Saturday, May 8, 2010

بٹلہ ہاؤس صرف ایک انکاؤنٹر نہیں!

عزیز برنی

, وزیرداخلہ پی چدمبرم کے تازہ بیان نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو ایک بار پھر موضوع بحث بنادیاہے اور صرف موضوع بحث ہی نہیں ان کے نظریات نے ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا کہ کیا اب ان کی نیت پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس واقعہ سے متعلق نئی پرانی فائلیں لے کر پھر سے بیٹھ گیاہوں۔ میں آج لکھنا چاہتا تھا فرضی انکاؤنٹرس اور بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر اٹھے سوالوں پر۔ ظاہر ہے سب سے زیادہ سوال تو ہم نے ہی اٹھائے تھے، مگر اب ان میں کچھ نئی باتیں بھی شامل ہوگئی ہیں، لیکن جب میں نے اپنی فائل میں6فروری 2010 کو لکھا گیا جناب پریادرشن کا مضمون ’’بٹلہ ہاؤسـ سچ اور جھوٹ سے آگے…‘‘ پڑھا، جو کہ انہوں نے khabar.ndtv.comپر پوسٹ کیا تھا تو مجھے لگا کہ صرف اپنے نظریات کو سامنے رکھ کر ہی بات نہ کی جائے، بلکہ دیگر ذمہ دار قلمکاروں کی رائے بھی شامل اشاعت کی جائے، تاکہ ہماری سرکار اور عوام ان سب کا مطالعہ کرے تو انہیں اندازہ ہوسکے کہ یہ صرف ایک شخص یا ایک قوم کی رائے ہی نہیں، بلکہ بہت سے سوال دیگر لوگوں کے ذہن میں بھی اٹھتے رہے ہیں۔حالانکہ میں اس مضمون کی تمام باتوں سے اتفاق نہیں کرتا، تاہم میں اسے من و عن شامل اشاعت کررہا ہوں، مجھے اپنی جانب سے اور اس مضمون کی چند باتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہنا ہے، وہ کل میں قلمبند کروں گا، آج ملاحظہ فرمائیں پریادرشن جی کی یہ تحریر:
بٹلہ ہائوس انکائونٹر پر لکھنا بہت سے خطرات کو دعوت دینا ہے۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بٹلہ ہائوس انکائونٹر بالکل صحیح تھا اورمارے گئے لڑکے دہشت گرد تھے تو ایک بہت بڑا طبقہ مایوس ہوجاتا ہے، جیسے اس کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہو… اور اگر آپ نے بٹلہ ہائوس انکائونٹر پر ہلکا سا بھی سوال اٹھایاتو دوسرا طبقہ آپ کو دہشت گردوں کا حامی ٹھہرانے لگتا ہے۔ وہ پولس والوں کی شہادت کی یاد دلاتا ہے اور اس بات پر حیرانی ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ہوئی کارروائی کو کوئی کیسے غلط بتا سکتا ہے۔
واضح طورپر یہ بحث بٹلہ ہائوس سے آگے نکل چکی ہے۔ اس انکائونٹر کو صرف ایک معاملے سے وابستہ حقائق کے آئینے میں نہیں دیکھا جارہاہے، اس کی تشریح میں دہشت گردی، سیاست اور فرقہ واریت کی وہ آمیزش بھی سرگرم ہے، جو ہمارے چشموں کا رنگ طے کرتی ہے، ہمارا موقف تعین کرتی ہے، ہماری ہمدردی اور ہماری نفرت کے الگ الگ کردار کھڑا کرتی ہے۔ کئی پرتوں والے اس دھندلکے کے پار جاکر صاف شفاف نگاہوں سے بٹلہ ہائوس کو دیکھنا شاید ممکن نہیں رہ گیا ہے ۔
ویسے بھی اگر بٹلہ ہائوس صرف ایک انکائونٹر کا معاملہ ہوتا تو اس پر اس قدر غور کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی… وہ پولس کے دیگر کئی سچے جھوٹے انکائونٹر کی طرح ایک معاملہ، ایک مقدمہ ہوکر رہ جاتا، لیکن بٹلہ ہائوس اس ملک میں دہشت گردی اور طبقاتی اعتماد کے دو الگ الگ سروں کے درمیان پھنسی ایک ایسی گتھی ہے، جس میں ہمارے نئے دور کی سب سے اہم عوامی سوچ کی کشمکش جھانکتی ہے۔ ظاہر ہے، بٹلہ ہائوس پر غور کرنے کا مطلب اس پورے نقطۂ نظر پر غور کرنا ہے جو اس کی حمایت اور مخالفت کے دلائل گڑھتے ہیں۔
سوال ہے، ہم بٹلہ ہائوس کو کس نگاہ سے دیکھیں… اسے غیر جانبدار ہوکر دیکھنا بھی چاہیں تو کیسے دیکھیں… یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ بٹلہ ہائوس کا انکائونٹر ان دنوں مسلسل کئی شہروں میں ہوئے دھماکوں کے بعد ہوا تھا۔ ان دھماکوں کی ضرب حیدر آباد، احمد آباد، بنگلور، ممبئی اور دہلی جیسے بڑے شہر ہی نہیں، رام پور، فیض آباد اور سہارنپور جیسے چھوٹے شہر بھی جھیل رہے تھے۔ اکثر ان دھماکوں کی تفتیش کرنے والی ایجنسیوں کے پاس دھماکوں کے بعد تقریباً ایک جیسی تشریحات اور ایک جیسی وضاحتیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ بتانے کے لیے کہ ان دھماکوں کے پیچھے لشکر یا جیش یا حوجی یا انڈین مجاہدین کا ہاتھ ہے، پولس اہلکار ہونے کی ضرورت نہیں۔
!صرف یہ انتظار کرنا پڑتا تھا کہ پولس اس بار کسی خاص دھماکے کے لئے کس تنظیم کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ یقیناً پولس اور سیکورٹی ایجنسیوں کے کام کاج میں وہ دلیلیں اور صفائی نہیں تھی، جس پر سبھی لوگ اعتماد کرسکیں۔ اب اس کے ثبوت زیادہ ہےں، لیکن اس وقت بھی کم نہیں تھا۔ الگ الگ ریاستوں کی پولس اور الگ الگ خفیہ ایجنسیاں تھوڑے تھوڑے دنوں میں ان دھماکوں سے وابستہ ماسٹر مائنڈ بدلتی رہیں۔ اب جاکر ڈیوڈ ہیڈلی اور تہور رانا جیسے ماسٹر مائنڈ ہمیں ایف بی آئی کے ذریعہ ایکسپورٹ کئے گئے ہیں تو ہم ہر دھماکہ میں ان لوگوں کا کردار تلاش کر رہے ہیں۔
بہرحال بہت وسیع الذہن ہوکر غور کریں تو بھی کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی محکمہ کے پاس ان دھماکوں کی یا ملک میں پھیلی دہشت گردی کی مکمل خبر نہ اس وقت تھی، نہ اب ہے۔ الگ الگ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کو جمع کرکے ایک پوری تصویر بنانے کا تحمل بھی نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس ایک دوسرے سے سبقت میں سہرا لے جانے کی جلدی ضرور نظر آتی ہے۔
بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں بھی دہلی پولس پر اس جلد بازی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ممبئی سے موصولہ اطلاع کو اس نے لپک لیا اور یہ صلاح نظر انداز کردی کہ ابھی وہ فوراً کارروائی نہ کرے، کیونکہ اس کے پاس ساری اطلاعات ایک ساتھ آئیں گی۔ اس عجلت میں ہوئے انکائونٹر سے وابستہ تفصیلات اور سوال اب کئی ہیں۔ اس انکائونٹر میں دہلی پولس کو موہن چندشرماکی شکل میں اپنا ایک جانباز انسپکٹر کھونا پڑا تھا۔ پولس بٹلہ ہائوس کی چوتھی منزل پر تعمیر-18 نام کے جس فلیٹ میں گئی، وہاں اس کے مطابق چار دہشت گرد تھے۔ دو مارے گئے اور دو فرار ہوگئے۔ فرار ہونے والوں میں سے ایک اب گرفتار ہوگیا ہے اور پولس کی چھن کر آئی اطلاعات کے مطابق وہ بتا رہا ہے کہ وہ پچھلے دروازے سے بھاگ گیا تھا۔ مارے جانے والوں میں ایک دوسرے لڑکے کے خلاف، جس کی عمر کافی کم بتائی جارہی ہے، پولس زیادہ کچھ نکال نہیں سکی ہے۔
جو بھی ہو، اس میں شبہ نہیں کہ پولس انکائونٹر کی اس کارروائی میں منصوبہ اور صبر کی کمی نظر آتی ہے۔ اگر ایک انسپکٹر کی موت نے اس معاملے کو جذباتی نہیں بنا ڈالا ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ پولس کو اپنی کارروائی پر کہیں زیادہ جواب دینے پڑتے۔
اب اس پورے معاملے کو اعظم گڑھ کے چشمے سے دیکھیں ، جہاں کے عوام اور سیدھے سادے لوگ جانتے ہیں کہ ان کے بچے دہلی میں زیرِ تعلیم ہیں۔ انھیں صحیح صحیح نہیں معلوم کہ وہ یہاں کون سی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اچانک وہ اپنے بچوں کے مارے جانے اور کئی دوسروں کے گرفتار کئے جانے کی خبر سنتے ہیں۔ اچانک انھیں پتہ چلتا ہے کہ اعظم گڑھ سے دہلی گئے بہت سے لڑکے بھاگ کر گھر لوٹ رہے ہیں یا پھر الگ الگ شہروں کی خاک چھان رہے ہیں۔ اچانک انھیں پتہ چلتا ہے کہ پولس ان کے دروازے پر ہے اور دہشت گردی کا الزام ان کی پیشانی پر۔ اچانک وہ اپنے بچوں کو پولس کی حراست میں دیکھتے ہیں، انھیں پٹتا ہوا پاتے ہیں اور انھیں چھڑانے کی لاحاصل کوشش میں اپنا وقت لگاتے ہیں۔ ان سب کے مابین وہ پاتے ہیں کہ انھیں، ان کے کنبے کو اور ان کی قوم کو دہشت گرد کی طرح دیکھا جارہا ہے۔ ان کے بچوں کو ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں، مکان نہیں مل رہے ہیں، اعتماد نہیں مل رہا ہے اور دوست نہیں مل رہے ہیں۔
اپنے بدحواس ہوتے دل و دماغ کے اندر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف یہ ایک پوری سازش ہے کہ ان کے بے گناہ بچوں کو پولس نے گولی ماری ہے اور اس کے لیے ریاست نے انھیں تمغہ دیا ہے کہ ا س ملک میں ان کے اتحاد، ان کی سیاست، ان کے ووٹ کی طاقت ہی وہ چیز ہے جس کے سہارے وہ انصاف کی امید کرسکتے ہیں۔اب ان دو تصویروں کے درمیان کیا تیسری تصویر بنائی جاسکتی ہے…؟
جیسے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بٹلہ ہائوس انکائونٹر فرضی نہیں رہا ہوگا، کیونکہ اوکھلا جیسے گھنی آبادی والے علاقے میں ایسے فرضی تصادم نہیں ہوا کرتے۔ پولس پختہ اطلاع پر وہاں پہنچی اور اس نے ایک فلیٹ میں روپوش دہشت گردوں کو گھیرنے کی کوشش کی۔ دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ میں ایک پولس اہلکار سنگین طور پر زخمی ہوگیا۔ بوکھلائے پولس والے اندر داخل ہوئے اور انھوں نے ڈرے سہمے اس لڑکے کے سر پر بھی گولی مار دی جو شاید خود دہشت گرد نہ رہا ہو بلکہ اعظم گڑھ کے اپنے تعلق کی وجہ سے انجانے میں وہ دہشت گردوں کے ساتھ مقیم ہو۔ ایسا ’کولیٹرل ڈیمیج‘ بہت ممکن ہے۔ ا س کے بعد پولس جن تمام لڑکوں کے پیچھے پڑی ہے، جن کے خلاف 50-50 مقدمے درج ہیں، وہ سب بھی ممکن ہے دہشت گرد نہ ہوں، لیکن ان میں کچھ ہوں۔
واضح ہے کہ اس تیسری تصویر میں بھی سچائی کم سادگی سے بھری امید زیادہ نظر آتی ہے۔ پھر بھی اگر اندازے کے سہارے بڑھنا ہے تو یہ اندازہ کیا برا ہے۔ سوال اس سے آگے کا ہے۔ ایک طبقے کے اندر ہم کسے دہشت گرد مانیں کسے نہیں… پولس سب کو دہشت گرد مان کر چلتی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو دہشت گرد مان کر نہ چلا جائے۔ لیکن پھر کیسے ہو دہشت گرد کی پہچان، کیسے دہشت گردوں کے الگ الگ موڈیول پکڑے جائیں، کیسے ان سلیپر سیلوں کا پتہ چلے، جن سے دہشت گردوں کو مدد ملتی ہے۔
دراصل یہ پولس کی زبان ہے۔ اس قانون کا سوال ہے، جس کی دفعات ہیں اور دفعات میں جتنی طاقت ہے، اس سے زیادہ ان ڈنڈوں میں ہے جو پولس والے لے کر چلتے ہیں۔ ان ڈنڈوں سے وہ دہشت گردی بھلے نہ روک پائیں، لیکن دہشت گردوں کو گرفتار کرنے نکلتے ہیں اور نہ جانے کس کس کو گرفتار کرکے اس کا گناہ قبول کرانے میں جٹ جاتے ہیں۔
کسی انسانی حقوق کے داعی کا سوال یہ ہوگا کہ آخر کسی طبقہ میں دہشت گرد کیوں ہوجاتے ہیں۔ اعظم گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے آئے سیدھے سادے لڑکے کیوں قلم کی جگہ بندوق تھام لیتے ہیں اور سافٹ ویئر بنانے کی جگہ بم بنانے کی تربیت لینے لگتے ہیں۔ اصل سوال یہی ہے۔ اگر اس سوال کا جواب تلاش کرلیںگے تو بٹلہ ہائوس کے انکائونٹر کا سچ خود بہ خود سامنے آجائے گا، بلکہ شاید بٹلہ ہائوس جیسے انکائونٹر کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ لیکن یہ امید بھی بہت بھولی ہے۔ ہمارے معاشرے میں انتشار مسلسل گہرے ہوتے نظر آرہے ہیں اور انتشار پسند عناصر مضبوط۔ دونوں طرف ایسے عناصر ہوں گے، لیکن اکثریتی سیاست میں ان عناصر کی جارحیت حالیہ برسوں میں بری طرح بڑھی ہے۔ وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں، انھیں مقبول فدا حسین کی پینٹنگ قبول نہیں ہے، انھیں گجرات میں عامر خان اور ممبئی میں شاہ رخ خان قبول نہیں، انھیں آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑی قبول نہیں، انھیں یہ معتدل زبان قبول نہیں جو ایک پورے ہندوستان کا تصور کرتی ہے۔ انھیں دو دہشت گردوں کا مارا جانا جشن جیسا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سچائی مایوس نہیں کرتی کہ دو ہندوستانی شہری دہشت گرد کیوں اور کیسے بن گئے۔
دراصل بٹلہ ہائوس کے باہر جھانکیں گے تو آپ کو ملے گا کہ ہندوستانی قوم میں حکومت کی ناکامی سے پیدا ہوئی ایسی کئی کمیاں ہیں جو دہشت گردی سے لے کر نکسلزم تک کی الگ الگ دفعات میں خود کو ظاہر کر رہی ہیں۔ پولس اور قانون کی طاقت سے انھیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اصل میں پولس اور قانون کے رویے نے ہی تو انھیں بنایا ہے۔ اگر ہم کچھ انصاف پسند پولس اور قانون اور انتظام بنا پاتے تو شاید ایسے پرتشدد اور علیحدگی پسند رجحانات کی گنجائش نہیں پیدا ہوتی، جس کا فائدہ کوئی باہر یا اندر والا اٹھا پاتا۔
…………قسط
119

No comments: