Thursday, February 18, 2010

اگر یہ ہندوستان میں9/11پلان کررہے ہوں تو....

2008 ,, 26نومبر
ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ سے اگر دہشت گردوں کی منشا کچھ اور بھی رہی ہوتی یا پھر ہم اس کے اور بھی زیادہ خطرناک نتائج کو سامنے رکھ کر اس حملہ پر غور کریں تو ہندوستان میں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات کا دور شروع ہوگیا ہوتا تو........ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہوتی تو........میں نے ہر بار لفظ ’تو‘ کے بعد جملہ ادھورا چھوڑ دیا، اس لےے کہ قارئین بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں ’توکیا ہوتا؟‘۔ مالیگاوں بم بلاسٹ کی تفتیش کے دوران شہید ہیمنت کرکرے جو نئے نئے انکشافات سامنے لارہے تھے، جس طرح انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں اور جس طرح اس دہشت گردانہ حملہ کے شروعاتی دور میں ہی ان کی شہادت عمل میں آئی، اگر ہم ہندوستانیوں نے صبروتحمل، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن پسندی سے کام نہ لیا ہوتا تو ہندوستان کو ایک بار پھر انتہائی افسوسناک حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا، جیسا کہ 6دسمبر1992 کے بعد پورے ملک میں یا 27فروری 2002کو سابرمتی ایکسپریس حادثہ کے بعد گجرات میں ہوا تھا۔
اگر ممبئی پر ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ میں ملوث مسلم ناموں کو سامنے رکھ کر اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک کو کس قدر خون خرابہ کا سامنا کرنا پڑا ہوتا۔ بیشک مبارکباد کے مستحق ہیں ہندوستان کے عوام ہندو بھی، مسلمان بھی، ذرائع ابلاغ بھی، حکومت ہند بھی، حزب اختلاف بھی کہ اس دہشت گردانہ حملہ کے بعد اور جو بھی باتیں ہوئی ہوں، کم ازکم ایسی باتیں کسی طرف سے بھی نہیں ہوئیں کہ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا ہوتا۔ یہ انتہائی دانشمندانہ قدم تھا، جس کے لےے بار بار مبارکباد دینے کو دل چاہتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ تفتیش کے دوران کن پہلووں کو سامنے رکھا گیا، کن کو چھوڑ دیا گیا اور ابھی کن کن رازوں سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ اس دہشت گردانہ حملہ میں اور کون کون ملوث ہوسکتے ہیں، اس موضوع پر بات پھر کبھی، تفتیش کا کام جاری ہے۔ حقیقت ایک روزبے نقاب ہوگی ہی، کچھ نئے چہرے سامنے آچکے ہیں جو بچ گئے ہیں، دیر سویر وہ بھی آئےں گے ہی۔ سب سے بڑی اور پہلی ضرورت تو یہی تھی کہ اس افسوسناک دہشت گردانہ حملہ کے بعد ہمارے ملک کا امن اور بھائی چارہ کیسے قائم رہے.... اور خدا کا شکر ہے کہ وہ بچا رہا۔
دوسری بات اگر اس دہشت گردانہ حملہ کے ردعمل میں ہند-پاک جنگ چھڑ جاتی تو پھر نہ ’ہیڈلی‘ کا نام سامنے آتا، نہ تہورحسین رانا کا، نہ ایف بی آئی کا اور ان تمام رازوں پر پردہ پڑا ہی رہتاجو کھل گئے، کھل رہے ہیںیا کھل سکتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، بہت لکھنے کی ضرورت ہے اور انشاءاللہ یہ ہوگا بھی، مگر اوّلیت یہ بھی تھی کہ ہند-پاک جنگ نہ ہو، وہ اس لےے کہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے بے گناہ انسانوں کو بچانا تھا، دو پڑوسی ملکوں کو دشمنی سے بچانا تھا اور اس دہشت گردانہ حملہ کی تہہ تک جانے کے کسی بھی راستہ میں رکاوٹ پیدا نہ ہو، اس لےے حالات کو اس درجہ بگڑنے سے روکنا بھی ضروری تھا کہ تفتیش نہ تو متاثر ہو اور نہ بے معنی ہوجائے۔وہ دہشت گرد کون ہیں؟ ان دہشت گردوں کا مقصد کیا ہے؟، جو ہندوستان میں دہشت گردی کی فضا برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جب تک ہمیں اس کا صحیح جواب نہیں ملے گا، ہم دہشت گردی پر قابو نہیں پاسکتے۔
اگر ہم میں سے کچھ لوگ، کچھ ذمہ دار لوگ بھی یہ ذہنیت رکھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے تو دہشت گرد ہوگا یا ہوسکتا ہے۔ اس کا تعلق افغانستان، پاکستان یا بنگلہ دیش سے ہے تو وہ ہندوستان کا دشمن ہے یا ہوسکتا ہے۔ اگر یہ اسرائیل، امریکہ یا برطانیہ سے آیا ہے تو یہ ہندوستان کا دوست ہے یا ہوسکتا ہے۔ اگر یہ عیسائی یا یہودی ہے تو پھر ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہمیں اس سوچ کے دائرے سے باہر نکلنا ہوگا، اس لےے کہ یہ ہمارے ملک کے تحفظ کا سوال ہے، ہماری ذاتی انا یا سوچ کا نہیں۔ ہم میں نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے، ہم ایک دوسرے سے ناراض ہوسکتے ہیں، ہم میں سے کچھ ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے یا دشمنی کی سوچ رکھنے والے بھی ہوسکتے ہیں، مگر ہم اپنے ملک کے دشمن کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہم ایک ایسی 100 منزلہ عمارت میں رہ رہے ہیں، جس کی 20منزلوں پر فلیٹ اگر ایک طبقہ کے لوگوں کے ہیں تو80منزلوں کے فلیٹ دیگر طبقات کے لوگوں کے۔ کون بے وقوف اس 100منزلہ عمارت کو تباہ و برباد کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟ عمارت تباہ ہوئی تو کس کا فلیٹ بچے گا؟ نہ اس کا جس کی صرف ایک منزل، نہ اس کا جس کے پاس 20منزلیں اور نہ اس کا جس کے پاس 70فیصد سے زیادہ فلیٹ ہیں تو آئےے سب کو متحد ہو کر اس 100منزلہ عمارت کو بچانا ہے، اس لےے مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ آخر کون ہیں وہ، جن کی بدنظر اس طرف اٹھ رہی ہے، اٹھتی ہے یا اٹھ سکتی ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آخر وہ کون کون سے مواقع ہیں، جب ہم نے کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگوں کو ”رائی کو پہاڑ“ اور ”پہاڑ کو رائی“بناتے دیکھاہے۔ آخر اس کے پیچھے ان کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟
اب بات کرنا چاہتا ہوں میں اس موضوع پر، جس کی تمہید باندھی تھی میں نے اپنے کل کے مضمون میں اور جس کے لےے لکھی ہیں یہ بالائی سطریں۔ ہم نے مان لیا کہ ہوٹل ریڈیسن میں مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے پر پکڑے گئے دو برطانوی شہری پرندوں سے محبت کرنے والے، ان پر تحقیق کرنے والے ہیں یا کچھ اور آگے جاکر ہم یہ بھی مان سکتے ہیں کہ یہ جاسوس ہیں اور اسی نیت سے ہندوستان آئے تھے اور کسی ملک کی خفیہ تنظیم کے ذریعہ بھیجے گئے تھے۔لیکن اگر یہ دو مشتبہ شخص برطانیہ کے نہ ہو کر افغانستان، پاکستان یا بنگلہ دیش کے ہوتے تو پھر یہ القاعدہ، لشکرطیبہ، آئی ایس آئی یا ہوجی کے دہشت گرد بھی ہوسکتے تھے۔ اگر ان کے نام اسٹیو اور اسٹیفن کی بجائے رحیم اللہ، کریم اللہ جیسے ہوتے تو یہ ہندوستان میں ایک اور9/11کے ماسٹرمائنڈ بھی ہوسکتے تھے۔ ازراہِ کرم میری بات کی سنجیدگی پر غور کریں، نہ تو میری یہ تحریر جذبات پر مبنی ہے، نہ کسی مخصوص مذہب کے لوگوں کے دفاع میں ہے۔ میں یہ مضمون صرف اور صرف اپنے ملک کی محبت میں لکھ رہا ہوں، اپنے ملک کے عوام اور حکومت ہند کو ان خطرات کی طرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں، جو صاف صاف نظرآرہے ہیں۔
بکواس ہے یہ....کہ وہ ہوائی جہازوں کونزدیک سے دیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس لےے دہلی ائیرپورٹ کے نزدیک ہوٹل ریڈیسن کے ان کمروں میں ٹھہرے تھے، جن کی کھڑکیوں سے ہوائی جہازوں کے اترنے اور پرواز کرنے کا منظردیکھا جاسکتا تھا اور ان کا یہی شوق انہیں ہوٹل کے ٹیرس پر لے گیا تھا۔ یہ برطانوی شہری لندن سے دہلی پہنچے تھے۔ لندن کا ”ہی تھرو ائیرپورٹ“ جہاں سے انہوں نے دہلی کے لےے پرواز لی، دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے، جہاں ایک گھنٹے میں 54جہاز اترتے اورپرواز کرتے ہیں، یعنی تقریباً وہ لوگ ہر منٹ ایک جہاز کو پرواز کرتے یا لینڈ کرتے دیکھ سکتے تھے اور اس کے لےے انہیں ہندوستان تک آنے کی زحمت برداشت کرنے کی ضرورت نہیں تھی، جہاں ایک گھنٹے میں 26 جہاز اترتے ہیں اور پرواز کرتے ہیں، یعنی آدھے سے بھی کم۔
ان کا دوسرا بیان کہ وہ آسمانی پرندوں پر ریسرچ کررہے ہیں، پہلے بھی یہ کام کرتے رہے ہیں، یہ بھی کوری بکواس ہے.... کیا آسمان صرف ہندوستان میں ہے؟ کیا وہ پرندے صرف ہندوستان میں ہی پائے جاتے ہیں؟ چلو مان لیا ایسا ہی ہوگا، تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اے ٹی سی (ائیر ٹریفک کنٹرولر) اور جہازوں کے پائلٹوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سننے اور ریکارڈ کرنے کی انہیں کیا ضرورت پیش آئی۔ کیا اے ٹی سی اور پائلٹ لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران آسمانی پرندوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، جنہیں سننا ان کے لےے ضروری تھا۔ اس کے علاوہ ان دونوں کے پاس سے راڈار، اسکیننگ آلات اور ہائی پاور دوربین ملی۔ یہ ہائی پاور دوربین، کیمرہ اور دوسرے آلات ایسے ہیں، جو ائیرٹریفک اور ہوائی جہاز سے دوسری معلومات حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے پاس سے گوگل میپ (دہلی ہوائی اڈہ کا)بھی برآمد ہوا ہے۔ پرندوں پر تحقیق کا ان آلات سے کیا تعلق ہے، جبکہ پولس نے ان کے قبضہ سے طیاروں کی رفتار ناپنے والے راڈار بھی برآمد کےے ہیں۔ ان سب کے باوجود ہم اس معاملے کو اتنے ہلکے طور پر لے رہے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کیا اس بات کو خارج ازامکان قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں کسی بڑے دہشت گردانہ عمل کے لےے ہندوستان آئے ہوں؟ واضح رہے کہ وہ لندن سے دہلی13-02-2010 کو پہنچے اور پروگرام کے مطابق انہیں17-02-2010کولندن واپس لوٹ جانا تھا، یعنی ہندوستان میں ان کا قیام محض4 دن تک تھا اور اس میں بھی وہ ہوٹل میں اپنے کمرے اور چھت تک ہی محدود رہے۔ کمرے میں بھی کھڑکیوں پر ہی نظریں ٹکائے رہے اور چھت پر جانے کا مقصد بھی طیاروں کی آمدورفت پر نظر رکھنا ہی رہا۔ کیا ہمیں یہ کچھ بھی سوچنے پر مجبور نہیں کرتا؟ اگر اب بھی نہیں تو ازراہ کرم نیچے لکھی چند سطروں کو پڑھئے اور پھر غور کیجئے۔
ہمارے ملک نے 12نومبر1996کو چرخی دادری میں ایک خطرناک ہوائی حادثہ دیکھا ہے۔ میں بیحد مختصراً قارئین کی یاددہانی کے لےے اس حادثہ کی چند اہم باتیں سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ 12نومبر 1996کو قزاخستان کا طیارہIIIIynohim-76اور سعودی عرب ایئر لائنز کے بوئنگ 747کے درمیان ہونے والے تصادم میں 349افراد کی موت ہوگئی تھی۔ یہ حادثہ ہریانہ کے گاﺅں چرخی دادری کے اوپر پیش آیا تھا۔ اس حادثہ کی تحقیقات جسٹس آر سی لاہوتی نے کی تھی۔ لاہوتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہوابازی کی تاریخ کے اس بدترین واقعہ کے لئے قزاخستان کا عملہ ذمہ دار تھا۔ 200صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ اس وقت کے وزیربرائے شہری ہوابازی سی ایم ابراہیم کو پیش کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قزاخستان کا پائلٹ 15ہزار فٹ سے کم اونچائی سے نیچے کی طرف آرہا تھا اور سعودی ایئر لائنز بوئنگ 747کے راستہ میں آگیا۔ سعودی طیارہ دہلی سے پرواز بھر کر ایران کی طرف پرواز بھر رہاتھا۔
قزاخستان کے وکیل کا کہنا تھا کہ چرخی دادری کا موسم خراب تھا اور اس کی وجہ سے پائلٹ سطح سے نیچے اتررہا تھا۔ اور اے ٹی سی کو حادثہ سے 16منٹ قبل یہ پتہ چل گیا تھا کہ دونوں طیاروں میں حادثہ ہوسکتا ہے، لیکن اس نے قزاخستان کے پائلٹ کو نہ صرف 38سکنڈ قبل ہی آگاہ کیا تھا۔ سعودی عرب کے حکام کا کہنا تھا کہ قزاخستان ایئر لائنزاے ٹی سی کی ہدایات کی خلاف ورزی کررہا تھا۔ ایئر پورٹ اتھارٹی آف انڈیا نے اس حادثہ کے لئے قزاخستان کے عملہ کو ذمہ دار قرار دیا۔
سعودی ائیر لائنز نے اے ٹی سی کے بارے میں کہا کہ تنصیبات پر عملہ صحیح طریقہ سے تعینات کیا جاتا اور آلات لگائے جاتے تو اس حادثہ کو ٹالا جاسکتا تھا۔ایئر پورٹ اتھارٹی آف انڈیا کاکہنا تھا کہ قزاخستان طیارے کی Cockpiteمیں ڈسپلن نہیں تھا اور عملہ انگریزی نہیں سمجھ رہا تھا، یہی اس جہاز کے سطح سے نیچے اڑنے کا سبب بنا۔ ان کا کہنا تھا کہ موسم کی خرابی کی کہانی گھڑی گئی تھی، کیونکہ نہ تو محکمہ موسمیات اور نہ ہی ٹرانسمیشن کے اشاروں سے موسم خراب ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔کمیشن نے پایا کہ حادثے میں غلطی قزاخستان کے پائلٹ سے ہوئی، اسے 15ہزار فٹ(4600m)کی اونچائی پر رہنے کی ہدایت دی گئی تھی، جو 14ہزار500 فٹ (4400m)اور بعد میں14000فٹ (4300m) کی اونچائی پر آگیا اور اس کے بھی نیچے آگیا۔ کمیشن نے یہ بھی پایا کہ قزاخستان کے پائلٹ کی انگریزی زبان کی کم معلومات کے سبب عملی اقدامات کی خلاف ورزی ہوئی۔اوراب آتا ہوں میں اپنے اس خدشہ کی طرف جو غلط بھی ہوسکتا ہے، لیکن اگر یہ صحیح ہوتو کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ اگر ہم کچھ دیر کے لےے یہ مان لیں کہ یہ دوانتہائی خطرناک دہشت گرد ہیں، جو ہندوستان میں 9/11سے بھی بڑا دہشت گردانہ حملہ پلان کررہے تھے۔ اے ٹی سی اور پائلٹ کے دوران گفتگو کو ریکارڈ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس فریکیوینسی کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے، جس پر ائیرٹریفک کنٹرولر اور پائلٹ بات کررہے تھے۔ بالفاظ دیگر اب اگر وہ چاہتے تو دونوں کی بات چیت میں رخنہ ڈال سکتے تھے۔ بات چیت کو مس کمیونیکیٹ کرسکتے تھے، جیسا کہ چرخی دادری سانحہ میں ہوا۔ وہ غیرارادی طور پر ہوا، یہ ارادتاً بھی ہوسکتا تھا۔ وہ پائلٹ کو اس فریکیوینسی پر جاکر ائیرٹریفک کنٹرولر کی جگہ غلط احکامات جاری کرسکتے تھے، آسمان میں دو طیارے ٹکراسکتے تھے۔ یہ طیارے کس ملک کے ہوں، اس کا تعین وہ خود کرسکتے تھے اور یہ حادثہ آسمان میں کتنی بلندی پر اور کس جگہ ہو، اپنے نقشے، آلات کے ذریعہ یہ طے کرسکتے تھے۔ خدانخواستہ اگر یہ منصوبہ اس قدر خطرناک ہوتا اور یہ حادثہ دہلی کے ائیرپورٹ کے ٹھیک اوپر ہوتا تو ہمارے ملک کے لےے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا تھا.... اور اگر کہیں یہ ثابت ہوجاتا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ ٹھیک 9/11کی طرز پر تھا، جو القاعدہ جیسی کسی اسلامی سمجھی جانے والی دہشت گرد تنظیم کی طرف سے تھا، جس کا مقصد ہندوستان سے دشمنی تھاتو پھر کیا ہوتا؟مجھے معاف فرمائیں ہم ”دودھ کے جلے ہیں چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کرپیتے ہیں“، ہم نے کس طرح190برس کی غلامی کے بعد اپنے شہیدوں کا خون بہاکر آزادی حاصل کی ہے، ہم جانتے ہیں، لہٰذا ہم یوں آنکھ بند کرکے پھر غلامی کو دعوت نہیں دے سکتے۔ ہمیں اپنے ملک پر منڈلانے والے ہر خطرے پر غور کرنا ہوگا اور ہر زاویہ سے غور کرنا ہوگا۔ کسی سے اپنے تعلقات نبھانے کے لےے ملک کی حفاظت کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔

No comments: