Friday, June 18, 2010

بھٹکل ہو یا کشمیر حالات یکساں ہیں

عزیز برنی

اس کی عمر تقریباً 30برس ہے۔ پچھلے 12 سال سے جیل میں بند ہے، یعنی گرفتاری کے وقت صرف8سال کا تھا۔ اس درمیان اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو دہشت گرد قرار دے کر جیل بھیج دئےے جانے کے غم اور احساس شرمندگی کی تاب نہ لاکر اس کے والد اس دنیا سے گزر چکے ہیں، بوڑھی بیمارماں جو بیساکھی کے سہارے گھسٹ گھسٹ کر اپنی زندگی کے باقی بچے دن کاٹ رہی ہے، اس امید میں کہ ایک دن اس کا اکلوتہ بیٹا اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے کے بعد جیل کی سلاخوں کے باہر آئے گا اور وہ اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے پھر ایک بار اس کا چہرہ دیکھ لے گی۔ اس کے بدنصیب باپ کو تو اپنے بیٹے کا کاندھا نصیب ہوا نہیں، شاید اس کی یہ تمنا پوری ہو جائے۔ اس کی بہن بھی یہ حسرت دل ہی میں لےے رخصت ہوگئی کہ بھائی اسے ڈولی میں بٹھائے گا۔ اب وہ بوڑھی ماں تنہا ہے، نہ کوئی پرسان حال ہے، نہ آمدنی کا ذریعہ۔ جس کراےے کے مکان میں وہ رہتی ہیں، مالک مکان نے حالات کی ستم ظریفیاں دیکھتے ہوئے ترس کھاکر کرایہ معاف کردیا ہے اور رہنے کی اجازت دے دی۔ بیٹے کی پیروی کے لےے نہ پیسہ ہے، نہ ایسے رشتہ دار جو مہنگائی کے اس دور میں مسلسل جاری اس مقدمہ کے خرچ کا بوجھ اٹھا سکیں۔ یہ داستان ہے ڈاسنہ جیل میں بند محمد عامرخان کی۔ تمام واقعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس نے جو خط مجھے لکھاہے، وہ کل رات اس کے ایک عزیزانعام اللہ صاحب کے ذریعہ مجھ تک پہنچایا گیا، انشاء اللہ آئندہ کسی اشاعت میں اس خط کے اہم نکات حکومت ہند اور عدلیہ کے سامنے ضرور پیش کےے جائیں گے۔ اس وقت مختصراً بس اتنا کہ اگر قارئین کو یاد ہو تو اسی ڈاسنہ جیل میں مشکوک حالت میں مردہ پائے گئے محمد شکیل کی تفصیلات ہم نے اپنے ہفت روزہ میگزین ’عالمی سہارا‘اور انگریزی ہفت روزہ ’سہارا ٹائمس‘ کی 11جولائی009 کی اشاعتوں میں شائع کی تھیں۔ آج محمد عامرخان کی روداد کو چند سطروں میں بلاتاخیر شائع کردینے کے پیچھے بھی وجہ یہ ہے کہ ہم اس کی زندگی کو بچانا چاہتے ہیں۔ 14 میں سے 13مقدموں میں اسے کوئی بھی ثبوت نہ مل پانے کی وجہ سے پہلے ہی بری کیاجاچکا ہے۔ اب چل رہے آخری مقدمہ میں بھی پولس کو کوئی ثبوت ملتا نظر نہیں آرہاہے، لہٰذا ہمیں ڈر ہے کہ سچائی کو ہمیشہ ہمیشہ دفن کرنے کی غرض سے کہیں محمدعامر کا حشر بھی محمد شکیل کی طرح نہ ہوجائے اور اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کی چاہ میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ماں یہ حسرت دل میں لے کر ہی نہ چلی جائے۔
/ میں یہاں بیحدادب واحترام کے ساتھ اپنے وزیرداخلہ پی چدمبرم، وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ، وزیرقانون ویرپاموئلی اور عدلیہ کے ذمہ داروں سے یہ درخواست کرنا چاہوں گا کہ یہ محمد عامر کا تنہا معاملہ نہیں ہے۔ ایسے بیشمار واقعات مسلسل ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ بالخصوص اس وقت سے جب روزنامہ راشٹریہ سہارا نے سماجی انصاف اور حقوق انسانی کی ذمہ داریوں کے پیش نظر اس طرح کے معاملات پر توجہ دینی شروع کی اور راقم الحروف نے لکھنا شروع کیاہے۔ یہ تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ تمام واقعات کو قلمبند کرنا تقریباً ناممکن ہوگیاہے اور انہیں نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تعداد کتنی زیادہ ہے، اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ رات محمد عامر کے خیرخواہ نے میرے دفتر آکر کیس کی مکمل فائل کے ساتھ رابطہ قائم کیا تو آج صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد یعنی 6بج کر 10منٹ ویشالی(بہار) سے عمران(قیدی کا چھوٹابھائی) نے ایک ایسے ہی واقعہ کی روداد سنانا شروع کی۔ عبداللہ کولکاتا پریسڈینسی جیل میں دہشت گردی کے الزام میں گزشتہ 4برس سے سلاخوں کے پیچھے ہے۔عبداللہ کو 31جنوری006کو گرفتار کیا گیا۔ عبداللہ موضع مہادیومٹھ، پوسٹـکنہولی، تھانہـمہوا، ضلع ویشالی(بہار) کا رہنے والا ہے۔جلد ہی تفصیل منظرعام پر لائی جائے گی، اس وقت بس اتنا ہی۔ قیاس کریں کہ مسلسل ان حالات سے دوچار ہونے پر میری ذہنی کیفیت کیا رہتی ہوگی۔
ان دونوں واقعات کا ذکر اسی لےے کہ حکومت ہند کے سامنے وہ تصویر پیش کی جاسکے، جو شاید ان کی نظروں کے سامنے نہیں ہے، ورنہ مجھے آج کے مضمون کی شروعات عبدالصمدبھٹکل کی ضمانت کے ساتھ ہی کرنی تھی۔ گزشتہ 24مئی کو منگلور ائیرپورٹ سے انہیں بم بلاسٹ کے سلسلہ میں گرفتاری کےے جانے کے بعد جس وقت 30مئی کو میں بھٹکل پہنچا تو حالات قطعاً خوشگوار نہیں تھے، ہر چہرہ خوفزدہ تھا۔ اس لےے کہ سوال صرف ایک عبدالصمد بھٹکل کا نہیں تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح بٹلہ ہاؤس میں عاطف اور ساجد کے انکاؤنٹر کا معاملہ صرف دو نوجوانوں کے انکاؤنٹر کا معاملہ نہیں تھا۔ اس وقت بھی پورے ہندوستان کا مسلمان سہم گیا تھا اور عبدالصمد بھٹکل کی گرفتاری کے بعد بھٹکل کے حالات بھی اعظم گڑھ سے کم خوفزدہ نہیں تھے۔ یہ سب میں نے خود اپنی آنکھوں سے جاکر دیکھا اور اس رات اپنی تقریر میں کہا کہ آج اسی طرح دہشت گردی کے نام سے بھٹکل کو نشانہ بناےاجارہاہے، جس طرح چند روز قبل اعظم گڑھ کو بنایا جارہا تھا، دراصل اس کا اہم سبب یہ ہے کہ ہمارے مخالفین چاہتے ہیں کہ مسلمان باہرجاکر اپنے خاندانوں کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے لئے جو محنت کررہے ہیں، وہ پریشانیوں کا شکار ہوجائیں، ان پر ان کی اپنی زمین تنگ ہو جائے۔جب ان تکلیف دہ حالات کی صدا مجھ تک دہلی پہنچی تو محسوس ہواکہ مجھے بھٹکل جا کر دیکھنا چاہیے کہ اعظم گڈھ کے بعدجس زمین کو دہشت گردوں کی زمین کہا جا رہاہے، آخر وہ سرزمین کیا ہے ،وہاں کا ماحول کیا ہے، وہاں رہنے والوں کے حالات کیا ہیں۔ بھٹکل پہنچنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ گویا میں مدینہ کی گلیوں سے گزر رہا ہوں۔وہ مذہبی ماحول جوخانہ کعبہ کے ارد گرد نظر آتا ہے، و ہی پاکیزگی، وہی تقدس وہی لباس، وہی انداز،وہی مزاج، مجھے وہاں پر دیکھنے کو ملا۔
میں نے مقامی پولس اور انتظامیہ کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ہم وطن بھائیوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نواسہ رسول امام حسینؓ نے پوری دنیا پرہندوستان کو فوقیت دی تھی۔تاکہ وہ جنگ کی بجائے امن کے راستے پر اسلام دشمنوں کو آمادہ کر سکےں۔ بھٹکل کی سر زمین پر بسنے والے لوگ حضرت محمد مصطفی ؐ کے راستے پر چلنے والے لوگ ہیں اوربھٹکل ہمارے لئے ایک دینی درسگاہ کی حےثےت رکھتی ہے۔یہاں سے امن کا پیغام تو جا سکتا ہے، دہشت گردی کا پیغام نہیں، اس لئے کہ یہ ہمارے رسول کے دکھائے ہوئے راستے کے خلاف ہو گا، قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہوگا۔ ہم نہ قرآن کی تعلیمات کے خلاف جاسکتے ہیں،نہ سیرت رسول کے خلاف۔
- بھٹکل امن کی زمین ہے۔ اسلام کی زمین ہے۔دین اور تبلیغ کی زمین ہے، جو اسے دہشت گردی سے جوڑتا ہے، اور دہشت گردی کی سرزمین کہتا ہے ،چاہے وہ دارالعلوم دیوبند ہو ،دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنوہوےا بھٹکل۔وہ یا توخود دہشت گرد ہے یا دہشت گردوں کی سازش کا شکار ہے یا پھر وہ ہندوستان کو دہشت گردی کا شکار بنانا چاہتا ہے ،اس لئے ہر اس زمین کو جہاں سے امن کا پیغام مل سکتا ہے،جہاں سے اتحاد کا پیغام ملتا ہے،جہاں سے انسانیت کی تعلیم ملتی ہے ،ہر اس جگہ کو سوالوں کا نشانہ بنانا چاہتاہے،آج میں انہی سوالوں کا جواب دینے کے لئے بھٹکل میںحاضر ہو اہوں۔
ہمیں مختلف سوالوں اور پریشانیوں میں الجھایاجارہا ہے تاکہ مسلمان ترقی کی راہ پر آگے نہ بڑھ پائیں،کبھی ہمیں کہاجاتا ہے کہ ہم ریاض بھٹکل کی زندگی کے اوپر اٹھے سوالوں کا جواب دیں کہ کیا اس کا تعلق سیمی سے تھا؟ یا عبد الصمد کے تعلق سے سوال کےے جاتے ہیں ؟ کیایہ 22 سال کا نوجوان دہشت گرد ہو سکتا ہے ؟ ہمیں ایسے سوالوں میں الجھانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمارے وہ نوجوان جو اپنے ملک سے بہت دور جاکر اپنے خاندان کے افراد کے لئے پُر سکون زندگی گذارنے کے لئے رات دن محنت کرکے پیسہ جمع کر کے یہاں بھیجتے ہیں۔ وہ پریشان ہوجائیں اورواپس بھٹکل آجائیں اور یہاں ان کے خاندان والے اس قسم کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے خوف میں مبتلا ہوجائیں۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ان باتوں سے قطعاً خوف زدہ نہ ہوں۔ حالات کا ہمت کے ساتھ مقابلہ کریں۔1 سالوں سے جو سازشیںچلتی آرہی تھیں، ان سازشوں کے اب بے نقاب ہو نے کا وقت آ گیا ہے۔
آج پونہ بم بلاسٹ کا ذکر آتا ہے،اجمیر بم دھماکہ ، مالیگاوں بم بلاسٹ کاذکر آتا ہے، جن کی تمام تفصیلات ہمارے پاس محفوظ ہےں۔ کون ہےں جو مالیگائوں بلاسٹ کے پیچھے تھے ؟ کون ہےں جو پونا بلاسٹ کے پیچھے ہےں ؟ اور کون ہےں، جو مکہ مسجد بم بلاسٹ میںملوث ہےں ؟آہستہ آہستہ سب سچ سامنے آرہا ہے۔
عبدالصمد بھٹکل کو ضمانت مل گئی۔ اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔ بھٹکل میں اب خوشی کا ماحول ہے، وہاں مٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں۔ مبارکباد عبدالصمد بھٹکل کے خاندان والوں کو بھی اور بھٹکل کے عوام کو بھی۔ لیکن اب ایک سوال وزیرداخلہ پی چدمبرم سے کرناہوگا کہ اے ٹی ایس نے جس طرح عبدالصمد بھٹکل کو پنے بم بلاسٹ کا مجرم قرار دیتے ہوئے اوراسے ایک دوسرے معاملے میں جو ہتھیاروں کی سپلائی سے متعلق تھا، گرفتار کیا۔ جس پر ہمارے وزیرداخلہ نے اے ٹی ایس کی پیٹھ تھپتھپائی، اسے مبارکباد دی۔ آج سچ سامنے آجانے کے بعد اب ان کا عمل کیا ہوگا۔ کل جن کی پیٹھ تھپتھپائی تھی، جنہیں شاباشی دی تھی کیا آج انہیں اس غلطی کے لےے کوئی سزا بھی دی جائے گی۔ 24مئی سے5جون تک کا فاصلہ ہم سب کے لےے محض1دن کا فاصلہ ہوسکتا ہے، مگر احساس جرم کے ساتھ گزارہ گیا ایک ایک پل کس قدر جان لیوا ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہمارے وزیرداخلہ کو کرنا ہوگا۔ اس درمیان اس بے گناہ نوجوان پر کیا گزری ہوگی، میں اس کا بخوبی اندازہ اس لےے کرسکتا ہوں کہ میں نے ان ایام میں بھٹکل کے رہنے والے بےشمار لوگوں کے چہروں پر دکھ اور خوف کی عبارت کو پڑھا ہے۔کیا ہمارے وزیرداخلہ کے پیش نظر مہاراشٹر اے ٹی ایس کی پرانی کارکردگیاں نہیں تھیں۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ نانڈیر میں بم بناتے ہوئے بجرنگ دل کے کارکنان کو کلین چٹ دینے والی یہی اے ٹی ایس تھی۔ کیا آج تک بھی اس واقعہ کے مجرمین کو معقول سزائیں دی جاچکی ہیں۔ آج اٹھایا گیا ہر سوال اپنی جگہ قائم ہے، وہ تمام واقعات جن کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے، آئندہ تحریروں میں مکمل تفصیلات کے ساتھ ان پر قلم اٹھایا جائے گا۔ آج ان سب کا ضمناً ذکر اس لےے کہ گزشتہ ایک ماہ سے لکھنے کا سلسلہ روک سا گیا تھا۔ سوائے محترم مولانا نورالہدیٰ صاحب کے حوالہ سے لکھے گئے دو مضامین کے اور کچھ لکھنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ دراصل اس درمیان اترپردیش، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، بہار، راجستھان وجموںوکشمیر کے مختلف مقامات پر جانا پڑا اور جو کام تحریر کے ذریعہ کیا جارہا تھا، وہی تقریر کے ذریعہ کرنا مجبوری بن گئی۔ کشمیر سے واپسی کے وقت ہی میں نے طے کرلیا تھا کہ اب کشمیر کے حالات پر لکھنا ہے اور اس وقت تک لکھنا ہے، جب تک کہ حالات میں تبدیلی کا اشارہ نہ ملنے لگے۔ میں اپنے قارئین سے یہ مؤدبانہ درخواست کرنا چاہتا ہوںکہ وہ کشمیر کے حالات سے اپنے آپ کو اس قدر لاتعلق نہ رکھیں کہ انہیں ان کے درد کا احساس ہی نہ رہے۔ میں نے نہ کبھی علیحدگی پسندی کی حمایت کی اور نہ اب ارادہ ہے، مگر جہاں تک سوال حقوق انسانی اور سماجی انصاف کا ہے تو اس ضمن میں خاموش بھی نہیں رہا جاسکتا۔ میرے نزدیک طفیل کی موت ایک قتل سے کم نہیں ہے۔ یہ 17سالہ نوجوان جو بارہویں جماعت کا طالب علم تھا، بھیڑ کو منتشر کرنے کے لےے پولس کے ذریعہ چھوڑے گئے آنسو گیس کے گولوں کی زد میں آگیا اور اس طرح جائے حادثہ پر ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔ طفیل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ میں اس حادثہ کو قتل اس لےے لکھا کہ اب سے تین ماہ قبل اسی مقام پر 13سالہ وامق فاروق کی بھی اسی انداز میں موت واقع ہوچکی تھی۔ کیا اس حادثہ کے بعد پولس اور فورسس کو محتاط رویہ نہیں اپنانا چاہےے تھا۔ شاید یہ ان کے لےے کوئی خاص بات نہیں تھی، اس لےے کہ کشمیر میں اس طرح کی اموات یا حادثات کی بات جانے دیجئے پولس اور فوج کی گولی سے شکار ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ہر موت کے پیچھے ایک دردناک کہانی ہے۔ سب تو نہیں، مگر اب کچھ ذکر ان کا بھی ہوگا، آخر کیوں ہم نے انہیں تنہا اس آگ میں جلنے کے لےے چھوڑ دیا ہے۔

No comments: