ملائم سنگھ، امرسنگھ کے بیچ آگیا اب
کلیان سنگھ
اب میں اپنی آج کی اس تحریر کے اس اہم جزو پر آرہا ہوں، جسے اپنے قارئین کے سامنے رکھنے کے لےے میں نے اس واقع کا ذکر کیا۔ ہاں، یہ ضرور عرض کرتا چلوں کہ امرسنگھ نے گفتگو کے بعد یہ کہا تھا کہ میں آپ کی بات سے بہت حد تک متفق ہوں اور میں اسے اپنی پارٹی کے سامنے رکھوں گا۔ اب وہ بات جس کی طرف میں آپ کی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل گزشتہ 60برسوں میں یا یوں کہئے کہ 1952میں ہوئے پہلے پارلیمانی انتخابات کے بعد پہلا موقع ہے، جب مسلمانوں نے ہندوستان کی سیاست میں ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ ہر بڑی پارٹی اس سمت میں سوچنے کے لےے مجبور ہے۔ وہ چاہے اس کا اظہار کرے یا نہ کرے، مگر اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت ہندوستان کی سیاست میں مسلمان مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ کانگریس آج اگر برسراقتدار ہے تو صرف اس لےے کہ 6دسمبر1992 کے بعد پیدا ہوئی تلخی کو بھلاکر پہلی بار انہوں نے کانگریس کا ساتھ دیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اگر اندرونی چپقلش کا شکار ہے اور ایک کے بعد دیگر اس کے لیڈر بغاوت پر آمادہ نظر آتے رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے دیکھ لیا تو فرقہ پرست اور تنگ نظر سیاست کے سہارے بہت دور تک نہیں چلا جاسکتا۔ اگر برسراقتدار آنا ہے تو سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ذہن رکھنا ہی ہوگا۔ امرسنگھ-ملائم سنگھ تنازع کا تعلق نہ تو کلیان سنگھ سے ہے، نہ مسلمانوں سے ہے۔ مگر یہ بھی اتنا ہی بڑا سچ ہے کہ اگر سماجوادی پارٹی مسلمانوں کی نظروں سے نہ گری ہوتی تو کانگریس کو مسلمانوں کے جذبات کی قدر کرنے کی بنیاد پر ہی سہی، اسے حکومت میں ساتھ رکھنے کے لےے غور کرنا پڑا ہوتا۔ سماجوادی پارٹی کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہوئی ہوتی تو شاید اس کی سیٹیوں کی تعداد بھی کچھ زیادہ ہوتی اور ان میں کچھ مسلمان بھی منتخب ہوکر آتے۔ اگر ایسا ہوتا تو اقتدار کی چاشنی سب کو جوڑے رکھتی۔ شاید پھر امرسنگھ یا ملائم سنگھ الگ ہونے کے بارے میں نہ سوچتے۔ نہ اتنی فرصت ہوتی، نہ اس کا موقع ہوتا، سرکار میں حصہ داری ہوتی، مصروفیت اس قدر ہوتی کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کون غور کرے کہ القاب و آداب میں کس لفظ کا خیال رکھا گیا اور کس کا نہیں، جب دل ملتے ہیں تو سب چلتا ہے اور جب دل میں کدورت ہو تو سب کھلتا ہے۔
عین ممکن ہے کہ میری بات سے یہ لگ رہا ہوں کہ میں نے اس مسئلہ کا رُح بھی مسلمانوں کی طرف موڑ دیا، جبکہ اس مسئلہ کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو امرسنگھ کی حمایت میں آنے والوں میں نہ تو مسلمانوں کی کثرت دکھائی دیتی اور نہ بار بار ان کے نام زبان پر آتے۔ اب وہ چاہے ابوعاصم اعظمی ہوں، جنہیں اعظم خان کے بعد پارٹی کا مسلم چہرہ سمجھا گیا ہو یا عبیداللہ خاں اعظمی، جنہیں مسلم چہرے کے طور پر پارٹی میں شامل کیا گیا ہو۔ شاید امرسنگھ کے حامی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سماجوادی پارٹی کی مسلم قیادت ان کے ساتھ ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ شاہد منظور، نواب اقبال محمود اور محبوب علی جو امرسنگھ کی مخالفت میں کھڑے ہوئے ہیں، یہ عبیداللہ خاں اعظمی اور ابوعاصم اعظمی کا جواب ہے یا اب اسے پوری طرح صاف سمجھ لیا جائے کہ امرسنگھ کا استعفیٰ واپس لینے کا اب کوئی سوال ہی نہیں ہے،پوری پارٹی میں خیمہ بندی ہوچکی ہے، سب نے اپنااپنا مورچہ کھول دیا ہے اور اب بات صرف کچھ لیڈران یا پارٹی کارکنان تک ہی نہیں رہ گئی ہے، بلکہ دونوں کی نظر ووٹ بینک پر ہے اور وہ ووٹ بینک ہے مسلم ووٹ بینک، جسے عبیداللہ خاں اعظمی اور ابوعاصم اعظمی کی حمایت کی معرفت امرسنگھ اپنے ساتھ دکھانا چاہتے ہیں اور شاہد منظور، اقبال محمود و محبوب علی کی معرفت ملائم سنگھ اپنے ساتھ۔
1 comment:
Artical sachaai bayan kar raha hai.Acha hai.
Post a Comment