خاتون سربراہان مملکت اور حکومت
ملکہ الزبتھ برطانیہ
ملکہ مارگریٹ دوئم ڈنمارک
ملکہ بیاڈیس فن لینڈ
صدر میک ایلیرنی آئرلینڈ
ڈاکٹر ڈیم سی پئرلیٹ لاورنی گورنر جنرل سینٹ لوسیا
وزیر اعظم ہےلن کلارک نیوزی لینڈ
صدر فارحہ ہوبوتین فن لینڈ
صدر لگوریا ایرولو فلپائن
وزیر اعظم لوذا ڈیاس ڈیانگو موزمبےق
صدر جنرل کونسل نسیمہ میگولیا دندار
جنرل میکائی؛ جین کناڈا
فیڈک چانسلر انجیلا میرکل جرمنی
صدر ایلین جانسن لائبےرےا
مائیکل بیچلسٹ جیرا چلی
صدر ایمبلی جونگ سلطنت نیدرلینڈ
صدر پرتبھا پاٹل صدر جمہوریہ ہند
صدر کرسٹینا ای فرنانڈیز ارجنٹائینا
گورنر جنرل ڈیم لوئس لیک ٹیک انگووا اور باربورس
صدر بورجانا کرسٹو صدر فیڈریشن بوسینیا ہرزگوےنا
وزیر اعظم یولیا ٹائیموشبنکو یوکرینوزیر اعظم وویکا ارکسون فن لینڈ کی خارجہ مملکت
کیپٹن ایجنٹ روزا زیفرانی سین مارینو
وزیر اعظم زینیڈا گریشیانی مالڈووا
انتہائی اہم اور نا زک موضوع ہے یہ، اس وقت جس پر قلم اٹھایا ہے میں نے۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ میری اس سوچ کو بے پناہ قدآور شخصیتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، مگر یہ ایک آواز ہے جو دل کی گہرائیوں سے اٹھی ہے اور بار بار یہ صدا دیتی ہے کہ اگر کوئی بات حق نظر آتی ہے تو پھراس سے راہِ فرار اختیار نہےںکرنا چاہئے، اسے سامنے رکھنا ہی چاہےے.... اور پھر جو فیصلہ ہو اکثریت کا، جو رائے عامہ بنے، اسے تسلیم کرلیا جانا چاہےے۔تقسیم وطن کے بعد سے پندرہویں لوک سبھا یعنی 2009میں ہوئے پارلیمانی انتخابات تک کے نتائج میرے سامنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، وہ سب ’خواتین ریزرویشن بل ‘کی منظوری کے پہلے کے ہیں۔ اب اگر یہ بل منظور ہوتا ہے تو سولہویں لوک سبھا کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کی نئی صورت ہمارے سامنے آسکتی ہے۔ 1952میں ہوئے پہلے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کی نمائندگی 17تھی، 1957میں 21، 1962 میں20، 1967میں28، 1971میں 25، 1977میں30، 1980 میں 46 ، 1984میں47، 1989میں 31، 19991میں26، 1996میں24، 1998میں28 ، 1999میں31، 2004میں37 اور 2009میں 29، یعنی گزشتہ پندرہ پارلیمانی انتخابات کا اوسط ہم اپنے سامنے میں رکھیں تواوسطاً 29।3اتنے مسلم ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوکر آتے رہے ہیں۔ ’خواتین ریزرویشن بل‘ کی منظوری کی شکل میں پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی اگر اس اوسط سے کم ہوتی ہے تو ہمیں نقصان ہوتا ہے اور اگر نمائندگی کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر ہمیں اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک اور خدشہ جو ذہن میں ہے، وہ یہ کہ ہمارے مرد مقابلتاً زیادہ قابل ہیں، خواتین کم تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر یا تو الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے پائیں گی، حصہ لیتی ہیں تو جیت نہیں پائیں گی اور اگر جیت بھی گئیں تو پارلیمنٹ میں بھرپور نمائندگی نہیں کرپائیں گی، اب ہمیں کچھ تلخ سوالوں کا سامنا کرنا ہے۔ کیا گزشتہ61برس میں ہم اپنے قابل اور ناقابل سبھی مسلم ممبران پارلیمنٹ، ظاہر ہے ان میں چند کو چھوڑ کر سب مرد ہی ہیں ،کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ کیا ہمیں لگتا ہے کہ انہوں نے ہمارے مسائل کے حل کے لےے جو بھی کوششیں کیں، وہ کافی تھیں اور ہمیں کسی نئی صورتحال کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہےے؟ ہمیں یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ کیا وہ سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے؟ ان میں سے کوئی بھی اس زمرے سے تعلق رکھنے والا نہیں تھا، جس میں ہم خواتین کو مان کر چلتے ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ فیصد بھی اتنے کم تعلیم یافتہ تھے، جتنا کہ مسلم خواتین کے تعلق سے تصور ہمارے ذہن میں ہے تو پھر کم تعلیم یافتہ مرد پارلیمنٹ کے رکن، ہوں یا خواتین، کیا فرق پڑتا ہے؟ اب ذرا ان قابل قائدین پر ایک نظر ڈالیں، جنہیں تعلیمی اعتبار سے یا سیاسی تجربے کے اعتبار سے ہم بہت اوپر مانتے ہیں۔ اے آر انتولے صاحب بریرسٹر ہیں،بی اے آنرسBar-at-Law کی ڈگریاں ان کے پاس ہیں۔ مہاراشٹر کے چیف منسٹر ، مرکزی کابینہ میں کئی بار کابینہ درجہ کے وزیر رہ چکے ہیں۔ اس بار الیکشن ہار گئے۔ وجہ کیا رہی، اس پر ابھی بات نہیں کرتے ہیں۔ طارق انور صاحب تعلیمی اعتبار سے پسماندہ نہیں ہیں،B।Scکی ڈگری ان کے پاس ہے۔ لگاتار دوسری بار اپنے پارلیمانی حلقہ سے نہیں جیت سکے۔ ڈاکٹر شکیل احمد صاحب گزشتہ سرکار میں وزیر تھے،ایم بی بی ایس کی ڈگری ان کے پاس ہے۔ اس بار الیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ علی اشرف فاطمی صاحب بھی پچھلی پارلیمنٹ میں موجود تھے، مرکزی وزیر تھے، پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما، بی ایس سی(انجینئرنگ) کی ڈگری ان کے پاس ہے۔دونوں ہی اعلیٰ یافتہ ہیں۔سی کے جعفر شریف صاحب لمبا سیاسی تجربہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان خاصے مقبول بھی ہیں۔ اس بار الیکشن نہیں جیت پائے۔ موجودہ سرکار میں اقلیتی امور کے وزیر سلمان خورشید صاحب آکسفورڈ یونیورسٹی، لندن سے تعلیم یافتہ ہیں، پچھلا پارلیمانی الیکشن نہیں جیت سکے تھے۔ اگر آج کی سیاست اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل مسلمانوں کو کامیابی سے ہمکنار ہونے سے روک سکتی ہے تو پھر یہ خدشہ ہمارے ذہن میں کیوں ہے کہ ہماری خواتین الیکشن ہار سکتی ہیں۔ کسی کے بھی الیکشن جیتنے کی گارنٹی نہیں ہے، اگر ہوتی تو ہم نے جن کے نام سامنے رکھے، یہ سب مسلمانوں کی پسند ہوسکتے تھے اور جیت سکتے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب رہا سوال مجموعی اعتبار سے مردوں کے مقابلے خواتین کے کم تعلیم یافتہ ہونے کا تو یہ بات صرف مسلم خواتین سے تعلق رکھنے والی ہی نہیں ہے۔ یہ خدشہ تو غیرمسلم حضرات کے سامنے بھی ہے اور وہ اس پر آواز اٹھا بھی رہے ہیں۔ میں ابھی مسلم خواتین کی سیاست میں شمولیت کی حمایت میں کچھ نہیں کہہ رہا ہوں۔ ابھی میں صرف اعدادوشمار کی معرفت ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کررہا ہوں، جو اس بل کی مخالفت کی بنیادی وجہ قرار دئے جارہے ہیں، جیسے خواتین پردے کے بغیر جمِ غفیر کو خطاب نہیں کرسکتیں، لہٰذا نہیں بے پردگی کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر 1952سے اب تک جن مسلم خواتین نے الیکشن لڑا، انہیں روکنا چاہئے تھا یا ان کی مخالفت کرنی چاہےے تھی۔ میرے سامنے ان خواتین سیاستدانوں کی فہرست تو نہیں ہے، جنہوں نے اس سے قبل کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب نہیں ہوئی، مگر جو کامیاب ہوئیں ان کی فہرست ضرور میرے سامنے ہے۔ 1957میں مفیدہ احمد اور میمونہ سلطانہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں پہنچنے والی پہلی مسلم خواتین تھیں۔ مفیدہ احمد آسام کی جورہاٹ حلقہ سے کامیاب ہوئیں، جب کہ میمونہ سلطانہ مدھیہ پردیش کے بھوپال حلقہ سے۔ 1962میں زہرہ بین اکبربائی بناس کانٹھا گجرات اور میمونہ سلطانہ ایک بار پھر بھوپال سے کامیاب ہوئیں۔ 1976میں اکبرجہاں سری نگر سے اور محسنہ قدوائی اعظم گڑھ یوپی سے کامیاب ہوئیں۔1980میں بیگم عابدہ بیگم اترپردیش کے شہر بریلی اور محسنہ قدوائی میرٹھ سے کامیاب ہوئیں۔ 1984میں یہ تینوں کامیاب مسلم خواتین اکبر جہاں بیگم، بیگم عابدہ احمد اور محسنہ قدوائی پھر اپنے اپنے انتخابی حلقوں سے کامیابی ہوئیں۔ 1996اور1999میں پٹھانوں کی بستی رامپور سے بیگم نوربانو نے کامیابی حاصل کی۔ 2004کے انتخابات میں محبوبہ مفتی سری نگر سے کامیاب ہوئیں اور2009 حالیہ انتخابات قیصرجہاں سیتاپور یوپی، تبسم رانا کیرانہ یوپی اور موسم نور مالدہ مغربی بنگال سے جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچیں۔ اگر پردہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ کی بنیاد ہے تو یہ مسئلہ تو آج سے پہلے بھی تھا۔ ایسی کسی بھی خاتون کو اس بنیاد پر پہلے ہی الیکشن لڑنے سے روکا جانا چاہئے تھا اور اگر مندرجہ بالا تمام مسلم خواتین جو انتخابات میں کامیاب ہوئیں اور ان کے علاوہ جو کامیاب نہیں ہوئیں، ان سب کو الیکشن لڑنے کی آزادی تھی تو ’خواتین ریزرویشن بل‘ کی منظوری کے بعد یہی آزادی دیگر مسلم خواتین کو حاصل کیوں نہیں؟ خواتین کے سیاست میں حصہ لینے یا نہ لینے کے اسلامی پہلو پر تفصیل سے گفتگو بعد میں، فی الحال ہمارے سامنے چند مسلم ممالک کی پارلیمنٹ کی تصویر ہے۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے، جس کی کل 100نشستوں میں سے17خواتین کے پاس ہیں۔ ملیشیا میں 65میں سے18خواتین پارلیمنٹ میں ہیں۔ مصر میں 264میں سے18 خواتین پارلیمنٹ میں ہیں۔ افغانستان ان سے بھی آگے نظر آتا ہے، جہاں102میں سے22خواتین پارلیمنٹ کی رکن ہیں، یعنی 21।6فیصد۔ بنگلہ دیش میں345میں سے64خواتین پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔ یہ فہرست ایوان بالا کی ہے۔ اگر ایوان زیریں پر بات کریں، جہاں الیکشن لڑنے کے بعد جیت کر پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا موقع ملتا ہے، تب لیبیا میں36خواتین پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔ اردن میں7، مصر میں8، پاکستان میں76، ٹیونیشیا میں43،حتیٰ کہ کویت میں بھی ایک مسلم خاتون جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچی ہیں۔ پاکستان کی کامیاب حکمراں رہیں بے نظیر بھٹو تو بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاءکی کامیابی پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ دونوں ملک کبھی ہندوستان کا حصہ تھے اور آج مسلم اکثریت والے ملک ہیں۔ یا سیدھے کہیں تو مسلم ملک ہیں۔ اگر یہاں پر اسلامی ملک ہونے کے باوجود خواتین پر سیاست میں حصہ لینے کی پابندی نہیں رہی تو پھر ہندوستان میں ہی کیوں؟ خواتین کامیاب سیاستداں ہوسکتی ہیں یا نہیں، اس مسئلہ پر بحث جاری رہے گی، مگر آج کے اس مضمون کے ساتھ ہم وہ فہرست ضرور شائع کرنا چاہتے ہیں، جس سے کہ یہ اندازہ ہو کہ اس وقت دنیا کے کتنے ممالک کی سربراہ خواتین ہیں، تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ خواتین اتنی بے صلاحیت نہیں ہیں کہ انہیں الیکشن لڑنے کے لائق ہی نہیں سمجھا جائے، جبکہ وہ دنیا کے بیشتر ممالک کی سربراہ مملکت ہوں۔
ایک خدشہ جو بالکل درست ہے وہ یہ کہ ایک بار پھر ان حلقوں کو خواتین کے لےے ریزرو کیا جاسکتا ہے، جو مسلم اکثریت والے ہوں۔ حسب سابق اگر ایسا ہوبھی جاتا ہے تو اس بار کا نقصان پہلے کے مقابلے بہت کم ہوگا، اس لےے کہ وہ ریزرو کونسٹیوینسی تو صرف ریزروکلاس کے لےے طے کی گئیں تھیں، وہاں سے تو کوئی مسلمان الیکشن لڑہی نہیں سکتا تھا، جبکہ خواتین کے لےے ریزرو کےے جانے والے حلقوں سے مسلم خواتین کے نمائندہ ہونے پر کوئی روک نہیں ہے، یعنی ان حلقوں کے مسلمانوں کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے سکیں، جب کہ ریزرو سیٹوں کے معاملہ میں ایسا نہیں تھا۔ ہاں ایک آواز ضرور اٹھائی جاسکتی ہے کہ اس ریزرویشن کے اندر مسلم خواتین کے لےے الگ سے ریزرویشن کی مانگ کو تسلیم کرلیا جائے، کیوں کہ سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمان آج سب سے زیادہ پسماندہ ہےں۔ میں نے ریزرویشن کے موضوع پر منعقد کی گئی جے پور کانفرنس میں ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کے ریزرویشن کی مانگ کو تسلیم نہ کیا جانا اور اسے مذہب سے جوڑنا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ 1952سے پہلے دلت طبقہ اس حد تک پسماندہ تھا کہ انہیں معاشرہ میں برابری کا مقام دلانے کے لےے ریزرویشن کی تجویز منظور کی گئی۔ اسی بنیاد پر آج مسلمانوںکے تئیں ریزرویشن کی مانگ کو تسلیم کیا جانا چاہےے اور اسے مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہےے، بلکہ اس کی بنیاد سچر کمیٹی کی رپورٹ کو مانا جانا چاہےے۔
No comments:
Post a Comment