا کسی جرم کے بغیر ایک جھوٹے الزام کی بنیاد پر ہے تو پھر اس کا نظرانداز کردیا جانا بہت بڑی ناانصافی کو دعوت دینا ہے، کیوں کہ پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں، جب جسے چاہا دہشت گردی کے الزام میں اٹھا لیا۔ جھوٹے گواہ اور ثبوت پیش کےے، اگر ثابت ہوگئے تو وہ دہشت گردسزا کا مستحق، ثابت نہ ہوئے تو باعزت بری۔ بس وہ اتنے میں ہی خوش کہ بری تو ہوگئے۔ شاید کسی نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ کیا سزا ان کو ملنا ضروری نہیں ہے، جنہوں نے انہیں مجرم ٹھہرانے کی کوشش کی۔
No comments:
Post a Comment