Wednesday, March 10, 2010

تمہید آج تحریر کل

موضوع ”خواتین ریزرویشن بل

ابھی تک میرے قسط وار مضمون ”آزاد بھارت کا اتہاس“ کی 95 قسطیں آپ کی نظر سے گزرچکی ہیں، یعنی 100کے ہندسے تک پہنچنے کے لےے اب صرف پانچ اور مضمون درکار ہیں۔ انشاءاللہ ہفتہ بھر میں یہ قسطیں بھی مکمل ہوجائیں گی۔ یوں تو لکھنے کا سلسلہ شروع کےے 25برس گزر گئے، مگر جب سے انہیں کچھ مخصوص عنوانات کے تحت تسلسل دینے کا ارادہ کیاہے تو نہ صرف یہ کہ ان کو قارئین کی کچھ زیادہ ہی توجہ حاصل ہوئی، بلکہ ہندوستان کی سیاست بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ معاشرے پر مثبت اثر دکھائی دیا تو تحریک کی شکل لے چکی ان تحریروں کو حکومت ہند بھی نظرانداز نہیں کرسکی۔ ”مسلمانانِ ہند.... ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟“ کے عنوان سے جب پہلا قسط وار مضامین کا سلسلہ شروع کیا تو حالات حاضرہ کے تمام موضوعات پرروشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ایک خاص مقصد یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کے دامن پر لگے تقسیم وطن کے داغ کو مٹایا جائے، بٹوارے کی سچائی سامنے لائی جائے، آزادی کی جنگ کاندھے سے کاندھا ملا کر لڑی، ہندوو ¿ں نے بھی اور مسلمانوں نے بھی، پھر دفعتاً یہ دو قومی نظریہ کی بات کیوں اتنا طول پکڑ گئی کہ اس ملک کو دو ٹکڑوں میں بٹنا پڑا۔ یوں تو گزشتہ 25برس میں متواتر ہم یہ بات کہتے رہے کہ تقسیم کی بنیاد مذہب نہیں سیاست ہے، مگر اس قدر اثرانداز نہ ہوئی، جس طرح ”مسلمانانِ ہند.... ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟“ کے نام سے قسط وار مضامین کا سلسلہ شروع کرنے کے بعد۔ اس حقیقت نے مسلم قوم کے ساتھ برادران وطن کے دل و دماغ پر بھی اثر کرنا شروع کیا۔ مسلمانوں کو تقسیم وطن کا ذمہ دار ماننے والے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق صدر لال کرشن اڈوانی کا جب پاکستان دورہ ہوا تو انہوں نے محمدعلی جناح کو ایک سیکولر لیڈر قرار دیا، یعنی دور کا سب سے بڑا مسلم فرقہ پرست چہرہ بھی اڈوانی جی کی نظر میں سیکولر تو پھر مسلمان فرقہ پرست اور مذہب کے نام پر ملک کو بانٹنے والے کیسے؟ لہٰذا ان کے اس بیان سے ہماری سوچ کو طاقت ملی، جو الزام تقسیم وطن کے فوراً بعد سے لگایا جاتا رہاتھا، اب بہت حد تک وہ غلط ثابت ہوتا نظر آنے لگا۔ کوئی آواز اب اگر اٹھتی ہے تو وہ اس قدر کمزور کہ اسے قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا، گویا ہمارا یہ تحریری سفر کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ دوسرا اہم موضوع جو ہمارے سامنے تھا، وہ تھا دہشت گردی کے طوفان کو روکنا اور اس کی حقیقت کو بے نقاب کرنا۔ جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا بہانہ بناکر افغانستان اور عراق کو تباہ کیا گیا اور ہندوستان بھی اس درجہ دہشت گردی کی زد میں آنے لگاکہ ہمارا کوئی شہر بھی محفوظ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ تب اس قسط وار مضمون کا نصب العین یہی بنا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک قلمی جہاد چھیڑدیا جائے، حقائق کو منظرعام پر لایا جائے، لہٰذا حیدرآبادمکہ مسجد ،دہلی، جے پور، احمدآباد وغیرہ میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات۔ بٹلہ ہاو ¿س سے لے کر مالیگاو ¿ں انویسٹی گیشن تک بہت کچھ دہشت گردی کے اسباب کو منظرعام پر لانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ وہ کون سی طاقتیں ہیں، جو دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں، انہیں بے نقاب کرنے اور منظرعام پر لانے کی کوشش بھی کی گئی۔ بدقسمتی سے اسی درمیان ہم نے شہیدہیمنت کرکرے کوکھودیا، جو مالیگاو ¿ں انویسٹی گیشن کے ذریعہ دہشت گردانہ حملوں کی سچائی کو سامنے رکھ رہے تھے اور سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے بم دھماکوں کے تار کس سے جڑے تھے، اس طرف بھی انہوں نے ثبوتوں کے ساتھ روشنی ڈالنی شروع کردی تھی، 26نومبر2008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ ہم نے تمام واقعات کی کڑیاں جوڑتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا اپنے قسط وار مضمون ”مسلمانان ہند....ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟“ کی 100ویں قسط کو”شہیدوطن کرکرے کی شہادت کو سلام“ کی شکل میں پیش کرکے۔”داستان ہند....ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟“ کی شکل میں اپنا دوسرا قسط وار مضمون جب میں نے شروع کیا تو پندرہویں لوک سبھا کے لےے انتخابات زیادہ دور نہیں تھے۔ جمہوریت میں کسی بھی جنگ کو جیتنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے، آپ کے ووٹ کا صحیح استعمال۔ فرقہ پرست طاقتیں عروج پر تھیں، وہ اپنے مقاصد کی حصولیابی کے لےے کسی حد تک بھی جاسکتی تھیں۔ دہشت گردی کی جس منظم سازش کا پردہ فاش کیا تھا شہید ہیمنت کرکرے نے، اس کے تار فرقہ پرست سیاست سے بھی جڑنے لگے تھے، لہٰذا ”داستان ہند.... ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟“ کا نصب العین تھا مرکز میں سیکولر حکومت کا قیام اور فرقہ پرست طاقتوں کی شکست۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، اگر کوئی شئے مشعل راہ تھی تو وہ تھی انگریزوں کی غلامی کے دور میں اردو صحافت کی نظیر۔ جس طرح ظفر علی خاں،مولانا حسرت موہانی، مولانا محمدعلی جوہراور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی عظیم شخصیتوں نے اردو صحافت کے ذریعہ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی، بس ویسا ہی کچھ ارادہ تھا فرقہ پرست طاقتوں کی گرفت سے اس ملک کو بچانے کا۔ بیشک اللہ کی مدد بھی انہیں کو حاصل ہوتی ہے، جو انسانیت و قوم و ملک کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے ہیں،لہٰذا ایسا ہی ہوا، ہم لکھتے رہے، فضا بنتی رہی، حالانکہ کئی دشوار کن مراحل سامنے آئے۔ ملائم سنگھ یادو جیسے قریبی شخص کے کلیان سنگھ کے ساتھ کھڑے ہوجانے پر فاصلے پیدا ہوئے۔ فیصلہ کن گفتگو میں جب انہوں نے کہا کہ آپ سمجھتے کیوں نہیں، اترپردیش میں پارلیمنٹ کی 24ایسی سیٹیں ہیں، جنہیں کلیان سنگھ کے سہارے جیتا جاسکتا ہے، کے جواب میں برجستہ میری زبان پر آیا کہ ’ملک میں ایسی 124سیٹیں ہیں، جنہیں مسلمانوں کی مدد سے جیتا جاسکتا ہے اور کلیان سنگھ کی وجہ سے کھویا جاسکتا ہے۔‘ اس وقت تو نہیں، مگر بعد میں یہ بات انہیں بھی سمجھ میں آگئی، بہرحال نتیجہ فرقہ پرست طاقتوں اور فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں کا ساتھ لینے والوں کی اقتدار سے محرومی اور ساتھ ہی انہیں یہ اندازہ بھی ہوگیا کہ یہ ملک انہیں پر بھروسہ کرسکتا ہے، جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس طرح ”داستان ہند.... ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟“ کا اختتام اور مرکز میں سیکولر حکومت کا قیام ہمارے ارادوں کی کامیابی تھی۔تیسرا قسط وار مضمون ”آزاد بھارت کا اتہاس“ جب میں شروع کررہا تھا تو منظرنامہ بہت بدل چکا تھا۔ تقسیم وطن کے داغ کی بات تو چھوڑئےے، اب تک دہشت گردی کا داغ بھی بہت حد تک دامن سے دھل چکا تھا، حقیقت بہت حد تک بے نقاب ہوچکی تھی۔ پھر اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر جسونت سنگھ نے ”جناح، انڈیا-پارٹیشن-انڈیپنڈنٹس“ کے نام سے کتابلکھ کر ہمارے کام کو بہت آسان کردیا، بلکہ ہمارے نظریہ تقسیم پر اپنی مہر لگادی، گویا جو بات گزشتہ 60برس سے لگاتار کہی جاتی رہی، اسے خود جسونت سنگھ نے غلط ثابت کردیا، لیکن ہمارے مسائل یہاں بھی ختم نہیں ہوتے۔ ’وندے ماترم‘ کی شکل میں ایک اور مسئلہ ہمارے سامنے رکھا گیا، جس کی آنچ ہمارے دینی مدارس تک پہنچنے لگی، لہٰذا ماحول کو خوش اسلوبی کے ساتھ پرسکون بنانے کی ضرورت تھی۔ ہم نے تمام دلیلوں، ثبوتوں اور دستاویزی حوالوں کے ساتھ بھیکم چندچٹوپادھیائے کے ناول”آنندمٹھ“کو سامنے رکھا، شکرخدا کا کہ یہ طوفان بھی تھم گیا اور پھر26نومبر2008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے سے وابستہ نئے نئے انکشافات سامنے آتے چلے گئے۔ ہم تو روزاوّل سے ہی کہہ رہے تھے کہ دہشت گردوں کی تعداد صرف10ہے یہ مان لینا حقیقت سے نظریں چرا لینا ہوگا، مگر اس وقت کوئی سنتا ہی نہیں تھا۔ پھر ہیڈلی اور تہورحسین رانا کے نام سامنے آئے، ایف بی آئی اور سی آئی اے کی طرف بھی شک کی سوئی گھومنے لگی۔ گویا دہشت گردی کے تعلق سے اب منظرنامہ پوری طرح بدل چکا تھا، جو کچھ ہم لکھتے رہے، وہ سامنے آتا رہا، اس درمیان ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہوئی کہ دہشت گردی کے الزام کے ساتھ فرضی مقدموں میں ملوث کرکے جنہیں جیل بھیج دیا گیا تھا، وہ رہا ہونے لگے۔ تہاڑ جیل سے ارشاد اور معارف تو کانپور جیل سے واصف حیدر اور اس کے ساتھیوں کو رہائی ملی۔ کئی نوجوان فرضی انکاو ¿نٹر کی گرفت میں آتے آتے بچ گئے، کچھ نوجوان جنہیں حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکوں کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا تھا، ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ ایسے واقعات کی فہرست بھی طویل ہے، جو ایک اردو اخبار کی حیرت انگیز کامیابی کی حقیقت کو سامنے رکھتی ہے اور اب جبکہ میرا یہ قسط وار مضمون 100کے ہندسے کو پار کرنے والا ہے تو میں مسلسل یہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ ایسا کون سا موضوع ہو، جسے تحریک کی شکل دی جائے۔ بس اسی سوچ نے لکھنے کی رفتار کو کچھ دھیما اور سوچنے کی رفتار کو تیز کرنے کو مجبور کیا، لہٰذا آج جو موضوع میرے سامنے ہے اور جس کے تحت میں آگے کی قسطیں رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور جس کی تمہید کے لےے اتنی تفصیل اور کامیابی کے حوالوں کی ضرورت اس لےے پیش آئی کہ میری اگلی کوشش گزشتہ تمام کامیابیوں کے باوجود مخالفتوں کا سامنا کرنے کے لےے مجبور بھی کرسکتی ہے یا پھر ایک اور ایسی تاریخ ساز کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی اس کی روشنی میں دیکھ سکیں۔ جی ہاں، یہ الفاظ میں نے اپنی تحریر کے لےے نہیں، اس موضوع کے لےے لکھے ہیں، جس کا انتخاب میں نے اب اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لےے کیا ہے اور وہ ہے ”خواتین ریزرویشن بل“۔ جانتا ہوں کہ ایک بڑے حلقے میں اس کی شدید مخالفت ہوگی، بالخصوص اس حلقہ میں جن کے ساتھ میں قدم سے قدم ملاکرچلتا رہاہوں اور چلتے رہنا چاہتا ہوں، یعنی میرے مذہبی رہنما،ان کا نظریہ مجھے معلوم ہے، وہ خواتین ریزرویشن بل کے مخالف ہیں، مگر میں اسے قوم اور ملک کے حق میں سمجھتا ہوں، لہٰذا میری ان سب سے مو ¿دبانہ درخواست ہے کہ آج سے اس ضمن میں جو کچھ بھی لکھا جارہا ہے، پہلے ایک نظر اس پر ڈال لیں، پھر سب مل بیٹھ کر فیصلہ کریں۔ جو بھی نظریہ قوم و ملک کے مفاد میں ہو،اسی پر سب ایک رائے ہوجائےں تو اچھا ہے۔ اندازفکر چاہے جس کو بدلنا پڑے، ذہن میں صرف اور صرف قوم و ملک کی فلاح و بہبود اور آنے والی نسلوں کا بہتر مستقبل ہو۔ شاید یہ خواتین ریزرویشن بل گزشتہ 61برس کے سیاسی خسارے کو پورا کرنے کی راہ ہموار کرے۔ یہ ایک نئی راہ دکھانے والا ثابت ہو۔ یہ جملے آج ناقابل یقین اور بے مطلب نظر آسکتے ہیں، مگر اس سلسلہ وار تحریر کی کامیابی پر نظر ڈالتے ہوئے ان پر سنجیدگی سے غور کریں تو یہ تحریک پھر قابل توجہ بن سکتی ہے۔............................

No comments: