کل کسی اخبار میں ایک کہانی پڑھ رہا تھا کہ ایک راجہ کے دربار میں دانشور اور راجہ کے درمیان گفتگو جاری تھی۔ راجہ نے دریافت کیا کہ میں آپ کے علم، ذہانت اور قابلیت سے بیحد متاثر ہوں، لیکن آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ علم اور کردار دونوں میں سے کس کی اہمیت زیادہ ہے؟ دانشور کا جواب تھا ’کردار کی‘۔ راجہ بہت حیران ہوا، اس نے کہا کہ میری ریاست میں بہت سے باکردار لوگ ہیں، مگر میں جتنا آپ کے علم سے متاثر ہوا ہوں، اتنا مجھے کسی کے کردار نے متاثر نہیں کیا اور آپ کی اسی خوبی کی بنا پر میرے نزدیک آپ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ پھر آپ ایسا کیسے کہہ رہے ہیں کہ علم کے مقابلے میں کردار کی اہمیت زیادہ ہے؟ اس درجہ علم بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے، جو کہ آپ کے پاس ہے، جبکہ باکردار لوگ تو بہت ہوتے ہیں۔ دانشور کا جواب تھا ’آپ کے اس سوال کا جواب میں آج نہیں دے سکتا، مجھے کچھ وقت درکار ہے، مجھے کچھ دن اپنے محل میں رہنے کی اجازت دیجئے، واپس جانے سے پہلے میں آپ کے سوال کا جواب دے دوں گا۔‘ راجہ کو بھلا اس پر کیااعتراض ہوسکتا تھا، اس نے بخوشی دانشور کو اپنے مہمان خانہ میں ٹھہرادیا۔ ابھی چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ راجہ کے محافظی دستے نے ایک چور کی شکل میں گرفتار کرکے دانشور کو راجہ کے دربار میں پیش کیا۔ راجہ کو بڑی حیرانی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ راجہ نے کہا کہ میں نے آپ کو شاہی مہمان بناکر رکھا، تمام طرح کی سہولیات فراہم کیں، پھر بھی اگر آپ کو کچھ چاہےے تھا تو آپ مجھ سے مانگ لیتے، میں بخوشی آپ کی نذرکردیتا، مگر یہ کیا آپ کردار سے اتنے گرے ہوئے ہیں کہ جہاں آپ مہمان بن کر ٹھہرے ہوئے تھے، وہیں آپ نے چوری سے بھی گریز نہیں کیا۔ دانشور کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی، اس نے انتہائی عاجزی کے ساتھ راجہ سے کہا کہ یہی آپ کے سوال کا جواب ہے، جو آپ نے مجھ سے معلوم کیا تھا۔ میرے علم میں آج بھی کوئی کمی نہیں ہے، میں آج بھی اتنا ہی عالم اور باصلاحیت ہوں جتنا کہ میں آپ سے اپنی گزشتہ ملاقات کے دوران تھا، مگر جب ایک چور کی شکل میں مجھے گرفتار کرکے آپ کی خدمت میں پیش کردیا گیا تو میری تمام قابلیت اور علم بے معنی ہوگئے، صرف میرے کردار کی کمزوری آپ کے سامنے رہی۔ راجہ بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا کہ کردار علم سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے۔
Eاس کہانی نے مجھے اس لےے متاثر کیا اور اس لےے میں نے اسے اپنے تمام قارئین اور ہم وطن بھائیوں کی خدمت میں پیش کرنا ضروری سمجھا کیوں کہ جہاں ایک طرف بٹلہ ہاؤس اور تقسیم وطن جیسے معاملات پر میری کوششوں کی بھرپور حمایت کی جارہی ہے، وہیں کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال بھی پیدا ہورہا ہے کہ آخر میں بٹلہ ہاؤس،وٹلہ ہاؤس کا بار بار ذکر کیوں کررہا ہوں؟ میں تعلیم کی بات کیوں نہیں کرتا؟ میں ملازمتوں کی بات کیوں نہیں کرتا؟ مندرجہ بالا کہانی سے شاید میں اپنا موقف واضح کرپارہا ہوں کہ پہلے ہمیں اپنا کردار ثابت کرنا ہے۔ اگر ہم نے یہ ثابت کردیا کہ ہمارا کردار کیا ہے تو پھر تعلیم اور ملازمت کا مسئلہ اتنا پریشان کن نہیں رہ جائے گا۔ جب تک سوال ہمارے کردار پر رہے گا، تعلیم اور ملازمت ہمیں ہمارے مسائل سے نجات نہیں دلاسکتے۔تقسیم وطن کا داغ دامن سے چھڑانا بیحد ضروری تھا، اس لےے مسلسل اس وقت تک اس موضوع پر لکھا اور بولا جاتا رہا، جب تک کہ خود لال کرشن اڈوانی نے پاکستان پہنچ کر محمد علی جناح کو سیکولر قرار نہیں دیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’جناح،انڈیاـپارٹیشنـانڈیپنڈنسـ‘‘ لکھ کر تقسیم وطن کی حقیقت سامنے نہیں رکھ دی۔ اسی طرح فرقہ پرستی کے الزام کو بھی غلط ثابت کرنا ضروری تھا، اسی لےے لمبے عرصہ تک میں اپنی تحریروں کی معرفت یہ کوشش بھی کرتا رہا۔ آج میں محسوس کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے دامن پر دہشت گردی کا داغ ان کی کردارکشی کررہا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر ان کی ایک ایسی تصویر پیش کررہا ہے، جو حقیقت سے بہت دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 9/11کا معاملہ میرے سامنے آتا ہے تو میں بہت گہرائی میں جاکر تمام واقعات اور حاصل حقائق کا تجزیہ کرتا ہوں، پھرجو کچھ سچ نظر آتا ہے، اسے قارئین کی خدمت میں پیش کردیتاہوں۔ 26/11کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد ہندوستان کے ذریعہ پاکستان پر حملہ ناگزیر نظر آنے لگا۔ یہ آوازیں صرف ہندوستان سے ہی نہیں اٹھ رہی تھیں، بلکہ امریکہ مسلسل ایسی کوششوں میں مصروف تھا کہ ہندوستان، پاکستان پر حملہ کردے۔ ایک میرا قلم، آپ کی دعائیں اور میرا اخبار مسلسل اس کوشش میں لگا تھا کہ پہلے تمام حالات کو سمجھ لیا جائے، اس کے بعد کوئی قدم اٹھایا جائے۔ مقصد صرف ہندوستان اور پاکستان کو جنگ سے روکنا ہی نہیں تھا، بلکہ ساری دنیا کے سامنے سچائی کو پیش کرنا بھی تھا۔ اللہ کا کرم ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، حالات بدلتے گئے، پہلے اجمل عامر قصاب اور باقی 9دہشت گردوں سے آگے بڑھ کر ہم سوچ ہی نہیں رہے تھے، یہی ماسٹرمائنڈ، یہی دہشت گرد، یہی تباہی برپا کرنے والے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی شکل میں ماسٹرمائنڈ کی حیثیت سے ایک نیا چہرہ سامنے آیا۔ یہ دہشت گرد ایف بی آئی کا ایجنٹ تھا، امریکہ نے اپنی خفیہ ایجنسی کی معرفت اسے پاکستان کی دہشت گرد تنظیم لشکرطیبہ میں داخل کرایا تھا۔ امریکہ میں ہی اس کا نقلی پاسپورٹ بنا، جہاں اس کی جھوٹی ولدیت اور شہریت کے ساتھ اسے ہندوستان اور پاکستان میں دہشت گردی برپا کرنے کے لےے تعینات کیا گیا۔ آج تمام سچائیاں ہمارے سامنے ہیں، کل جو مضمون میں نے شائع کیا، اس میں جناب پریادرشن جی نے بھی ڈیوڈکولمین ہیڈلی کا ذکر کیا ہے۔ میں اس وقت اس موضوع پر تفصیل سے نہیں لکھنا چاہتا، وزیرداخلہ پی چدمبرم کے اس بیان کہ بٹلہ ہاؤس کی عدالتی جانچ نہیں کی جائے گی، کے بعد میں نے بٹلہ ہاؤس پر ایک بار پھر لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ کیا ہے، یہ آج کے اپنے مضمون کی شروعات میں ہی ایک راجہ اور دانشور کے درمیان گفتگو کے حوالہ سے واضح کردیاگیاہے۔ میں جب اپنی قوم کہہ کر مخاطب کررہا ہوتا ہوں تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتاکہ میں صرف اور صرف مسلمانوں کی بات کررہا ہوں، کیوں کہ سب سے زیادہ دہشت گردی کا داغ مسلمانوں کے دامن پر لگا ہے، اس لےے یہ باتیں ان سے وابستہ سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ ہماری قوم سے مراد ہندوستانی قوم ہے۔ ہم نے یہ آواز تب بھی بلند کی تھی، جب ممبئی میں راہل راج اور گجرات میں پرجاپتی کا فرضی انکاؤنٹر ہوا۔ ہم نے حال ہی میں بلندشہر میں ایک فوجی کلدیپ کے فرضی انکاؤنٹر کی خبریں بھی نمایاں طور پر اپنے اخبار میں شائع کیں، لیکن سارا ہندوستان جانتا ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر، راہل راج، پرجاپتی اور کلدیپ کے انکاؤنٹروں میں بڑا فرق ہے۔ راہل راج کو جب ممبئی میں فرضی انکاؤنٹر کے بہانے قتل کیا گیا تو الزام یہ تھا کہ وہ راج ٹھاکرے کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن عاطف اور ساجد کا معاملہ ان سب سے بالکل الگ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ راہل راج کے فرضی انکاؤنٹر کے بعد لالوپرشادیادو، رام ولاس پاسوان اور نتیش کمار نے ایک منچ پر کھڑے ہوکر اظہار افسوس بھی کیا تھا اور مہاراشٹر پولس کی مذمت بھی کی تھی، لیکن دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں عاطف اور ساجد کے انکاؤنٹر کے بعد کسی بھی مسلم سیاستداں نے نہ تو مارے جانے والے طالب علموں کی حمایت میں اس وقت ایک لفظ کہا اور نہ دہلی پولس کی مذمت کی۔ میں ان پر تنقید نہیں کررہا ہوں، اس وقت کے حالات میں ان کا یہی فیصلہ درست تھا۔ اگر کسی پر دہشت گردی کا الزام ہو تو اس کی حمایت میں کھڑے ہونا، بیان دینا، جدوجہد کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ 48گھنٹے لگے مجھے بھی یہ فیصلہ لینے میں کہ کیا مجھے بٹلہ ہاؤس کے انکاؤنٹر پر قلم اٹھانا چاہےے۔ جب میرے ہاتھ میں انسپکٹر موہن چند شرما کی وہ تصویر آئی، جس میں وہ اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے پیدل چل کر اپنی جپسی تک پہنچ رہے تھے اور اس سے قبل L-18کی چوتھی منزل پر واقع فلیٹ کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے تھے، تب مجھے حیرانی ہوئی کہ کیا ایسا شخص جو گولیاں لگنے کے بعد چار منزلہ سیڑھیاں اترسکتا ہے، پیدل چل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ سکتا ہے اور جسے صرف پانچ منٹ کے اندر طبی سہولیات فراہم ہوسکتی ہیں، اس کی موت واقع ہوجانی چاہےے؟ تھوڑی بہت ڈاکٹری کی تعلیم میں نے بھی حاصل کی ہے، ذہن اس بات کو قبول نہیں کررہا تھا، تاہم میں نے تصدیق کے لےے ملک کے قابل ترین سرجن ڈاکٹر عبدالرحمن اُندرے ، جو ممبئی کے سب سے مشہور اسپتال لیلاوتی اور جسلوک اسپتال میں کنسلٹ سرجن ہیں اور سیفی اسپتال کے سرجری ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں، ان کی خدمات حاصل کیں اور جب مجھے ان کی رپورٹ حاصل ہوگئی، تب میں نے قلم اٹھایا۔ خود جائے واردات پر گیا، حالات کا جائزہ لیا، سچائیاں سامنے آتی گئیں اور میں لکھتا گیا۔ مجھے اطمینان ہے کہ آج قومی میڈیا بھی یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ یہ انکاؤنٹر اتنا صاف شفاف نہیں تھا کہ جسے سوالوں کے گھیرے میں رکھنے کی ضرورت نہ محسوس کی جائے، حالانکہ اس وقت میڈیا نے بھی پولس کے موقف کو ہی سامنے رکھا تھا۔ اطمینان کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (قومی حقوق انسانی کمیشن) جس نے پہلے پولس کے بیان کو ہی درست مانتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کردیا تھا، (ہم نے اسی وقت اپنے اس مسلسل مضمون کی کئی قسطوں میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی اس رائے پر بھی سوالیہ نشان لگائے تھے) لیکن بعد میں جب نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ملک میں ہونے والے فرضی انکاؤنٹروں کی فہرست شائع کی تو اس میں بٹلہ ہاؤس کو بھی شامل کرلیا۔ اس سب کے باوجود بھی اگر اب ہندوستان کے وزیرداخلہ کہہ رہے ہیں کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی عدالتی جانچ نہیں کی جائے گی تو اس کے معنوں کو سمجھنا ہوگا، آخر وہ کیوں نہیں چاہتے کہ اس انکاؤنٹر کا سچ سامنے آئے۔ جس طرح ان کے ذہن میں کچھ باتیں ہوں گی، کچھ ایسے راز ہوں گے جنہیں وہ منظرعام پر نہیں آنے دینا چاہتے، اسی طرح میرے ذہن میں بھی کچھ باتیں ہیں۔ اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں، انہیں یہ ڈر ہے کہ اصلیت سامنے آنے پر وہ چہرے بے نقاب ہوسکتے ہیں جنہیں وہ بچانا چاہتے ہیں تو بس ایسا ہی کچھ میرے ذہن میں بھی ہے۔ اگر اس جدوجہد کو جاری نہیں رکھا گیا اور یہی عوام کے ذہن میں پیوست ہوگیا کہ وہ دہشت گرد تھے، دہلی، احمدآباد، جے پور وغیرہ میں ہوئے بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ تھے، انڈین مجاہدین کے دہشت گرد تھے اور اس بنا پر یہ بات بھی ہندوستانی عوام کے ذہن میں پیوست ہوگئی کہ اعظم گڑھ دہشت گرد بنانے کی فیکٹری ہے اور اس عظیم شہر کو آتنک گڑھ کا نام دے دیا جانا ٹھیک ہے، جب کہ اگر حقیقت اس کے برعکس ہو تو پھر یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی، ان دو نوجوانوں کے ساتھ بھی اور اعظم گڑھ کے شہریوں کے ساتھ بھی، اسی لےے مجھے ضروری لگتا ہے کہ سچ کا سامنے آنا قومی مفاد میں بھی اور سماج کے مفاد میں بھی انتہائی ضروری ہے۔
No comments:
Post a Comment