Monday, March 1, 2010

آہ گجرات

ہم آج رات مار دئے جائیں گے‘
(یکم مارچ 2002کو احمد آباد سے گووند دکشت)جمعہ کی رات ہم لوگ احمدآباد کے اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس میں تھوڑی دیر کے لیے رکے ہیں تبھی مسلم اکثریتی علاقے شاہ پور سے ایک فون آتا ہے جس میں ممبر پارلیمنٹ شبانہ اعظمی سے کہا جاتاہے کہ کچھ کیجئے ورنہ ہم آج رات مار دئے جائیں گے۔ یہ سن کر شبانہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑتی ہیں اور مجھ سے کہتی ہیں کہ ٹھیک ایسا ہی ممبئی میں ہوا تھا۔ فساد سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ شاہ پور اور واٹواجواپورہ کو 7ہزار کی بھیڑ نے گھیر رکھا ہے۔ صورت حال بہت نازک اور دھماکہ خیز ہے اور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ احمدآباد کے حقیقی حالات کو اس واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔
جمعہ کی رات تقریباً 10بجے بی بی سی کے رپورٹر ریحان فضل ایک فائیو اسٹار ہوٹل تاج ریذیڈینسی میں رکنے کے لئے اس کے منیجر سے بات کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہوٹل میں رکنا ہے تو کوئی ہندو نام لکھوائیے۔ ریحان کے یہ کہنے پر کہ ان کے ویزا اور پاسپورٹ میں جو نام ہے وہ اسے نہیں بدل سکتے۔ اس کے جواب میں منیجر نے کہا تب وہ ہوٹل میں نہیں ٹھہرسکتے۔ اپنے ساتھ بیتے اس حادثہ کا ذکر ریحان فضل نے سی پی ایم کے لیڈر سیتا رام یچوری سے کیا۔ میں سماجوادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ امر سنگھ، راج ببر، شبانہ اعظمی اور سیتا رام یچوری کے ساتھ یہاں آیا ہوں۔ صورت حال کی نزاکت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پولس کمشنر پانڈے نے بتایا کہ انہوں نے فیلڈ میں جانے کے لئے آج ہی اپنی داڑھی صاف کرائی
اسی طرح اے این آئی کے نامہ نگار نے بتایا کہ اس نے بھی آج ہی اپنی داڑھی کٹوائی ہے کیونکہ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کے کپڑے اتار کر ان کی شناخت کی جارہی ہے۔ میں نے اور راشٹریہ سہارا اردو کے ایڈیٹر عزیز برنی نے یہاں گزشتہ ایک گھنٹہ کے دوران جو کچھ دیکھا وہ بھیانک ہے۔ ایئرپورٹ سے چند سو میٹر کی دوری پر تقریباً 50گاڑیاں جلی پڑی ہیں۔ یہ ایک بازار کا منظر ہے، جس میں سبھی دکانیں مسلمانوں کی ہیں۔ یہاں سے تھوڑا آگے چلتے ہی پولس آگے جانے سے روک دیتی ہے۔ پولس کے اعلیٰ افسر کہتے ہیں ”آپ لوگ گیسٹ ہاﺅس سے آگے نہیں جاسکتے۔ آپ لوگوں کو یہیں رکنا ہوگا۔ ایئر پورٹ پر بھی ایک پولس افسر نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم لوگوں کا شہر میں نکلنا ٹھیک نہیں ہے۔ کل جارج فرنانڈیز کے ساتھ بدتمیزی ہوچکی ہے۔پولس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران دو دن کی بھیانک صورت حال کی حقیقی تفصیلات دیتے ہیں،لیکن ساتھ ہی درخواست کرتے ہیں کہ نام مت دیجئے
اس وقت ہم لوگ اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس میں ہی ہیں۔ یہیں سے فون نمبر 2866343پر وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے امرسنگھ بات کرتے ہیں۔ وہ مودی کو بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس احمد آباد سے فساد متاثرین کے فونوں کا تانتا لگا ہوا ہے اور ہم لوگ وی ایس اسپتال جاناچاہتے ہیں۔ مودی کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا جانا خطرہ سے خالی نہیں ہے، جب ہم جارج کو سیکورٹی نہیں دے پائے آپ لوگوں کو کیا دے پائیں گے۔ اس پر جب امرسنگھ ان سے کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ پولس ہے تو مودی کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے جانے سے کشیدگی بڑھے گی۔ تبھی راج ببر نریندر مودی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہیں۔ وہ مودی کو بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس باپونگر سے ایک فون آیا ہے۔ فون کرنے والے نے بتایا ہے کہ وزیر داخلہ گوردھن جھا پڑیا کے گھر سے گولیاں چلائی جارہی ہیں۔
جب میں نے راج ببر جی سے پوچھا کہ اس پر مودی نے کیا جواب دیا تو راج ببر نے بتایا کہ مودی نے کہا کہ آپ تو جانتے ہیں کہ ہتھیار کون رکھتے ہیں۔ ہندوتو ہتھیار رکھتے نہیں۔ تبھی امرسنگھ ہم لوگوں سے کہتے ہیں، بھلے ہی جان کو خطرہ ہوہمیں جانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منظم منصوبہ بند سرکاری دہشت گردی ہے۔ فون پر سیتا رام یچوری کی بھی مودی سے بات ہوتی ہے۔ یچوری جانے کی ضد کرتے ہیں تو مودی ان سے کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے چہرے وخیالات سبھی کو پتہ ہیں۔ ایسی حالت میں ہم تحفظ کی گارنٹی نہیں لے سکتے۔ یچوری نے کہا کہ یہ سیدھے سیدھے وزیر اعلیٰ کی طرف سے دھمکی ہے۔
شبانہ اعظمی کی بھی نریندر مودی سے باتی ہوتی ہے، مودی ان سے بھی کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے آنے سے کشیدگی اور بڑھ جائے گی۔ مودی سے ہوئی پوری بات چیت کے دوران ریاست کے وزیر صحت اشوک بھٹ ہم لوگوں کے ساتھ گیسٹ ہاﺅس میں موجود ہیں۔ ان کے ساتھ بی جے پی کے سب سے کم عمر ممبراسمبلی بھرت پانڈیا بھی موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کل فوج تعینات کرسکتے تھے، لیکن گودھرا حادثہ کے مہلوکین کی آخری رسومات ادا ہونی ہے۔ پانڈیا نے جمال پور سمیت صرف کچھ ایسی جگہوں کے نام بتائے ہیں جہاں کشیدگی زیادہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں مسلمان 60فیصد اور ہندو 30فیصد ہیں۔
جب ان سے کہا گیا کہ کشیدگی تو پورے احمدآباد میں ہے تو وہ تسلیم کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پورے شہر میں لوگ آمنے سامنے ہیں۔ میرے یہ پوچھنے پر کل جس سابق ممبر پارلیمنٹ احسن جعفری کو مارا گیا تھا وہ مسلسل چھ گھنٹے تک فون پر تحفظ کی فریاد کرتا رہا اور اس نے کئی بار سیکورٹی بھی مانگی تھی تو انہوں نے کہا کہ اس سابق ممبر پارلیمنٹ نے پہلے بھیڑ پر گولی چلائی تھی۔ اس دوران کمرے میں یو این آئی کے ممبئی سے احمد آباد آئے رپورٹر سشیل پاریکھ آتے ہیں۔ ان کے ساتھ کیمرہ مین اودے آئیور بھی ہے۔ بہران پورہ میں کل سشیل کی انڈیکا کار اور سامان کو پھونک دیا گیا تھا۔ دونوں ڈرے ہوئے ہیں۔ چار گھنٹے تک یہ دونوں فساد زدہ علاقے میں پناہ کی بھیک مانگتے رہے، لیکن کسی نے انہیں پناہ نہیں دی۔ گیسٹ ہاﺅس میں پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ فساد سے متاثرہ شہر کے الامین اسپتال میں ہیں۔ میں نے وزیر صحت سے پوچھا کہ یہ اسپتال کہا ں ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نجی اسپتال ہے، کہاں ہے پتہ نہیں۔
یہیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شہر کے واٹواجواپورہ میں اول درجے کے تقریباً ڈھائی سو ہوٹلوں کو جلاکر راکھ کردیا گیاہے۔ ان میں سمنور ہوٹل (2کروڑ کا نقصان) ، کبیر ریسٹورنٹ، سن فلاور، جھجر بنگلہ، راج کمل، پولس چوکی کے پاس ٹیسٹی ریسٹورنٹ، باجرہ پورہ میں ابھیلاشا، ٹوپاز ہوٹل، تلسی ریسٹورنٹ، رام لین ٹریٹ، نورنگ، ملینیم ریسٹورنٹ، بھاگیہ ادے، اتسو، صلاتی بٹاریسٹورنٹ، نوجیون ریسٹورنٹ آرام گیسٹ ہاﺅس، ایلیٹ، اپیکس، روزگارڈن، ڈسنز اور ریگل وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں ہر طرف جلی ہوئی راکھ دکھائی دیتی ہے۔ پولس کے منع کرنے کے باوجودہم گیسٹ ہاﺅس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تبھی قریب دو سولوگوں کی بھیڑ ہمیں گھیر لیتی ہے۔ ایک مقامی لیڈر خورشید سید آتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں ہی جانتا ہوں کہ میں یہاں کس طرح پہنچا ہوں۔ وہ وہاں موجود درجنو ںپولس والوں کے سامنے ہی کہتے ہیںکہ ان پر بھروسہ نہ کریں۔ آپ فوج پر ہی بھروسہ کرسکتے ہیں۔ میں آپ لوگوں سے التجا کرتا ہوں کہ آپ فساد زدہ علاقے میں نہ جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1959سے آج تک اتنی بھیانک حالت نہیں دیکھی۔ اسی وقت جارج فرنانڈیز کے ساتھ آئے ”آج تک“ کے نامہ نگار سمیت اوستھی وہاں پہنچتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی ٹاٹا سومو پر بے تحاشہ پتھراﺅ کیا گیا اور وہ جان بچاکر بھاگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ باہر نہ جائیں۔ ٹی وی چینل ”آج تک“ کے کیمرہ مین اشونی کے سر میں چوٹ لگی ہے وہ زخمی ہیں۔ ان سب وارننگ کے باوجود ہم لوگ پولس سیکورٹی میں آگے بڑھتے ہیں۔ تقریباً 150میٹر کی دوری پر پولس کمشنر کا آفس ہے۔ ہم لوگ وہاں پہنچتے ہیں۔ پورے راستے میں جلی ہوئی گاڑیوںاور دکانوں کے ہولناک مناظر ہیں جو صورت حال کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ امرسنگھ پولس کمشنر کے سامنے لگے سیوا، سرکشا، شانتی بورڈ کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ سب گجرات میں کہاں ہے۔ اس وقت رات کے 12بجے ہیں۔ پورے شہر میں لوگ جاگے ہوئے ہیں۔ جگہ جگہ جھنڈ کی شکل میں لوگ کھڑے ہیں۔ نعرے بازی چل رہی ہے۔ ہم لوگ پولس کمشنر کے آفس میں ہیں۔ یہاں مختلف نیوز ایجنسیوں اور اخبارات کے نامہ نگار موجود ہیں، جو اپنے دن بھر کے تجربات بتارہے ہیں۔ نعروں پر بھی گفتگو ہورہی ہے۔ اس نعرے کا خاص طور پر تذکرہ ہے۔ ”جے شری رام ہوگیا کام۔“
صفحہ نمبر 3بتاریخ 26-April-2002گجرات فسادا اور مسلمانوں کامستقبل
دولفظ....................................عزےز برنی27فروری2002کو گودھرا ٹرےن حادثہ سے شروع ہوا گجرات کے جلنے کا سلسلہ تادم تحرےر جاری ہے۔ پہلی مارچ کو جب تشدد بھڑکنے کے بعد احمد آباد کی زمےن پر قدم رکھاتھا تو ارادہ ےہ تھا کہ تمام متاثرہ علاقوں مےں جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لےا جائے گا۔ اور حتی الامکان کو شش ہوگی کہ مظلومےن کی مدد کی جاسکے اور فضا کو پرامن بنانے کی سمت مےں کوئی عملی قدم اٹھاےا جاسکے، لےکن امرسنگھ ، راج ببر، شبانہ اعظمی اور سےتارام ےچوری کے بار بار کے اصرار کے باوجود اسپتال مےں زخمےوں او ربے گناہ انسانوں کی لاشوں کو دےکھ کر ہی واپس لوٹ آنا مجبوری بن گئی۔
مگر جب 27فروری کے بعد 28فروری سے شروع ہوا مسلم نسل کشی کا سلسلہ 23اپرےل تک بھی نہےں تھما تو اےک بار پھر گجرات جانے کا فےصلہ کرنا پڑا۔ اس بار وفد کی قےادت ملائم سنگھ کررہے تھے اور ان کے ہمراہ سابق وزےر اعظم اےچ ڈی دےو گوڑا، ہر کشن سنگھ سرجےت ، امرسنگھ ، اے بی وردھن، دےوورت ، مجمدار او رابنی رائے بھی شامل تھے۔24 تارےخ کی صبح چھ بجے دہلی سے چل کر ہم لوگ آٹھ بجے احمد آباد کے اسٹےٹ گےسٹ ہاوس مےں پہنچ چکے تھے۔ اےئر پورٹ پر ہی بڑی تعداد مےں متاثرہ علاقوں سے آنے والے وفود ہمارے انتظار مےں تھے۔ اور ےہےںسے گجرات مےں کی گئی مسلمانوں کی نسل کشی کی درد ناک داستان سننے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ احمد آباد مےں کی گئی مسلمانوں کی نسل کشی کی درد ناک داستان سننے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ احمد آباد مےں قےام کے دوران ہر پل خون کے آنسو رلاتارہا۔
اےئر پورٹ سے اسٹےٹ گےسٹ ہاوس مےں پہنچنے پر وہ تمام لوگ جو اےئر پورٹ پر آپ بےتی سنارہے تھے ےہاں بھی ہمارے ساتھ تھے، اےک ساتھ سبھی کو سنا جانا مشکل تھا لہٰذاباری باری سے گجرات کے مختلف علاقوں سے آنے والے حادثات کا شکار ان نمائندہ گروپوں سے ملاقات کی گئی۔ کم وبےش ہر داستان اےک ہی جےسی تھی بس سنانے کا انداز الگ تھا، سنانے والے الگ تھے۔ ان کے غم زدہ چہرے آنسوو ¿ںمےں ڈوبی آنکھےں تھر تھراتے لب اور اپنی دردناک داستان سناتے سناتے تکھ سی گئی خشک زبان سے نکلا ہر ہر جملہ سخت سے سخت مگر انسانےت بھرا دل رکھنے والوں کو رلادےنے کے لےے کافی تھا، ےہ حوصلہ تھالوک مورچہ کے ان لےڈران کا کہ اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے سنجےدگی کے ساتھ ان کی داستان غم سنتے رہے۔
دل تو ان کا بھی رو ہی رہاتھا اگر آنکھےں بھی رودےتےں تو پھر بات نہ ہوتی صف ماتم بچھ جاتی آنسووں اور آہوں کے سوا چکھ بھی سنائی نہ دےتا۔ پھر بھی جو حوصلہ مند لوگ مسلمانوں کی تباہی وبرباد ی کی داستان سنارہے تھے اس مےں لٹ جانے ، تباہ ہوجانے، اپنے عزےز واقارب کے قتل ہوجانے کا کرب تو تھا ہی مگر اس سے بڑھ کر جو شکوہ ان کی زبان پر تھا وہ ےہ کہ اب وہ جائےں تو جائےں کہاں؟ بے حد معصومےت کے ساتھ اےک خوبصورت نوجوان مےمن جو پےشہ سے انجےنئر تھا آنکھوں مےں آنسو لےے اپنی داستان سنارہاتھا اس کا سوال تھا کہ ہمارا سب کچھ تو ےہےں ہے ہم تو پےدا اسی ملک مےں ہوئے ، ہمےں تو پتہ بھی نہےں کہ ہمارے بزرگوں سے کےا خطا ہوئی ہم تو کبھی پاکستان گئے ہی نہےں، پھر ہمارے بزرگوں نے ہی اگر پاکستان جانے کا فیصلہ کیاہوتا، ہندوستان پر پاکستان کو ترجیح دی ہوتی تو وہ یہاں رہتے ہی کیوں؟ ہمارا جنم ہی یہاں کیوں ہوتا؟ ہم نے تو ہندوستان کو ہی اپنا ملک سمجھا، یہی ہمارا ملک ہے، ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ کیا صرف ہندوستانی مسلمان ہونے کی؟ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے معصوم بچوں کو قتل کیا جارہاہے، ہماری بہنوں، بیٹیوں کی آبروں سے کھیلا جارہا ہے۔
وہ معصوم بچیاں جو پھول کی مانند ہیں جنہوں نے ابھی دنیا کو دیکھا ہی نہیں ہے، سمجھا ہی نہیں ہے ان کے سامنے یہ خونی درندے اپنی وحشت کاوہ نظارہ پیش کرتے ہیں .... آگے کے جملے اس کے آنسووں میں بہہ جاتے ہیں وہ کچھ کہہ نہیں پاتا مگر ہم سب سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کیاکہنا چاہتاہے، امر سنگھ اور دیو گوڑا اپنے آنسوو ¿ں کو چھپانے کی کوشش میں اپنے ہاتھوں میں رومال لے لیتے ہیں۔ ملائم سنگھ اس کا حوصلہ باندھتے ہوئے کہتے ہیں یہ ملک تمہارا بھی اتناہی ہے جتناکہ ہمارا ہے۔ مسلمانوں کی قربانیاں کسی سے کم نہیں ہےں۔ یہ ملک سیکولر ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کو بہت دیر تک من مانی کرنے کاموقع نہیں ملے گا۔ تم حوصلہ رکھو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔لوگ اتنے تھے، داستانیں اتنی تھیں کہ اگر باری باری سے سب کو سنا جاتا تو شایدم یہ کبھی ختم نہ ہوتیںلیکن اس بار ان تمام تباہ کردی جانے والی بستیوں کو اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھیں گے۔
وہ مسجدیں اور درگاہیں جنہیں مسمار کر دیا گیاہے انہیں اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھیں گے، کیمپوں میں رہ رہے تباہ حال لوگوں سے جاکر ملیں گے۔ لہٰذا انتظامیہ سے رابطہ قائم کیا گیا، ضلع کلکٹر کا پھر وہی جواب، آپ جن علاقوں میں جانا چاہتے ہیں ان میں سے بیشترمیں ابھی بھی کرفیو لگا ہواہے، حالات خراب ہیں، آپ کو کچھ جگہ جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ آپ اسپتالوں میں جاکر مریضوں سے مل سکتے ہیں مگر جو ہاپورہ، رکھیال، جیسی جگہوں پر جانا مشکل ہے، تب ملائم سنگھ یادو نے ضلع کلکٹر کو دو ٹوک لہجہ میں کہا کہ ایک بات صاف صاف سن لو اور اپنے چیف منسٹر کو بھی بتادو کہ تمہارے پاس صرف تین راستے ہیں اور انہی میں سے کسی ایک کو چنناہے، یا تو ہمیں ان علاقوں تک جانے دو جہاں ہم جانا چاہتے ہیں، یا پھر ہمیں گرفتار کرلو ورنہ ہمیں مروادو، ہم ملے بغیر یہاں سے واپس جانے والے نہیں ہیں۔
کلکٹر نے کچھ دیر کی مہلت مانگی، غالباً اس لئے کہ اپنے آقاوں کو صورت حال سے واقف کراسکے مگر اس درمیان امر سنگھ بی بی سی لندن کو ٹیلی فون پر تمام صورت حال سے آگاہ کرکے گجرات سرکار کے لئے سوائے ایک کے تمام راستے بند کر چکے تھے کہ وہ انے کی اجازت دے دیں لہٰذا تقریباً ایک گھنٹہ کی اس زبانی جدو جہد کے بعد ان تمام علاقوں میں جانے کی اجازت دے دی گئی جن کی فہرست ضلع انتظامیہ کے سامنے رکھی گئی تھی۔سب سے پہلے ہم لوگ نرودہ پاٹیا پہنچے۔ ایک جلی ہوئی تباہ حال بستی ہماری نگاہوں کے سامنے تھی۔ ٹوٹے ہوئے، اجڑے ہوئے مکان، جا ادھ جلا، بکھرا ہوا، پھیلا ہوا، سامان اور مکینوں سے خالی مکان، جگہ جگہ خوں کے دھبے جو اس ظلم کی کہانی بیان کر رہے تھے جو یہاں رہنے والوں پر ڈھایا گیا۔ اب یہ دیواریں ہی اس کی گواہ ہیں۔ بستی کے باہر نلکے تو سامنے ایک حد تک جلی ہوئی نورانی مسجد ہماری آنکھوں کے سامنے تھی۔
اس بستی کا جائزہ لینے کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ امن چوک کے لئے جہاںپناہ گزیں کا کیمپ بھی چل رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوٹ جمع تھے، بالخصوص عورتیں اور بچے اپنی فریاد سنانے کے لئے بے قرار تھے۔ وفد کے تمام ممبران نے ان زخمی بچوں اور خواتین سے بات کی ان کی روداد سنی، پھر وہی دل دہلانے والی داستان، زندہ بچ گئی عورتوں کے جسموں پر ظلموں کے نشان، جن شرمناک واقعات کو یاد کرنابھی کسی خاتن کے لئے باعث شرم ہوتاہے ویسی ہی وحشت ناک، شرمناک داستانوں کو آنسوو ¿ں کے ساتھ معصوم بچوں سے لے کر ضعیف عورتوں تک نے سنایا۔ ایک ضعیف عورت ملائم سنگھ اور دیوگوڑا سے لپٹ کر روپڑی، اس کے معصوم دودھ پیتے پوتے کو تلوار کی نوک پر اٹنا کر گھمایا گیا تھا۔ پھر اسے نذر آتش کر دیا گیاتھا۔امر سنگھ جو یہ سب دیکھ اور سن رہے تھے برداشت نہیں کر سکے اور یہ آواز بلند مائک پر چیخ اٹھے کہ ہندو راشٹر کے بہانے اپنے آپ کو ہندو کہنے والوں کے اس ظلم پر میں اس قدر شرمندہ ہوں کہ مجھے اپنے آپ پر شرم آرہی ہے۔
انہوں نے نریندر مودی کوللکارتے ہوئے کہا کہ آج گجرات میں سرکار نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہاں صرف اور صرف دنگائیوں کی حکومت ہے اور نریندر مودی ان کا سرپرست ہے۔ وفد کے تمام ممبران نے ملک کو فرقہ پرست طاقتوں سے بچانے کا عزم کیا۔ ملک کو تمام ہندوستانیوں، ہندو، مسلمان سکھ، عیسائی کا وطن قرار دیا، مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دلانے تک اپنا احتجاج اور جدو جہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ الامین اسپتال، جو ہاپورہ کیمپ، وی ایس اسپتال سب جگہ ایک جیسے ظلم کی داستانیں ہمدردوں کا ان کے آنسو پونچھنا، دلاسہ دینا، بہتر مستقبل کی دعا کرنا کہاں تک اس ظلم کی داستان کو لکھا جائے ایک ایک منظر جو نگاہوں کے سامنے آتاہے ظلم کی ایک نئی داستان سنا جاتاہے۔
جو ہاپورہ کیمپ میں ملائم سنگھ جب مظلومین کا درد بانٹ رہے تھے تو ہجوم کو چیرتی ہوئی ایک برقعہ پوش خاتون ہم لوگوں کی طرف بڑھی اور ابو عاصل اعظمی کے سینے سے لگ کر رونے لگی۔ یہ ان کی بہن تھی جو اپنے بھائی کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ کر زبان سے کچھ نہ کہہ سکی، اس لئے کہ اس کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ ہاں کانکریہ کیمپ میں کچھ مختلف نظارہ دیکھنے کو ضرور ملا۔ غم زدہ وہ بھی تھے، ظلم ان پر بھی ہوا تھا مگر حالات اتنے تکلیف دہ نہ تھے وی ایس اسپتال میں تشدد کا شکار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کچھ ہندو بھی تھے، اگر مذہب کی بات پر تفصیلی بحث میں نہ جائیں تو بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ گجرات میں انسانیت پر ظلم ہوا اور جو کچھ ہوا وہ حیوانیت کا ننگا ناچ تھا۔
اس حیوانیت درندگی اور ظلم کے لئے وہاں کی سرکار، سرکار کی سرپرستی حاصل کئے وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، آر ایس ایس کے غنڈے اور ان کے ذریعہ سرزمین گجرات پر لکھی گئی وہ خونی داستان تھی جسے آزاد ہندوستان کی کلنکت تاریخ کی طرح ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔گجرات کے حالیہ سفر کی داستان کو فی الحال میں یہیں ختم کرتا ہوں اس لئے کہ اس پر ابھی نہ جانے اور کتنا لکھنا پڑے گا اور کتنی بار۔ مگر گجرات کے مسلم کش فسادات سے جڑے کچھ اور پہلوو ¿ں پر بھی بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ گجرات کے حالات کو لے کر آج ملک کاہر سیکولر شخص جو اپنے سینے میں درد مند دل رکھتاہے پرشان ہے اور اپنی اپنی سطح پر سبھی کچھ نہ کچھ کر بھی رہے ہیں تاکہ زخمی دلوں پر مرہم رکھا جاسکے۔ قومی یکجہتی کے تانے بانے کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکے۔ ملک کی سالمیت کو برقرار رکھا جاسکے۔
اس کوشش میں سیاسی سماجی مذہی سبھی طرح کے لوگ شامل ہیں۔ ہندو بھی، مسلمان بھی، سکھ بھی عیسائی بھی اور مشترکہ کوشش اس امید کو بر قرار رکھتی ہے کہ ملک کا سیکولر کردار آج بھی زندہ ہے اور ملک میں جمہوریت زندہ رہے گی،مگر جب انسانی لاشوں پر بھی سیاست کی کوشش کار فرما دکھائی دیتی ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ آج جب ہم ملک کی جمہوریت بچانے کی بات کرتے ہیں۔ سیکولرزم کو بچانے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ہندوستان کے تمام سیکولر ذہن رکھنے والے اور سیکولر سمجھی جانے والی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آج جب کہ سیکولر سیاسی جماعتیں زبر دست بکھراوکاشکار ہیں تو ان کے اتحاد کے ساتھ ساتھ کانگریس کے اتحاد کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔
اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ سردست فرقہ پرست طاقتوں کو بے دخل کرنے کے لئے انہیں شکست دینے کے لئے کانگریس کی بھی ضرورت ہے۔ مگر کانگریس کے ماضی کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر کانگریس کی پانہ میں جانے کا فیصلہ کر لیا گیاتو یہ ایک تاریخی غلطی ہوگی۔ کانگریس اگر مسلمانوں پر ہزاروں ظلم کرنے کے بعد صرف اس موقع پر فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتی ہے تو اس سے اس کی نیت کو ٹھیک نہیں کہا جا سکتا۔ اگر کانگریس کے ذہن میں یہ ہے کہ گجرات میں ظلم و ستم کا شکار مسلمان اب کوئی راستہ نہ دیکھ کر واپس اس کی پناہ میں آئے گا ہی اور وہ ان تمام زخموں کی بھلادے گا جو اسے کانگریس کے ذریعہ دئے گئے ہیں تو غلط ہے۔
کانگریس کو اگر مسلمانوں سے ہمدردی ہے تو موقع کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کرے۔ گجرات کے حالات پر مرثیہ خوانی کرنے سے پہلے اپنے دور اقتدار میں کئے گئے ایسے ہی ظلموں کے لئے معافی مانگے۔ مستقبل میں ایسا کوئی بھی ظلم نہ کرنے کا وعدہ کرے۔ مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو محفوظ رہے گی، ان کااستعمال صرف اور صرف سیاست کے لئے رنہیں ہوگا اس ک یقین دہانی کرے۔ تب سامنے آئے ورنہ گھڑیال آنسو نہ بہائے۔تقسیم وطن کے بعد مسلمانوں کے سینے پر جو پہلا زخم لگا اس کے لئے کانگریس ہی ذمہ دار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جو ملک کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کے جیسا تھا اور سمجھا بھی یہی جاتا ہے کہ لال کرشن اڈوانی، سردار پٹیل کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔
مگر اس وقت ملک کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے، اٹل بہاری واجپئی نہیں۔ سرکار کانگریس کی تھی ہندوستان میں جو مسلمان رہ گیاتھا اس نے کانگریس پر بھروسہ کیاتھا، اگر اس نے مسلم لیگ پر بھروسہ کیاہوتا ، پنڈت نہرو کے مقابلے محمد علی جناح پر بھروسہ کیا ہوتا تو پاکستان چلاگیا ہوتا۔ اسے پنڈت نہرو اور کانگریس پر بھروسہ کا یہ صلہ ملا کہ دہلی میں پنڈت جواہر لال نہرو کی ناک کے نیچے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، ان کے گھروں اور کارو بار کو تباہ کر دیا گیا، انہیں چن چن کر مارا گیا جایس کہ آج گجرات میں ہو رہاہے۔ آج کی تلخ حقیقت کو میں نے دیکھا ہے اور لکھ رہا ہوں۔ اس وقت ک سچائی بیان کی ہے۔ عینی شاہد مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب India wins freedom میں اور صاف صاف لکھا ہے کہ جب انہوں کے چن چن کر قتل کئے جانے کی داستان مہا تما گاندھی کو سنائی تو پنڈت نہرو کی طرف دیکھا۔
سردار پٹیل نے کہا کہ حالات نارمل ہےں۔ دنگوں پر قابو پالیا گیاہے اور پنڈت نہرو نے خاموش رہ کر سردار پٹیل کی بات کی تائید کی جب کہ وہ سارے کاسارا سچ جانتے تھے۔ مہاتما گاندھی نے مولانا آزاد کی بات کا بھروسہ کیا۔ مسلمانوں کو پھر سے بسانے کے لئے بھوک ہڑتال کی اور جب ہندووں نے مسلمانوں کو واپس بسانے کا عزم کیاتبھی انہوں نے اپنا ان شن توڑ دیا کیا فرق رہ گیا آج کے لال کرشن اڈوانی اور اٹل بہاری واجپئی کے کردار میں اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعلظم سردار پٹیل اور پنڈت نہرو کے کردار میں؟
کانگریس کے دور اقتدار میں شروع ہوا مسلمانوں پر ظلم کا یہ سلسلہ اس کے بعد بھی مسلسل جاری رہا اور آج جو گجرات میں ہو رہاہے جس کے پس منظر میں اجودھیا تنازع ہے وہ بھی کانگرریس کی ہی دین ہے۔ 1949 میں مورتیاں رکھی گئیں کانگریس کے دور اقتدار میں وزیر اعظم پنڈت نہرو، بابری مسجد کاتالا کھلا کانگریس کے دور اقتدار میں ، جج کرشن موہن پانڈے، وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ، وزیر اعظم راجیو گاندھی، شلانیاس ہوا کانگریس کے دور اقتدار میں وزیر اعلیٰ نرائن دت تیواری، وزیر اعظم راجیو گاندھی، بابری مسجد شہید ہوئی، مرکز میں کانگریس کے دور اقتدار میں، وزیر اعظم نرسمہاراو ¿ 1987 میں میرٹھ میں ایک لائن میں کھرا کرکے مسلمانوں کو پی اے سی کے ذریعہ گولی سے اڑایا گیا کانگریس کے دور اقتدار میں، ممبئی فسادات میں شیو سینا کے غنڈوں نے چن چن کر مسلمانوں کو قتل کیا، ان کے کاروبار تباہ کئے کانگریس کے درو اقتدار میں، فہرست بہت طویل ہے جب کہ جگہ بہت کم، پھر بھی اگریس کانگریس مسلمان کے اور پر مسلمان کانگریس کے ساتھ کے بارے میں سوچیں تو پہلے بہت کچھ طے کرنا ہوگا، ورنہ جلد بازی اور ناسمجھی میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم مسلمانوں کے لئے گجرات سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوگا۔ موقع پرست کانگریس کے ذریعہ ڈیوٹی پر لگائے گئے مسلم سیاست داں و دیگر حضرات اپنا مستقبل سنوانے کی کوشش میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچیں پھر کوئی قدم اٹھائیں ورنہ اس قوم کی تباہی کے ذمہ دار وہ ہوں اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

































































No comments: