Monday, February 15, 2010

پنے دھماکہ! کیا توجہ ہٹانے کی سازش؟

کل کی تحریر میں، میں نے اپنے ایسے چند مضامین کے عنوانات تاریخ وار بیورے کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کےے تھے، جو میں نے 26نومبر2008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے بعد اور اس کے چند روز پہلے جب ہیمنت کرکرے مالیگاوں بم بلاسٹ کی تحقیقات کے ذریعہ تقریباً ہر روز ایسے دہشت گردوں کے نام اور چہرے بے نقاب کررہے تھے، جن کا قیاس اس سے پہلے نہیں کیا جاتا تھا۔ ساتھ ہی ہندوستان میں فرقہ پرست تنظیموں کی کارکردگیوں پر بھی میں اس دوران اپنے مضامین کے ذریعہ روشنی ڈال رہا تھا۔ ظاہر ہے کوشش تھی یہ واضح کردینا کہ ہیمنت کرکرے اپنی تفتیش کی معرفت جو کچھ سامنے لارہے ہیں، دراصل وہ ذہنیت بہت پہلے سے کارفرما تھی۔ ہاں، بس ہمارے کسی خفیہ آفیسر نے پوری ایمانداری کے ساتھ اسے منظرعام پر لایا نہیں تھا۔ اب جبکہ میں نے 26/11کے موضوع پر لکھنے کے لےے پھر سے قلم اٹھایا تو مجھے ضروری لگا کہ وہ پس منظر بھی سامنے رکھنا بیحد ضروری ہے، ملک جن حالات سے اس دوران گزر رہا تھا، کیوں کہ اس دہشت گردانہ حملہ میں سب سے پہلے ہیمنت کرکرے، اشوک کامٹے اور وجئے سالسکر شہید ہوئے تو پیچھے مڑ کر یہ دیکھنا بھی ضروری محسوس ہوا کہ ہیمنت کرکرے اس وقت کس طرح کے حالات کا سامنا کررہے تھے، لہٰذا میں اپنی آج کی تحریر میں اپنے پچھلے دو مضامین کے تراشے شامل اشاعت کرنے جارہا ہوں، جو میں نے اپنے پچھلے قسط وار مضمون ”مسلمانان ہند.... ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟“ کی 86اور87ویں قسط میں ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے محض دو روز بعد، جبکہ یہ حملہ جاری تھا، یعنی28-30نومبر2008کو لکھے اور اس کے اگلے دن یعنی29نومبراور یکم دسمبر کو شائع کےے گئے، جن سے واضح ہوجائے گا کہ اس دوران شہید ہیمنت کرکرے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، تاہم قبل اس کے کہ میں اسی سمت میں اپنے مضمون کو آگے بڑھاوں اور یہ تراشے پیش کروں، تازہ واقعات پر بھی ایک نظر ڈالنی ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا تھا کہ ”ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے“۔ اس جملہ میں ایک فیصلہ کن عزم تھا۔ دراصل ہم حکومت ہند کو یہ باورکرانا چاہتے تھے کہ پاکستان سے جنگ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، اگر کسی بھی ملک کو دہشت گردانہ واقعات کے بعد حملہ کرکے تباہ کردیا جانا ہی دہشت گردی پر قابو پانے کا واحد راستہ ہوتا تو امریکہ، افغانستان اور عراق کو تباہ کرنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں خود کو فاتح قرار دے دیتا، اپنی فوجیں واپس بلا لیتا اور یہ اعلان کردیتا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔ دہشت گردوں کے تمام اڈے تباہ کردئےے ہیں۔ اب امریکہ ہی نہیں، پوری دنیا کو چین کی سانس لینے کا موقع ملے گا، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ متواتر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کی بات کررہا ہے، یعنی وہ ابھی تک افغانستان اور عراق کے خلاف طویل جنگ کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہے، جو اس بات کا اعتراف ہے کہ جنگوں کے بعد بھی دہشت گردی جاری ہے، پھر بھی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ اب پاکستان کو جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔ ایک طرف پاکستان خود دہشت گردانہ حملوں سے تباہ ہورہا ہے تو دوسری طرف امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان پاکستان پر حملہ کرے اور اسے پوری طرح تباہ کردے، تاکہ اس خطہ میں جنگ اور بدامنی کا ماحول اور بھی زیادہ شدت اختیار کرلے۔ اس کی یہ منشا جگ ظاہر ہے، وہ کھلے عام ہندوستان کے حکمرانوں سے ایسا کہتا رہا ہے۔ یہ تو وہ باتیں تھیں، جنہیں آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ حالات حاضرہ سے واقف رہیں اور اب اگلی بات میں آپ کی خدمت میں عرض کرنے جارہا ہوں، آپ کا ذہن اس کو سننے اور سمجھنے کے لےے تیار ہوجائے۔ یہ آپ کے علم میں ہے کہ 26نومبر2008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے تعلق سے انکشافات کی پرتیں اب کھلنے لگی ہیں۔ نومبر-دسمبر2008میں تو ہم نے اتنا ہی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بات صرف ان 10دہشت گردوں تک محدود نہیں ہے، جن کو بار بار سامنے رکھ کر اس فائل کو بند کردینے کی کوشش کی جارہی ہے، بلکہ سازش بہت گہری ہے۔ ہمیں نہ اس وقت پاکستان سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ آج پاکستان سے کوئی ہمدردی ہے، ہمیں فکر ہے تو اپنے ملک کی، اپنے عوام کی۔ اگر ہم دہشت گردی کے واقعات کی تہہ تک نہیں پہنچیں گے، اصل مجرموں تک نہیں پہنچیں گے تو دہشت گردی پر قابو پانا ہمارے لےے مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہوگا، جبکہ ہمیں ہر حال میں اسے ممکن بنانا ہے۔ ہماری تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ جو خدشات ہم نے اس وقت سامنے رکھے تھے، جو اشارے اس وقت ہم نے کےے تھے، اب وہ سچائیاں سامنے آنے لگی ہیں۔ ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے سلسلہ میں ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی گرفتاری، ایف بی آئی سے اس کا تعلق، تہورحسین رانا اور ڈیوڈ ہیڈلی کے ایک ہی ہفتہ میں پاسپورٹ بنائے جانے کا معاملہ، ہیڈلی کا امریکی شہری کی حیثیت سے فرضی ولدیت کے ساتھ امریکہ کی جانکاری میں بار بار ہندوستان کا دورہ کرنا، اس کے ہند-پاک دوروں کے آس پاس ہندوستان اور پاکستان میں بم دھماکوں کا ہونا، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا امریکہ خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے لےے کام کرنے کا انکشاف ہونا، ہیڈلی سے پوچھ گچھ کے معاملہ میں امریکہ افسران کا ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہ کرنا، اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ’کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے‘۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ ہندوستان کے خفیہ محکمہ کے افسران کو وہ مواقع فراہم کرے، جس سے کہ وہ ان حملوں کی حقیقت تک پہنچ سکیں۔ اس لےے اس نے مکمل انتظام کرلیا ہے کہ ہیڈلی پر امریکہ میں اتنے لمبے عرصہ تک مقدمہ چلے گا کہ ہندوستان کو اس سے بات چیت کرنے اور ان دہشت گردانہ حملوں میں اس کے کردار اور امریکہ خفیہ ایجنسی کا اگر کوئی تعلق ہے تو اس حقیقت کو جاننے کا موقع نہ ملے۔ ساتھ ہی امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان پاکستان پر حملہ کردے، تاکہ پوری دنیا پر واضح ہوجائے کہ ہندوستان پر اس دہشت گردانہ حملہ کے پیچھے پاکستان اور اس کی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ تھا۔ اب اسے نئے نئے انکشافات کے سامنے آنے کی وجہ کہئے یا پھر ہندوستان کے سب سے مقبول اردو روزنامہ ”راشٹریہ سہارا“ کی مسلسل تحریک کا نتیجہ کہئے کہ امریکہ ابھی تک اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوا۔ میں نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کا نام لے کر صاف طور پر ذکر اس لےے کیا کہ آج یہ اخبار ہندوستان کے ایک بہت بڑے طبقہ کے جذبات کی نمائندگی کرتا ہے، یہ بات حکومت ہند بھی جانتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ امریکی حکومت بھی جانتی ہے، لہٰذا ہند-پاک کے درمیان جنگ تو نہیں ہوئی، جس سے کہ 26/11کے دہشت گردانہ حملوں اور اس سلسلہ میں ہونے والی تفتیش سے توجہ ہٹ پاتی، مگر ایک اور دہشت گردانہ حملہ پنے میں ضرور ہوگیا۔ نہیں میں اسے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں سے لنک نہیں کررہا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں کہہ رہا ہوں کہ توجہ کو دوسری طرف موڑنے کی یہ ایک سازش بھی ہوسکتی ہے۔ کیا ہوسکتا ہے اور کیا نہیں ہوسکتا، یہ جاننے کی کوشش کرنا اور اسے منظرعام پر لانا ہماری خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے، جو انہیں ہی کرنا ہے اور وہ کربھی رہی ہوں گی۔ ہاں،مگر ایک ذمہ دار شہری کے ناطے ہماری فکر بھی اپنی جگہ واجب ہے۔ اس وقت اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ دہشت گردوں نے پنے میں ایسی جگہ کو کیوں منتخب کیا، جہاں غیرملکیوں کی ہلاکتیں بھی یقینی تھیں تو اسے قطعاً غیرضروری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیا دہشت گرد چاہتے تھے کہ ہندوستان میں ایسا دہشت گردانہ حملہ ہو، جس میں کچھ غیرملکی بھی مارے جائیں، تاکہ امریکہ کو پھر سے دہشت گردی کے تعلق سے بولنے کا جواز حاصل ہو، اسے یہ موقع ملے کہ ہندوستانی حکومت پر اپنی سوچ کے نفاذ کے لےے دباﺅ ڈالے، اگر ایسا ہے تو دہشت گردوں کی یہ منشا کس کے لےے اور کیوں ہوسکتی ہے؟ یہ جاننا اور سمجھنا بھی ضروری ہے۔اس دہشت گردانہ حملے میں امونیم نائٹریٹ کا استعمال کیا گیا، میرے ہاتھ میں اس وقت ان خبروں کے تراشے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں امونیم نائٹریٹ اور دہشت گردی کے لےے استعمال ہونے والا دیگر مادّہ کب کب، کہاں کہاں سے، کس کس کے پاس برآمد ہوا۔ یہ تفصیل اور اس ضمن میں گفتگو کا سلسلہ کل بھی جاری رہے گا، لیکن میں نے اپنے مضمون کی ابتدا میں چونکہ ہیمنت کرکرے کو ملنے والی موت کی دھمکیوں کے تعلق سے اپنے جن مضامین کا حوالہ دیا تھا، ان کی چند سطریں بھی پیش کرنا ضروری ہیں اور آگے بھی یہ سلسلہ کچھ اسی طرح چلے گا کہ بات کچھ حالات حاضرہ پر ہوگی اور کچھ ماضی کا وہ پس منظر بھی ہم سامنے رکھتے چلیں گے، تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ آج جو ہورہا ہے، کیا اس کا تعلق اس سے بھی ہے، جو کل ہوا تھا؟ شاید یہ ہمارے آنے والے کل کو بہتر بنانے میں کارگر ثابت ہو۔ اب وہ تراشے:

قسط-86، 29.11.2008
مالیگاوں بم دھماکوں کی تفتیش اور ممبئی دہشت گردانہ حملوں کا کیا کوئی تعلق ہے؟اس حقیقت کا پتہ لگانا ضروری ہے
-پولس نے اس بات کی تصدےق کردی ہے کہ چےف کے گھر کو اڑانے کی دھمکی ملی ہے۔پُنے : اےک نامعلوم کالر (فون کرنے والے)، جس نے پُنے پولس سے رابطہ قائم کرنے کے لےے PCO کا استعمال کےا، ممبئی اے ٹی اےس چےف کے گھر کو ”اگلے چند دنوں مےں“ اڑانے کی دھمکی دی تھی۔ اس بات کی تصدےق اےک سینئر پولس افسر نے کی ہے۔فون کرنے والا مراٹھی زبان مےں بات کر رہا تھا اور اس نے 24 نومبر کی شام کو ےہ دھمکی دےنے کے بعد فون کاٹ دےا تھا۔ جوائنٹ کمشنر آف پولس، راجندر سوناونے نے اس بات کی تصدےق کی۔ بعد مےں پولس کمشنر نے ےہ بھی بتاےا کہ پولس نے فون بوتھ کا پتہ لگاےا تو ےہ اسی شہر کا نکلا۔ان سے جب ےہ پوچھا گےا کہ کےا ےہ اےک ’فرضی کال‘ تھا، سوناونے نے بتاےا کہ موجودہ صورت حال کے مد نظر پولس اس قسم کی تمام کال کو سنجےدگی سے لے رہی ہے اور ATS کو اس کے بارے مےں اطلاع دے دی گئی تھی۔اے ٹی اےس چےف کو دھمکی بھرا فون : مجرم کا پتہ لگانے کے لےے جانچ شروع کی گئی تھی28 نومبرکو پنے پولس نے اس نامعلوم فرد کی کھوج بےن شروع کردی تھی، جس نے اے ٹی اےس چےف، ہےمنت کرکرے کے گھر کو اڑانے کی دھمکی ٹےلی فون کال کے ذرےعے 24نومبر کو پولس کنٹرول روم کو دی تھی۔کرکرے کو اےک دہشت گردانہ حملے مےں ممبئی مےں قتل کر دےا گےا۔جوائنٹ کمشنر آف پولس راجندر سوناونے (لاء اےنڈ آرڈر) نے بتاےا کہ اےک نامعلوم شخص نے 5।20 بجے شام کو کنٹرول روم کو فون کرکے کرکرے کو دو تےن دن کے اندر جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ سوناونے نے بتاےا کہ فون کرنے والا مراٹھی زبان مےں بات کر رہا تھا اور اس نے فوراً ہی فون کاٹ دےا۔تحقےقات سے پتہ چلا ہے کہ ےہ کال فون نمبر 24231375 سے کی گئی تھی، جو کہ سہاکارنگر کے اےک پی سی او بوتھ کا ہے۔ یہ بوتھ کانا رام چودھری کا ہے جوسہاکارنگر کی سارنگ سوسائٹی مےں کوہِ نور نام سے اےک جنرل اسٹور کی دکان چلاتا ہے۔ دتاوڑی پولس اسٹےشن کے سےنئر پولس انسپکٹر اُتم مورے نے بتاےا کہ چودھری کے خلاف دستورِ ہند کے سےکشن 188 کے تحت (پولس کی بات نہ ماننے پر) اےک معاملہ درج کر لےا گےا تھا۔ سٹی کنٹرول روم کی ہداےت ملنے پر اس بابت معاملہ درج کےا گےا تھا۔

قسط-87، 01.12.2008

کرکرے کے بعد بھی کیا بے نقاب ہوپائیں گے سفید پوش دہشت گرد؟کرکرے اڈوانی کے الزام سے صدمے میں تھے: جولیوربیرو

ہےمنت کرکرے گزشتہ منگل کو مجھ سے ملاقات کے لئے آئے تھے۔ایل کے اڈوانی کے اس الزام نے انہےں کافی صدمہ سے دوچارکیا کہ ان کی قیادت میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) مالیگاﺅں بم بلاسٹ کےس میں سیاسی اثر اورغیر پےشہ ورانہ انداز میں کام کررہا ہے۔ انہوںنے وضاحت کی کہ اے ٹی ایس نے سادھوی پرگیہ سنگھ کے خلاف ٹھوس اور پختہ ثبوت اکٹھا کئے ہےں اور تحقیقات کا میابی سے ہم کنار ہے۔اڈوانی جیسے سینئر اور تجربہ کار سیاستداں کے ہندوتو کے علمبردار بننے والوں کے ساتھ مل کرالزام لگانے نے انہیں حیرت زدہ کردیا تھا۔

No comments: