جاوید اختر صاحب ایک ترقی پسند شاعر ہیں اور اب تو پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں، لہٰذا وہ کسی بھی سوال کے جواب میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب ’وندے ماترم‘ پر بحث جاری تھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ میں ہی کیا میرا پورا خاندان وندے ماترم گاتا ہے اور اب انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے مفتی صاحبان جناب مفتی حبیب الرحمن صاحب، جناب مفتی فخرالاسلام صاحب، جناب مفتی وقار علی صاحب اور جناب مفتی محمود حسن بلندشہری صاحب کے ذریعہ دئے گئے ایک فتویٰ پر اپنی تنقیدی رائے کا اظہار کردیا، جس کے نتیجے میں انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ ظاہر ہے کہ جاوید اختر جیسی بڑی شخصیت کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں اور ان پر توجہ نہ دی جائے، ان کی حفاظت کا معقول انتظام نہ کیا جائے، یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اب اس پر آپ غوروفکر کرتے رہئے کہ جاوید اختر صاحب کی اس تنقید کا ہندوستانی معاشرے بالخصوص مسلمانوں پر کیا اثر ہوگایا ان کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کو کس شکل میں لیا جائے گا؟ لیکن یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ جن کا مسئلہ ہے وہ اس پر غوروفکر کریں۔ بہرحال اس موضوع پر اٹھے تنازع کی وجہ سے ہم چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہیں کرسکے۔ حالانکہ آج جب دیوبند کے عالم دین محترم نورالہدیٰ صاحب نے فون پر اپنی روداد سنائی تو ذہن میں یہی تھا کہ آج کا مضمون اسی موضوع پر ہوگا کہ کیوں دہلی سے لندن کے لےے امیرات ائیرلائنس کی فلائٹ کے اڑان بھرنے سے قبل ایک ذرا سی بات پر نہ صرف انہیں جہاز سے اتاردیا گیا، بلکہ ان کے مقام و مرتبہ کا خیال کئے بغیر انہیں تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ ان کی خطا بس اتنی سی تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے فون پر یہ کہا تھا کہ 15-20منٹ میں جہاز اڑ جائے گا۔ بیچارے مولانا اگر انگریزی میں یہ کہہ دیتے کہ 15-20منٹ میں پلین ٹیک آف کرے گا تو انہیں اتنی اذیت اور رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ بہرحال اس موضوع پر گفتگو کل ہوگی، آج میں چند جملے دارالعلوم دیوبند کے مفتی صاحبان کے ذریعہ دئےے گئے فتویٰ پر لکھنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فتویٰ کیا ہے اور کن حالات میں دیا جاتا ہے۔ Y فتویٰ اس شرعی رہنمائی کا نام ہے، جو کسی بھی سوال کرنے والے کے جواب میں مفتی صاحبان قرآن اورحدیث کی روشنی میں کرتے ہےں۔ اس میں کسی کی خواہش نفس اور مرضی کا دخل بالکل نہیں ہوتا۔فتویٰ دینے والے مفتی کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو عام عدالتوں میں ایک وکیل کی ہوتی ہے، جو صرف قانون کی روشنی میں گفتگو کرتے ہیں، اس میں ترمیم کرنے کا انہیں کوئی حق نہیں ہوتا اور اس کے لےے انہیں حکومت ہند کے تسلیم شدہ ادارے سے باقاعدہ ڈگری لینی ہوتی ہے۔ فتویٰ دینے کے مجاز بھی وہی عالم ہوتے ہیں، جو باضابطہ اس کا کورس کرتے ہیں اور پھر دارالافتا میں موجود بڑے علمائے دین اور مفتی صاحبان سے تربیت حاصل کرکے شرعیت کے مسائل بتاتے ہیں۔ واضح ہو کہ کوئی بھی عالم دین صرف مسئلہ بتا سکتا ہے، فتویٰ دینے کا مجاز نہیں ہوسکتا۔ فتویٰ صرف مفتی ہی دے سکتے ہیں، جنہوں نے باقاعدہ ڈگری حاصل کی ہے۔ اب اگر ہم ہندوستان کے تناظر میں بات کریں تو کسی بھی مفتی کے دئے گئے فتویٰ کو نافذ کرانے کی عدالتیں یا حکومت پابند نہیں ہیں اور یہ امر بھی سوال پوچھنے والے کی صواب دید پر ہے کہ اس کے سوال کے جواب میں مفتی کے ذریعہ دئے گئے فتویٰ پر وہ کس حد تک عمل کرتا ہے، لیکن اگر وہ سوال کرنے والا ایک عام مسلمان یا ہندوستانی معاشرہ یہ امید کرے کہ سوال کے جواب میں جاری کیا گیا فتویٰ سب کو قابل قبول ہو، سب کی پسند کے پیمانے پر پورا اترتا ہو تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہےے کہ کسی بھی سوال کے جواب میں ایک تعلیم یافتہ مفتی کا جاری کیا گیا فتویٰ اس سوال کے جواب میں ایک آئیڈیل کیفیت کو واضح کرتا ہے۔ اسے ہم یوں سمجھیں کہ قرآن کریم ایک کانسٹی ٹیوشن ہے، نظام زندگی کو سمجھنے کا اور سیرت رسولؐ اس آسمانی کتاب کی روشنی میں اس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ اب کیوں کہ کسی بھی مفتی کے ذریعہ جاری کیا گیا فتویٰ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہوتا ہے، لہٰذا وہ اسلام پر عمل کرنے کی ایک ایسی بلندوبالا کیفیت ہوتی ہے، جو پیغمبر اسلامؐ کے ذریعہ بتائی گئی اور ان کے عمل کی روشنی میں ساری دنیا تک پہنچائی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی عام مسلمان کے لےے یہ ممکن نہیں ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں عین قرآن و حدیث کی روشنی میں کلیہ طور سے پابندعمل ہو، لیکن جس حد تک بھی وہ اس پر عمل کرسکے وہی بہتر سے بہتر صورتحال ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر مفتیان کرام سے یہ امید کریں کہ وہ آئیڈیل پوزیشن سے ہٹ کر کوئی آسان سی صورت ہمارے سامنے رکھ دیں تو ان سے یہ توقع کرنا غلط ہوگا۔ اب اگر بات کریں، اس وقت اٹھائے گئے ان سوالات پر جو ایک حالیہ فتویٰ میں دیوبند کے مفتی صاحبان کے ذریعہ سامنے رکھے گئے ہیں تو معاشرے کو یہ حق ہے کہ وہ اس فتویٰ کو جس طرح چاہے دیکھے، مگر تنقید کرنے سے پہلے اس پر غور ضرور کرے کہ یہ کس حد تک قابل تنقید ہے۔ جہاں تک عورتوں کے مردوں کے ساتھ کام کرنے کا تعلق ہے تو قبل اس کے کہ میں اس پر حالیہ فتویٰ کی روشنی میں گفتگو کروں، ایک ریسرچ پیپر کے اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ترقی پسند اور ذہین دوست احباب حسب ذیل لنک http:/www.patrika.com/news.aspx?id=250618 پر جاکر اپنی معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ریسرچ پیپر کی عبارت کچھ اس طرح ہے: ملک کی صدرجمہوریہ اور لوک سبھا کے اسپیکر جیسے بڑے عہدے بھلے ہی خواتین کے پاس ہوں، لیکن ایک تازہ ریسرچ کے نتائج پر بھروسہ کریں تو آج بھی معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری والی ذہنیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس ریسرچ میں پایا گیا ہے کہ آزادی کے 62برس بعد تک بھی پڑھا لکھا طبقہ خواتین کو یہ احساس دلانے سے نہیں چوکتا کہ وہ ایک عورت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری اور نجی ملازمتوں میں اچھے عہدوں پر نوکری حاصل کرلینے کے باوجود خواتین کے لےے ان کی نوکری کسی جنگ کے مورچے پر تعینات ہونے سے کم نہیں ہے۔ ایک ایسی جنگ جہاں پریشانیاں دفتر سے لے کر گھر تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور وہ نفسیاتی اعتبار سے اس حد تک پریشانیوں کا شکار ہوجاتی ہیں کہ آپ انہیں ذہنی بیمار سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ریسرچ گجرات یونیورسٹی کے ہیومن سائیکلوجی ڈپارٹمنٹ کے ایم اے سائیکلوجی کی طلبا کی ایک برس کی تحقیق کے دوران آئے نتائج پر مبنی ہے۔ اس بارے میں جانکاری فراہم کرتے ہوئے ڈاکٹر جان ساری نے بتایا کہ ریسرچ کے دوران بنک میں کام کرنے والی خواتین، ٹیچر، نرس اور مختلف سرکاری محکموں میں ٹائپسٹ کی شکل میں کام کرنے والی 21سے6سال تک کی خواتین کے تجربات کو سامنے رکھا گیا ہے۔ 306 ملازمت پیشہ خواتین سے تحریری طور پر ان کی رائے مانگی گئی، ان میں سے 215 شادی شدہ تھیں اور1غیرشادی شدہ۔ ان میں وہ بھی تھیں، جن کی تعلیم محض دسویں کلاس پاس تک تھی اور ان میں وہ بھی شامل تھیں، جنہوں نے ایم فلM.Phil) یا پی ایچ ڈیPh.d) تک تعلیم حاصل کی تھی۔ پھر خواتین کو عمر کے اعتبار سے بھی دو زمروں میں رکھا گیا، جن میں سے ایک میں1سے0سال کی عمر کی خواتین اور دوسری میں 31سے6برس تک کی عمر کی خواتین کو شامل کیا گیا۔ کاروبار سے منسلک خواتین کی مشکلات اور ان کے حل جیسے موضوع پر مانگے گئے تحریری نظریات کی روشنی میں اس ریسرچ کے نتیجے سے معلوم ہوتا ہے کہ 66فیصد خواتین اپنے سینئر افسران کے ذریعہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ جس میں سے 21سے0سال کے عمر کے زمرے کی 188خواتین میں سے 80فیصد نے کہا کہ ان کے افسران ان کے خاتون ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں پریشان کرتے ہیں۔ 31سے4سال کی عمر کے درمیان کی خواتین میں سے 45فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں جسمانی استحصال اور چھیڑچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 39فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ملازمت ملنے کے بعد وہ چاہتے ہوئے بھی آگے نہیں پڑھ پاتیں۔ ان کی شکایتوں پر مناسب کارروائی نہ ہونے کے سبب انہیں مسلسل استحصال برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نجی کمپنیوں میں ملازم پیشہ 21سے0سال تک کی عمر کی 43فیصد خواتین نے کہا کہ وہ عورت ہیں، اس لےے انہیں مقابلتاً کم تنخواہ ملتی ہے، جبکہ ان کا عہدہ اور کام ساتھ کام کرنے والے مردوں کے برابر ہوتا ہے۔ 31سے6سال عمر کی 27فیصد خواتین نے بھی یہی شکایت دوہرائی۔ 21سے0 سال تک کی 48فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں وقت پر ترقی اور حوصلہ افزائی نہیں ملتی۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ 51فیصد ملازمت پیشہ خواتین ذہنی بیماریوں کا شکار پائی گئیں۔ گھر اور دفتر میں مناسب تعاون نہ ملنے کے سبب ملازمت کرنے والی 51فیصد خواتین کسی نہ کسی ذہنی بیماری کی شکار بھی پائی گئیں۔ اگر اس کا مزید تجزیہ کریں تو 21سے0 سال کی عمر تک نوکری پیشہ خواتین میں 63فیصد ذہنی بیمار تھیں، جبکہ 31سے6سال تک کی عمر کی خواتین میں 40فیصد ذہنی بیمار پائی گئیں۔ 33فیصد ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا تھا کہ اگر انہیں بھی اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے مناسب مدد ملے تو وہ بہتر کام کرسکتی ہیں۔ جسمانی استحصال اور چھیڑچھاڑ کے معاملے میں 40فیصد ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں ابتدائی دور میں ہی اس کی سخت مخالفت کرنی چاہےے۔ استحصال کرنے والوں کو قانون اور پولس کارروائی کا خوف دکھانا چاہےے۔ مندرجہ بالا ریسرچ نہ تو راقم الحروف کے ذریعہ کی گئی یا کرائی گئی اور نہ ہی عورتوں کو ملازمتوں سے دور رہنے کا فتویٰ جاری کرنے والے مفتی صاحبان کے ذریعہ۔ اب یہ فیصلہ معاشرے بالخصوص خواتین کو کرنا ہے کہ اگر اس صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دیوبند کا یہ فتویٰ کس حد تک قابل تنقید ہے۔ ہم خواتین کے ملازمت کرنے پر کوئی تنقید نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے حالات کیا ہیں، انہیں اس کی ضرورت کتنی ہے، جہاں وہ کام کرتی ہیں، وہاں کا ماحول کیسا ہے۔ اس سب کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ تو انہیں ہی کرنا ہے، لیکن اگر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ان کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت نہ ہو، ان کا استحصال نہ ہو، وہ ملازمت تو کریں مگر ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے کہ نہ تو ان کی آبرو پر آنچ آئے اور نہ وہ ذہنی بیماریوں کا شکار ہوں تو اس میں غلط کیا ہے۔ پردے کا سوال بھی اس مسئلہ سے ملتا جلتا ہی ہے۔ کیا ہم عیسائی ننس پر، ان کے لباس پر کوئی تنقید کرتے ہیں،اگر ہم ہندوستانی معاشرے کی قدیم روایت پر نظر ڈالیں تو کیا ہمیں وہاں جسم کی نمائش ملتی ہے۔ کیا ہمارے معاشرے کی خواتین اس طرح نیم برہنہ رہتی تھیں، جس طرح ہم آج کم کپڑوں والی خواتین کو ترقی پسند کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کیا ہم واقعی اپنی بہن، بیٹیوں اور بہوؤں کو کم سے کم لباس میں دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کے اس عمل پر فخر کا احساس کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو واقعی انہیں ایسے فتووں پر بھرپور تنقید کرنی چاہےے اور طوفان بھی کھڑا کرنا چاہےے… اور اگر انہیں ذرا بھی ایسا لگتا ہے کہ ایک دائرے میں رہ کر اپنی آبرو کا خیال رکھتے ہوئے کام کرنے کا مشورہ ایک مناسب مشورہ ہے تو قطع نظر اس کے کہ یہ ایک مفتی کا فتویٰ ہے یا کسی مذہب کا قانون اس پر آنکھ بند کرکے تنقید کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے
Tuesday, May 18, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 comment:
بہتر
Post a Comment