(اگست کرانتی 9 اگست1942ء)
”انگریزوں بھارت چھوڑو“کے بعد
اب نعرہ انقلاب ”بھارت واسیو بھارت جوڑو“
ہندوستان میں مختلف مقامات پر بم دھماکے ہوتے رہے ہیں اور میرا قلم خاموش ہے آخر کیوں؟ ہر روز یہی ایک سوال کیا جاتا رہا ہے کہ لکھئے آپ کے قلم کی آواز کا انتظار ہے ۔ کیوں سننا چاہتے ہیں آپ اس قلم کی آواز۔ سچ بہت کڑوا ہوتا ہے اس کے سننے میں مزہ نہیں آتا۔ یہ بم نہ دہشت گردوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں نہ فرقہ پرستوں کی طرف ،پھر کس کا کارنامہ ہے یہ ۔ کیا کوئی سیاست کار فرما ہے اس کے پیچھے، کیوںمیری زبان سے سننا چاہتے ہیں؟ کیوں میرے لفظوں کا انتظار ہے آپ کو؟ کیا آپ سوچتے ہیں اس ملک کے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ہیں، اس لیے کبھی مندر میں، کبھی مسجد میں ،کبھی بازاروں میں او رکبھی ریل کے ڈبوں میں بم پھٹتے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ نہ 1947 کے پہلے ،نہ اس کے بعد، نہ 6دسمبر1992کو نہ اس کے بعد، نہ گجرات میں، نہ میرٹھ میں، نہ ملیانہ میں، نہ ہاشم پورہ میں، نہ بھاگلپور میں، نہ جے پور میں، نہ بھیونڈی میں، نہ علی گڑھ اور مرادآباد میں ۔نہیں ان میں سے کوئی ہندو مسلم دنگا نہیں تھا اور ان کے علاوہ بھی جو دہشت گردانہ حملے ہوئے یا فرقہ وارانہ فسادات، وہ بھی نہ ہندو مسلم کی بنیاد پر تھے، نہ مذہبی منافرت کی وجہ تھے۔
کشمیر، پنجاب، بنگال، آسام ، حیدرآباد،بنگلور، دلی، ممبئی ہو یا نیویارک، لندن، افغانستان اور عراق، مذہب کہیں بھی انسانیت کے خون کی وجہ نہیں ہے۔ پھربھی انسانوں کے ذریعہ انسانوں کا خون ہو رہا ہے۔ ہاں میں نے انہیںدر ندہ نہیں لکھا ،اس لیے کہ شاید وہ درندے ہیںبھی نہیں۔ ضروری نہیں کہ بم جس کے ہاتھ میں نظر آئے قاتل بھی وہی ہو۔ ہوسکتا ہے وہ محض ایک کھلونا ہو اور جو پردے کے پیچھے کا اصلی کھلاڑی ہو آپ اس کے شیدائی ہوں۔ اسے اپنا دوست اپنا رہنما سمجھتے ہوں، پھر کیا میں اس کا نام لکھ کر آپ کو بھی اپنا دشمن بنالوں۔
”انگریزوں بھارت چھوڑو“کے بعد
اب نعرہ انقلاب ”بھارت واسیو بھارت جوڑو“
ہندوستان میں مختلف مقامات پر بم دھماکے ہوتے رہے ہیں اور میرا قلم خاموش ہے آخر کیوں؟ ہر روز یہی ایک سوال کیا جاتا رہا ہے کہ لکھئے آپ کے قلم کی آواز کا انتظار ہے ۔ کیوں سننا چاہتے ہیں آپ اس قلم کی آواز۔ سچ بہت کڑوا ہوتا ہے اس کے سننے میں مزہ نہیں آتا۔ یہ بم نہ دہشت گردوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں نہ فرقہ پرستوں کی طرف ،پھر کس کا کارنامہ ہے یہ ۔ کیا کوئی سیاست کار فرما ہے اس کے پیچھے، کیوںمیری زبان سے سننا چاہتے ہیں؟ کیوں میرے لفظوں کا انتظار ہے آپ کو؟ کیا آپ سوچتے ہیں اس ملک کے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ہیں، اس لیے کبھی مندر میں، کبھی مسجد میں ،کبھی بازاروں میں او رکبھی ریل کے ڈبوں میں بم پھٹتے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ نہ 1947 کے پہلے ،نہ اس کے بعد، نہ 6دسمبر1992کو نہ اس کے بعد، نہ گجرات میں، نہ میرٹھ میں، نہ ملیانہ میں، نہ ہاشم پورہ میں، نہ بھاگلپور میں، نہ جے پور میں، نہ بھیونڈی میں، نہ علی گڑھ اور مرادآباد میں ۔نہیں ان میں سے کوئی ہندو مسلم دنگا نہیں تھا اور ان کے علاوہ بھی جو دہشت گردانہ حملے ہوئے یا فرقہ وارانہ فسادات، وہ بھی نہ ہندو مسلم کی بنیاد پر تھے، نہ مذہبی منافرت کی وجہ تھے۔
کشمیر، پنجاب، بنگال، آسام ، حیدرآباد،بنگلور، دلی، ممبئی ہو یا نیویارک، لندن، افغانستان اور عراق، مذہب کہیں بھی انسانیت کے خون کی وجہ نہیں ہے۔ پھربھی انسانوں کے ذریعہ انسانوں کا خون ہو رہا ہے۔ ہاں میں نے انہیںدر ندہ نہیں لکھا ،اس لیے کہ شاید وہ درندے ہیںبھی نہیں۔ ضروری نہیں کہ بم جس کے ہاتھ میں نظر آئے قاتل بھی وہی ہو۔ ہوسکتا ہے وہ محض ایک کھلونا ہو اور جو پردے کے پیچھے کا اصلی کھلاڑی ہو آپ اس کے شیدائی ہوں۔ اسے اپنا دوست اپنا رہنما سمجھتے ہوں، پھر کیا میں اس کا نام لکھ کر آپ کو بھی اپنا دشمن بنالوں۔
9/11 کی حقیقت جو دستیاب ہوئی بیان کردی۔ افغانستان اور عراق پر ظلم ہوا ظالم کا نام لکھ دیا۔ جن پر ظلم ہوا انہیں مظلوم لکھ دیا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اپنا دشمن بنالیا۔ گجرات میں بے گناہوں کا سڑکوں پر بہتا ہوا خون اپنی آنکھوں سے دیکھا، معصوم بچوں، عورتوں کی چیخیں اپنے کانوں سے سنیں، انسانیت کے جذبے کو دبانہ سکا، اخبارمیں متعدد کالم ہی کیا کئی کئی کتابیں لکھ ڈالیں، پر کسے انصاف ملا، کرکری بن گیا ان سب کی آنکھوں کی یہ خون جن کی سیاست کی ضرورت تھا۔ نہیں کسی ایک پارٹی یا ایک شخص کو مورد الزام مت ٹھہرائیے، اس حمام میں اگرسب نہیں تو بے شمار ایک جیسے ہیں۔
آپ کسے اپنادوست سمجھتے ہیں۔ میں کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے لیے نہیں لکھ رہا ہوں، میری تحریر تمام ہندوستانیوں کے لیے ہے مگر زبان اردو ہے تو سب سے پہلے قارئین کی سب سے بڑی تعداد آپ ہی کی ہوگی، یعنی انہیں مسلمانوں کی جن میں سے میں بھی ہوں اور میں آپ کے سوالات پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ آپ کا حق ہے مجھ پر اور میں اپنا حق سمجھتا ہوں آپ پر۔مگر سچ لکھنے سے پہلے متواتر یہ سوچتا رہا کہیں آپ کا پیار بھی کھو تو نہ دونگا۔کہیں اپنے ہم وطن بھائیوں کی ناراضگی کی وجہ تو نہیں بن جاﺅںگا۔کہیں بیرونی طاقتوں کی طرح اپنے ملک کے سیاست داں بھی مجھ سے نفرت تو نہیں کرنے لگیں گے۔اگر جھوٹ ہی لکھنا ہے صرف آپ کو خوش کرنے کے لئے تو تاریخ کے اوراق بیان کیوں کروں۔حالات حاضرہ پر تبصرہ کیوں کروں۔9/11کی تحقیق میں دلچسپی کیوں لوں۔بم دھماکوں کی حقیقت کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کیوں کروں۔کچھ افسانے لکھوں،کہانیاںلکھوں،ناول لکھوں۔آخر یہ سب بھی تو لکھتا ہی رہا ہوں اور اس میں تو سچ لکھنے کی کوئی قید بھی نہیں ہے۔وہ سب پڑھیں گے تو شاےد آپ سب کو اچھا لگے اور کسی کو شکایت بھی نہ ہو۔پر موجودہ حالات میں ایسا کوئی بھی افسانہ یا ناول میری ذہنی تسکین کی وجہ نہیں بن سکتا اور شاےد آپ کی بھی نہیں۔
اس لئے کہ اب بات صرف ماضی اور حال کی نہیں ہم سب کے مستقبل کی ہے اور اس کے لئے افسانے کہانیاں اور ناول ناکافی ہیں۔سچ کو سچ کی طرح ہی لکھنا ہوگا۔جھوٹ کے غلاف میں لپیٹ کر نہیں اور ایسی صاف گوئی بھی برتنا ہوگی کہ پڑھنے والوں اور سننے والوں کو سمجھنے کے لئے دماغ پر زور بھی نہ ڈالنا پڑے۔بس یوں لگے مانو ایسا کوئی شخص جو صدیوں سے قبر میں دفن تھا اور جس نے یہ تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے دفعتاً اب وہ ماضی کی تلخ سچائیاں بیان کرنے ہمارے سامنے چلا آیا۔اس لئے کہ ماضی کی تلخ یادوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے مستقبل کو سنوارنے کا عزم کر لیں۔یہی سوچ کر میں نے آج کی اس تحریر کےلئے آج کے مخصوص دن کا انتخاب کیا یعنی 9اگست کا ،جسے ”اگست کرانتی“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اور انگریزوں کے خلاف انقلابی تحریک کی شکل میں بھی، جس کے بانی مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔اگست کرانتی کی تفصیلات پر اندر کے صفحات میں ایک مکمل صفحہ قارئین کے پیش نظر ہے ۔لہٰذا میں 9اگست یعنی اگست کرانتی کے تعلق سے طویل گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔
مگر اس دور میں ضرور آپ کو لے جانا چاہتا ہوں جو اگست کرانتی کے بعد یا تقسیم وطن کے آس پاس کا دور تھا۔کون تھے وہ رہنما جنھوں نے اس ملک کی آزادی کا سہرا اپنے سر باندھا اور پھر ہمارے رہنما کہلائے۔کتنی سچائی تھی ان کے دلوں میں ہمارے لئے۔کیا واقعی وہ ہم سے محبت کرتے تھے،ہمارے خیر خواہ تھے۔یا یہ محض ایک فریب نظر تھا اور آج بھی وہ طلسم پوری طرح ٹوٹا نہیں ہے۔ٹکڑوں ٹکڑوں میں سچ سامنے آتا تو رہا ہے۔مگر اس پر جھوٹ کی اتنی پرتیں بھی چڑھائی جاتی رہیں ہیں کہ سچ وقت کی دھول میں دب کر رہ گیا ہے۔
میں آج تاریخ کے اوراق سے اس گرد کو صاف کر کے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ جب اس تحریر کے اختتام تک پہنچوں تو اپنی قوم کے مستقبل کو سامنے رکھ کر بھی کچھ لکھ سکوں۔تاکہ گزشتہ ساٹھ برسوں کی طرح آنے والے دنوں میں بھی ہمیں ایسے حالات سے نہ گزرنا پڑے کہ وطن کی تقسیم کے بہانے ہمیں تقسیم کر دیا جائے اور الزام بھی ہمیں پر آئے۔فرقہ وارانہ فسادات میں جانی و مالی نقصان بھی ہمارا ہو اور مجرم بھی ہمیں ٹھہرائے جائیں۔وطن کے لئے جان بھی ہمیں دیں اور غدار وطن بھی ہمیں ہی کہا جائے۔ہماری مساجد اور عید گاہوں میں بم پھٹیں اور الزام بھی ہمیں پر آئے۔نہیں سب کچھ سر جھکا کر برداشت کرنا اورچلتے رہنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ہم اپنے جن رہنماﺅں سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں انہیں فرصت ہی کہاں ہے اپنی سیاست سے اور اگر یہ سب کچھ ان کی سیاسی ضرورت بن جائے تو پھر قیامت تک بھی آپ کو ان سے مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
دور حاضر کے مسائل اور قیادت پر گفتگو کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلے اس دور میں چلیں جہاں سے موجودہ حالات کی کڑیاں جڑتی ہیں، یعنی جنگ آزادی اور تقسیم وطن کے دور مےں۔
....جاری
No comments:
Post a Comment