اس بار 100ویں قسط مکمل ہونے پر کوئی اہتمام نہیں اور 101ویں قسط کے لئے کوئی نیا عنوان بھی نہیں ۔مجھے یاد ہے کہ ’’مسلمانان ِ ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘، پھر اس کے بعد ’’داستان ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100قسطیں مکمل ہو جانے کے بعد جب ’’آزاد بھارت کا اتہاس‘‘ کے عنوان کے تحت زیرنظر قسط وار مضامین کا ایک اور سلسلہ شروع کیا تو اسی وقت یہ تحریر کر دیا تھا کہ اب یہ سلسلہ سو قسطوں پر مکمل نہیں ہوگا بلکہ اگر زندگی بخیر رہی تو 1000یا اس کے بعد تک بھی جائے گا،اس لئے کہ اب میرے قارئین بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ میں جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں، یہ اگر آزاد ہندوستان کی تاریخ نہیں تو کم سے کم اس دور کی سچائی تو ضرور ہے ۔کوئی تاریخ داں جب بھی باقاعدہ اس دور کی تاریخ قلم بند کرے گا تو یہ مضامین آج کی صورت حال کو سمجھنے میں اس کے لئے معاون ہوںگے۔گزشتہ کئی روز سے میں خواتین ریزرویشن بل پر لکھ رہا تھا اور کم از کم 100ویں قسط تک اسے جاری رکھنا چاہتا تھا۔01ویں قسط کا آغاز میں سعودی عرب میں کچھ پریشان حال ہندوستانیوں کی داستان سے کرنا چاہتا تھا،مگر آج صبح جب نیند سے بیدار ہوا تو مسلسل اس طرح کے ایس ایم ایس اور ٹیلی فون موصول ہونا شروع ہوئے کہ بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں مارے گئے عاطف اور ساجد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے ،لہٰذا میں پھر اپنے پرانے مضامین کی فائل کھول کر بیٹھ گیا اور ضروری لگا کہ ایک بار پھر میں ان تحریروں کے تراشے قارئین کی خدمت میں پیش کر دوں تاکہ سند رہے کہ جن خدشات کا اشارہ ہم نے حادثے کے فوراً بعد ہی دے دیا تھا ،آج پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی وہی کہہ رہی ہے ۔ اب مجھے اس بات کا بھی شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کیوں میرے قارئین ان مضامین کو کتابی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب انھیں سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے ،آخر ان تراشوں کو کب تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے ۔لہٰذا عنقریب ممکن ہے کہ قارئین کے اصرار کا احترام کرتے ہوئے گزشتہ تمام مضامین کو کتابی شکل بھی دے دی جائے ۔انکائونٹر بٹلہ ہائوس کی حقیقت کیا ہے؟ اب یہ کوئی معمہ نہیں ،یہ الگ بات ہے کہ اسے پیچیدہ بنانے کی مسلسل کوشش کی گئی ۔آخر کیوں حکومت ہند اس کی سچائی کو سامنے نہیں لانا چاہتی؟کیوں اسے لگتا ہے کہ اس کی سی بی آئی انکوائری سے ہماری پولس فورس کی حوصلہ شکنی ہوگی؟کیا پولس اور فوج میں انسان نہیں ہیں؟ کیا ان سے جانے انجانے کوئی غلطی سر زد نہیں ہو سکتی اور کیا کسی ایک کی غلطی کو پورے محکمے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان مانا جا سکتا ہے؟نہیں ! قطعاً نہیں ۔اب جبکہ بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں مارے گئے عاطف اور ساجد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے اور کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ جی خصوصی عدالت قائم کرنے کے مطالبے پر غور کرنے کی بات کہہ رہے ہیں ۔انہوں نے بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے بعد دو مفرور ملزمین کے افراد خانہ کے ہمراہ وزیر داخلہ پی چدمبرم سے ملاقات بھی کی ہے ۔تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ ایک بار پھر اٹھ گیا ہے اور اس بار مکمل حقائق منظر عام پر آئیں گے ہی۔ عین ممکن ہے کہ اب حقوق انسانی کمیشن بھی غور کرنے پر مجبور ہو کہ آخر اس نے جو رپورٹ دی تھی ،کیا اسے یہ رپورٹ دینا چاہئے تھی۔یا پھر حقوق انسانی کمیشن کے چیئر مین اب اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ممکن ہے پہلے کی طرح ہمیں اس بار بھی اس موضوع پر دیر تک لکھنے کی ضرورت پیش آئے ،لیکن ہم چاہتے ہیں کہ پہلے وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کر دی جائے جو اب منظر عام پر آگئی ہے اور ساتھ ہی اپنی فائل سے ان مضامین کے تراشے بھی جن میں ہم نے بٹلہ ہائوس انکائونٹر پر سوالیہ نشان لگائے تھے ۔عاطف اور ساجد کی وہ تصاویر بھی شائع کی تھیں، جن میں ان کے زخموں کے نشان چیخ چیخ کر پولس زیادتی کو بے نقاب کر رہے تھے۔بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں عاطف اور ساجد پولس زیادتیوں کے شکار ہوئے: پوسٹ مارٹم رپورٹبٹلہ ہائوس انکائونٹر میں مبینہ دہشت گرد عاطف امین اور محمد ساجد پولس کی زیادتیوں کا شکار ہوئے تھے۔ یہ واضح کیاہے ان دونوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نے: رپورٹ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ عاطف اور ساجد کے جسم پر گولیوں کے زخموں کے علاوہ مارپیٹ کے بھی نشانات تھے۔ یہ دعویٰ عاطف اور ساجد کے ان رشتہ داروں نے بھی کیا تھا، جنہوں نے دونوں کو تدفین سے قبل غسل دیا تھا۔ یہاں پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولس کے مطابق جب یہ اصل مڈبھیڑ تھی تو پھر عاطف اور ساجد کے ساتھ مارپیٹ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ یہی سوال Two Circles.netویب سائٹ نے بھی اپنے ایک مضمون میں اٹھایا ہے۔ ویب سائٹ پر پوسٹ مارٹم رپورٹ کا عکس بھی شائع کیا گیا ہے۔ویب سائٹ پر شائع اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عاطف اور ساجد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھے کہ نہیں، یہ فیصلہ تو عدالت کرے گی، لیکن (ستمبر 2008)بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی اصلیت پر پہلے ہی دن سے مختلف گوشوں سے شک وشبہ ظاہرکیا جارہا ہے اور اس پر بحث کی جاتی رہی ہے۔ عاطف اور ساجد کے جسموں پر گولیوں کے علاوہ دیگر زخموں کے نشانات اور رشتہ داروں و دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے پیش کردہ ثبوت وشواہد اس بات کی طرف صاف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ مڈبھیڑ فرضی تھی۔انکائونٹر کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے جب پوسٹ مارٹم کی رپورٹ عام کی گئی ہے، جس کے لئے شکریہ کے حقدار ہیں آر ٹی آئی کارکن افروزعالم ساحل جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم ہیں اور ان کی انتھک کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل ہوسکی۔ افروز عالم نے اس رپورٹ کے لئے دہلی پولس، ایمس اسپتال، سینٹرل انفارمیشن کمیشن اور قومی حقوق انسانی کمیشن کے دروازے کھٹکھٹائے، لیکن انہیں ہر بار کسی نہ کسی بہانے سے واپس لوٹایا جاتا رہا، لیکن آخر کار حقوق انسانی کمیشن نے انہیں آر ٹی آئی کے تحت پوسٹ مارٹم رپورٹ مہیا کرادی۔$عاطف امین کی چار صفحات پر مشتمل پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ متعدد زخموں سے خون کے بہائو اور درد کی وجہ سے موت ہوئی، سبھی زخم آتشی اسلحوں یعنی بندوق کی گولی کے ہیں، جبکہ زخم نمبر 7جسم کی اوپری سطح پر ہے، جو کسی چیز سے مارنے یا رگڑنے کی وجہ سے ہے۔ 24سالہ عاطف امین کے جسم پر زخموں کے کل 21نشانات ہیں، جو موت سے پہلے کے ہیں اوران 21میں سے 16زخم بندوق کی گولیوں کے ہیں۔ زخم نمبرکی تفصیلات بتاتے ہوئے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے، مگر ’’پیر کے گھٹنے پر.5x1سینٹی میٹر کی خراش ہے جس کا رنگ سرخ اور بادامی ہے۔‘‘اسی طرح محمد ساجد جس کے سر کے اوپری حصے پر گولیوں کے پانچ سوراخ ہیں۔ چار صفحات پر مشتمل اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ سر میں گولی مارنے کی و جہ سے ہوئی، بتایا گیا ہے۔‘‘ساجد کے جسم پر زخموں کے 14نشانات ہیں۔ ایک سے 12نمبر تک کے زخم بندوق کی گولیوں کے ہیں، جبکہ3اور 14نمبر کے زخم کسی شے یا زمین پر زوردار ٹکر کے سبب ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ سبھی زخم موت سے پہلے کے ہیں۔ زخم نمبر3کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے کہ’’ 4x2سینٹی میٹر کی خراش، جس کا رنگ سرخ ہے اور پیٹھ کے درمیان ہے‘‘ اور زخم نمبر 14جو 3.5x2سینٹی میٹر کی خراش ہے جو داہنے پیر کے سامنے والے حصہ میں گھٹنے کے پاس ہے۔دو صفحات کی انسپکٹر موہن چند شرما کی رپورٹ میں جن کو مڈبھیڑ کے دوران گولی لگی تھی، ان کی موت کی وجہ بندوق کی گولی سے پیٹ میں ہوئے زخم کے سبب بہت زیادہ خون بہنے سے بتائی گئی ہے۔انسپکٹر شرما کو لگی قبل از مرگ چوٹوں کے بارے میں رپورٹ واضح طور پر بتاتی ہے کہ بائیں کاندھے پر اور بائیں بازو کے اوپری حصہ پر داخلی زخم کی جانچ اور صفائی کی گئی ۔ اسی طرح بائیں ہاتھ پر اور بائیں کاندھے سے 10سینٹی میٹر نیچے اور کہنی کے جوڑ سے 8سینٹی میٹر اوپر خارجی زخم کی جانچ اور صفائی کی گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق انسپکٹر شرما 19/09/2008کو جامعہ نگر میں پولس انکائونٹر میں ہوئی جوابی گولی باری میں زخمی ہوئے ہےں۔ ان کو ہولی فیملی اسپتال لے جایا گیا، جہاں اسی دن شام کو 7بجے ان کی موت ہوگئی۔مسلمانان ہند…ماضی، حال اور مستقبل 25-09-2008)گولےوں کی سمت مڈبھےڑ پر لگاتی ہے سوالےہ نشان عزےز برنی(قسط نمبر0)انسپکٹر موہن چند شرما کی وہ تصویر جس میں آپریشن بٹلہ ہاؤس کے دوران گولی لگنے کے فوراً بعد انہیں ان کے دو ساتھی پیدل چلا کر سہارا دیتے ہوئے گاڑی تک لے جارہے ہیں، صرف ہندوستان ٹائمز اور ہم نے شائع کی۔اس کے بعد کل ہم نے انکاؤنٹر میں مارے گئے ساجد کی وہ تصویر شائع کی، جس میں اس کے سر، کندھے اور سینے پر لگی گولیوں کے نشان صاف نظر آرہے ہیں۔ آج یہی تصویر ایک بار پھر ہم نئے زاوےے سے شامل اشاعت کررہے ہیں جس میں گولی لگنے کی سمت دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ یہ تمام گولیاں اوپر سے نیچے کی جانب جسم میں پیوست ہوئی ہیں یعنی جس نے گولی چلائی وہ گولی لگنے والے سے اوپر تھا۔ اگر ہمارا یہ قیاس صحیح ہے تو اسے آمنے سامنے کی مڈبھیڑ نہیں کہا جاسکتا۔ جیسا کہ ہم نے کل بھی عرض کیا تھا اور آج بھی یہ بات دہرا رہے ہیں کہ ہم اس کیس کو گہرائی سے سمجھنے کے لئے ماہرین سے مشورہ کررہے ہیں۔ کل کی اشاعت میں ہم نے مشہور سرجن ڈاکٹر اے آر اندرے کی رائے شامل کی تھی اور آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن انتہائی حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارا قومی میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اس طرف اتنی توجہ نہیں دے رہا ہے جبکہ شہید انسپکٹر موہن چند شرما کی شائع تصویر اور انکاؤنٹر میں مارے گئے ساجد کی مذکورہ بالا تصویر اس کیس کی دو انتہائی اہم کڑیاں ہیں۔ ہمارے جس الیکٹرونک میڈیا کی نظر اس قدر پینی ہے کہ 13ستمبر کو بم دھماکوں کے پہلے اور بعد کے 3گھنٹوں میں وزیرداخلہ شیوراج پاٹل نے کل کتنے سوٹ بدلے، کس موقع پر کون سے رنگ کا سوٹ زیب تن کیا، اسے بریکنگ نیوز بناکر پیش کیا(ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں)، ناظرین کی آراء طلب کیں، نتیجے کا اعلان کیا، 97%ناظرین شیوراج پاٹل کو وزیرداخلہ نہیں دیکھنا چاہتے اور اس بنیاد پر ان کا استعفیٰ طلب کیا، وہ الیکٹرانک میڈیا شہید انسپکٹر موہن چند شرما کی موت کی سچائی جاننے کے لئے بے قرار نظر کیوں نہیں آیا؟ اسی طرح ساجد کی اس تصویر سے یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ گولیاں کس زاوےے سے چلائی گئیں ا ور کتنے فاصلے سے۔ یہ بھی موضوع بحث نہیں بنا۔ قومی میڈیا تصور کئے جانے والا الیکٹرانک میڈیا پولس کے ذریعہ دی گئی اطلاعات کو بھی بریکنگ نیوز کے تحت سنسنی خیز انداز میں پیش کرتا رہا۔ کیا اسے اس کے فرض کی ادائیگی سمجھا جاسکتا ہے؟ بہرحال روزنامہ راشٹریہ سہارا اس کیس کی تہہ تک جاکر تمام سچائیوں کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس تعلق سے آج کی بحث انکاؤنٹر میں ہلاک مبینہ دہشت گرد ساجد کو لگی گولیوں پر مبنی ہے
Thursday, March 18, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 comment:
میرا شہر لوگاں سے معمور کر !: بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر - پوسٹ مارٹم رپورٹ !!
Post a Comment