اب یہ سوال بھی پارلیمنٹ میں اٹھنے لگا ہے کہ کیا ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے کوئی تعلق ہے۔ اور کچھ شکوک و شبہات کا اظہار مرکزی کابینہ وزیر ولاس راو(CIA) مکھ نے بھی کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم ازکم دو تاج ہوٹل کے ملازمین تو حملہ آوروں میں شامل تھے۔ ہم کسی بھی اگر مگر کے بغیر اور آج کچھ بھی اپنی جانب سے کم زیادہ کےے بغیر ان تازہ انکشافات کو ہو بہو قارئین کی خدمت میں پیش کردینا چاہتے ہیں، اس کے بعد ہماری گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔
سی پی آئی( ایم) کی لیڈر برنداکرات نے ہندوستانی پارلیمنٹ میں مختلف اطلاعات کے حوالے سے کہا کہ امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلی امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے لئے سرگرم تھا اور امریکی حکومت کی مدد کے سبب ہیڈلی نے پاکستان کا متعدد بار مسلسل دورہ کیا ( اس بارے میں مرکزی وزیر مملکت برائے خارجہ ششی تھرورنے راجیہ سبھا میں روشنی ڈالی)
ہندوستانی اداکار راہل بھٹ کے ساتھ ہیڈلی کے دوستانہ تعلقات تھے۔ بھٹ کے مطابق ہیڈلی نے دعویٰ کیاتھا کہ امریکی فوج کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں۔
ہیڈلی نے راہل بھٹ سے امریکی فوج کی ڈیلٹا فورس اور سی آئی اے کی اہم خفیہ فورس اسپیشل ایکٹیو یٹی ڈویژن کے بارے میں بھی بتایا تھا۔ جو کہ سیاسی کارروائیوں اور نیم فوجی آپریشن کو انجام دیتی ہیں۔(ایک ہندوستانی روزنامہ کو راہل بھٹ نے اس بات کا امکان ظاہر کیاکہ ہیڈلی سی آئی اے، آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے)
ہیڈلی ایک ٹریننگ جم سے سرگرم رہا جو کہ امریکی قونصل خانہ بریج کینڈی کے نزدیک واقع تھا ۔ ( مہیش بھٹ اور ہیڈلی کے معاملات)امریکی قونصل خانہ کے افسران وعملہ سے اس کے دوستانہ تعلقات تھے اور امریکی قونصل خانہ کے افسران اسے اس کے پہلے نام سے پکار تے تھے، جب بھی ان کی جم میں اس سے ملاقات ہوتی تھی۔ دیگر سفید فام نے بھی ہیڈلی کے گھر میں اس کے ساتھ قیام کیا تھا۔
احمد آباد بم دھماکوں کے مشتبہ ملزم کین ہے ووڈنے بھی امریکی فوج سے ٹریننگ حاصل کی اور اس کا تعلق ایک انتہاپسند عیسائی تنظیم سے تھا۔
( مہیش بھٹ اور ہیڈلی کے معاملات)
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ہیڈلی ہندوستان میں خود کو ہمیشہ سی آئی اے کے ایجنٹ کے طورپر متعارف کراتا تھا۔
(کیا ہیڈلی امریکی ایجنٹ ہے؟)
ممبئی دہشت گردانہ حملوں کا مشتبہ ملزم ہیڈلی خود کو سی آئی اے کے ایجنٹ کے طورپر پیش کرتا تھا۔2008 میں امریکی شہری کین ہے ووڈ کی اطلاع کے مطابق وہ امریکی سفارت خانہ کی مدد سے ہندوستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو اتھا۔ دہشت گردی کے معاملے میں اس کے خلاف تحقیقات جاری تھی۔کین ہے ووڈ کے کمپیوٹر کا استعمال ایک دہشت گردانہ ای-میل کے لئے کیاگیا جو کہ احمد آباد میں جولائی 2008 کے بم دھماکوں سے چند منٹ قبل ملا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ہے ووڈ کے تعلقات ہندوستان میں سرگرم خطرناک دہشت گرد عبدالسبحان قریشی عرف توفیق بلال اور توقیر کے ساتھ پائے گئے ہیں۔ہے ووڈ ستمبر2008 میں ہندوستان لوٹ آیا تھا (احمد آباد دھماکے: کین ہے ووڈ کی ہندوستان آمد ۔ سی اُنی کرشنن: ٹائمز آف انڈیا)
ہندوستان میں ہے ووڈ کمبیل وائٹ نامی فرم کے لئے کام کرتاتھا، جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ سی آئی اے (CIA)کے لئے مبینہ طورپر سرگرم تھا۔ ہے ووڈ کانام فرم کے ملازمین کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔
انڈین ایکسپریس کی 14اگست 2008 کی رپورٹ کے مطابق کمپنی کا دفتر سانپاڑہ ریلوے اسٹیشن کمپلیکس کے گراو ¿نڈ فلور پر کرایے کے دو کمروں پر مشتمل تھا۔ ان کمروں کو اربیزونا میں واقع کرسچن فیلوشپ منسٹریز کے تحت پوٹر ہاو ¿س کی عبادت کیلئے بھی استعمال کیاجاتاتھا۔
ہے ووڈ کے گجرات دھماکوں کے بعد فرار ہونے کی وجہ سے مختلف شکوک پیدا ہوئے تھے۔ ہے ووڈ امریکہ کی مدد سے اسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوا، جس طرح ہماری خفیہ ایجنسی RAWکے سابق(غدار) ایجنٹ فرار ہوجاتے ہیں۔
اس واقعہ سے ہمیں پتہ چلاکہ ہماری خفیہ ایجنسیوں میں ایسے ایجنٹ اور مخبر موجو د ہیں، جو غیرملکی ایجنسیوں کے لئے کام کرتے ہیں اور انہیں خفیہ اطلاع دے دیتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہے ووڈ ایک ’بوگس مشنری‘ کے طورپر سرگرم تھا جو کہ اور بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ ”ہندوستان میں نام نہادامریکی مشنریاں اور دیگر گروپ کی سرگرمیوں پر ہمیشہ تنازع رہاہے کیونکہ یہ لوگ دوہرا کام کرتے ہیں اور مشنری کے ساتھ سی آئی اے کے اس منصوبے کے لئے بھی سرگرم رہتے ہیں، جس کے تحت ہندوستان کو کمزور کرنا ہے۔
چند سال قبل تہلکہ نے اس حقیقت پر سے پردہ ہٹا یا تھا کہ لگ بھگ 100نام نہاد امریکی گروپ بوگس مشنری کے طورپر کام کررہے ہیں، بلکہ یہ تنظیمیں بش کے سی آئی اے نیٹ ورک سے وابستہ تھےں۔
اس کے پےش نظر سی آئی اے اور سیمی کے درمیان رابطہ پر ذہن میں سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا سیمی سی آئی اے کے آپریشن کا حصہ ہے ؟ کیا ہندوستان میں اسلامی دہشت گردی سی آئی اے۔ آئی ایس آئی کے تعلقات کا نتیجہ ہے؟
”آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان کئی دہائیوں سے بہترتعلقات ہیں اور پاکستان کو ہندوستان میں جس طرح کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ہندوستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے لئے ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔خصوصی طورپر جب ایک کمزور اور کٹھ پتلی وزیر اعظم اور ان کی حکومت برسراقتدار ہے۔
اور اب مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ و موجودہ مرکزی وزیر ولاس راو ¿ دیش مکھ کے حوالہ سے:
مہاراشٹر کے سابق وزےراعلیٰ ولاس راو ¿ دےش مکھ نے کہا کہ فوج کے ساتھ خوںرےز گولی باری مےں زندہ پکڑے گئے8بندوق برداروںمےں سے 2 برطانےہ مےںپےداپاکستانی تھے۔ ’دی ڈےلی ٹےلی گراف‘ کو ےہ بھی معلوم ہواہے کہ دہشت گرد شمالی انگلےنڈ مےںمقبول عربی وےب سائٹ اوربرطانوی نےوز پےپر کی وےب سائٹ کے ذرےعہ بےن الاقوامی تاثرات پر بھی نظررکھے ہوئے تھے۔
گورڈن براو ¿ن نے کہا کہ ےہ کہناابھی جلد بازی ہوگی کہ حملے مےںکےا برطانےہ مےںپےداکوئی شخص ملوث تھا، جبکہ محکمہ داخلہ کے دفتر نے کہا کہ کسی برطانوی کے ملوث ہونے کی کوئی اطلاع نہےںہے۔ ممبئی کے اےک ہوٹل پردہشت گردوںکا قبضہ جب تےسری رات مےںداخل ہوا، کمانڈوز اوردہشت گردوںکے درمےان اےک دن کی لڑائی کے بعد بھی تاج محل ہوٹل سے گولےوں اوردھماکوںکی آوازےں سنی گئیں۔
رپورٹس کے مطابق حفاظتی دستے کے افسران نے کہا کہ تمام ےرغمال لوگوں کو آزاد کرانے کے بعد بھی تےن ےا چاربندوق بردارہوٹل کے اندر تھے۔اس دوران اسکاٹ لےنڈ ےارڈ پولس اورممبئی پولس مل کر مارے گئے لوگوںکی شہرےت کی شناخت کررہے تھے۔
کمانڈوز کے اےک لےڈر نے بتاےا کہ کس طرح برطانوی تعلق کا شک پےداہوا۔ جب تفتےش کاروںنے پکڑے گئے اےک اسلامی انتہاپسند کے پاس سے بلےک بےری فون کی جانچ کی، جس کا استعمال انہوںنے انٹرنےٹ پر نظررکھنے کےلئے کےا۔
ہندوستان کے جنوبی کمانڈ کے سربراہ جنرل نوبل تھمبوراج نے ٹےلی گراف کو بتاےا کہ اس مےں انگرےزی مےڈےاکاکافی مواد تھا، نہ صرف لندن بلکہ شمالی انگلےنڈ مےں مضبوط اردو اورعربی سائٹس کا بھی مواد تھا۔ ہم نے اس کی جانچ شروع کردی ہے اورجلد ہی ہم اسکاٹ لےنڈ ےارڈ کو مہےا بھی کرادےں گے۔ جنرل تھمبوراج نے کہا کہ کم از کم پانچ دہشت گردوں نے برطانوی وےب سائٹس پر نظررکھنے کےلئے بلےک بےری کااستعمال کےا۔
دہشت گردوں کے ذرےعہ بلےک بےری کا استعمال، تاکہ بےن الاقوامی تاثرات پر نظررکھی جاسکے اورپولس کے روےہ کو بھی جاناجاسکے، ےہ بتاتاہے کہ حملہ کس طرح منظم تھا۔
اےک رپورٹ کے مطابق حملہ کرنے والوںمےں تاج محل ہوٹل کے 2ملازمےن تھے، مزید 2وہاںپرمہمان کے طورپرٹھہرے ہوئے تھے تاکہ ان کو حملے کامنصوبہ بنانے مےں مدد ملے اورحفاظتی دستوںپرعمارت سے واقفےت کے سبب سبقت بھی حاصل کرنے مےںمددملے۔
گزشتہ شب اےک بندوق بردارنے تاج محل ہوٹل کے اندر کمانڈوز کو دورہی روکے رکھا اورجہاں سے دن بھرگولےوںاوردھماکوںکی آوازےں آتی رہیں۔ گورڈن براو ¿ن سے جب پوچھاگےاکہ کےا حملے سے برطانےہ کا کوئی ممکنہ تعلق ہے توانہوںنے جواب دےاانہوںنے ہندوستانی وزےراعظم سے بات کی ہے اوراس دوران کسی بھی دہشت گردکے برطانےہ سے تعلق کے کوئی ثبوت کی بات نہےں کہی، لےکن ےہ سچ ہے کہ اس معاملہ مےں کافی تفتےش ہونی ہے۔
کمانڈوز کے ذرےعہ اوبرائے ہوٹل سے آزاد کرائے گئے لوگوںمےں 93برطانوی شہری تھے۔ان مےں لندن کے اےک وکےل مارک اےبل (Mark Abell) تھے، جنہوں نے ٹےلی گراف سے اپنے حالات کے بارے مےںہوٹل کے کمرے سے بات کی تھی اور کہا تھاکہ وہ جلد ہی گھرجانے والے ہےںاوراپنی بےوی سے ملنے والے ہےں۔
کمانڈوز نے خوفناک منظرکا ذکرکےا ۔اوبرائے مےںجہاں24لاشےں ملی تھیں، وہےں تاج محل کے اندر50لاشےں ملیں۔
ممبئی مےںواقع ےہودی سےنٹرپرقبضہ تب ختم ہوا جب خصوصی فورسز عمارت مےںداخل ہوئیں۔ ہندوستانی کمانڈوز جب تک ےہاں داخل ہوتے اورےرغمال لوگوں کوآزاد کراتے دہشت گردوں نے 5لوگوںکا، جن میں اےک ربّی اوراس کی بےوی بھی شامل ہیں، قتل کردےا تھا۔
اےک برطانوی اخبارنویسArdreas Liverasحملے مےںمارے گئے جب کہ کم از کم 7زخمی ہوگئے تھے۔ ان مےںNorthumberland کے ٹےچرMichael Murphy بھی تھے اور29سالہ Harnish Patel بھی تھے جن کو تےن گولےاں لگی تھیں۔مسٹر پٹےل لےوپولٹ کےفے مےںتھے جب حملہ ہوا تھا۔ اےک بندوق بردار آےا اوراس نے گولےوںکی بوچھار کردی۔
لندن اےئرپورٹ پرواپس آئے برطانوی سےاحوںنے کہا کہ انہوںنے واپس آنے کی امےدچھوڑدی تھی۔
ہندوستانی حفاظتی دستوں کوکئی الزامات کاسامنا کرناپڑا۔ اےک برطانوی افسرنے کہا کہ کم از کم ان لوگوںکو اےک مرکزی کمانڈ کا قےام کرناچاہےے، جوپوری طرح کنٹرول رکھتی ہو۔اس کے برعکس وہ آئے اورگولےاں چلاتے ہوئے داخل ہوئے، ےہ غلط طرےقہ تھا۔ ان کے پاس ہوٹلوں کے نقشے تک نہےں تھے جب کہ دہشت گردوںنے سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خاطرخواہ جاسوسی کی۔ ہندوستانی خصوصی دستے کے اےک اعلیٰ افسرنے کہا کہ اس دوران کئی کمانڈسےنٹرس تھے جودوسرے کوکم تردکھانے کی کوشش کررہے تھے، جس سے آپرےشن مےںتاخےربھی ہوئی اورگڑبڑی بھی۔ اور اےسا لگتاہے کہ تفصےلی اورباقاعدہ منصوبہ بندی کی کمی تھی۔
1 comment:
جب تک ہےڈلی کو ہندوستان لاکر سخت طریقہ سے تفتیش نہےں کےجائے گی،تب تک مکمل صورت حال سامنے نہےں آئے گی۔لےکن کےا ہم اتنی جرا¿ت کرپائےں گے؟اور کےا ہم فی الحال اس حوالہ سے امریکہ پر سیاسی اور سماجی دباو¿ بنانے کی حیثیت مےں ہےں۔انھےں سوالوں کے جواب پر سب کچھ موقوف ہے۔
Post a Comment