Thursday, May 20, 2010

اگر مولانا نورالہدیٰ کی جگہ بال ٹھاکرے ہوتے تو…

عزیز برنی

یہ کیا ہوگیا ہے ہمیں؟
کیوں اس قدر بے حس ہوگئے ہیں ہم؟
کیا اخلاقیات اور قانون کے دائرے میں رہ کر بھی ہم حق اور انصاف کے لےے آواز بلند نہیں کرسکتے؟
کیوں ہمیں یہ انتظار رہتا ہے کہ جب تک یہ آگ ہماری دہلیز تک نہیں پہنچے گی، تب تک ہم خاموش ہی رہیں گے؟
کیا ہماری خاموشی ہمارا جرم نہیں ہے؟ کیا ہم اپنے اس عمل سے ظلم اور ناانصافی کی حمایت نہیں کررہے ہیں؟
دی گئیں، 4سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کے لےے مجبور کردیا گیا۔ پھر عدالت نے ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ مل پانے کی صورت میں انہیں باعزت بری کردیا۔ کیا عزت بازار میں ملنے والی کوئی شئے ہے کہ ہم نے جب چاہا چھین لی اور جب چاہا لوٹا دی؟ کیا یہ ایک جملہ کہ ’فلاں شخص کو عدالت نے باعزت بری کردیاہے‘ اس کے تمام زخموں پر مرہم لگادیتا ہے… وہ بھول جاتا ہے حراست کے دوران پولس مظالم کو… قید کے دوران جیل میں دی گئی اذیتوں کو… الزامات کے دوران معاشرے کی نفرت اور ذلت کو… برسوں لگتے ہیں معاشرے میں عزت کا مقام حاصل کرنے میں۔ پل بھر میں ذلت کا طوق گلے میں ڈال دینے والے کیا یہ نہیں جانتے؟ وہ سب جانتے ہیں۔ دراصل ذلت کی زندگی جینے کی عادت ڈال لینے کے لےے مجبور کردینے کی چال ہے یہ، ایک گہری سازش ہے، ایک مخصوص قوم کا حوصلہ توڑدینے کے لےے،جس طرح ملک کو آزادی سے ہمکنار کرنے والی قوم کے دامن پر تقسیم وطن کا داغ لگاکر اسے احساس جرم کے ساتھ جینے کو مجبور کردیا گیا تھا، پھر اس کے بعد فرقہ پرستی کا الزام لگاکر انہیں کی نظروں سے گرا دیا جو آزادی میں قدم قدم پر ساتھ تھے۔ نفرت کی دیواریں کھڑی کردیں، ان کے دلوں میں جو اس سرزمین امن کو محبت کا گلشن بنانے چلے تھے، نفرت کے شعلوں کے حوالے کردیا ان کے ارمانوں کو۔یہ بھی ایک سازش تھی، تاکہ یہ قوم سیاسی طاقت نہ بن سکے، وہ فرقہ پرستی کے الزام سے ڈرے رہیں اور ووٹ ڈالنے کے وقت جوش و خروش کے ساتھ گھروں سے نہ نکلیں، کسی کی کھل کر حمایت کرنے سے گریز کریں، ایسا چاہنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے مسلمانوں کی سیاسی دلچسپیاں کم ہوتی گئیں، نتیجہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کم ہوتی گئی۔ آسان نہیں ہے اس سیاست کے معمے کو سمجھنا۔ہماری کوشش ہے انہیں گتھیوں کو سلجھانے کی اور ان پیچیدگیوں کو آپ تک پہنچانے کی۔ آئےے! اب ذرا محترم مولانا نورالہدیٰ صاحب کے ساتھ ہوئے ظلم اور زیادتی پر بات کریں۔ کیا آپ کو لگتا ہے
ممبئی حج ہاؤس کے امام محترم جناب محمد یحییٰ صاحب کو دہشت گرد بتاکر اٹھا لیا گیا، تمام طرح کی اذیتیں
جہازوں میں سفر کرنے والے ہندوستانی مسافروں کی زبان سے یہ جملہ پہلے کبھی نہیں نکلا ہوگا کہ اب جہاز اڑنے والا ہے… اتنی دیر میں جہاز اڑجائے گا… بس اب جہاز کے اڑنے کا انتظار ہے… اب دیکھو یہ جہاز کتنی دیر میں اڑتا ہے… کیا عام بول چال میں مسافر جہاز کی پرواز کے وقت اپنے عزیزواقارب سے گفتگو کرتے وقت اس طرح کے جملے استعمال نہیں کرتے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں ’وایویان وایومنڈل میں پرویش کرنے والا ہے‘، نہیں کبھی نہیں۔ مہینے میں 15دن جہاز میں سفر کرنے کا موقع رہتا ہے۔ میں نے کبھی نہیں سنا، ہاں انگریزی لفظ ’ٹیک آف‘ کا استعمال تو ہوتا ہے، مگر ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ایک ہندوستانی عام بول چال کی ہندی زبان میں بولے تو اسے دہشت گرد سمجھ لیا جائے۔ Nچلو ہوگئی غلطی، لفظ کو اس کے صحیح معنی میں نہ سمجھ پانے کی اور آپ نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے متعلقہ مسافر کے ہینڈبیگ کی تلاشی لے لی، موبائل فون ضبط کرلیا، مسافر کی ہر طرح سے جانچ پرکھ کرلی، لگیج اتروا کر چیک کرلیا، پاسپورٹ کی جانچ کرلی، کال ریسیو کرنے والے کو بلاکر تصدیق کرلی، مسافر کا بیک گرائونڈ جان لیا، اب سفر پر جانے کی اجازت کیوں نہیں؟ اب پولس کے حوالے کرنے کی وجہ؟ اب حراست میں رکھنے، ذلیل کرنے، ذہنی اذیت پہنچانے کی وجہ؟ اب دفعہـ41 کے تحت جیل بھیج دینے کی وجہ اور رہائی بھی ضمانت کی بنیاد پر، یعنی سر پر مقدمے کی ننگی تلوار ابھی بھی، ایسا کیوں؟
ذہنی وجسمانی (8گھنٹے کی قید) اذیت کا… کسے احساس ہے کہ یہ جرم نظرانداز کیا جاسکنے والا جرم نہیں ہے، بلکہ ہم سب کو ضرورت ہے حق اور انصاف کے لےے جدوجہد کرنے کی۔ اگر آپ کو یہ جانکاری نہیں ہے تو آئےے اب میں ذرا آپ سے ان مولانا کا تعارف کرادوں، ہوسکتا ہے کچھ لوگوں نے سمجھ لیا ہو کہ بس داڑھی ٹوپی اور کرتے کی وجہ سے لفظ مولانا کا استعمال کرلیا گیا ہے۔ تو جان لیجئے کہ مولانا نورالہدیٰ صاحب عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ تفسیر و حدیث مولانا عبدالرحیم بستوی کے فرزند ہیں، جن کا شمار برصغیر ہندوپاک کے بڑے علما میں ہوتا ہے۔ دنیاکے بیشتر ممالک میں ان کے متعدد تلامذہ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ ایک علمی خانوادہ کے سرپرست ہیں۔محترم مولانا نورالہدیٰ قاسمی صاحب (50)بھی تبلیغی اور اصلاحی مشن سے وابستہ ہیں اور وہ خود بھی فاضل دارالعلوم دیوبند نیز قاسمی نسبت کے حامل ہیں۔ 1980سے 1985تک مولانا نورالہدیٰ صاحب نے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی اور فراغت کے بعد خود کو درس وتدریس کے لئے وقف کردیا، اسی اثنا میں انہوں نے تین مدارس اسلامیہ قائم کئے۔ مولانا نے001میں مقام املہا ضلع بستی میں ’جامعہ رحیمیہ‘ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس میں حفظ قرآن کا معقول نظم ہے، ا
اگر شک کی وجہ معقول تھی تو مکمل تصدیق ہونے تک جہاز کو پرواز کی اجازت کیوں دی گئی؟ اگر محترم مولانا نورالہدیٰ صاحب کے اس جملہ کا مطلب یہی تھا کہ جہاز حادثہ کا شکار ہونے والا ہے تو کیا تمام مسافروں کو اتار کر جہاز کی تلاشی لی گئی۔ کیا ضروری ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد ایسا کرنے کا ارادہ رکھے تو وہ خطرناک اسلحہ یا ایسی ڈیوائسDevice) اپنے پاس ہی رکھے، جس کے ذریعہ وہ اپنے خطرناک منصوبے کو عمل میں لاسکتا ہو۔ اسے جہاز کے کسی بھی حصہ میں چھپا بھی تو سکتا ہے۔ شک مضبوط تھا تو جہاز کی مکمل تلاشی اور تکنیکی جانچ کیوں نہیں کی گئی؟ اگر یہ کہا کہ جہاز5منٹ میں اڑجائے گا اور اس کا یہ مطلب نکالا گیا کہ کسی دہشت گرد نے جہاز کو (بم سے یا تکنیکی خرابی پیدا کرکے) اڑانے کی تیاری کی ہے تو جہاز میں اس کے کسی اور ساتھی کی تلاش کیوں نہیں کی گئی؟ فون پر یہ تو نہیں کہا گیا تھا کہ میں 15منٹ میں جہاز کو اڑادوںگا۔ یہ جملہ خود جرم کرنے کی طرف اشارہ نہیں کرتا، اگر ہم اسے جرم کے معنوں میں ہی دیکھیں تو یہ کسی جرم کی جانکاری ہونے یا فراہم کرنے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوچا جانا بھی فطری تھا کہ دہشت گرد کا کوئی ساتھی ہے، جس نے ایسا کچھ کیا ہے، کیا ساتھی کی تلاش کی گئی؟ کیا ایسے تمام سوالوں کا جواب متعلقہ افسران سے طلب نہیں کرنا چاہےے؟ ضرور کرنا چاہےے، مگر کسے فکر ہے جناب! ایک مدرسے کے مولانا کی عزت آبرو او
رس کے بعد 2009میں مولانا نے محلہ خانقاہ دیوبند میں دارالعلوم فاروقیہ قائم کیا، اس میں عربی دوم تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تیسرا مدرسہ انہوں نے ضلع سنت کبیر نگر کے شہر دریاباد میں جامعہ عربیہ عمر فاروق کے نام پر قائم کیا۔ ان مدارس کی کفالت چندہ پر منحصر ہے۔ حکومت سے یہ مدارس کوئی مدد قبول نہیں کرتے۔ مولانا نورالہدیٰ قاسمی صاحب کم وبیش 9-10بار برطانیہ وغیرہ کا سفر کرچکے ہیں۔ وہاں مولانا اصلاح وتبلیغ کے مشن پر جاتے ہیں اور برطانیہ کے مسلمانوں میں بڑے مشہور ہیں۔ اس وقت بھی مولانا نورالہدیٰ قاسمی صاحب دبئی ہوتے ہوئے برطانیہ کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ مورخہ 12-05-10کو امارات کی فلائٹ سے روانگی کے وقت دہلی اندراگاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر جہاز میں سوار ہونے کے بعد ان کے ساتھ یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، جس کی تفصیل ہم اپنی گزشتہ اشاعتوں میں پیش کرچکے ہیں، لہٰذا اس افسوسناک واقعہ کو پھر سے دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قبل اس کے کہ میں آج کا مضمون ختم کروں، ضروری لگتا ہے کہ اب ایک سوال ہم سب اپنے آپ سے بھی کریں کہ وہ شخص جو معاشرے کو بہتر تعلیم سے آراستہ کررہا ہے، وہ شخص جو ہماری آنے والی نسلوں کو علم دین سے فیضیاب کررہا ہے، وہ شخص جو ہماری آخرت سنوارنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، اگر ہمیں اس کی عزت اور احترام کی پروا نہیں ہے، اگر ہمیں ایک بے گناہ سے گنہگاروں جیسا سلوک کےے جانے کی پروا نہیں ہے تو پھر مجھے معاف فرمائیں کہ میں لال کرشن اڈوانی کی مثال سامنے رکھوں، جو شہید ہیمنت کرکرے کی تفتیش میں سامنے آجانے پر بھی سادھوی پرگیہ سنگھ کی حمایت میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک پہنچے۔ کیا ہم اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اسی لےے بھیجتے ہیں کہ وہ اس درجہ بے حسی اختیار کرلیں کہ صاف ظلم اور ناانصافی ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں اور چپ رہیں۔ شاید اب وقت آگیا ہے، ان سب سے جواب طلب کرنے کا، ورنہ یہ بے حسی جو آج ہمیں بے ضمیر بنارہی ہے، کل ہم سے ہماری شناخت بھی چھین لے گی۔ ……………

अगर मौलाना नूरूल हुदा की जगह बाल ठाकरे होते तो....
अज़ीज़ बर्नी

यह क्या हो गया हैं हमें? क्यों इतने बेहिस हो गए हैं हम? क्या नैतिकता और क़ानून के दायरे में रहकर भी हम हक़ और इन्साफ़ के लिए आवाज़ नहीं उठा सकते? क्यों हमें यह इंतिज़ार रहता है कि जब तक यह आग हमारी ड्योढ़ी तक नहीं पहुंचेगी तब तक हम मौन ही रहेंगे? क्या हमारी ख़ामोशी हमारा अपराध नहीं है? क्या हम अपने इस व्यवहार से अत्याचार और अन्याय का समर्थन नहीं कर रहे हैं। मुम्बई हज हाउस के इमाम मोहतरम जनाब मुहम्मद यहया साहब को आतंकवादी बताकर उठा लिया गया, सभी प्रकार की पीड़ाएं दी गईं, 4 वर्ष तक जेल की सलाख़ों के पीछे रहने के लिए मजबूर कर दिया गया। फिर अदालत ने उनके ख़िलाफ़ कोई सबूत न मिल पाने की स्थिति में उन्हें बाइज़्ज़त बरी कर दिया। क्या इज़्ज़त बाज़ार में मिलने वाली कोई वस्तु है कि हमने जब चाहा छीन ली और जब चाहा लौटा दी? क्या यह एक वाक्य कि ‘‘अमुक व्यक्ति को अदालत ने बाइज़्ज़त बरी कर दिया है’’ उसके सभी घावों पर मरहम लगा देता है........................ वह भूल जाता है हिरासत के दौरान हुए पुलिस अत्याचार को................. क़ैद के दौरान जेल में किए गए उत्पीड़नों को................ आरोपों के दौरान समाज की घृणा और अपमान को................ बरसों लगते हैं समाज में सम्मान का स्थान प्राप्त करने में। पल भर में अपमानता का तौक़ गले में डाल देने वाले क्या यह नहीं जानते? वह सब जानते हैं, दरअसल अपमान का जीवन जीने की आदत डाल लेने के लिए विवश कर देने की चाल है यह, एक सुनियोजित षड़यंत्र है एक विशेष समुदाय को हतोत्साहित कर देने के लिए, जिस तरह देश को आज़ादी दिलाने वाले समुदाय के दामन पर विभाजन का दाग़ लगा कर उसे अपराध बोध के साथ जीने को विवश कर दिया गया था, साम्प्रदायिकता का आरोप लगा कर उन्हीं की नज़रों से गिरा दिया जो आज़ादी दिलाने में क़दम-क़दम पर साथ थे। नफ़रत की दीवारें खड़ी कर दीं। उनके दिलों में जो इस शांतिपूर्ण धरती को मुहब्बत का चमन बनाने चले थे, घृणा की लपटों के हवाले कर दिया उनके अरमानों को, यह भी एक षड़यंत्र था ताकि यह क़ौम राजनीतिक शक्ति न बन सके वह साम्प्रदायिकता के आरोप से डरे रहें और वोट डालने के समय उत्साह के साथ घरों से न निकलें किसी का खुल कर समर्थन करने से बचें, ऐसा चाहने वाले अपने उद्देश्य में कामयाब हुए मुसलमानों की राजनीतिक रुचियां कम होती गईं परिणम स्वरूप विधानसभा तथा संसंद में प्रतिनिधित्व कम होता गया। आसान नहीं है इस राजनीतिक गुत्थी को समझना। हमारा प्रयास है इन्हीं गुत्थियों को सुलझाने का और इन कठिन परिस्थतियों को आप तक पहुंचाने का। आईए! अब ज़रा मोहतरम मौलाना नूरुलहुदा साहब के साथ हुए अत्याचार और ज़्यादती पर बात करें। क्या आपको लगता है कि जहाज़ों में यात्रा करने वाले भारतीय यात्रियों की ज़ुबान से यह वाक्य पहले कभी नहीं निकला होगा कि अब जहाज़ उड़ने वाला है-- कितनी देर में जहाज़ उड़ जाएगा-- बस अब जहाज़ के उड़ने का इंतिज़ार है-- अब देखो यह जहाज़ कितनी देर में उड़ता है-- क्या आम बोल-चाल में यात्री जहाज़ की उड़ान के समय अपने प्रियजनों से बातचीत करते समय इस तरह के वाक्यों का प्रयोग नहीं करते, बल्कि यह कहते हैं कि कुछ ही देर में ‘वायुयान वायुमंडल में प्रवेश करने वाला है’, नहीं, कभी नहीं। महीने में पंद्रह दिन जहाज़ में यात्रा करने का संयोग रहता है। मैंने कभी नहीं सुना, हां अंग्रेज़ी शब्द ृजंाम वििश् का प्रयोग होता है, परंतु ऐसा तो नहीं हो सकता कि एक भारीतय आम बोलचाल की हिंदी भाषा में बोले तो उसे आतंकवादी समझ लिया जाए। चलो हो गई ग़लती शब्द को उसके शुद्ध अर्थों में न समझ पाने की और आप ने ख़तरा महसूस करते हुए संबंधित यात्री के हैंड-बैग की तलाशी ले ली, मोबाइल फ़ोन ज़्ाब्त कर लिया, यात्री की हर प्रकार से जांच परख कर ली, लगेज उतरवा कर चैक कर लिया, पास्पोर्ट की जांच कर ली, काॅल रिसीव करने वाले को बुलाकर पृष्टि कर ली, यात्री का बेकग्राउंड जान लिया, अब यात्री को जाने की अनुमति क्यों नहीं? अब पुलिस के हवाले करने का कारण? अब हिरासत में रखने, अपमानित करने, मानसिक पीड़ा पहुंचाने का कारण? अब धारा 341 के तहत जेल भेज देने का कारण और रिहाई भी ज़मानत के आधार पर। यानी सिर पर मुक़दमे की नंगी तलवार अभी भी, ऐसा क्यों? अगर संदेह का कारण उचित था तो पूर्ण जांच होने तक जहाज़ को उड़ान भरने की अनुमति क्यों दी गई? अगर जनाब मौलान नूरुलहुदा के इस वाक्य का अर्थ यही था कि जहाज़ दुर्घटना का शिकार होने वाला है तो क्या सभी यात्रियों को उतार कर जहाज़ की तलाशी ली गई। क्या ज़रूरी है कि अगर कोई आतंकवादी ऐसा करने का इरादा रखे तो वह ख़तरनाक हथियार या ऐसे डिवाइस अपने पास ही रखे, जिसके माध्यम से वह अपनी ख़तरनाक योजना को व्यवहार में ला सकता हो। उसे वह जहाज़ के किसी भी हिस्से में छुपा भी तो सकता है। संदेह मज़बूत था तो जहाज़ की पूरी तलाशी तथा तकनीकी जांच क्यों नहीं की गई? अगर यह कहा कि जहाज़ 15 मिनट में उड़ जाएगा और उसका यह अर्थ निकाला गया कि किसी आतंकवादी ने जहाज़ को (बम से या तकनीकी ख़राबी पैदा करके) उड़ाने की तैयारी की है तो जहाज़ में उसके किसी अन्य साथी की तलाश क्यों नहीं की गई। फोन पर यह तो नहीं कहा गया था कि मैं 15 मिनट में जहाज़ को उड़ा दूंगा। यह वाक्य सव्यं अपराध करने की ओर संकेत नहीं करता, अगर हम उसे अपराध के अर्थों ही में देखें तो या किसी अपराध की जानकारी होने या उपलब्ध कराने की ओर भी संकेत करता है। ऐसी स्थिति में यह सोचा जाना भी स्वभाविक था कि आतंकवादी का कोई साथी है, जिसने ऐसा कुछ किया है, क्या साथी की तलाश की गई? क्या ऐसे तमाम प्रश्नों का उत्तर संबंधित अधिकारियों से नहीं मांगा जाना चाहिए। ज़रूर मांगा जाना चाहिए। परन्तु किसे चिंता है जनाब! एक मदरसे के मौलाना की इज़्ज़त आबरू और मानसिक तथा शारीरिक (48 घंटे की क़ैद) उत्पीड़न का......... किसे एहसास है कि यह अपराध नज़रअंदाज़ किए जा सकने वाला अपराध नहीं है बल्कि हम सबको आवश्यकता है हक़ और न्याय के लिए संघर्ष करने की। अगर आपको यह जानकारी नहीं है तो आइऐ अब मैं ज़रा आप से उन मौलाना का परिचय करा दूं, हो सकता है कि कुछ लोगों ने समझ लिया हो कि बस दाढ़ी, टोपी और कुर्ते के कारण शब्द मौलाना का प्रयोग कर लिया गया है, तो जान लीजिए कि मौलाना नूरुलहुआ साहब विश्व प्रसिद्ध दारुलउलूम देवबंद के तफ़्सीर व हदीस के शिक्षक मौलाना अब्दुर्रहीम बस्तवी के बेटे हैं, जिनकी गणना भारत-पाक उपमहाद्वीप के बड़े उलमा में होती है। दुनिया के अधिकांश देशों में उनके अनेकों शिष्य फैले हुए हैं। यह एक शैक्षणिक घराने के अभिभावक हैं। जनाब मौलाना नूरुलहुदा क़ास्मी साहब (50) भी तबलीग़ी और इस्लाही मिशन से जुडे़ हैं और वह स्वयं भी दारुलउलूम देवबंद के उत्तीर्ण और क़ास्मी उप नाम रखते हैं। 1980 से 1985 तक मौलाना नूरुलहुदा क़ास्मी साहब ने दारुलउलूम देवबंद में शिक्षा प्राप्त की और उत्तीर्ण होने के बाद स्वयं को पठन-पाठन के लिए समर्पित कर दिया, इसी बीच उन्होंने तीन इस्लामी मदरसे भी स्थापित किए। मौलाना ने 2001 में ज़िला बस्ती स्थित अमलहा में ‘जामिआ रहीमिया’ के नाम से एक मदरसा क़ायम किया। इसमें क़ुरआन की शिक्षा का उचित बंदोबस्त है, उसके बाद 2009 में मौलाना ने मुहल्ला ख़ानक़ाह देवबंद में दारुलउलूम देवबंद फ़ारूक़िया क़ायम किया इसमें अरबी द्वितीय तक की शिक्षा दी जाती है। तीसरा मदरसा उन्होंने ज़िला संत कबीर नगर के शहर दरियाबाद में ‘जामिआ अरबिया उमर फ़ारूक़’ के नाम से क़ायम किया। इन मदारिस का ख़र्च चंदे पर आधारित है। सरकार से यह मदरसे कोई सहायता नहीं लेते। मौलाना नूरुलहुदा क़ास्मी साहब लगभग 9-10 बार ब्रिटेन इत्यादि की यात्रा कर चुके हैं। वहां मौलाना इस्लाह व तब्लीग़ के मिशन में जाते हैं और ब्रिटेन के मुसलमानों में काफी लोकप्रिय हैं। इस समय भी मौलाना नूरुलहुदा क़ास्मी साहब दुबई के रास्ते ब्रिटेन की यात्रा पर रवाना हुए थे। दिनांक: 12/05/2010 को इमारात की फ़्लाइट से रवानगी के समय दिल्ली के इंदिरा गांधी इंटरनेशनल एयरपोर्ट पर जहाज़ में सवार होने के बाद उनके साथ यह अप्रिय घटना घटित हुई, जिसका विवरण हम अपने पिछले प्रकाशनों में पेश कर चुके हैं। इसलिए अफ़सोसनाक घटना को फिर से दोहराने की आवश्यकता नहीं है। इससे पूर्व कि मैं आज का लेख समाप्त करूं, आश्यक लगता है कि अब एक प्रश्न हम सब अपने आप से भी करें कि वह व्यक्ति जो समाज को शिक्षित कर रहा है वह व्यक्ति जो हमारी आने वाली पीढ़ियों को दीन की शिक्षा से मालामाल कर रहा है, वह व्यक्ति जो हमारी आख़िरत ठीक करने की जद्दोजहद में लगा है, अगर हमें उसके मान-सम्मान की परवाह नहीं है, अगर हमें एक बेगुनाह से गुनहगारों जैसा व्यवहार किए जाने की परवाह नहीं है तो फिर मुझे माफ़ फ़रमाएं कि मैं लालकृष्ण आडवाणी की मिसाल सामने रखूँ जो शहीद हेमंत करकरे की जांच में सामने आ जाने पर भी साध्वी प्रज्ञा सिंह के समर्थन में प्रधानमंत्री डा॰ मनमोहन सिंह के समक्ष पहुंचे। क्या हम अपने प्रतिनिधियों को चुन कर इसीलिए भेजते हैं कि वह इतनी बेहिसी धारण कर लें, खुला अत्याचार और ना इन्साफी होते हुए देखते रहें और चुप रहे। शायद अब समय आ गया है, उन सबसे जवाब मांगने का, वरना यह बेहिसी जो आज हमें आत्महीण बना रही है, कल हम से हमारी पहचान भी छीन लेगी। ......................................

Tuesday, May 18, 2010

کچھ شیش (باقی)نہیں، شیش کے بعد

عزیز برنی

شری شیش نرائن سنگھ جی بنیادی طور پر تاریخ کے طالب علم ہیں۔ شروع میں تاریخ کے استاد رہے، بعد میں صحافت کی دنیا میں آئے، پرنٹ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کام کیا۔ انہوں نے 1920سے 1947تک کی مہاتما گاندھی کی زندگی کے اس پہلو پر کام کیا ہے جس میں وہ ایک عظیم رابطہ کار کے طور پر نظر آتے ہیں۔ 1992سے اب تک تیزی سے بدل رہے سیاسی اطوار پر مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف میڈیا اداروں میں ملازمت کی۔ اب بنیادی طور پر لکھنے پڑھنے کے کام میں مصروف ہیں۔ ان کا یہ مضمون ’’ہماری آزادی کی وراثت کا مرکز ہے دیوبند‘‘ مجھے اتنا اچھا لگا کہ لکھتے لکھتے میرا قلم رک گیا اور دل چاہا کہ مجھے اس موضوع پر لکھنا تو ضرور ہے، لیکن آج تو اسی مضمون کو اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جانا چاہےے، کیوں کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں تقریباً وہی مجھ سے بہتر انداز میں شری شیش نارائن جی نے لکھا ہے۔ اب رہا سوال میرے لکھنے کا تو وہ آج کے بعد سہی، لہٰذا پیش خدمت ہے مولانا نورالہدیٰ صاحب کی گرفتاری پر لکھا گیا ان کا یہ تاریخی مضمون:
دارالعلوم دیوبند کو دشمن کی طرح پیش کرنے والے فرقہ پرست ہندوئوں کو یہ بتادینے کی ضرورت ہے کہ جب بھی انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوئی دیوبند کے طلبا اور اساتذہ ہمیشہ سب سے آگے تھے۔ ان لوگوں کو یہ بھی بتادینے کی ضرورت ہے کہ دیوبند کے مدرسے کا قیام بھی ان لوگوں نے کیا تھا جو 1857کی پہلی جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔
حال ہی میں دیوبند کے مولانا نورالہدیٰ کو دہلی کے ہوائی اڈے پر گرفتار کرلیا گیا ان کے خلاف دفعہ 341کے تحت چارج شیٹ داخل کی گئی اور انہیں دہلی کی ایک عدالت سے ضمانت لینی پڑی۔ وہ جیل سے تو باہر آگئے ہیں لیکن ابھی مقدمہ ختم نہیں ہوا ہے۔ ان پر ابھی مقدمہ چلے گااور عدالت نے انہیں بے قصور پایا تو ان کو بری کردیا جائے گا، ورنہ ان کو جیل کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے بھائی کا الزام ہے کہ یہ سب داڑھی ، کرتا اور پائجامہ کی وجہ سے ہوا ہے، یعنی مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں پریشان کیا جارہا ہے۔
Nہوا یہ کہ مولانا نورالہدیٰ دہلی سے لندن جارہے تھے، جب وہ جہاز میں بیٹھ گئے تو کسی رشتہ دار کا فون آیا تو انہوں نے اپنی خیریت بتائی اور کہا کہ جہاز اڑنے والا ہے اور ہم بھی اڑنے والے ہیں۔ کسی خاتون مسافر نے شور وغل مچایا اور کہا کہ یہ مولانا جہاز کو اڑا دینے کی بات کررہے ہیں۔ جہاز روکا گیا اور مولانا نورالہدیٰ کو گرفتار کرلیا گیا، پوچھ گچھ ہوئی اور پولس نے تسلیم کیا کہ بات سمجھنے میں خاتون مسافر نے غلطی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولس یہ پتہ لگالیا تھا کہ خاتون کی بے وقوفی کی وجہ سے مولانا نورالہدیٰ کو حراست میں لیا گیا تھا تو مقدمہ ختم کیوں نہیں کردیا گیا ۔ ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کرکے پولس نے ان کے شہری حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کے جمہوری حقوق کی بے حرمتی کی ہے۔ اس کے لئے پولس کو معافی مانگنی چاہئے، اگر معافی نہ مانگے تو مہذب معاشرے کو چاہئے کہ وہ پولس پر مقدمہ دائر کرے اور اسے عدالت کے ذریعہ سزا دلوائے۔پولس کو جب معلوم ہوگیا تھا کہ خاتون کا الزام غلط ہے تو مولانا کے خلاف دفعہ 341کے تحت مقدمہ چلانے کی کارروائی کیوں شروع کی؟ اس دفعہ میں اگر الزام ثابت ہوجائے تو تین سال کی قید با مشقت کا ضابطہ ہے۔ اتنی سخت سزا کی سفارش کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت انتظامی اور قانونی کارروائی کی جانی چاہئے۔ معاملہ مزید سنگین ہوجاتا ہے کیونکہ جانچ کے دوران ہی پولس کو معلوم ہوگیا تھا کہ الزام عائد کرنے والی خاتون جھوٹ بول رہی تھی۔ اس معاملے میں مولانا نورالہدیٰ، ان کے اہل خاندان اور دوستوں کو جو ذہنی اذیت جھیلنی پڑی ہے، حکومت کو چاہئے کہ اس کے لئے متعلقہ ایئر لائن، جھوٹ بولنے والی خاتون، دہلی پولس اور تفتیش کرنے والے افسران کے خلاف مقدمہ چلائے اور مولانا کو معاوضہ د لوائے۔ اس معاملے میں مولانا نورالہدیٰ کو ذہنی تکلیف پہنچاکر تمام متعلقہ فریقین نے ان کی توہین کی ہے۔
دراصل دیوبند کا دارالعلوم عالمی شہرت یافتہ مذہبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری آزادی کی لڑائی کی سب سے اہم وراثت بھی ہے۔ہندو مسلم اتحاد کا جو پیغام مہاتما گاندھی نے دیا تھا، دارالعلوم سے اس کی حمایت میں سب سے زور دار آواز اٹھی تھی۔ 1930میں جب الہ آباد میں ہوئی مسلم لیگ کی کانفرنس میں ڈاکٹر محمد اقبال نے علیحدہ مسلم اسٹیٹ کی بات کی تو دارالعلوم کے معروف قانون داں مولانا حسین احمد مدنی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان کی ترغیب سے ہی بڑی تعداد میں مسلمانوں نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں نمک ستیہ گرہ میں حصہ لیا تھا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 12ہزار مسلمانوں نے نمک ستیہ گرہ کے دوران گرفتاری دی تھی۔ دارالعلوم کے دانشوروں کی قیادت میں چلنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند آزادی کی لڑائی کے سب سے اگلے دستے کی قیادت کررہی تھی۔ آج کل لفظ دیوبند کا ذکر آتے ہی کچھ بیوقوف ترقی پسند لوگ اوٹ پٹانگ بیان دینے لگتے ہیں اور ایسا ماحول تیار کرتے ہیں گویا دیوبند سے متعلق ہر شخص انتہائی خطرناک ہوتا ہے اور بات بات پر بم چلادیتا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے وہاں کے فتوئوں پر بھی میڈیا کی ٹیڑھی نگاہیں ہیں۔ دیوبند کے دارالعلوم کے روزمرہ کے امور کو نیم خواندہ صحافی، فرقہ وارانہ چشمہ سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ 1857میں آزادی کی لڑائی میں قوم حاجی امداد اللہ کی قیادت میں متحد ہوئی تھی۔ وہ 1857میں مکہ چلے گئے تھے، ان کے دو اہم شاگردوں مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے دیوبند میں دارالعلوم قائم کرنے والوں کی رہنمائی کی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب یوروپی سامراجیت اپنی جڑیں مستحکم کررہی تھیں۔ افغانستان میں یوپی سامراجیت کی مخالفت سیدجلال الدین کررہے تھے،جب ہندوستان آئے تو دیوبند کے مدرسہ میں ان کا زبردست خیر مقدم ہوا اور انگریزوں کے اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کو مزید تقویت ملی۔ جب 1885میں کانگریس کی تشکیل ہوئی تو دارالعلوم کے سربراہ مولانا رشید احمد گنگوہی تھے۔ آپ نے فتویٰ دیا کہ شاہ عبدالعزیز کا فتویٰ ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے، اس لئے مسلمانوں کا فرض ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کریں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ہندوئوں کو ساتھ لے کر جدوجہد کرنا شرعی لحاظ سے بھی بالکل درست ہے۔ وہ ہندوستان کی مکمل آزادی کے حامی تھے۔ اس لئے انہوں نے کانگریس میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا، کیونکہ کانگریس 1885میں مکمل آزادی کی بات نہیں کررہی تھی، لیکن ان کی تحریک سے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے کانگریس کی رکنیت اختیار کی اور آزادی کی لڑائی میں شامل ہوگئے۔
3 تاریخ گواہ ہے کہ دیوبند کے علما فسادات کے دوران بھی ہندوستان کی آزادی اور قومی اتحاد کے سب سے بڑے حامی کے طور پر کھڑے رہتے تھے۔ دیوبند کے بڑے حامیوں میں مولانا شبلی نعمانی کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ ان کے کچھ اختلافات بھی تھے، لیکن آزادی کی لڑائی کے مسئلہ پر انہوں نے دیوبند کی پوری طرح سے تائید کی۔ سرسید احمد کی وفات تک وہ علی گڑھ میں استاد رہے لیکن انگریزی حکومت کے معاملے میں وہ سرسید سے مختلف رائے رکھتے تھے۔پروفیسر تارا چند نے اپنی کتاب ’ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی تاریخ‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دیوبند کے دارالعلوم نے ہر اس تحریک کی حمایت کی جو ہندوستان سے انگریزوں کو بھگانے کے لئے چلائی گئی تھی۔ 1857کے جن باغیوں نے دیوبند میں مذہبی مدرسہ قائم کیاان کے بنیادی مقاصد میں ہندوستان کی سرزمین سے محبت بھی تھی۔ کلام پاک اور حدیث کی تعلیم تو مدرسے کا بنیادی کام تھا لیکن انکے بنیادی اصولوں میں یہ بھی تھا کہ غیر ملکی اقتدار ختم کرنے کے لئے جہاد کے جذبہ کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔ آج کل لفظ جہاد کے بھی عجیب وغریب معنی بتائے جارہے ہیں۔ یہاں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوگا کہ 1857میں جن باغی فوجیوں نے انگریزوں کے خلاف سب کچھ دائو پر لگادیا تھا وہ سارے اپنے آپ کو جہادی ہی کہتے تھے۔یہ جہادی ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی اور سب کا مقصد ایک ہی تھا، غیر ملکی حکمرانوں کو شکست دینا۔
kمولانا رشید احمد گنگوہی کے بعد مولانا محمود الحسن دارالعلوم کے سربراہ بنے۔ ان کی زندگی کا مقصد ہی ہندوستان کی آزادی تھا۔ یہاں تک کہ کانگریس نے بعد میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں مکمل آزادی کا نعرہ دیا۔ لیکن مولانا محمود الحسن نے 1905میں ہی مکمل آزادی کے اپنے منصوبے پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان سے انگریزوں کو بھگانے کے لئے ایک مشن قائم کیا جس کا ہیڈکواٹر دیوبند میں بنایا گیا۔مشن کی شاخیں دہلی، دانا پور، امروٹ، کرنجی کھیڑہ وغیرہ میں بنائی گئیں۔اس میں بڑی تعداد میں مسلمان شامل ہوئے لیکن یہ سبھی مذاہب کے لئے کھلی تھیں۔ پنجاب کے سکھ اور بنگال کی انقلابی پارٹی کے اراکین بھی اس میں شامل ہوئے۔ مولانا محمود الحسن کے بعد دیوبند کی قیادت مولانا حسین احمد مدنی کے گاندھوں پر پڑی۔ انہوں نے بھی کانگریس، مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ مل کر ملک کے لئے جدوجہد کی۔ انہوں نے 1920میں کانگریس کی تحریک عدم تعاون کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی آخر تک حمایت کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی اختلافات کے باوجود تمام ہندوستانیوں کو ایک قوم کی شکل میں متحد رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا قیام جغرافیائی طریقہ سے کیا جانا چاہئے۔ مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ اپنی اس فکر کی وجہ سے ان کے بہت سے لوگوں خاص طور پر پاکستان کے حامیوں کی مخالفت جھیلنی پڑی لیکن مولانا صاحب اپنے فیصلہ پر قائم رہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے ان کے خلاف انتہائی زہریلی مہم شروع کی تو مولانا حسین احمد مدنی نے فارسی میں ایک شعر لکھ کر ان کو جواب دیا کہ عرب کے ریگستانوں میں گھومنے والے انسان جس راستہ پر آپ چل پڑے ہیں وہ آپ کو کعبہ شریف تو نہیں لے جائے گا، البتہ آپ انگلستان پہنچ جائیں گے۔ مولانا حسین احمد مدنی 1957تک رہے اور ہندوستان کے آئین میں بھی وسیع پیمانے پر ان کے مشوروں کو شامل کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے گزشتہ 150برسوںکی ہندوستان کی تاریخ میں دیوبند کا ایک اہم مقام ہے۔ ہندوستان کی شان کے لئے یہاں کے اساتذہ اور طلبا نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج لفظ دیوبند آتے ہی فرقہ پرستوں کے نمائندے اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی امور میں دنیا بھر معروف دیوبند کو ہندوستان کی آزادی میں ان کے سب سے اہم کردار کے لئے بھی یاد کیاجائے اور ان کے روزمرہ کے کاموں کو فرقہ واریت کے چشمہ سے نہ دیکھا جائے

कुछ शेष नहीं शेष के बाद
अज़ीज़ बर्नी


श्री शेष नारायण सिंह जी मूलतः इतिहास के विद्यार्थी हैं, शुरू में इतिहास के शिक्षक रहे, बाद में पत्रकारिता की दुनिया में आये... प्रिंट, रेडियो और टेलीविज़न में काम किया। इन्होंने 1920 से 1947 तक की महात्मा गांधी के जीवन के उस पहलू पर काम किया है, जिसमें वे एक महान कम्युनिकेटर के रूप में देखे जाते हैं। 1992 से अब तक तेज़ी से बदल रहे राजनीतिक व्यवहार पर अध्ययन करने के साथ साथ विभिन्न मीडिया संस्थानों में नौकरी की। अब मुख्य रूप से लिखने पढ़ने के काम में लगे हैं। उनका यह लेख ‘‘हमारी आज़ादी की विरासत का केन्द्र है देवबंद’’ मुझे इतना अच्छा लगा कि लिखते लिखते मेरा क़लम रूक गया और दिल चाहा कि मुझे इस विषय पर लिखना तो ज़रूर है, लेकिन आज तो इसी लेख को अपने पाठकों की सेवा में प्रस्तुत किया जाना चाहिए, क्योंकि मैं जो कुछ कहना चाहता हूं लगभग वही मुझसे बहतर अन्दाज़ में श्री शेष नारायण जी ने लिखा है। अब रहा सवाल मेरे लेख का तो वो आज के बाद सही। लिहाज़ा प्रस्तुत हे मौलाना नूरूल हुदा साहब की गिरफ्तारी पर लिखा गया उनका यह एतिहासिक लेखः-

दारूल उलूम देवबंद को दुश्मन की तरह पेश करने वाले साम्प्रदायिक हिंदुओं को भी यह बता देने की ज़रूरत है कि जब भी अंग्रेज़ों के ख़िलाफ बग़ावत हुई, देवबंद के छात्र और शिक्षक हमेशा सबसे आगे थे। इन लोगों को यह भी बता देने की ज़रूरत है कि देवबंद के स्कूल की स्थापना भी उन लोगों ने की थी जो 1857 के प्रथम स्वतंत्रता संग्राम के हीरो थे।

हाल में ही देवबंद के मौलाना नूरूल हुदा को दिल्ली हवाई अड्डे पर गिरफ्तार कर लिया गया। उन पर दफा 341 के तहत चार्जशीट दाख़िल की गई और उन्हें दिल्ली की एक अदालत से ज़मानत लेनी पड़ी। वे जेल से तो बाहर आ गए हैं लेकिन अभी केस ख़त्म नहीं हुआ है। उन पर अभी मुक़दमा चलेगा और अदालत ने अगर उन्हें निर्दोष पाया तो उनको बरी कर दिया जायेगा वरना उन्हें जेल की सज़ा भी हो सकती है। उनके भाई का आरोप है कि ‘यह सब दाढ़ी, कुर्ता और पायजामे की वजह से हुआ है, यानी मुसलमान होने की वजह से उनको परेशान किया जा रहा है।

हुआ यह कि मौलाना नूरूल हुदा दिल्ली से लंदन जा रहे थे। जब वे जहाज़ में बैठ गए तो किसी रिश्तेदार का फोन आया और उन्होंने अपनी खैरियत बताई और कहा कि ‘जहाज़ उड़ने वाला है और हम भी उड़ने वाले है।’ किसी महिला यात्री ने शोरगुल मचाया और कहा कि यह मौलाना जहाज़ को उड़ा देने की बात कर रहे हैं। जहाज़ रोका गया और मौलाना नूरूल हुदा को गिरफ्तार कर लिया गया। पूछताछ हुई और पुलिस ने स्वीकार किया कि बात समझने में महिला यात्री ने ग़लती की थी। सवाल यह है कि अगर पुलिस ने यह पता लगा लिया था कि महिला की बेवकूफ़ी की वजह से मौलाना नूरूल हुदा को हिरासत में लिया गया था तो केस ख़त्म क्यों नहीं कर दिया गया। उन पर चार्जशीट दाख़िल करके पुलिस ने उनके नागरिक अधिकारों का हनन किया है। अगर माफी न मांगे तो सभ्य समाज को चाहिए कि वह पुलिस पर इस्तगासा दायर करे और उसे अदालत के ज़रि दंडित करवाए। पुलिस को जब मालूम हो गया था कि महिला का आरोप ग़लत है तो मौलाना के ख़िलाफ दफा 341 के तहत मुक़दमा चलाने की प्रक्रिया क्यों शुरू की? इस दफ़ा में अगर आरोप साबित हो जाय तो तीन साल की बामुशक़्क़त सज़ा का प्रावधान है। इतनी कठोर सज़ा की पैरवी करने वालों के ख़िलाफ सख़्त से सख़्त प्रशासनिक और क़ानूनी कार्यवाही की जानी चाहिए। मामला और भी गंभीर हो जाता है क्योंकि जांच के दौरान ही पुलिस को मालूम चल हो गया था कि आरोप लगाने वाली महिला झूठ बोल रही थी। इस मामले में मौलाना नूरूल हुदा, उनके परिवार वालों और मित्रों को जो मानसिक प्रताड़ना झेलनी पड़ी है, सरकार को चाहिए कि उसके लिए संबंधित एअरलाइन, झूठ बोलने वाली महिला, दिल्ली पुलिस और जांच करने वाले अधिकारियों के ख़िलाफ मुक़दमा चलाए और मौलाना को मुआवज़ा दिलवाए। इस मामले में मौलाना नूरूल हुदा को मानसिक क्लेश पहुंचा कर सभी संबंधित पक्षों ने उनका अपमान किया है।

वास्तव में देवबंद का दारूल उलूम प्रसिद्ध धार्मिक केन्द्र होने के साथ-साथ हमारी आज़ादी की लड़ाई की सबसे महत्वपूर्ण विरासत भी है। हिन्दू-मुस्लिम एकता का जो संदेश महात्मा गांधी ने दिया था, दारूल उलूम से उसके समर्थन में सबसे ज़बरदस्त आवाज़ उठी थी। 1930 में जब इलाहाबाद में संपन्न हुए मुस्लिम लीग के सम्मेलन में डा. मुहम्मद इक़बाल ने अलग मुस्लिम राज्य की बात की तो दारूल उलूम के विख्यात क़ानूनविद मौलाना हुसैन अहमद मदनी ने उसकी मुख़ालिफत की थी। उनकी प्रेरणा से ही बड़ी संख्या में मुसलमानों ने महात्मा गांधी की अगुवाई में नमक सत्याग्रह में हिस्सा लिया था। सरकारी आंकड़ों के अनुसार क़रीब 12 हज़ार मुसलमानों ने नमक सत्याग्रह के दौरान गिरफ्तारी दी थी। दारूल उलूम के विद्वानों की अगुवाई में चलने वाला संगठन जमीअतुल उलेमा-ए-हिंद आज़ादी की लड़ाई के सबसे अगले दस्ते का नेतृत्व कर रहा था। आजकल देवबंद शब्द का उल्लेख आते ही कुछ अज्ञानी प्रगतिशील लोग ऊल-जलूल बयान देने लगते हैं और ऐसा माहौल बनाते हैं गोया देवबंद से संबंधित हर व्यक्ति बहुत ही ख़तरनाक होता है और बात बात पर बम चला देता है। पिछले कुछ दिनों से वहां के फतवों पर भी मीडिया की टेढ़ी नज़र है। देवबंद के दारूल उलूम के रोज़मर्रा के कामकाज को अर्धशिक्षित पत्रकार, साम्प्रदायिक चश्मे से पेश करने की कोशिश करते हैं जिसका विरोध किया जाना चाहिए। 1857 में आज़ादी की लड़ाई में क़ौम हाजी इमादादुल्लाह के नेतृत्व में इकट्ठा हुई थी। वे 1857 में मक्का चले गए थे। उनके दो प्रमुख अनुयायियों मौलाना मुहम्मद क़ासिम नानौतवी और मौलाना रशीद अहमद गंगोही ने देवबंद में दारूल उलूम की स्थापना करने वालों की अगुवाई की थी। यही वह दौर था जब यूरोपीय साम्राज्यवाद एशिया में अपनी जड़े मज़बूत कर रहा था। अफ़ग़ानिस्तान में यूरोपी साम्राज्यवाद का विरोध सैय्यद जमालुद्दीन कर रहे थे। जब वे भारत आए तो देवबंद के मदरसे में उनका ज़बरदस्त स्वागत हुआ और अंग्रेज़ों की सत्ता को उखाड़ फैंकने की कोशिश को और ताक़त मिली। जब 1885 में कांग्रेस की स्थापना हुई तो दारूल उलूम के प्रमुख मौलाना रशीद अहमद गंगोही थे। आपने फ़तवा दिया कि शाह अब्दुल अज़ीज़ का फ़तवा है कि भारत दारूल-हर्ब है। इसलिए मुसलमानों का फ़र्ज़ है कि अंग्रेज़ों को भारत से निकाल बाहर करें। उन्होंने कहा कि आज़ादी के लक्ष्य को हासिल करने के लिए हिन्दुओं को साथ लेकर संघर्ष करना शरीअत के लिहाज़ से भी बिल्कुल दुरूस्त है। वें भारत की पूरी आज़ादी के हिमायती थे, इसलिए उन्होंने कांग्रेस में शामिल न होने का फैसला किया। क्योंकि कांग्रेस 1885 में पूरी आज़ादी की बात नहीं कर रही थी, लेकिन उनकी प्रेरणा से बड़ी संख्या में मुसलमानों ने कांग्रेस की सदस्यता ली और आज़ादी की लड़ाई में शामिल हो गये। इतिहास गवाह है कि देवबंद के उलेमा दंगों के दौरान भी भारत की आज़ादी और राष्ट्रीय एकता के सबसे बड़े पक्षधर के रूप में खड़े रहते थे। देवबंद के बड़े समर्थकों में मौलाना शिबली नोमानी का नाम भी लिया जा सकता है। उनके कुछ मतभेद भी थे, लेकिन आज़ादी की लड़ाई के मसले पर उन्होंने देवबंद का पूरी तरह से समर्थन किया। सर सैय्यद अहमद ख़ां की मृत्यु तक वे अलीगढ़ में शिक्षक रहे लेकिन अंग्रेज़ी राज के मामले में वे सर सैय्यद से अलग राय रखते थे। प्रोफेसर ताराचंद ने अपनी किताब ‘भारत के स्वतंत्रता आंदोलन का इतिहास’ में साफ लिखा है कि देवबंद के दारूल उलूम ने हर उस आंदोलन का समर्थन किया जो भारत से अंग्रेज़ों को खदेड़ने के लिए चलाया गया था। 1857 के जिन बाग़ियों ने देवबंद में धार्मिक मदरसे की स्थापना के उनके प्रमुख उद्देश्यों में भारत की सरज़मीन से मुहब्बत भी थी। कलाम-ए-पाक और हदीस की शिक्षा तो स्कूल का मुख्य काम था लेकिन उनके बुनियादी सिद्धांतों में यह भी था कि विदेशी सत्ता ख़त्म करने के लिए जिहाद की भावना को हमेशा ज़िंदा रखा जाए। आज कल जिहाद शब्द के भी अजीबो ग़रीब अर्थ बताये जा रहे हैं। यहां इतना ही कह देना क़ाफी होगा कि 1857 में जिन बाग़ी सैनिकों ने अंग्रेज़ों के ख़िलाफ सब कुछ दांव पर लगा दिया था वे सभी अपने आपको जिहादी ही कहते थे। यह जिहादी हिन्दू भी थे और मुसलमान भी और सबका मक़सद एक ही था विदेशी शासक को पराजित करना।

मौलाना रशीद अहमद गंगोही के बाद दारूल उलूम के प्रमुख मौलाना महमूद उल हसल बने। उनकी ज़िंदगी का मक़सद ही भारत की आज़ादी था। यहां तक कि कांग्रेस ने बाद में महात्मा गांधी के नेतृत्व में पूरी स्वतंत्रता का नारा दिया। लेकिन मौलाना महमूद उल हसन ने 1905 में ही पूर्ण स्वतंत्रता की अपनी योजना पर काम करना शुरू कर दिया था। उन्होंने भारत से अंग्रेज़ों को भगा देने के लिए एक मिशन की स्थापना की जिसका मुख्यालय देवबंद में बनाया गया। मिशन की शाखाएं दिल्ली, दीनापुर, अमरोट, करंजी खेड़ा और यागिस्तान में बनाई गयीं। इसमें बड़ी संख्या में मुसलमान शामिल हुए। लेकिन यह सभी धर्मों के लिए खुला था। पंजाब के सिख और बंगाल की क्रांतिकारी पार्टी के सदस्य भी इसमें शामिल हुए। मौलाना महमूद उल हसन के बाद देवबंद का नेतृत्व मौलाना हुसैन अहमद मदनी के कंधों पर पड़ा। उन्होंने भी कांग्रेस, महात्मा गांधी और मौलाना अबुल कलाम आज़ाद के साथ मिलकर मुल्क की आज़ादी के लिए संघर्ष किया। उन्होंने 1920 में कांग्रेस के असहयोग आंदोलन का समर्थन करने का फैसला किया और उसे अंत तक समर्थन देते रहे। उन्होंने कहा कि धार्मिक मतभेद के बावजूद सभी भारतीयों को एक राष्ट्र के रूप में संगठित रहना चाहिए। उन्होंने कहा कि राष्ट्र की स्थाना भौगोलिक तरीक़े से की जानी चाहिए। धार्मिक आधार पर नहीं, अपने इस विचार की वजह से उनको बहुत सारे लोगों, ख़ासकर पाकिस्तान के समर्थकों का विरोध झेलना पड़ा लेकिन मौलाना साहब अडिग रहे। डा. मुहम्मद इक़बाल ने उनके ख़िलाफ बहुत ही ज़हरीला अभियान शुरू किया तो मौलाना हुसैन अहमद मदनी ने फारसी में एक शेर लिखकर उनको जवाब दिया कि अरब के रेगिस्तानों में घूमने वाले इंसान जिस रास्ते पर आप चल पड़े हैं, वह आपको काबा शरीफ तो नहीं ले जाएगा। अलबत्ता आप इंगलिस्तान पहंुच जाएंगे। मौलाना हुसैन अहमद मदनी 1957 तक रहे और भारत के संविधान में भी बड़े पैमाने पर उनके सुझावों को शामिल किया गया है।

ज़ाहिर है पिछले 150 वर्षों के भारत के इतिहास में देवबंद का एक अहम मुक़ाम है। भारत की शान के लिए यहां के शिक्षकों और छात्रों ने हमेशा कुर्बानियां दी हैं। अफसोस की बात है कि आज देवबंद शब्द आते ही साम्प्रदायिक ताक़तों के प्रतिनिधि ऊल-जलूल बाते करने लगते हैं। ज़रूरत इस बात की है कि धार्मिक मामलों में दुनिया भर में विख्यात देवबंद को भारत की आज़ादी में उनके सबसे महत्वपूर्ण रोल के लिए भी याद किया जाए और उनके रोज़मर्रा के कामकाज को सांप्रदायिकता के चश्मे से न देखा जाए।

کیا ہوتا ہے فتویٰ،پہلے یہ جانو تو…

عزیز برنی

جاوید اختر صاحب ایک ترقی پسند شاعر ہیں اور اب تو پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں، لہٰذا وہ کسی بھی سوال کے جواب میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب ’وندے ماترم‘ پر بحث جاری تھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ میں ہی کیا میرا پورا خاندان وندے ماترم گاتا ہے اور اب انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے مفتی صاحبان جناب مفتی حبیب الرحمن صاحب، جناب مفتی فخرالاسلام صاحب، جناب مفتی وقار علی صاحب اور جناب مفتی محمود حسن بلندشہری صاحب کے ذریعہ دئے گئے ایک فتویٰ پر اپنی تنقیدی رائے کا اظہار کردیا، جس کے نتیجے میں انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ ظاہر ہے کہ جاوید اختر جیسی بڑی شخصیت کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں اور ان پر توجہ نہ دی جائے، ان کی حفاظت کا معقول انتظام نہ کیا جائے، یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اب اس پر آپ غوروفکر کرتے رہئے کہ جاوید اختر صاحب کی اس تنقید کا ہندوستانی معاشرے بالخصوص مسلمانوں پر کیا اثر ہوگایا ان کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کو کس شکل میں لیا جائے گا؟ لیکن یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ جن کا مسئلہ ہے وہ اس پر غوروفکر کریں۔ بہرحال اس موضوع پر اٹھے تنازع کی وجہ سے ہم چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہیں کرسکے۔ حالانکہ آج جب دیوبند کے عالم دین محترم نورالہدیٰ صاحب نے فون پر اپنی روداد سنائی تو ذہن میں یہی تھا کہ آج کا مضمون اسی موضوع پر ہوگا کہ کیوں دہلی سے لندن کے لےے امیرات ائیرلائنس کی فلائٹ کے اڑان بھرنے سے قبل ایک ذرا سی بات پر نہ صرف انہیں جہاز سے اتاردیا گیا، بلکہ ان کے مقام و مرتبہ کا خیال کئے بغیر انہیں تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ ان کی خطا بس اتنی سی تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے فون پر یہ کہا تھا کہ 15-20منٹ میں جہاز اڑ جائے گا۔ بیچارے مولانا اگر انگریزی میں یہ کہہ دیتے کہ 15-20منٹ میں پلین ٹیک آف کرے گا تو انہیں اتنی اذیت اور رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ بہرحال اس موضوع پر گفتگو کل ہوگی، آج میں چند جملے دارالعلوم دیوبند کے مفتی صاحبان کے ذریعہ دئےے گئے فتویٰ پر لکھنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فتویٰ کیا ہے اور کن حالات میں دیا جاتا ہے۔ Y فتویٰ اس شرعی رہنمائی کا نام ہے، جو کسی بھی سوال کرنے والے کے جواب میں مفتی صاحبان قرآن اورحدیث کی روشنی میں کرتے ہےں۔ اس میں کسی کی خواہش نفس اور مرضی کا دخل بالکل نہیں ہوتا۔فتویٰ دینے والے مفتی کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو عام عدالتوں میں ایک وکیل کی ہوتی ہے، جو صرف قانون کی روشنی میں گفتگو کرتے ہیں، اس میں ترمیم کرنے کا انہیں کوئی حق نہیں ہوتا اور اس کے لےے انہیں حکومت ہند کے تسلیم شدہ ادارے سے باقاعدہ ڈگری لینی ہوتی ہے۔ فتویٰ دینے کے مجاز بھی وہی عالم ہوتے ہیں، جو باضابطہ اس کا کورس کرتے ہیں اور پھر دارالافتا میں موجود بڑے علمائے دین اور مفتی صاحبان سے تربیت حاصل کرکے شرعیت کے مسائل بتاتے ہیں۔ واضح ہو کہ کوئی بھی عالم دین صرف مسئلہ بتا سکتا ہے، فتویٰ دینے کا مجاز نہیں ہوسکتا۔ فتویٰ صرف مفتی ہی دے سکتے ہیں، جنہوں نے باقاعدہ ڈگری حاصل کی ہے۔ اب اگر ہم ہندوستان کے تناظر میں بات کریں تو کسی بھی مفتی کے دئے گئے فتویٰ کو نافذ کرانے کی عدالتیں یا حکومت پابند نہیں ہیں اور یہ امر بھی سوال پوچھنے والے کی صواب دید پر ہے کہ اس کے سوال کے جواب میں مفتی کے ذریعہ دئے گئے فتویٰ پر وہ کس حد تک عمل کرتا ہے، لیکن اگر وہ سوال کرنے والا ایک عام مسلمان یا ہندوستانی معاشرہ یہ امید کرے کہ سوال کے جواب میں جاری کیا گیا فتویٰ سب کو قابل قبول ہو، سب کی پسند کے پیمانے پر پورا اترتا ہو تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہےے کہ کسی بھی سوال کے جواب میں ایک تعلیم یافتہ مفتی کا جاری کیا گیا فتویٰ اس سوال کے جواب میں ایک آئیڈیل کیفیت کو واضح کرتا ہے۔ اسے ہم یوں سمجھیں کہ قرآن کریم ایک کانسٹی ٹیوشن ہے، نظام زندگی کو سمجھنے کا اور سیرت رسولؐ اس آسمانی کتاب کی روشنی میں اس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ اب کیوں کہ کسی بھی مفتی کے ذریعہ جاری کیا گیا فتویٰ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہوتا ہے، لہٰذا وہ اسلام پر عمل کرنے کی ایک ایسی بلندوبالا کیفیت ہوتی ہے، جو پیغمبر اسلامؐ کے ذریعہ بتائی گئی اور ان کے عمل کی روشنی میں ساری دنیا تک پہنچائی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی عام مسلمان کے لےے یہ ممکن نہیں ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں عین قرآن و حدیث کی روشنی میں کلیہ طور سے پابندعمل ہو، لیکن جس حد تک بھی وہ اس پر عمل کرسکے وہی بہتر سے بہتر صورتحال ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر مفتیان کرام سے یہ امید کریں کہ وہ آئیڈیل پوزیشن سے ہٹ کر کوئی آسان سی صورت ہمارے سامنے رکھ دیں تو ان سے یہ توقع کرنا غلط ہوگا۔ اب اگر بات کریں، اس وقت اٹھائے گئے ان سوالات پر جو ایک حالیہ فتویٰ میں دیوبند کے مفتی صاحبان کے ذریعہ سامنے رکھے گئے ہیں تو معاشرے کو یہ حق ہے کہ وہ اس فتویٰ کو جس طرح چاہے دیکھے، مگر تنقید کرنے سے پہلے اس پر غور ضرور کرے کہ یہ کس حد تک قابل تنقید ہے۔ جہاں تک عورتوں کے مردوں کے ساتھ کام کرنے کا تعلق ہے تو قبل اس کے کہ میں اس پر حالیہ فتویٰ کی روشنی میں گفتگو کروں، ایک ریسرچ پیپر کے اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ترقی پسند اور ذہین دوست احباب حسب ذیل لنک http:/www.patrika.com/news.aspx?id=250618 پر جاکر اپنی معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ریسرچ پیپر کی عبارت کچھ اس طرح ہے: ملک کی صدرجمہوریہ اور لوک سبھا کے اسپیکر جیسے بڑے عہدے بھلے ہی خواتین کے پاس ہوں، لیکن ایک تازہ ریسرچ کے نتائج پر بھروسہ کریں تو آج بھی معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری والی ذہنیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس ریسرچ میں پایا گیا ہے کہ آزادی کے 62برس بعد تک بھی پڑھا لکھا طبقہ خواتین کو یہ احساس دلانے سے نہیں چوکتا کہ وہ ایک عورت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری اور نجی ملازمتوں میں اچھے عہدوں پر نوکری حاصل کرلینے کے باوجود خواتین کے لےے ان کی نوکری کسی جنگ کے مورچے پر تعینات ہونے سے کم نہیں ہے۔ ایک ایسی جنگ جہاں پریشانیاں دفتر سے لے کر گھر تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور وہ نفسیاتی اعتبار سے اس حد تک پریشانیوں کا شکار ہوجاتی ہیں کہ آپ انہیں ذہنی بیمار سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ریسرچ گجرات یونیورسٹی کے ہیومن سائیکلوجی ڈپارٹمنٹ کے ایم اے سائیکلوجی کی طلبا کی ایک برس کی تحقیق کے دوران آئے نتائج پر مبنی ہے۔ اس بارے میں جانکاری فراہم کرتے ہوئے ڈاکٹر جان ساری نے بتایا کہ ریسرچ کے دوران بنک میں کام کرنے والی خواتین، ٹیچر، نرس اور مختلف سرکاری محکموں میں ٹائپسٹ کی شکل میں کام کرنے والی 21سے6سال تک کی خواتین کے تجربات کو سامنے رکھا گیا ہے۔ 306 ملازمت پیشہ خواتین سے تحریری طور پر ان کی رائے مانگی گئی، ان میں سے 215 شادی شدہ تھیں اور1غیرشادی شدہ۔ ان میں وہ بھی تھیں، جن کی تعلیم محض دسویں کلاس پاس تک تھی اور ان میں وہ بھی شامل تھیں، جنہوں نے ایم فلM.Phil) یا پی ایچ ڈیPh.d) تک تعلیم حاصل کی تھی۔ پھر خواتین کو عمر کے اعتبار سے بھی دو زمروں میں رکھا گیا، جن میں سے ایک میں1سے0سال کی عمر کی خواتین اور دوسری میں 31سے6برس تک کی عمر کی خواتین کو شامل کیا گیا۔ کاروبار سے منسلک خواتین کی مشکلات اور ان کے حل جیسے موضوع پر مانگے گئے تحریری نظریات کی روشنی میں اس ریسرچ کے نتیجے سے معلوم ہوتا ہے کہ 66فیصد خواتین اپنے سینئر افسران کے ذریعہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ جس میں سے 21سے0سال کے عمر کے زمرے کی 188خواتین میں سے 80فیصد نے کہا کہ ان کے افسران ان کے خاتون ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں پریشان کرتے ہیں۔ 31سے4سال کی عمر کے درمیان کی خواتین میں سے 45فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں جسمانی استحصال اور چھیڑچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 39فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ملازمت ملنے کے بعد وہ چاہتے ہوئے بھی آگے نہیں پڑھ پاتیں۔ ان کی شکایتوں پر مناسب کارروائی نہ ہونے کے سبب انہیں مسلسل استحصال برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نجی کمپنیوں میں ملازم پیشہ 21سے0سال تک کی عمر کی 43فیصد خواتین نے کہا کہ وہ عورت ہیں، اس لےے انہیں مقابلتاً کم تنخواہ ملتی ہے، جبکہ ان کا عہدہ اور کام ساتھ کام کرنے والے مردوں کے برابر ہوتا ہے۔ 31سے6سال عمر کی 27فیصد خواتین نے بھی یہی شکایت دوہرائی۔ 21سے0 سال تک کی 48فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں وقت پر ترقی اور حوصلہ افزائی نہیں ملتی۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ 51فیصد ملازمت پیشہ خواتین ذہنی بیماریوں کا شکار پائی گئیں۔ گھر اور دفتر میں مناسب تعاون نہ ملنے کے سبب ملازمت کرنے والی 51فیصد خواتین کسی نہ کسی ذہنی بیماری کی شکار بھی پائی گئیں۔ اگر اس کا مزید تجزیہ کریں تو 21سے0 سال کی عمر تک نوکری پیشہ خواتین میں 63فیصد ذہنی بیمار تھیں، جبکہ 31سے6سال تک کی عمر کی خواتین میں 40فیصد ذہنی بیمار پائی گئیں۔ 33فیصد ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا تھا کہ اگر انہیں بھی اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے مناسب مدد ملے تو وہ بہتر کام کرسکتی ہیں۔ جسمانی استحصال اور چھیڑچھاڑ کے معاملے میں 40فیصد ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں ابتدائی دور میں ہی اس کی سخت مخالفت کرنی چاہےے۔ استحصال کرنے والوں کو قانون اور پولس کارروائی کا خوف دکھانا چاہےے۔ مندرجہ بالا ریسرچ نہ تو راقم الحروف کے ذریعہ کی گئی یا کرائی گئی اور نہ ہی عورتوں کو ملازمتوں سے دور رہنے کا فتویٰ جاری کرنے والے مفتی صاحبان کے ذریعہ۔ اب یہ فیصلہ معاشرے بالخصوص خواتین کو کرنا ہے کہ اگر اس صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دیوبند کا یہ فتویٰ کس حد تک قابل تنقید ہے۔ ہم خواتین کے ملازمت کرنے پر کوئی تنقید نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے حالات کیا ہیں، انہیں اس کی ضرورت کتنی ہے، جہاں وہ کام کرتی ہیں، وہاں کا ماحول کیسا ہے۔ اس سب کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ تو انہیں ہی کرنا ہے، لیکن اگر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ان کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت نہ ہو، ان کا استحصال نہ ہو، وہ ملازمت تو کریں مگر ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے کہ نہ تو ان کی آبرو پر آنچ آئے اور نہ وہ ذہنی بیماریوں کا شکار ہوں تو اس میں غلط کیا ہے۔ پردے کا سوال بھی اس مسئلہ سے ملتا جلتا ہی ہے۔ کیا ہم عیسائی ننس پر، ان کے لباس پر کوئی تنقید کرتے ہیں،اگر ہم ہندوستانی معاشرے کی قدیم روایت پر نظر ڈالیں تو کیا ہمیں وہاں جسم کی نمائش ملتی ہے۔ کیا ہمارے معاشرے کی خواتین اس طرح نیم برہنہ رہتی تھیں، جس طرح ہم آج کم کپڑوں والی خواتین کو ترقی پسند کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کیا ہم واقعی اپنی بہن، بیٹیوں اور بہوؤں کو کم سے کم لباس میں دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کے اس عمل پر فخر کا احساس کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو واقعی انہیں ایسے فتووں پر بھرپور تنقید کرنی چاہےے اور طوفان بھی کھڑا کرنا چاہےے… اور اگر انہیں ذرا بھی ایسا لگتا ہے کہ ایک دائرے میں رہ کر اپنی آبرو کا خیال رکھتے ہوئے کام کرنے کا مشورہ ایک مناسب مشورہ ہے تو قطع نظر اس کے کہ یہ ایک مفتی کا فتویٰ ہے یا کسی مذہب کا قانون اس پر آنکھ بند کرکے تنقید کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے

Monday, May 17, 2010

क्या होता है फ़तवा, पहले यह जानो तो........

जावेद अख़्तर साहब एक प्रगतिशील शायर हैं और अब तो संसद सदस्य भी हैं। इसलिए वह किसी भी प्रश्न के जवाब में कुछ भी कह सकते हैं। पिछले दिनों जब वंदे मातृम पर बहस चल रही थी तो आपने फरमाया था कि मैं ही क्या मेरा पूरा परिवार वंदे मातृम गाता है, और अब उन्होंने दारुलउलूम देवबंद के मुफ़्ती साहेबान जनाब मुफ़्ती हबीबुर्रेहमान साहब, जनाब मुफ़्ती फ़ख़रुल इस्लाम साहब, जनाब मुफ़्ती वक़ार अली साहब और जनाब मुफ़्ती मेहमूद हसन बुलंद शहरी साहब द्वारा दिए गए फ़तवे पर अपनी टिप्पणी कर दी, जिसके परिणाम स्वरूप उन्हें जान से मारने की धमकियां मिलने लगीं। अब ज़ाहिर है कि जावेद अख़्तर जैसे बड़े आदमी को जान से मारने की धमियां मिलें और उन पर ध्यान न दिया जाए, उनकी सुरक्षा की उचित व्यवस्था न की जाए, यह तो संभव ही नहीं है। अब इस पर आप विचार विमर्श करते रहिए कि जावेद अख़्तर साहब की इस टिप्पणी का भारतीय समाज विशेष कर मुसलमानों पर क्या प्रभाव होगा, या उनको जान से मारने की धमकियों को किस रूप में लिया जाएगा? लेकिन यह उनकी समस्या नहीं है, जिनकी समस्या है वह इस पर विचार करें। बहरहाल इस विषय पर उठे विवाद के कारण हम चाहते हुए भी इसकी अनदेखी नहीं कर सके। हालांकि आज जब देवबंद के आलिमे दीन मोहतरम नूरुलहुदा साहब ने फोन पर अपनी विपदा सुनाई तो मन में यही था कि आज का लेख इसी विषय पर होगा कि क्यों दिल्ली से लंदन के लिए अमारात एयरलाइंस की फ़्लाइट के उड़ान भरने से पूर्व केवल एक ज़रासी बात पर न केवल उन्हें जहाज़ से उतार दिया गया बल्कि उनके मान सम्मान का ध्यान रखे बिना उन्हें तिहाड़ जेल भेज दिया गया। उनका दोष केवल इतना सा था कि उन्होंने अपने बेटे से फोन पर कहा था कि 15-20 मिनट में जहाज़ उड़ जाएगा। बेचारे मौलाना अगर अंग्रेज़ी में यह कह देते कि 15-20 मिनट में प्लेन टेकऑफ करेगा तो उन्हें इतनी पीड़ा और बदनामी का सामना न करना पड़ता। बहरहाल इस विषय पर बातचीत कल होगी। आज मैं केवल कुछ वाक्य दारुलउलूम देवबंद के मुफ़्ती मोहतरम मुफ़्ती साहेबान जनाब मुफ़्ती हबीबुर्रेहमान साहब, जनाब मुफ़्ती फ़ख़रुल इस्लाम साहब, जनाब मुफ़्ती वक़ार अली साहब और जनाब मुफ़्ती मेहमूद हसन बुलंद शहरी साहब द्वारा दिए गए फ़तवे पर लिखना चाहता हूं। सबसे पहले तो हमें यह समझना होगा कि फ़तवा क्या होता है और किन परिस्थितियों में दिया जाता है।

फ़तवा उस धार्मिक मार्गदर्शन का नाम है, जो किसी भी प्रश्न करने वाले के जवाब में मुफ़्ती हज़रात क़ुरआन और हदीस की रोशनी में देते हैं। इसमें किसी के स्वार्थ तथा इच्छा का दख़ल बिल्कुल नहीं होता। फ़तवा देने वाले मुफ़्ती की स्थिति वही होता है जो आम अदालतों में एक वकील की होती है जो केवल क़ानून की रोशनी में बातचीत करते हैं उसमें संशोधन करने का उन्हें कोई अधिकारनहीं होता और उसके लिए उन्हें भारत सरकार के स्वीकृत संस्थानों से बाक़ाएदा डिग्री लेनी होती है। फ़तवा देने का अधिकार भी उन्हीं आलिमों को होता है, जो बाजाब्ता इसका कोर्स करते हैं और फिर दारुलइफ़ता में मौजूद बड़े उलमा-ए-दीन और मुफ़्ती साहेबान से प्रशिक्षण प्राप्त करके धार्मिक मसले बताते हैं। स्पष्ट हो कि कोई भी आलिमे दीन केवल मसअला बता सकता है, वह फ़तवा देने का अधिकृत नहीं है। फतवा केवली मुफ़्ती ही दे सकते हैं जिन्होंने बाक़ाएदा डिग्री प्राप्त की है, अब हम अगर भारत के परिपेक्ष में बात करें तो किसी भी मुफ़्ती द्वारा दिए गए फ़तवे को लागू कराने की अदालतें या सरकार पाबंद नहीं है और यह फैसला भी सवाल पूछने वाले के विवेक पर है कि उसके सवाल के जवाब में मुफ़्ती द्वारा दिए गए फ़तवे पर वह किस हद तक अमल करता है, लेकिन यदि सवाल करने वाला एक आम मुसलमान या हमारा समाज यह आशा करे कि सवाल के जवाब में जारी किया गया फ़तवा सबको स्वीकारीय हो, सबकी पसंद के पैमाने पर पूरा उतरता हो तो यह संभव नहीं है।

हमें यह भी समझना चाहिए कि किसी भी सवाल के जवाब में एक योग्य मुफ़्ती का जारी किया गया फ़तवा इस सवाल के जवाब में एक आइडियल स्थिति को स्पष्ट करता है। इसे हम यूं समझें कि कुरआन-ए-करीम एक संविधान है, जीवन व्यवस्था को समझने और सीरत-ए-रसूल सल्ल॰ (रसूल का क़ौल और अमल) इस आसमानी किताब की रोशन में उसका व्यवहारिक नमूना पेश करती है। अब चूंकि किसी भी मुफ़्ती की ओर से जारी किया गया फ़तवा क़ुरआन और हदीस की रोशनी में होता है, इसलिए वह इस्लाम पर अमल करने की एक ऐसी उच्च स्थिति होती है, जो इस्लाम के पैग़म्बरों द्वारा बताई गई और उनके अमल की रोशनी में सारी दुनिया तक पहुंचाई गई है। ज़ाहिर है कि किसी भी आम मुसलमान के लिए यह संभव नहीं है कि जीवन के हर मामले में ठीक कुरआन और हदीस की रोशनी में पूर्णतः अमल करे, लेकिन जिस हद तक भी वह इस पर अमल कर सके वही बेहतर से बेहतर सूरतेहाल हो सकती है। लेकिन अगर मुफ़्तियाने किराम से यह उम्मीद करें कि वह आइडियल पोज़ीशन से हट कर कोई आसान सी सूरत हमारे सामने रख दें तो उनसे यह अपेक्षा करना ग़लत होगा। अब अगर बात करें, इस समय उठाए गए उन प्रश्नों पर जो अपने वर्तमान फ़तवे में देवबंद के मुफ़्ती साहेबान द्वारा सामने रखे गए हैं तो समाज को यह अधिकार है कि वह इस फ़तवा को जिस तरह चाहे देखें, परन्तु टिप्पणी करने से पहले उस पर विचार अवश्य करें कि यह किस हद तक आलोचना के योग्य है। जहां तक महिलाओं का पुरुषों के साथ काम करने का संबंध है तो पूर्व इसके कि मैं इस पर वर्तमान फ़तवे की रोशनी में बातचीत करूं, एक शोध पेपर के मुख्य अंश पाठकों की सेवा में पेश करना चाहता हूं। हमारे प्रगतिशील और विद्वान मित्रगण निम्नलिखित लिंक http:/www.patrika.com/news.aspx?id=250618
पर जाकर अपनी जानकारियों में वृद्धि कर सकते हैं रिसर्च पेपर का विवरण कुछ इस प्रकार है:

देश के राष्ट्रपति तथा लोकसभा स्पीकर जैसे बड़े पद भले ही महिलाओं के पास हों लेकिन एक ताज़ा रिसर्च के परिणामों पर भरोसा करें तो आज भी समाज में मर्दों की वर्चस्व वाली मानसिकता देखने को मिलती है। इस रिसर्च में पाया गया है कि आज़ादी के 62 वर्ष बाद तक शिक्षित वर्ग भी महिलाओं को यह एहसास दिलाने से नहीं चूकता कि वह एक महिला है। यही कारण है कि सरकारी तथा निजी नौकरियों में उच्च पदों पर नौकरी प्राप्त कर लेने के बावजूद महिलाओं के लिए उनकी नौकरी किसी युद्ध के मोर्चे पर नियुक्त होने से कम नहीं है। एक ऐसा युद्ध जहां परेशानियां कार्यालय से लेकर घर तक उनका पीछा नहीं छोड़तीं और वह मानसिकरूप से इस हद तक परेशानियों का शिकार हो जाती है कि आप उन्हें मानसिक रोगी समझ सकते हैं।

यह रिसर्च गुजरात यूनिवर्सिटी के ह्यूमन साइकॉलॉजी डिपार्टमेंट के एम॰ए॰ साइकॉलॉजी के छात्र के एक वर्ष के अध्ययन के बीच सामने आए परिणामों पर आधारित है। इस बारे में जानकारी उपलब्ध कराते हुए डा॰ जॉन सारी ने बताया कि रिसर्च के दौरान बैंक में काम करने वाली महिलाएं, टीचर, नर्स और विभिन्न सरकारी विभागों में टाइपिस्ट के रूप में काम करने वाली 21 से 56 वर्ष तक की महिलाओं के अनुभवों को सामने रखा गया है। 306 नौकरी पेशा महिलाओं से लिखित रूप में उनकी राय मांगी गई। उनमें से 215 विवाहित थीं और 81 अविवाहित। इनमें वह भी थीं जिनकी शिक्षा मात्र दसवीं कक्षा पास तक थी और उनमें वह भी शामिल थीं जिन्होंने एम॰फिल (M.Phil) या पीएचडी (PHD) तक शिक्षा प्रापत की थी। फिर महिलाओं को आयु के हिसाब से दो श्रेणियों में रखा गया, जिनमेंसे एक में 21 से 30 वर्ष आयु की महिलाएं और दूसरी में 31 से 56 वर्ष तक की महिलाओं को शामिल किया गया। व्यवसाय से जुड़ी महिलाओं की कठिनाइयां और उनके समाधान जैसे विषय पर मांगे गए लिखित विचारों की रोशनी में इस रिसर्च के परिणाम से मालूम होता है कि 66 प्रतिशत महिलाएं अपने वरिष्ठ अधिकारियों द्वारा शोषण का शिकार होती हैं, जिसमें से 21 से 30 वर्ष आयु श्रेणी की 188 महिलाओं में से 80 प्रतिशत ने कहा कि उनके अधिकारी उनके महिला होने का लाभ उठाते हैं और उन्हें परेशान करते हैं।

31 से 34 वर्ष आयु के बीच की महिलाओं में से 45 प्रतिशत का कहना है कि उन्हें शारीरिक शोषण तथा छेड़छाड़ का सामना करना पड़ता है। 39 प्रतिशत महिलाओं का कहना था कि नौकरी लगने के बाद भी वह चाहते हुए भी आगे नहीं पढ़ पातीं। उनकी शिकायतों पर उचित कार्यवाही न होने के चलते उन्हें लगातार शोषण सहन करना पड़ता है।

निजी कम्पनियों में कार्यरत 21 से 30 वर्ष आयु की 43 प्रतिशत महिलाओं ने कहा कि वह महिला हैं इसलिए उन्हें अपेक्षाकृत कम वेतन मिलता है, जबकि उनका पद और कार्य सहकर्मी मर्दों के बराबर होता है। 31 से 56 वर्ष आयु की 27 प्रतिशत महिलाओं ने भी यही शिकायत दोहराई। 21 से 30 वर्ष तक की 48 प्रतिशत महिलाओं का कहना था कि उन्हें समय पर तरक्की तथा प्रोत्साहन नहीं मिलता। सबसे चिंता की बात यह है कि 51 प्रतिशत नौकरी पेशा महिलाएं मानसिक रोगों का शिकार पाई गईं। घर तथा कार्यालय में उचित सहयोग न मिलने के चलते नौकरी करने वाली 51 प्रतिशत महिलाएं किसी न किसी मानसिक रोग का शिकार पाई गईं। अगर इसकी और समीक्षा करें तो 21 से 30 वर्ष आयु तक की नौकरी पेशा महिलाओं में 63 प्रतिशत मानसिक रोगी थीं। जबकि 31 से 56 वर्ष आयु तक की महिलाओं में 40 प्रतिशत मानसिक रोगी पाई गईं। 33 प्रतिशत नौकरी पेशा महिलाओं का कहना था कि अगर उन्हें भी अपने साथ काम करने वालों से उचित सहयोग मिलें तो वह बढ़िया काम कर सकती हैं। शारीरिक शोषण और छेड़छाड़ के मामले में 40 प्रतिशत महलओं का कहना था कि उन्हें स्वयं ही आरम्भिक दिनों में ही इसका सख़्त विरोध करना चाहिए। शोषण करने वालों को क़ानून तथा पुलिस कार्यवाही का भय दिखाना चाहिए।

उपरोक्त रिसर्च न तो लेखक द्वारा किया गया न कराया गया और न महिलाओं को नौकरियों से दूर रहने का फ़तवा जारी करने वाले मुफ़्ती साहेबान के द्वारा। अब यह फैसला समाज विशेष रूप से महिलाओं को करना है कि अगर इस स्थिति की समीक्षा की जाए तो देवबंद का फ़तवा किस हद तक निंदनीय है। हम महिलाओं के नौकरी करने पर कोई टिप्पणी नहीं करना चाहते। उनके हालात क्या हैं, उन्हें इसकी आवश्यकता कितनी है जहां वह काम करती हैं वहां का वातावरण कैसा है। इस सबको मन में रखते हुए यह निर्णय तो उन्हीं को करना है, लेकिन अगर इस बात का ख़याल रखा जाए कि उनके साथ कोई अशलील व्यवहार न हो, उनका शोषण न हो वह नौकरी तो करें मगर इन बातों का ध्यान रखते हुए कि न तो उनकी आबरू पर आंच और न ही वह मानसिक रोगों का शिकार हों, तो उसमें ग़लत क्या है। पर्दे का सवाल भी इस मसले से मिलता जुलता ही है। क्या हम ईसाई ननों पर, उनके वस्त्रों पर कोई टिप्पणी करते हैं, अगर हम भारतीय समाज की पुरानी परम्परा पर नज़र डालें तो क्या हमें वहां शरीर की नुमाइश मिलती है। क्या हमारे समाज की महिलाएं इस प्रकार अर्धनग्न रहती थीं, जिस तरह हम आज कम कपड़ों वाली महिलाओं को प्रगतिशील कह कर उनका प्रोत्साहन करते हैं। क्या हम वाक़ई अपनी बहन, बेटियों और बहुओं को कम से कम वस्त्रों में देख कर बहुत प्रसन्न होते हैं और उनके इस व्यवहार पर गर्वान्वित होते हैं। अगर ऐसा है तो वास्तव में उन्हें ऐसे फ़तवों पर भरपूर टिप्पणी करनी चाहिए और तूफ़ान भी खड़ा करना चाहिए और अगर उन्हें ज़रा भी ऐसा लगता है कि एक दायरे में रह कर अपनी आबरू का ध्यानरखते काम करने का सुझाव एक उचित सुझाव है तो इससे अलग हट कर कि यह एक मुफ़्ती का फ़तवा है या किसी धर्म का क़ानून उस पर आंख बंद करके टिप्पणी की बजाए उस पर विचार करने की आवश्यकता है।....................................

Thursday, May 13, 2010

عالمی دہشت گردی کا جواب شاہ فیصل

عزیز برنی

^منگل کے روز جب لکھنے کے لےے بیٹھا تو ایک ذاتی نوعیت کی وجہ نے قلم روک دیا۔ ہوا یہ کہ میرے چند ساتھیوں کے درمیان تعلقات میں کچھ کشیدگی محسوس کی جارہی تھی۔ میری ذمہ داری تھی کہ اس کو فوری طور پر ختم کیا جائے، لہٰذا اس سمت میں مجھے کچھ پیش رفت کرنا پڑی اور جو وقت لکھنے کے لےے مختص تھا، وہ اس کوشش کی نذر ہوگیا۔ کام یہ بھی بہت ضروری تھا، اس لےے مجھے اپنی تمام تر توجہ اس طرف لگانی پڑی۔ کوئی ضرورت نہیں تھی اس وقت اس واقعہ کے ذکر کے ساتھ مضمون شروع کرنے کی، لیکن آج اردو سہارا کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں کارکنان اس سے وابستہ ہیں اور ان سبھی کے درمیان خوشگوار تعلقات اس مشن کی کامیابی کی ضمانت ہوسکتے ہیں، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ مجھے آج اشارۃً اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تحریر کا آغاز کرناپڑا۔ دراصل ہم سب کو یہ ذہن نشیں کرنا ہوگا کہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے، جب خلافِ توقع تمام آندھیوں کے خلاف سہارا انڈیا پریوار کے زیرسایہ ایک چراغ جلانے کی کوشش کی گئی ہے، جس کی روشنی ہمارے ملک کی سرحدوں کے اس پار بھی پہنچی ہے، بلکہ کوشش تو یہ ہے کہ سات سمندر پار بھی پہنچے۔ ہم بے پناہ شکرگزار ہیں اپنے ادارے، ادارے کے سربراہ اور اپنے قارئین کے جنہوں نے بہت کم وقت میں ایک ایسی تاریخ ساز کامیابی سے ہمکنار کیا، جس کا آج سے قبل تصور بھی محال تھا۔ کامیابی صرف یہ نہیں کہ ہم 7 ریاستوں کے 10مراکز سے 27ایڈیشن کے ساتھ ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘ کی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی بین الاقوامی سطح کا ہفت روزہ ’’عالمی سہارا‘‘ اور ماہنامہ ’’بزم سہارا‘‘ بھی نہ صرف جاری ہے، بلکہ کامیابی یہ کہ آپ جو تحریک چلاتے ہیں، اسے کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
کون تصور کرسکتا تھا کہ ایک اخبار کے چند ادارےے تہاڑ جیل میں قید ملزمین کو باعزت رہائی دلاسکتے ہےں۔ برسہابرس سے عدالتوں کا چکر لگاکر پیروکار جب تھک چکے اور انہوں نے سہارا سے رجوع کیا تو قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے والے خود کو بے گناہ ثابت کرکے آزاد فضائوں میں سانس لینے کے حقدار بن گئے۔ پولس نے جنہیں مجرم گردانتے ہوئے راستہ سے اٹھالیا اور اگر ان کی بات کا یقین کریں تو وہ صرف آپ کے اخبار کی پیش رفت کی بنا پر انکاؤنٹر سے بچ گئے۔ 9/11 ، 26/11، بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر، یہ سب کے سب دہشت گردانہ حملے کہیں نہ کہیں ایک مخصوص قوم پر حملہ کی بنیاد بھی بنتے جارہے تھے۔ آپ کی تحریک نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دہشت گردانہ حملہ کوایک دہشت گردانہ حملہ کی شکل میں دیکھا جائے، اسے کسی مذہب سے نہ جوڑا جائے، پھر شہید ہیمنت کرکرے کی تفتیش نے یہ ثابت کیا کہ ہم جس سمت میں اشارہ کررہے تھے، وہ غلط نہیں تھی۔ مالیگاؤں کے بعد سمجھوتہ ایکسپریس، حیدرآباد مکی مسجد اور درگاہ اجمیر میں ہوئے بم دھماکوں کے تازہ انکشافات جن حقائق کو منظرعام پر رکھ رہے ہیں، اسے راشٹریہ سہارا کی پیشین گوئی سمجھیں یا منصف مزاج افسروں کے لےے اپنی تفتیش کو تنگ نظری کے دائرے سے باہر نکل کر حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی ترغیب بہرحال نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہر روز حقائق سامنے آرہے ہیں اور مذہب کو دہشت گردی جوڑنے والے آج خود اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنے کے لےے مجبورہیں۔
دارالعلوم دیوبند اور دیگر مذہبی درسگاہوں کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دینے کی کوشش ہویا وندے ماترم پر اٹھا طوفان۔ تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کا تنازع ملک کی فضا میں زہر گھول سکتا تھا، لیکن ایسے ہر ہر قدم پر اس اردو اخبار نے ہمدرد، زمیندار، الہلال اور البلاغ جیسے وطن دوست اخبارو ںکے دکھائے راستہ پر چلنے کی کوشش کی، جس کے خاطرخواہ نتائج بھی برآمد ہوئے، جو سارے ہندوستان کے سامنے ہیں مگر ابھی منزل بہت دور ہے۔ یا پھر یوں کہا جائے کہ ابھی تو بس اس کامیاب سفر کی شروعات بھر کی ہے۔ ابھی بہت دور جانا ہے۔ اگر ہماری ذاتی وجوہات کی وجہ سے یہ تحریک متاثر ہوئی تو شاید تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور شاید ہم بھی خود کو کبھی معاف نہ کرسکیں۔ اس سمت میں بس اتنا ہی لکھنا ہے، وہ بھی اس لےے کہ فرداً فرداً یہ پیغام تمام ہندوستان میں اس تحریک سے وابستہ افراد تک پہنچنا ممکن نہیں۔
اب بات اس موضوع پر جو منگل کے روز ہی قلمبند کیا جانا تھا۔ ہماری توجہ بٹلہ ہاؤس سے ہٹے، ہم یہ مان لیں کہ بس اس کاتعلق دو نوجوانوں سے تھا اور اب اس کو طول نہ دیں۔ ہم ریزرویشن کے سوال پر تحریک نہ چلائیں، یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ جن وجوہات کی بنا پر بابا بھیم راؤ امبیڈکر نے ایک مخصوص قوم کے لےے اس کی پسماندگی کی بنیاد پر معاشرے میں مساوی مقام دلانے کے لےے ریزرویشن کی تجویز منظور کرانے میں کامیابی حاصل کی، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق آج مسلم قوم ویسے ہی حالات سے گزر رہی ہے، لہٰذا آج مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ایسے ہی اصولوں کی بنیاد پر، اس کی پسماندگی کی بنیاد پر اسے ریزرویشن ملنا چاہےے۔ ہم ہیڈلی کی بات نہ کریں۔ 26/11کا کلیدی مجرم جس کو مان کر چارج شیٹ داخل کی گئی، بس اس سے ہٹ کر کوئی بات نہ کی جائے۔ نہ ہیڈلی کے معاملے کو زیادہ طول دیا جائے، نہ انیتا اُدّیا اور Fender Samuel کا ذکر کیا جائے۔ فہیم انصاری اور صباح الدین احمد کو بیشک عدالت نے باعزت بری کردیا، اب قلم نئے سرے سے انہیں انصاف دلانے کے لےے جدوجہد نہ کرے، باعزت بری ہوجانے کے اعلان سے بڑا انصاف اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم کیوں اس جدوجہد کی بات کررہے ہیں کہ اگر کوئی ملزم بے گناہ ثابت ہوجاتا ہے تو جتنے دن اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑتے ہیں اور اس کے خاندان کو دہشت گردی کے داغ کے ساتھ سرجھکا کر مجرموں سے بھی کہیں زیادہ تکلیف دہ زندگی گزارنے کے لےے مجبورہونا پڑتا ہے، وہ کم اذیت ناک نہیں ہے۔ ہمارے پچھلے مضمون کے بعد فہیم انصاری کی اہلیہ نے بات کی ہم سے۔ جیل سے لکھے گئے خط کی کاپی بھی بھیجی۔ ہم سے درخواست کی کہ ہم انصاف کی اس جنگ کو جاری رکھیں۔ ہم جانتے ہیں یہ انصاف ابھی ادھوارا ہے، مکمل انصاف تو تب ہوگا جب انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرنے والوں کو بھی عبرتناک سزائیں ملیں گی۔ ہماری تحریک کو، ہمارے قلم کو متاثر کرنے کے لےے ایسے انسانیت دشمن، باطل پرست، تنگ نظر افراد اور تنظیمیں ہر وہ حربہ اپنانے کی کوششوںمیں لگاتار مصروف رہتی ہیں، جس سے کہ یہ تحریک دم توڑ دے اور اس تحریک کو چلانے والوں کا حوصلہ ٹوٹ جائے۔ بس اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ بدھ کے روز درگاہ اجمیر شریف کی زیارت کے لےے جانا پہلے سے طے تھا، لہٰذا وہ موضوع جس پر کئی روز قبل قلم اٹھانا تھا، اس پر گفتگو کا آغاز اب ہم کرنے جارہے ہیں۔
ہم نے بارہا لکھا اور کہا کہ جب تک ہم یہ کہتے رہیں گے ’’کشمیر ہمارا ہے‘‘ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور جب ہم یہ کہیں گے ’’کشمیری ہمارا ہے‘‘ تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔صرف زمین ہی نہیں، اس زمین پر رہنے والے بھی ہمارے ہیں۔ جب یہ پیغام عام ہوجائے گا تو کشمیر کامسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد خوشگوار ہوا کا جھونکا آیا ہے شاہ فیصل کی کامیابی کی شکل میں، جسے ایک ہی آواز میں سارے ہندوستان نے سراہا ہے اور اس کی کامیابی کو سلام کیا ہے۔ ہاں شاہ فیصل ہی دہشت گردی کے خلاف کامیابی کی علامت بن سکتا ہے۔ شاہ فیصل صرف ایک مسلمان نہیں ہے، شاہ فیصل صرف ایک کشمیری نہیں ہے، شاہ فیصل وہ شخص ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف محض لفاظی نہیں کی، تقریریں نہیں کیں، بلکہ عملی طور پر دہشت گردانہ حالات کو برداشت کرکے خود دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود ساری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کامیاب سمت کا طریقہ یہ ہے۔ یوں تو ہر برس سول سروسز کے امتحانات ہوتے ہیں، ہر بار کوئی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، ہر بار کوئی ہونہار لڑکا یا لڑکی اس مقام تک پہنچتا ہے، مگر تاریخ تبھی بنتی ہے جب ان میں سے کوئی شاہ فیصل ہوتا ہے۔ دہشت گردانہ حملے میں اپنے والدمحترم کو کھودینا اور یہ کوئی اچانک ہوا حملہ نہیں، کسی دہشت گردانہ حملہ کی گرفت میں آجانے جیسی کوئی بات نہیں، کوئی اتفاق نہیں، بلکہ دہشت گردوں کو پناہ نہ دینے کے فیصلے میں اپنی جان گنوا دینا دہشت گردی کے خلاف ایک عملی جہاد ہے۔ پھر اس کے بعد خاندان کے افراد کے ٹوٹ کر بکھر جانے کی بجائے، حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے گمراہ کن ہوائوں کا رُخ موڑ دینے کی جدوجہد یقینا ایک پیغام ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی چاہ رکھنے والوں کے لےے۔ ہم چاہتے ہیں کہ شاہ فیصل پر چند جملے لکھ کر بات ختم نہ کردی جائے، بلکہ ان حالات کو سمجھا جائے جن سے گزر کر شاہ فیصل اس مقام تک پہنچے۔ ہم اپنی کامیابی کے لےے کچھ آئیکن ذہن میں رکھتے ہیں، کچھ لوگ ہمارے رول ماڈل ہوتے ہیں، جن کا چہرہ دیکھ کر ہم آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ جن کے دکھائے راستے پر چلنا ہم قابل فخر سمجھتے ہیں۔ آج دہشت گردی ساری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں انسانیت کا قدم قدم پر لہوبہا ہے، جس نے صرف بستیوں کو نہیں، ملکوں کو ویران کردیا ہے۔ جس نے زندگی جینے کا سلیقہ سکھانے والے مذاہب کو بدنام کردیا ہے، آج اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان تو کئی سمت سے کیا جارہا ہے، مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا ایک انداز جارج واکر بش کا تھا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا ایک اندازشاہ فیصل کا ہے۔ جارج واکر بش نے دہشت گردی کے زخم کو اپنے جسم پر محسوس نہیں کیا، مگر شاہ فیصل نے دہشت گردی کے اس زخم کو اپنے دل پر محسوس کرکے اس جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے، لہٰذا اب فیصلہ انسانیت دوست انصاف پسند عوام کو کرنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کامیاب طریقہ کیا ہے، وہ جو جارج واکر بش نے اپنایا یا وہ جو شاہ فیصل نے اپنایا

अंतर्राष्ट्रीय आतंकवाद का जवाब शाह फैसल
अज़ीज़ बर्नी


मंगल के दिन जब लिखने के लिए बैठा तो एक निजी कारण ने क़लम रोक दिया। हुआ यह कि मेरे कुछ साथियों के बीच संबंधों में कुछ तनाव सा महसूस किया जा रहा था। मेरी ज़िम्मेदारी थी कि इसको तुरंत समाप्त कराया जाए, इसलिए इस दिशा में मुझे कुछ पहल करनी पड़ी और जो समय लिखने के लिए निर्धारित था, वह इस प्रयास में लग गया। काम यह भी बहुत ज़रूरी था, इसलिए मुझे अपना पूरा ध्यान उस तरफ़ लगाना पड़ा। कोई आवश्यकता नहीं थी इस समय इस घटना के उल्लेख के साथ लेख आरंभ करने की, लेकिन आज उर्दू सहारा का दायरा इतना फैला हुआ है कि हज़ारों कार्यकर्ता किसी न किसी रूप में इससे जुड़े हुए हैं और उन सभी के बीच मधुर संबंध इस मिशन की सफलता की ज़मानत हैं। यही कारण है कि मुझे आज संकेतों में इस घटना का उल्लेख करते हुए अपने लेख का आरंभ करना पड़ा। दरअसल हम सबको मन में यह बिठाना होगा कि आज़ादी के बाद, पहला अवसर है कि जब आशा के विपरीत, तमाम आंधियों के ख़िलाफ़ सहारा इण्डिया परिवार की छत्रछाया तले एक चिराग़ जलाने का प्रयास किया गया है, जिसकी रोशनी हमारे देश की सीमाओं के उस पार भी पहुंची है, बल्कि प्रयास तो यह है कि सात समुन्दर पार भी पहंुचे। हम अत्यंत आभारी हैं अपनी संस्था, संस्था के अभिभावक तथा अपने पाठकों के जिनके माध्यम से हमने बहुत कम समय में एक ऐसी ऐतिहासिक सफलता प्राप्त की, जिसकी आज से पूर्व कल्पना भी मुश्किल थी। सफलता केवल यह नहीं कि हम 7 राज्यों के 10 केंद्रों से 27 एडिशन के साथ ‘रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा’ का प्रकाशन जारी रखे हुए हैं और साथ ही अंतर्राष्ट्रीय स्तर का साप्ताहिक ‘आलमी सहारा’ तथा मासिक ‘बज़्ाम-ए-सहारा’ भी न केवल जारी है, बल्कि सफलता यह है कि आप जो आन्दोलन चलाते हैं उसे सफलता प्राप्त होती है।

कौन कल्पना कर सकता था कि एक अख़बार के कुछ सम्पादकीय तिहाड़ जेल में बंद अभियुक्तों को बाइज़्ज़त रिहाई दिला सकते हैं। वर्षों से अदालतों का चक्कर लगाकर पैरोकार जब थक चुके और उन्होंने सहारा से सम्पर्क किया तो क़ैद की पीड़ाओं को झेलने वाले स्वयं को बेगुनाह साबित करके आज़ाद फ़िज़ाओं में सांस लेने के हक़दार बन गए। पुलिस ने जिन्हें अपराधी समझते हुए रास्ते से उठा लिया और अगर उनकी बात का विश्वास करें तो वह केवल आपके अख़बार की पहल के आधार पर एन्काउन्टर से बच गए। 9/11, 26/11, बटला हाउस एन्काउन्टर यह सब के सब आतंकवादी हमले कहीं न कहीं एक विशेष समुदाय पर हमले का आधार भी बनते जा रहे थे। आपके आन्दोलन ने यह सिद्ध करने का प्रयास किया कि आतंकवादी हमले को एक आतंकवादी हमले के रूप में देखा जाए, उसे किसी धर्म से न जोड़ा जाए। फिर शहीद हेमंत करकरे की जांच ने यह सिद्ध किया कि हम जिस दिशा में इशारा कर रहे थे, वह ग़लत नहीं था। मालेगांव के बाद समझौता एक्सप्रेस, हैदराबाद की मक्का मस्जिद और दरगाह अजमेर में हुए बम धमाके के ताज़ा खुलासे जिन तथ्यों को सामने ला रहे हैं, उसे राष्ट्रीय सहारा की भवष्यिवाणी समझें या न्यायप्रिय अधिकारियों के लिए अपनी जांच को तंगनज़री के दायरे से बाहर निकलकर तथ्यों को रोशनी में देखने की प्रेरणा। बहरहाल परिणाम हमारे सामने है। हर दिन तथ्य सामने आ रहे हैं और धर्म को आतंकवाद से जोड़ने वाले आज स्वयं अपने दामन में झांक कर देखने के लिए मजबूर हैं।

दारुल उलूम देवबंद तथा अन्य धार्मिक पाठशालओं को आतंकवाद का अड्डा क़रार देने का प्रयास हो या वंदे मातृम पर उठा तूफान, तस्लीमा नसरीन और सलमान रुश्दी का विवाद जो देश के वातावरण में विष घोल सकता था। लेकिन ऐसे हर-हर क़दम पर इस उर्दू अख़बार ने हमदर्द, ज़मींदार, अल-हिलाल और अल-बलाग़ जैसे देशभक्त अख़बारों के दिखाए रास्ते पर चलने का प्रयास किया। जिसके समुचित परिणाम भी बरामद हुए, जो पूरे भारत के सामने हैं, परंतु मंज़िल अभी बहुत दूर है, या यूं कहा जाए कि अभी तो इस सफल यात्रा की शुरूआत भर ही है, अभी हमें बहुत दूर जाना है। अगर हमारे निजी कारणों से यह आन्दोलन प्रभावित हुआ तो शायद इतिहास हमें कभी क्षमा़ नहीं करेगा और शायद हम भी स्वयं को कभी क्षमा़ न कर सकें। बस इस दिशा में केवल इतना ही लिखना है, वह भी इसलिए कि एक-एक करके यह संदेश पूरे भारत में इस आंदोलन से जुड़े हुए लोगों तक पहुंचाना संभव नहीं था।

अब बात उस विषय पर जो मंगल के दिन ही लिखा जाना था। हमारा ध्यान बटला हाउस से हटे, हम यह मान लें कि बस इसका संबंध दो युवकों से था और अब उसको तूल न दें, हम आरक्षण के प्रश्न पर आन्दोलन न चलाएं, यह सिद्ध करने का प्रयास न करें कि जिन कारणों के आधार पर बाबा साहब भीमराव अम्बेडकर ने एक विशेष समुदाय के लिए उसके पिछड़ेपन के आधार पर समाज में समान स्थान दिलाने के लिए आरक्षण का प्रस्ताव स्वीकृत कराने में सफलता प्राप्त की, सच्चर कमेटी की रिपोर्ट के अनुसार आज मुस्लिम समुदाय वैसे ही हालात से गुज़र रहा है इसलिए आज धर्म के आधार पर नहीं, बल्कि ऐसे ही सिद्धांतों के आधार पर, उसके पिछड़ेपन के आधार पर उसे आरक्षण मिलना चाहिए। हम हेडली की बात न करें। 26/11 का प्रमुख अपराधीे मान कर जिसके जिसके खिलाफ चार्जशीट दाखिल की गई, उससे हटकर कोई बात न की जाए। न हेडली के मामले को ज़्यादा तूल दिया जाए, न अनिता उदया और थ्मदकमत ेंउनमस की चर्चा की जाए। फ़हीम अन्सारी और सबाहुद्दीन अहमद को निःसंदेह अदालत ने बाइज़्ज़त बरी कर दिया, अब क़लम नए सिरे से उन्हें न्याय दिलाने के लिए संघर्ष न करे, बाइज़्ज़त बरी हो जाने की घोषणा से बड़ा न्याय और क्या हो सकता है। हम क्यों इस जद्दोजहद की बात कर रहे हैं कि अगर कोई अभियुत बेगुनाह सिद्ध हो जाता है तो जितने दिन उसे जेल की सलाख़ों के पीछे गुज़ारने पड़ते हैं और उसके परिवार को आतंकवाद के कलंक के साथ सर झुकाकर अपराधियों से भी कहीं अधिक पीड़ादायक जीवन व्यतीत करने पर मजबूर होना पड़ता है, यह कम कष्टदायक नहीं है। हमारे पिछले लेख के बाद फ़हीम अन्सारी की पत्नी ने बात की हम से, जेल से लिखे गए पत्र की काॅपी भी भेजी, हम से अनुरोध किया कि हम न्याय की इस जंग को जारी रखें। हम जानते हैं यह न्याय अभी अधूरा है। पूरा इन्साफ़ तो तब होगा जब उन आतंकवादी सिद्ध करने का प्रयास करने वालों को भी कठोर सज़ाएं मिलेंगी। हमारे आन्दोलन को, हमारे क़लम को प्रभावित करने के लिए ऐसे मानवता विरोधी, मिथ्यावादी, तंग नज़र व्यक्ति और संगठन हर वह हथियार अपनाने की कोशिशों में लगातार लगे रहते हैं, जिससे कि यह आन्दोलन दम तोड़ दे और इस आन्दोलन को चलाने वालों का उत्साह टूट जाए, बस उसे हर क़ीमत पर बचाना है। बुद्ध के दिन दरगाह अजमेर शरीफ़ की ज़ियारत के लिए जाना पहले से तय था, लिहाज़ा वह विषय जिस पर कई दिन पूर्व क़लम उठाना था, उस पर बातचीत की शुरूआत हम करने जा रहे हैंः

हमने बार-बार लिखा और कहा है कि जब तक हम यह कहते रहेंगे ‘कश्मीर हमारा है’ समस्या का समाधान नहीं होगा और जब हम यह कहेंगे ‘कशमीरी हमारे हंै’ तो समस्या हल हो जाएगी। केवल वह धरती ही नहीं, उस धरती पर रहने वाले भी हमारे हैं। जब यह संदेश आम हो जाएगा तो कश्मीर का मसला अपने आप हल हो जाएगा। एक लम्बे समय के बाद ख़ुशगवार हवा का झोंका आया है, ‘‘शाह फै़सल’’ की सफलता के रूप में, जिसे एक ही आवाज़ में सारे भारत ने सराहा है और उसकी सफलता को सलाम किया है। हां शाह फैसल ही आतंकवाद के विरुद्ध सफलता की अलामत बन सकता है। शाह फै़सल केवल एक मुसलमान ही नहीं है, शाह फै़सल केवल एक कश्मीरी नहीं है, शाह फै़सल वह व्यक्ति है, जिसने आतंकवाद के विरुद्ध मात्र शब्दों का प्रयोग नहीं किया, भाषण नहीं किए, बल्कि व्यवहारिक रूप से आतंकवाद के हालात को सहन करके स्वयं आतंकवाद का शिकार होने के बावजूद सारी दुनिया को यह संदेश दिया है कि आतंकवाद के विरुद्ध सफल अभियान का तरीक़ा यह है। यूं तो हर वर्ष सिविल सर्विसिज़ की परीक्षाएं होती हैं, हर बार कोई इस कामयाबी से हमकिनार होता है, हर बार कोई होनहार लड़का या लड़की इस स्थान तक पहुंचता है, परंतु इतिहास तभी बनता है जब उनमें से कोई शाह फै़सल होता है। आतंकवादी हमले में अपने आदर्णीय पिता को खो देना और यह यह कोई अचानक हुआ हमला नहीं था। आतंकवादी हमले की लपेट में आ जाने जैसी कोई बात नहीं। यह कोई संयोग नहीं थी, बल्कि आतंकवाद को शरण न देने के फैसले में अपनी जान गंवा देना आतंकवाद के विरुद्ध एक व्यावहारिक जिहाद था। फिर उसके बाद परिवार के लोगों का टूट कर बिखर जाने के बजाए, हालात से समझौता करने के बजाए विपरीत हवाओं का रुख़ मोड़ देने की जद्दोजहद निशचय ही एक संदेश है, आतंकवाद के विरुद्ध जंग लड़ने की इच्छा रखने वालों के लिए। हम चाहते हैं कि शाह फै़सल पर कुछ वाक्य लिख कर बात समाप्त न कर दी जाए, बल्कि उन परिस्थियों को समझा जाए जिनसे गुज़र कर शाह फै़सल इस स्थान पर पहुंचे। हम अपनी सफलता के लिए कुछ आईकाॅन मन में रखते हैं, कुछ लोग हमारे रोल माॅडल होते हैं, जिनका चेहरा देख कर हम आगे बढ़ने के रास्ते तलाश करते हैं। जिनके दिखाए रास्ते पर चलना हम गौरवपूण्र्रा समझते हैं। आज आतंकवाद सारी दुनिया का सबसे बड़ा मसला है। यह वह मसला है, जिसमें मानवता का क़दम- क़़दम पर लहू बहा है, जिसने केवल बस्तियों को नहीं कुछ देशों को वीरान कर दिया है। जिसने जीवन जीने का ढंग सिखाने वाले धर्मों को बदनाम कर दिया है, आज उस आतंकवाद के विरुद्ध जंग का ऐलान तो कई दिशाओं से किया जा रहा है, परंतु आतंकवाद के विरुद्ध जंग लड़ने का एक तरीक़ा जाॅर्ज वाॅकर बुश का था और आतंकवाद के विरुद्ध जंग लड़ने का एक तरीक़ा शाह फै़सल का है। जाॅर्ज वाॅकर बुश ने आतंकवाद के घाव को अपने शरीर पर महसूस नहीं किया मगर शाह फै़सल ने आतंकवाद के उस घाव को अपने दिल पर महसूस करके इस जंग में सफलता प्राप्त की। लिहाज़ा, अब फैसला मानवता से प्र्रेम रखने वाली, न्यायप्रिय जनता को करना है कि आतंकवाद के विरुद्ध जंग का सफल तरीक़ा क्या है, वह जो जाॅर्ज वाॅकर बुश ने अपनाया या वह जो शाह फै़सल ने अपनाया।

Monday, May 10, 2010

چلو آج ایک نئی جدوجہد کا آغاز کریں!

عزیز برنی

شاہ رُخ خان کی فلم ’’مائی نیم ازخان‘‘ ابھی تک نہیں دیکھی ہے میں نے۔ بڑی خواہش ہے اس فلم کو دیکھنے کی، مگر ایک ساتھ چارپانچ گھنٹے کا وقت نکالنا مشکل ہورہا ہے۔ فلم کی ریلیز سے قبل شاہ رُخ خان نے ممبئی میں اپنی رہائش گاہ ’’منت‘‘ پر کچھ مخصوص لوگوں کو دعوت دی تھی۔ اس موقع پر بھی میں نہیں جاسکا تھا اور روزنامہ راشٹریہ سہارا کی نمائندگی کی تھی میرے ساتھی شکیل حسن شمسی صاحب نے۔ میرے بہت سے قارئین نے فون پر اور ایس ایم ایس کے ذریعہ مجھے بتایا کہ فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ کا موضوع وہی ہے، جو اکثروبیشتر میرے مضامین کا ہوتا ہے اور انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بہت بااثر انداز میں شاہ رُخ خان نے اس پیغام کو بین الاقوامی سطح تک پہنچایاہے۔ مجھے یہ فلم ضرور دیکھنی چاہےے۔ ایک بار سی ڈی منگائی، تاکہ گھر ہی پر اس فلم کو دیکھا جائے، مگر وہ سی ڈی پائریٹڈ تھی اس لےے نہیں دیکھ سکا، ہاں مگر دیکھنا ضرور ہے۔
لیکن ’’فلم نیویارک‘‘ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ تمام تر مصروفیات کے باوجود پہلی فرصت میں ہی میں نے یہ فلم نوئیڈا کے ایک سنیماہال میں اپنی اہلیہ کے ساتھ جاکر دیکھی، کیونکہ وجہ میرے جذبات اور احساسات سے جڑی تھی اور یہی احساس مجھے اپنی قوم کے جذبات کو سمجھنے کا سلیقہ بھی دیتا ہے۔ جب فلم ’’نیویارک‘‘ ریلیز ہوئی، میرا بیٹا لندن میں تھا۔ ہم لوگ اس کے لےے بڑے فکرمند رہتے تھے، ہم یہاں وہ وہاں اور تنہا، نہ ملک اپنا، نہ لوگ اپنے، نہ جانے کب کوئی ناگہانی مصیبت کھڑی ہوجائے، میں جو لکھتا رہا ہوںاس سے ناخوش رہنے والوں کی بھی تو ایک بڑی تعداد ہے۔ جب سنا کہ فلم ’’نیویارک‘‘ ایک ایسی کہانی پر بنی فلم ہے، جس میں ایک مسلم نوجوان کو پھنسا کر دہشت گرد ثابت کردیا جاتا ہے۔ یقین جانئے میں اور میری بیگم جب یہ فلم دیکھ رہے تھے تو اپنے بیٹے کی خیریت کو لے کر بڑے فکرمند تھے۔ میں محسوس کررہا تھا کہ ریشماں بڑی بے چین ہے۔ سنیماہال سے نکلنے کے بعد اس کا پہلا جملہ یہی تھا ’’علی کو واپس بلا لیجئے، جو کچھ پڑھنا اور سیکھنا ہے وہ سب اپنے ملک میں رہ کر بھی ہوجائے گا۔ ہم باہری لوگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔‘‘ میں اس کے جذبات کو سمجھتا تھا، مگر بیٹے کی حوصلہ شکنی بھی نہیں چاہتا تھا۔ نہ تو یہ سب بتاکر اسے خوفزدہ کرسکتا تھا اور نہ میں اسے اس کے تعلیمی مشن سے ہٹانا چاہتا تھا، لہٰذا اپنی اور بیگم کی تسلی کے لےے میں دوروز کے لےے لندن چلاگیا، تاکہ اس کے ساتھ رہ کر اسے تمام نشیب و فراز سے آگاہ کرسکوں۔ وہ جن حالات میں رہ رہا ہے، اس کا جائزہ لے سکوں اور خدانخواستہ کوئی پریشانی سامنے آجائے تو ایسی صورت میں کیا کرنا ہے، اسے سمجھاسکوں۔ اس کے چند روز بعد ہی مجھے صدرجمہوریہ ہند کے لندن دورہ پر ان کے میڈیا ڈیلی گیشن میں جانے کا موقع ملا، پھر تین روز اس کے ساتھ رہ کر اس کے حالات کو سمجھنے اور اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ اس پر بھی جب ماں کا دل نہ مانا تو تقریباً ایک ماہ بعد تیسری بار میں اپنی بیگم کے ہمراہ لندن جاپہنچا۔ حیرانی کی بات یہ رہی کہ تین مہینے میں یہ میرا تیسرا لندن دورہ تھا، مگر پہلے دو دوروں کے دوران کسٹم کلیرنس کے وقت کوئی جانچ پڑتال نہیں، کوئی پوچھ گچھ نہیں، مگر تیسری بار اس قدر کہ بیگم کو قدموں تلے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی، پھر جب میں نے لندن میں برطانیہ کے وزیراعظم مسٹر براؤن کے ہمراہ ڈنر کے لےے اپنے نام جاری دعوت نامہ اور اس موقع پر صدرجمہوریہ ہند کے میڈیا ڈیلی گیشن کا ممبر ہونے سے متعلق دستاویز دکھائے، تب جاکر ہم ائیرپورٹ سے باہر نکل سکے۔ ایک ہفتہ کے قیام کے بعد ہم اپنے بیٹے کو لے کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ تفصیل ذاتی نوعیت کی ہے لہٰذا اس سے زیادہ لکھنا مناسب نہیں، مگر اتنا بھی لکھنا ضروری اس لےے لگا کہ میں اپنے قارئین کو اس ذہنی کیفیت کا اندازہ کراسکوں، جو ایسے حالات میں ماں باپ پر گزرتی ہے۔ میں نے فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ نہیں دیکھی، اس لےے کہ میں اپنے بیٹے کو واپس ہندوستان لے کر آچکا تھا۔ میں نے فلم ’’نیویارک‘‘ دیکھی اور تمام تر مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر لندن پہنچ گیا، کیوں کہ اپنے بیٹے کی خیریت کے لےے فکرمند تھا۔
اب جن پر نہیں گزرتی، وہ شاید محسوس نہیں کرسکتے کہ دامن پر دہشت گردی کا داغ کس قدر خون کے آنسو رلاتا ہے۔ بہت آسان ہے کسی بھی عدالت کے لےے حقائق سامنے آجانے پر دہشت گردی کا داغ برداشت کررہے کسی بھی ملزم کو باعزت بری کردینا۔ ہم اس کے لےے تمام عدالتوں اور جج صاحبان کے شکرگزار ہیں، مگر بیحد ادب واحترام کے ساتھ ان سب کی خدمت میں یہ بھی عرض کردینا چاہتے ہیں کہ ان باعزت شہریوں کی دہشت گردی کا الزام لگنے کے بعد اور باعزت بری ہونے سے پہلے کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی، اس کا بھی اندازہ کیا جائے۔ معاشرے میں کس طرح کی پریشانیوں کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے، فیصلہ کرتے وقت اگر اس بات کا بھی احساس کیا جاسکے تو شاید ہم متاثرین کے ساتھ مکمل انصاف کرسکیں۔ آج صبح میں ممبئی کی اسپیشل کورٹ میں 26/11کے حوالہ سے چل رہے مقدمہ کے دئےے فیصلے میں جسٹس ایم ایل تہلیانی کے ذریعہ فہیم انصاری اور بہار کے صباح الدین احمد کو باعزت بری کردئےے جانے پر فہیم انصاری کی بیگم یاسمین انصاری کے تاثرات پڑھ رہا تھا۔ بے شک وہ اور ان کا خاندان بہت خوش ہوں گے کہ فہیم انصاری کو باعزت بری کردیا گیا،مگر جب انہیں خیال آئے گا، تقریباً ڈیڑھ برس تک کے ان دنوں کا، ان حالات کا جب فہیم انصاری پر دہشت گرد ہونے کے الزام نے ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین چھین لیا ہوگا۔ وہ کم کھاتے ہوں گے، وہ کم سوتے ہوںگے۔ ایک بار گھر سے باہر نکلنے کے لےے سو بار سوچتے ہوں گے کہ زمانے بھر کی نگاہوں کا سامنا کیسے کریں گے۔ ان ہتک آمیز اور سوالیہ نگاہوں سے خود کو کیسے بچائیں گے، جو گھر سے باہر نکلتے ہی ان کا تعاقب کرتی نظر آئیں گی اور دروازے پر کسی بھی اجنبی کے قدموں کی آہٹ انہیں خوفزدہ کردیتی ہوگی۔ کیا ہماری کوئی بھی عدالت انہیں ان کی اس شرمندگی اور پریشانی کا بدل کسی بھی صورت میں دے سکتی ہے؟ میں اس وقت جن موضوعات پر لکھ رہا ہوں، وہ سلسلہ مکمل ہونے کے بعد یا اس سلسلے کو دیر تک چلانا مجبوری بن گئی تو اس کے ساتھ ہی ساتھ جس نئے سوال کو اٹھانا چاہتا ہوں، وہ یہی ہے کہ پولس جھوٹے ثبوتوں اور بے بنیاد الزامات کی بنا پر معصوم نوجوانوں کو گرفتار کرے، ایک لمبی چارج شیٹ داخل کرے جس میں جھوٹے گواہ اور ثبوت ہوں، جس سے پہلی نظر میں ہی وہ مجرم نظر آتے ہوں۔ ان پر دہشت گرد ہونے کا سنگین الزام لگائے، تاکہ کوئی ان کی حمایت کرنے کی ہمت بھی نہ جٹا پائے۔ عزیز واقارب، دوست احباب بھی پیروی سے دور بھاگیں۔ پھر ان میں سے اگر چند خوش نصیب جنہیں عدالت کی خصوصی توجہ حاصل ہوجائے، باعزت بری ہوجائیں تو کیا اس معاملے کو یہیں ختم مان لینا چاہےے۔ ان کے باعزت بری ہونے کے جشن میں ان اذیت ناک لمحات کو بھول جانا چاہےے، جن سے گزرنا ہر روز کا معمول بن گیا تھا۔ سوال ایک اپنے بیٹے کا نہیں ہے، اسی لےے میں نے اپنے بیٹے کے پردیس میں رہنے کے دوران اپنے جذبات کو قلمبند کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ ہرماںـباپ کے جذبات کو اسی انداز میں محسوس کرسکوں اور منظرعام پر لاسکوں۔
میرا ماننا ہے کہ کسی بھی جرم میں، کسی بھی ملزم کے باعزت بری ہونے کے بعد اس معاملے کو وہیں ختم سمجھ لینا بھاری بھول ہوگی۔ اسی وقت ایک نیا مقدمہ شروع کےے جانے کی ضرورت ہے۔ سماجی کارکنوں اور تنظیموں کو اس سمت میں حوصلہ افزائی کے لےے آگے آنا چاہےے۔ متاثرین کو بے خوف اس کی جدوجہد کے لےے تیار رہنا چاہےے۔ انہیں عدالت سے درخواست کرنا چاہےے کہ تمام ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر فلاں شخص اگر باعزت بری کردیا گیا، کوئی جرم اس پر ثابت نہیں ہوا تو پھر وہ سب کے سب مجرم اور گناہگار کیوں نہیں ہیں، جنہوں نے اسے پھنسانے کے لےے جھوٹے ثبوت اور گواہ پیش کےے۔ اگر انہیں کوئی سزا نہ ملی تو یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ ہزاروں فہیم انصاریوں اور صباح الدین احمدوں میں سے کوئی ایک دو بری ہوگئے، باقی سب کی سن گن نہ لی گئی تو یہ سلسلہ کیسے رکے گا؟ ہاں، اگر ہم تمام باعزت بری ہوجانے والے ملزموں کے کیس کو پھر سے عدالت میں لے جائیں، عدالت سے درخواست کریں کہ ان کے کیس کی فائلیں دوباری کھولی جائیں، تلاش کیا جائے کہ وہ جھوٹے گواہ کون تھے، وہ جھوٹے ثبوت کس نے مہیا کرائے، پولس کا الزام کیا تھا، کیس ڈائری کیا تھی، تیار کرنے والے کون تھے،عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ کیا تھی، کون کون اس میں شامل رہے؟ ان سب کو عدالت کٹگھرے میں لایا جائے، انہیں ایسی عبرتناک سزائیں دی جائیں کہ پھر کوئی کسی بے گناہ کو جھوٹے ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر مجرم ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمیں یہ بھی معاشرے اور عدالتوں کے ذہن نشیں کرانا ہوگا اور جج صاحبان کے سامنے بہت باعزت طریقے سے ان حالات اور واقعات کو پیش کرنا ہوگا کہ کسی ایک شخص پر دہشت گردی کاالزام اس کے خاندان کے افراد، اس کے متعلقین اور حتیٰ کہ اس کے پڑوسیوں اور شہر میں رہنے والوں تک کو کس قدر اذیت ناک لمحات سے گزرنے کے لےے مجبور کردیتا ہے۔اسے سمجھنا ہوگا اور انصاف کرتے وقت ان باتوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
آخر کسی بھی شخص کو سزا دینے کے بعد ہم جیل کے اندر کیوں ڈالتے ہیں، صرف اسی لےے نہ کہ ہم اسے معاشرے سے الگ کردیتے ہیں۔ سماج کی نظروں میں اس کے ایک مجرم ہونے کا احساس پیدا کردیتے ہیں، بہرحال ہم اسے زندہ تو رکھتے ہیں، اس کے کھانے پینے کا خیال بھی رکھتے ہیں، جیل کی کوٹھری ہی سہی سر چھپانے کی جگہ بھی دیتے ہیں، برائے نام ہی سہی وقتاً فوقتاً طبی جانچ بھی کراتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر اس کا علاج بھی کراتے ہیں۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے نہ کہ ہم اسے ایک چہاردیواری کے اندر قید رکھتے ہیں اور وہ اپنی زندگی اس مدت تک جب تک کہ بری نہ کیا جائے، احساس جرم کے ساتھ گزارتا ہے۔ انتہائی ایمانداری اور غیرجانبداری کے ساتھ اگر ہم سوچیں تو پائیں گے کہ جس پل ہم کسی پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں تو یہ سزا اسی وقت سے اس کے خاندان کے افراد کو بھی دے دیتے ہیں۔ جیل سے بھی تنگ چہاردیواری کے اندر وہ خود کو قید کرلینے کے لےے مجبور ہوجاتے ہیں۔ معاشرے سے ان کا تعلق اسی طرح ٹوٹ جاتا ہے، جس طرح جیل میں کسی قیدی کا۔ ان سے ملاقاتیں بھی کچھ اسی انداز میں ہوتی ہیں، جیسے کوئی ملاقاتی جیل کے دروازے تک پہنچتا ہے اور کھاناـپیناـسونا شاید قیدیوں سے بھی بدتر۔ اگر یہ سزا کسی جرم کے عوض ہے تب تو شاید زیادہ بحث کی گنجائش نہ سمجھی جائے اور اگر یہ سزا کسی جرم کے بغیر ایک جھوٹے الزام کی بنیاد پر ہے تو پھر اس کا نظرانداز کردیا جانا بہت بڑی ناانصافی کو دعوت دینا ہے، کیوں کہ پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں، جب جسے چاہا دہشت گردی کے الزام میں اٹھا لیا۔ جھوٹے گواہ اور ثبوت پیش کےے، اگر ثابت ہوگئے تو وہ دہشت گردسزا کا مستحق، ثابت نہ ہوئے تو باعزت بری۔ بس وہ اتنے میں ہی خوش کہ بری تو ہوگئے۔ شاید کسی نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ کیا سزا ان کو ملنا ضروری نہیں ہے، جنہوں نے انہیں مجرم ٹھہرانے کی کوشش کی۔

चलो आज एक नए संघर्ष की शुरूआत करें।
अज़ीज़ बर्नी

शाहरुख़ ख़ान की फ़िल्म ‘‘माई नेम इज़ ख़ान’’ अभी तक नहीं देखी है मैंने। बड़ी इच्छा है इस फ़िल्म को देखने की, परंतु एक साथ चार-पांच घंटे का समय निकालना कठिन हो रहा है। फ़िल्म की रिलीज़ से पूर्व शाहरुख़ ख़ान ने मुम्बई में अपने निवास स्थान ‘’मन्नत’’ पर कुछ विशेष लोगों को आमंत्रित किया था। इस अवसर पर भी मैं नहीं जा सका था तो रोज़नामा राष्ट्रीय सहारा का प्रतिनिधित्व किया था मेरे साथी शकील हसन शम्सी साहब ने मेरे बहुत से पाठकों ने फोन पर और एसएमएस के द्वारा मुझे बताया कि फिल्म ‘‘माई नेम इज़ ख़ान’’ का विषय वही है जो अधिकतर मेरे लेखों का होता है और बड़ी ख़ूबसूरती के साथ बहुत प्रभावशाली रूप में शाहरुख़ ख़ान ने इस संदेश को अंतर्राष्ट्रीय स्तर पर पहुंचाया’ है। मुझे यह फिल्म अवश्य देखनी चाहिए। एक बार सीडी मंगाई, सोचा कि घर ही पर इस फ़िल्म को देखा जाए, परंतु वह सीडी पाइरेटिड थी इसलिए देख नहीं सका, हां मगर देखना ज़रूर है।

लेकिन फिल्म ‘न्यू यार्क’ के मामले में ऐसा नहीं हुआ। सारी व्यवस्तताओं के बावजूद पहली फुर्सत में मैंने यह फिल्म नोएडा के एक सिनेमा हाॅल में अपनी पत्नी के साथ जाकर देखी। क्योंकि इस फिल्म का विषय मेरी भावनाओं और संवेदनाओं से जुड़ा था और यही संवेदनाएं मुझे अपनी क़ौम की भावनाओं को समझने का सलीक़ाभी देती हैं। जब फ़िल्म ‘न्यू याॅर्क’ रिलीज़ हुई, मेरा बेटा लंदन में था। हम लोग उसके लिए काफी चिंतित रहते थे, हम यहां वह वहां और अकेला, ने देश अपना, न लोग अपने, न जाने कब क्या आकस्मिक मुसीबत खड़ी हो जाए, मैं जो लिखता रहा हूं, उससे अप्रसन्न रहने वालों की भी तो एक बड़ी संख्या है। जब सुना कि फिल्म ‘न्यू यार्क’ ऐसी कहानी पर बनी फिल्म है, जिसमें एक मुस्लिम युवक को फंसा कर आतंकवादी सिद्ध कर दिया जाता है। विश्वास कीजिए मैं और मेरी पत्नी जब यह फिल्म देख रहे थे तो अपने बेटे की कुशलता को लेकर काफी चिंतित थे। मैं महसूस कर रहा था कि रेशमा बड़ी बेचैन है। सिनेमा हाॅल से निकलने के बाद उसका पहला वाक्य यही था ‘‘अली को वापस बुला लीजिए, जो कुछ पढ़ना और सीखना है वह सब अपने देश में रह कर भी हो जाएगा, हम बाहरी लोगों पर भरोसा नहीं कर सकते’’। मैं उसकी भावनाओं को समझता था, मगर बेटे का मनोबल भी नहीं तोड़ना चहता था। न तो यह सब बताकर उसे भयभीत कर सकता था और न मैं उसे उसके शैक्षणिक मिशन से हटाना चहता था, इसलिए अपनी और अपनी पत्नी की तसल्ली के लिए दो दिन के लिए लंदन चला गया ताकि उसके साथ रह कर उसे सभी ऊंचनीच से अवगत कर सकूं। वह जिन परिस्थितियों मे रह रहा है, उसकी समीक्षा कर सकूं और ख़ुदा न करे कोई परेशानी सामने आ जाए तो ऐसी स्थिति में क्या करना है, उसे समझा सकूं। इसके कुछ दिन बाद ही मुझे भारत की राष्ट्रपति की लंदन यात्रा पर उनके मीडिया डेलिगेशन में जाने का अवसर मिला। फिर तीन दिन उसके साथ रहकर उसके हालात को समझने और अपने मन को तसल्ली देने का प्रयास किया। इस पर भी जब मां का दिल न माना तो लगभग एक माह बाद तीसरी बार मैं अपनी पत्नी के साथ लंदन जा पहुंचा। आश्चर्य की बात यह रही कि तीन महीने में यह मेरी लंदन की तीसरी यात्रा थी, मगर पहली दो यात्राओं के दौरान कस्टम क्लियरेंस के समय कोई ग़ैरमामूली जांचपड़ताल नहीं, कोई पूछताछ नहीं, मगर तीसरी बार इतनी कि पत्नी के पैरों तले से ज़मीन निकलती हुई महसूस हुई, फिर जब मैंने लंदन में ब्रिटिश प्रधानमंत्री मिस्टर ब्राउन के साथ डिनर के लिए अपने नाम जारी निमंत्रण पत्र तथा इस अवसर पर भारत की राष्ट्रपति के साथ डेलिगेशन का सदस्य होने से संबंधित दस्तावेज़ दिखाए, तब जाकर हम एयरपोर्ट से बाहर निकल सके। एक सप्ताह ठहरने के बाद हम अपने बेटे को लेकर भारत वापस चले आए। विवरण निजी प्रकार का है इसलिए इससे अधिक लिखना उचित नहीं, परन्तु इतना भी लिखना आवश्यक इसलिए लगा कि मैं अपने पाठकों को इस मानसिक स्थिति का अंदाज़ा करा सकूं, जो ऐसी परिस्थितियों में मां-बाप की होती है, मैंने फिल्म ‘माई नेम इज़ ख़ान’ नहीं देखी, इसलिए कि मैं अपने बेटे को वापस भारत लेकर आ चुका था। मैंने फिल्म ‘न्यू यार्क’ देखी और सारी व्यस्तताओं के बावजूद समय निकाल कर लंदन पहुंच गया, क्योंकि अपने बेटे की कुशलता के लिए चिंतित था।

अब जिन पर नहीं बीतती, वह शायद महसूस नहीं कर सकते कि दामन पर आतंकवाद का दाग़ किस क़दर ख़ून के आंसू रुलाता है। बहुत आसान है किसी भी अदालत के लिए तथ्य सामने आ जाने पर आतंकवाद का दाग़ झेल रहे किसी भी आरोपी को बाइज़्ज़त बरी कर देना। हम इस के लिए सभी न्यायलयों तथा न्यायधीशों के आभारी हैं, परंतु अत्यंत सम्मान और आदर के साथ उन सबकी सेवा में यह भी निवेदन कर देना चाहते हैं कि उन बाइज़्ज़त नागरिकों की आतंकवाद का आरोप लगने के बाद तथा बाइज़्ज़त बरी होने से पूर्व की मानसिक स्थिति क्या होती उसका भी अंदाज़ा किया जाए, समाज में किस प्रकार की कठिनाइयों का उन्हें सामना करना पड़ता है, फैसला करते समय अगर इस बात का भी एहसास किया जा सके तो शायद हम पीड़ितों के साथ खुल कर न्याय कर सकें। आज सुबह मैं मुम्बई न्यायालय में 26/11 के हवाले से चल रहे मुक़दमा के फैसले में जसटिस एम॰एल॰ तहलयानी द्वारा फ़हीमुद्दीन अन्सारी और बिहार के सबा अहमद को बाइज़्ज़त बरी कर दिए जाने पर फ़हीम अनसारी की पत्नी यासमीन अन्सारी के विचार पढ़ रहा था। निःसंदेह वह और उनका परिवार बहुत प्रसन्न होंगे कि फ़हीम अन्सारी को बाइज़्ज़त बरी कर दिया गया, परंतु जब उन्हें याद आएगी, लगभग डेढ़ वर्ष के उन दिनों की, उन हालात की, जब फ़हीम अन्सारी पर आतंकवादी होने के आरोप ने उनकी रातों की नींद और दिन का चैन छीन लिया था। वह कम खाते होंगे, वह कम सोते होंगे। एक बार घर से निकलने के लिए भी सौ बार सोचते होंगे कि ज़माने भर की निगाहों का सामना कैसे करेंगे, उन अपमान जनक और सवालिया निगाहों से स्वयं को कैसे बचाएगे जो घर से बाहर निकलते ही उनका पीछा करती नज़र आएंगी और दरवाज़े पर किसी भी अजनबी क़दमों की आहट उन्हें भयभीत कर देती होगी। क्या हमारी कोई भी अदालत उन्हें उनकी इस शर्मिंदगी और परेशानी का बदला किसी भी रूप में दे सकती है। मैं इस समय जिन विषयों पर लिख रहा हूं, वह सिलसिला पूरा होने के बाद या इस सिलसिले को देर तक चलाना मजबूरी बन गई तो उसके साथ ही जिए नए प्रश्न को उठाना चाहता हूं वह यही है कि पुलिस झूठे सुबूतों, निराधार आरोपों की बिना पर मासूम नौजवानों को गिरफ़्तार करे, एक लम्बी आरोप पत्र दाखिल करे, जिसमें झूठे गवाह और सबूत हों जिससे पहली नज़र में ही वह अपराधी नज़र आते हों, उन पर आतंकवादी होने के गंभीर आरोप लगाए, ताकि कोई उनका समर्थन करने का साहस भी न जुटा पाए। सगे संबंधी, मित्रगण भी पैरवी से दूर भागें। फिर उनमें अगर कुछ भाग्यशाली जिन्हें न्यायालय का सम्मान जनक निर्णय प्राप्त हो जाए और बाइज़्ज़त बरी हो जाएं तो क्या इस मामले को यहीं समाप्त मान लेना चाहिए। उनके बाइज़्ज़त बरी होने की ख़ुशी में उन कष्टदायक क्षणों को भूल जाना चाहिए, जिनसे गुज़रना प्रतिदिन का मामूल बन गया था। प्रश्न एक अपने बेटे का नहीं है, इसीलिए मैंने अपने बेटे के परदेस में रहने के बीच अपनी भावनाओं को लिखने की आवश्यकता महसूस की कि हर मां-बाप की भावनाओं को इसी ढंग से महसूस कर सकूं और सामने ला सकूं।

मेरा मानना है कि किसी भी अपराध में, किसी भी आरोपी के बाइज़्ज़त बरी होने के बाद इस मामले को वहीं समाप्त समझ लेना भारी भूल होगी। उसी समय एक नया मुक़दमा शुरू किए जाने की आवश्यकता है। सामाजिम कार्यक्रताओं और संगठनों को इस दिशा में प्रोत्साहन के लिए आगे आना चाहिए। पीड़ितों को निर्भय हो कर उसकी जद्दोजहद के लिए तैयार रहना चाहिए। उन्हें न्यायालय से निवेदन करना चाहिए कि सभी सुबूतों और गवाहों के आधार पर अमुक व्यक्ति अगर बाइज़्ज़त बरी कर दिया गया, कोई अपराध उस पर सिद्ध नहीं हुआ तो, फिर वह सब के सब अपराधी और दोषी क्यों नहीं हैं, जिन्होंने उसे फंसाने के लिए झूठे सुबूत और गवाह पेश किए थे। अगर उन्हें कोई सज़ा न मिले तो यह सिलसिला इसी प्रकार जारी रहेगा। हज़ारों फ़हीम अनसारियों और सबा अहमदों में से कोई एक-दो बरी हो गए और शेष लोगों की सुन-गुन न ली गई तो यह सिलसिला कैसे रुकेगा। हां, यदि हम सभी बाइज़्ज़त बरी हो जाने वाले आरोपियों के केस को फिर से न्यायालय में ले जाएं, न्यायालय से निवेदन करें कि उनके केस की फाइलें दोबारा खोली जाए, तलाश किया जाए कि वह झूठे गवाह कौन थे, वह झूठे प्रमाण किसने उपलब्ध कराए, पुलिस का आरोप क्या था, केस डायरी क्या थी, तैयार करने वाले कौन थे, न्यायालय में दाख़िल की गई चार्जशीट क्या थी, कौन-कौन इसमें शामिल रहे? इन सबको अदालत के कटघरे में लाया जाए, उन्हें ऐसी कठोर सज़ाएं दी जाएं कि फिर कोई किसी बेगुनाह को झूठे सबूतों और गवाहों के आधार पर अपराधी सिद्ध करने का प्रयास न करे। हमें यह भी समाज और न्यायालयों के मन में बिठाना होगा और न्यायाधीशों के सामने अत्यंत सम्मानपूर्वक ढंग से उन परिस्थितियों और घटनाओं को पेश करना होगा कि किसी एक व्यक्ति पर आतंकवाद का आरोप उसके परिवार के लोगों, उसके संबंधियों और यहां तक कि उसके पड़ोसियांें और शहर में रहने वालों तक को कितने पीड़ा भरे क्षणों से गुज़रने के लिए विवश कर देता है। इसे समझना होगा और न्याय करते समय इन बातों का भी ध्यान रखना होगा।

आख़िर किसी भी व्यक्ति को सज़ा देने के बाद हम जेल के अंदर क्यों रखते हैं, केवल इसीलिए न कि हम उसे समाज से अलग कर देते हैं समाज की निगाहों में उसे एक अपराधी होने का एहसास पैदा कर देते हैं, बहरहाल हम उसे जीवित तो रखते हैं, उसके खाने-पीने का ध्यान भी रखते हैं, जेल की कोठरी ही सही सिर छुपाने का स्थान देते हैं, नाम मात्र ही सही कभी-कभी स्वास्थ्य जांच भी कराते हैं, ज़रूरत पड़ने पर उसका इलाज भी कराते हैं, बस इतना ही होता है न कि हम उसे एक चार दीवारी के भीतर बंद रखते हैं और वह अपना जीवन उस अवधि तक जब तक कि बरी न किया जाए, अपराध बोध के साथ गुज़ारता है। अत्यंत ईमानदारी तथा निष्पक्षता के साथ अगर हम सोचें तो पाएंगे कि जिस क्षण हम किसी पर आतंकवाद का आरोप लगाते हैं, यह सज़ा तो उसी समय से उसके परिवार वालों को दे देते हैं। जेल से भी तंग चहारदीवारी के भीतर वह स्वयं को क़ैद कर लेने के लिए विवश हो जाते हैं। समाज से उनका संबंध उसी तरह टूट जाता है जिस तरह जेल में किसी क़ैदी का। उनसे भेंट भी कुछ इसी अंदाज़ में होती हैं, जैसे कोई मुलाक़ाती जेल के दरवाजे़े पर पहुंचता है और खाना-पीना, सोना शायद क़ैदियों से भी बदतर। अगर यह सज़ा किसी अपराध के बदले है तब तो शायद अधिक चर्चा की गुंजाइश न समझी जाए और यदि यह सज़ा किसी अपराध के बिना एक झूठे आरोप के आधार पर है तो फिर उसकी अनदेखी कर दिया जाना बहुत बड़े अन्याय को निमंत्रण देता है क्योंकि फिर यह सिलसिला रुकेगा नहीं, जब जिसे चाहा आतंकवाद के आरोप में उठा लिया। झूठे गवाह और सुबूत पेश किए, अगर साबित हो गया तो वह आतंकवादी सज़ा का पात्र, साबित न हुए तो बाइज़्ज़त बरी। बस वह इतने में ही प्रसन्न कि बरी तो हो गए। शायद किसी ने कभी यह सोचा ही नहीं कि सज़ा उनको मिलना भी ज़रूरी है, जिन्होंने उनको अपराधी ठहराने का प्रयास किया।

کچھ کہتی ہے راجہ اور دانشور کی کہانی

عزیز برنی

کل کسی اخبار میں ایک کہانی پڑھ رہا تھا کہ ایک راجہ کے دربار میں دانشور اور راجہ کے درمیان گفتگو جاری تھی۔ راجہ نے دریافت کیا کہ میں آپ کے علم، ذہانت اور قابلیت سے بیحد متاثر ہوں، لیکن آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ علم اور کردار دونوں میں سے کس کی اہمیت زیادہ ہے؟ دانشور کا جواب تھا ’کردار کی‘۔ راجہ بہت حیران ہوا، اس نے کہا کہ میری ریاست میں بہت سے باکردار لوگ ہیں، مگر میں جتنا آپ کے علم سے متاثر ہوا ہوں، اتنا مجھے کسی کے کردار نے متاثر نہیں کیا اور آپ کی اسی خوبی کی بنا پر میرے نزدیک آپ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ پھر آپ ایسا کیسے کہہ رہے ہیں کہ علم کے مقابلے میں کردار کی اہمیت زیادہ ہے؟ اس درجہ علم بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے، جو کہ آپ کے پاس ہے، جبکہ باکردار لوگ تو بہت ہوتے ہیں۔ دانشور کا جواب تھا ’آپ کے اس سوال کا جواب میں آج نہیں دے سکتا، مجھے کچھ وقت درکار ہے، مجھے کچھ دن اپنے محل میں رہنے کی اجازت دیجئے، واپس جانے سے پہلے میں آپ کے سوال کا جواب دے دوں گا۔‘ راجہ کو بھلا اس پر کیااعتراض ہوسکتا تھا، اس نے بخوشی دانشور کو اپنے مہمان خانہ میں ٹھہرادیا۔ ابھی چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ راجہ کے محافظی دستے نے ایک چور کی شکل میں گرفتار کرکے دانشور کو راجہ کے دربار میں پیش کیا۔ راجہ کو بڑی حیرانی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ راجہ نے کہا کہ میں نے آپ کو شاہی مہمان بناکر رکھا، تمام طرح کی سہولیات فراہم کیں، پھر بھی اگر آپ کو کچھ چاہےے تھا تو آپ مجھ سے مانگ لیتے، میں بخوشی آپ کی نذرکردیتا، مگر یہ کیا آپ کردار سے اتنے گرے ہوئے ہیں کہ جہاں آپ مہمان بن کر ٹھہرے ہوئے تھے، وہیں آپ نے چوری سے بھی گریز نہیں کیا۔ دانشور کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی، اس نے انتہائی عاجزی کے ساتھ راجہ سے کہا کہ یہی آپ کے سوال کا جواب ہے، جو آپ نے مجھ سے معلوم کیا تھا۔ میرے علم میں آج بھی کوئی کمی نہیں ہے، میں آج بھی اتنا ہی عالم اور باصلاحیت ہوں جتنا کہ میں آپ سے اپنی گزشتہ ملاقات کے دوران تھا، مگر جب ایک چور کی شکل میں مجھے گرفتار کرکے آپ کی خدمت میں پیش کردیا گیا تو میری تمام قابلیت اور علم بے معنی ہوگئے، صرف میرے کردار کی کمزوری آپ کے سامنے رہی۔ راجہ بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا کہ کردار علم سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے۔
Eاس کہانی نے مجھے اس لےے متاثر کیا اور اس لےے میں نے اسے اپنے تمام قارئین اور ہم وطن بھائیوں کی خدمت میں پیش کرنا ضروری سمجھا کیوں کہ جہاں ایک طرف بٹلہ ہاؤس اور تقسیم وطن جیسے معاملات پر میری کوششوں کی بھرپور حمایت کی جارہی ہے، وہیں کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال بھی پیدا ہورہا ہے کہ آخر میں بٹلہ ہاؤس،وٹلہ ہاؤس کا بار بار ذکر کیوں کررہا ہوں؟ میں تعلیم کی بات کیوں نہیں کرتا؟ میں ملازمتوں کی بات کیوں نہیں کرتا؟ مندرجہ بالا کہانی سے شاید میں اپنا موقف واضح کرپارہا ہوں کہ پہلے ہمیں اپنا کردار ثابت کرنا ہے۔ اگر ہم نے یہ ثابت کردیا کہ ہمارا کردار کیا ہے تو پھر تعلیم اور ملازمت کا مسئلہ اتنا پریشان کن نہیں رہ جائے گا۔ جب تک سوال ہمارے کردار پر رہے گا، تعلیم اور ملازمت ہمیں ہمارے مسائل سے نجات نہیں دلاسکتے۔تقسیم وطن کا داغ دامن سے چھڑانا بیحد ضروری تھا، اس لےے مسلسل اس وقت تک اس موضوع پر لکھا اور بولا جاتا رہا، جب تک کہ خود لال کرشن اڈوانی نے پاکستان پہنچ کر محمد علی جناح کو سیکولر قرار نہیں دیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’جناح،انڈیاـپارٹیشنـانڈیپنڈنسـ‘‘ لکھ کر تقسیم وطن کی حقیقت سامنے نہیں رکھ دی۔ اسی طرح فرقہ پرستی کے الزام کو بھی غلط ثابت کرنا ضروری تھا، اسی لےے لمبے عرصہ تک میں اپنی تحریروں کی معرفت یہ کوشش بھی کرتا رہا۔ آج میں محسوس کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے دامن پر دہشت گردی کا داغ ان کی کردارکشی کررہا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر ان کی ایک ایسی تصویر پیش کررہا ہے، جو حقیقت سے بہت دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 9/11کا معاملہ میرے سامنے آتا ہے تو میں بہت گہرائی میں جاکر تمام واقعات اور حاصل حقائق کا تجزیہ کرتا ہوں، پھرجو کچھ سچ نظر آتا ہے، اسے قارئین کی خدمت میں پیش کردیتاہوں۔ 26/11کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد ہندوستان کے ذریعہ پاکستان پر حملہ ناگزیر نظر آنے لگا۔ یہ آوازیں صرف ہندوستان سے ہی نہیں اٹھ رہی تھیں، بلکہ امریکہ مسلسل ایسی کوششوں میں مصروف تھا کہ ہندوستان، پاکستان پر حملہ کردے۔ ایک میرا قلم، آپ کی دعائیں اور میرا اخبار مسلسل اس کوشش میں لگا تھا کہ پہلے تمام حالات کو سمجھ لیا جائے، اس کے بعد کوئی قدم اٹھایا جائے۔ مقصد صرف ہندوستان اور پاکستان کو جنگ سے روکنا ہی نہیں تھا، بلکہ ساری دنیا کے سامنے سچائی کو پیش کرنا بھی تھا۔ اللہ کا کرم ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، حالات بدلتے گئے، پہلے اجمل عامر قصاب اور باقی 9دہشت گردوں سے آگے بڑھ کر ہم سوچ ہی نہیں رہے تھے، یہی ماسٹرمائنڈ، یہی دہشت گرد، یہی تباہی برپا کرنے والے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی شکل میں ماسٹرمائنڈ کی حیثیت سے ایک نیا چہرہ سامنے آیا۔ یہ دہشت گرد ایف بی آئی کا ایجنٹ تھا، امریکہ نے اپنی خفیہ ایجنسی کی معرفت اسے پاکستان کی دہشت گرد تنظیم لشکرطیبہ میں داخل کرایا تھا۔ امریکہ میں ہی اس کا نقلی پاسپورٹ بنا، جہاں اس کی جھوٹی ولدیت اور شہریت کے ساتھ اسے ہندوستان اور پاکستان میں دہشت گردی برپا کرنے کے لےے تعینات کیا گیا۔ آج تمام سچائیاں ہمارے سامنے ہیں، کل جو مضمون میں نے شائع کیا، اس میں جناب پریادرشن جی نے بھی ڈیوڈکولمین ہیڈلی کا ذکر کیا ہے۔ میں اس وقت اس موضوع پر تفصیل سے نہیں لکھنا چاہتا، وزیرداخلہ پی چدمبرم کے اس بیان کہ بٹلہ ہاؤس کی عدالتی جانچ نہیں کی جائے گی، کے بعد میں نے بٹلہ ہاؤس پر ایک بار پھر لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ کیا ہے، یہ آج کے اپنے مضمون کی شروعات میں ہی ایک راجہ اور دانشور کے درمیان گفتگو کے حوالہ سے واضح کردیاگیاہے۔ میں جب اپنی قوم کہہ کر مخاطب کررہا ہوتا ہوں تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتاکہ میں صرف اور صرف مسلمانوں کی بات کررہا ہوں، کیوں کہ سب سے زیادہ دہشت گردی کا داغ مسلمانوں کے دامن پر لگا ہے، اس لےے یہ باتیں ان سے وابستہ سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ ہماری قوم سے مراد ہندوستانی قوم ہے۔ ہم نے یہ آواز تب بھی بلند کی تھی، جب ممبئی میں راہل راج اور گجرات میں پرجاپتی کا فرضی انکاؤنٹر ہوا۔ ہم نے حال ہی میں بلندشہر میں ایک فوجی کلدیپ کے فرضی انکاؤنٹر کی خبریں بھی نمایاں طور پر اپنے اخبار میں شائع کیں، لیکن سارا ہندوستان جانتا ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر، راہل راج، پرجاپتی اور کلدیپ کے انکاؤنٹروں میں بڑا فرق ہے۔ راہل راج کو جب ممبئی میں فرضی انکاؤنٹر کے بہانے قتل کیا گیا تو الزام یہ تھا کہ وہ راج ٹھاکرے کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن عاطف اور ساجد کا معاملہ ان سب سے بالکل الگ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ راہل راج کے فرضی انکاؤنٹر کے بعد لالوپرشادیادو، رام ولاس پاسوان اور نتیش کمار نے ایک منچ پر کھڑے ہوکر اظہار افسوس بھی کیا تھا اور مہاراشٹر پولس کی مذمت بھی کی تھی، لیکن دہلی کے بٹلہ ہاؤس میں عاطف اور ساجد کے انکاؤنٹر کے بعد کسی بھی مسلم سیاستداں نے نہ تو مارے جانے والے طالب علموں کی حمایت میں اس وقت ایک لفظ کہا اور نہ دہلی پولس کی مذمت کی۔ میں ان پر تنقید نہیں کررہا ہوں، اس وقت کے حالات میں ان کا یہی فیصلہ درست تھا۔ اگر کسی پر دہشت گردی کا الزام ہو تو اس کی حمایت میں کھڑے ہونا، بیان دینا، جدوجہد کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ 48گھنٹے لگے مجھے بھی یہ فیصلہ لینے میں کہ کیا مجھے بٹلہ ہاؤس کے انکاؤنٹر پر قلم اٹھانا چاہےے۔ جب میرے ہاتھ میں انسپکٹر موہن چند شرما کی وہ تصویر آئی، جس میں وہ اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے پیدل چل کر اپنی جپسی تک پہنچ رہے تھے اور اس سے قبل L-18کی چوتھی منزل پر واقع فلیٹ کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے تھے، تب مجھے حیرانی ہوئی کہ کیا ایسا شخص جو گولیاں لگنے کے بعد چار منزلہ سیڑھیاں اترسکتا ہے، پیدل چل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ سکتا ہے اور جسے صرف پانچ منٹ کے اندر طبی سہولیات فراہم ہوسکتی ہیں، اس کی موت واقع ہوجانی چاہےے؟ تھوڑی بہت ڈاکٹری کی تعلیم میں نے بھی حاصل کی ہے، ذہن اس بات کو قبول نہیں کررہا تھا، تاہم میں نے تصدیق کے لےے ملک کے قابل ترین سرجن ڈاکٹر عبدالرحمن اُندرے ، جو ممبئی کے سب سے مشہور اسپتال لیلاوتی اور جسلوک اسپتال میں کنسلٹ سرجن ہیں اور سیفی اسپتال کے سرجری ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں، ان کی خدمات حاصل کیں اور جب مجھے ان کی رپورٹ حاصل ہوگئی، تب میں نے قلم اٹھایا۔ خود جائے واردات پر گیا، حالات کا جائزہ لیا، سچائیاں سامنے آتی گئیں اور میں لکھتا گیا۔ مجھے اطمینان ہے کہ آج قومی میڈیا بھی یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ یہ انکاؤنٹر اتنا صاف شفاف نہیں تھا کہ جسے سوالوں کے گھیرے میں رکھنے کی ضرورت نہ محسوس کی جائے، حالانکہ اس وقت میڈیا نے بھی پولس کے موقف کو ہی سامنے رکھا تھا۔ اطمینان کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (قومی حقوق انسانی کمیشن) جس نے پہلے پولس کے بیان کو ہی درست مانتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کردیا تھا، (ہم نے اسی وقت اپنے اس مسلسل مضمون کی کئی قسطوں میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی اس رائے پر بھی سوالیہ نشان لگائے تھے) لیکن بعد میں جب نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ملک میں ہونے والے فرضی انکاؤنٹروں کی فہرست شائع کی تو اس میں بٹلہ ہاؤس کو بھی شامل کرلیا۔ اس سب کے باوجود بھی اگر اب ہندوستان کے وزیرداخلہ کہہ رہے ہیں کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی عدالتی جانچ نہیں کی جائے گی تو اس کے معنوں کو سمجھنا ہوگا، آخر وہ کیوں نہیں چاہتے کہ اس انکاؤنٹر کا سچ سامنے آئے۔ جس طرح ان کے ذہن میں کچھ باتیں ہوں گی، کچھ ایسے راز ہوں گے جنہیں وہ منظرعام پر نہیں آنے دینا چاہتے، اسی طرح میرے ذہن میں بھی کچھ باتیں ہیں۔ اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں، انہیں یہ ڈر ہے کہ اصلیت سامنے آنے پر وہ چہرے بے نقاب ہوسکتے ہیں جنہیں وہ بچانا چاہتے ہیں تو بس ایسا ہی کچھ میرے ذہن میں بھی ہے۔ اگر اس جدوجہد کو جاری نہیں رکھا گیا اور یہی عوام کے ذہن میں پیوست ہوگیا کہ وہ دہشت گرد تھے، دہلی، احمدآباد، جے پور وغیرہ میں ہوئے بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ تھے، انڈین مجاہدین کے دہشت گرد تھے اور اس بنا پر یہ بات بھی ہندوستانی عوام کے ذہن میں پیوست ہوگئی کہ اعظم گڑھ دہشت گرد بنانے کی فیکٹری ہے اور اس عظیم شہر کو آتنک گڑھ کا نام دے دیا جانا ٹھیک ہے، جب کہ اگر حقیقت اس کے برعکس ہو تو پھر یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی، ان دو نوجوانوں کے ساتھ بھی اور اعظم گڑھ کے شہریوں کے ساتھ بھی، اسی لےے مجھے ضروری لگتا ہے کہ سچ کا سامنے آنا قومی مفاد میں بھی اور سماج کے مفاد میں بھی انتہائی ضروری ہے۔

कुछ कहती है राजा और विद्वान की कहानी
अज़ीज़ बर्नी

कल किसी समाचारपत्र में एक कहानी पढ़ रहा था कि एक राजा के दरबार में विद्वान और राजा के बीच वार्तालाप जारी था। राजा ने पूछा कि मैं आपके ज्ञान, बुद्धि और योग्यता से अत्यंत प्रभावित हूं, लेकिन आप से एक प्रश्न करना चाहता हूं कि ज्ञान और चरित्र दोनों में से किसका महत्व अधिक है? विद्वान का उत्तर था ‘चरित्र का’। राजा बहुत हैरान हुआ, उसने कहा कि मेरे राज में बहुत से चरित्रवान के लोग हैं, मगर मैं जितना आपके ज्ञान से प्रभावित हुआ हूं, उतना मुझे किसी के चरित्र ने प्रभावित नहीं किया, और आपकी इसी विशेषता के आधार पर मेरे निकट आपका महत्व सबसे अधिक है। फिर आप ऐसा कैसे कह रहे हैं कि ज्ञान के मुक़ाबले चरित्र का महत्व अधिक है? इतना ज्ञान बहुत कम लोगांें के पास होता है जो आपके पास है। जबकि अच्छे चरित्र के लोग तो बहुत होते हैं। विद्वान का जवाब था ‘आपके इस प्रश्न का जवाब मैं आज नहीं दे सकता, मुझे कुछ समय दरकार है, मुझे अपने महल में कुछ दिन रहने की अनुमति दीजिए, वापस जाने से पहले मैं अपने प्रश्न का उत्तर दे दूंगा।’ राजा को भला इस पर क्या आपत्ति हो सकती थी, उसने ख़ुशी-ख़ुशी विद्वान को अपने अतिथि गृह में ठहरा दिया। अभी कुछ दिन ही बीते होंगे कि राजा के सुरक्षा गार्डों ने एक चोर के रूप में गिरफ़्तार करके उस विद्वान को राजा के दरबार में पेश किया। राजा को बड़ा आश्चर्य हुआ और ग़्ाुस्सा भी आया। राजा ने कहा कि मैंने आपको शाही मेहमान बना कर रखा, सभी प्रकार की सुविधाएं उपलब्ध कराईं, फिर अगर आपको कुछ चाहिए था तो आप मुझसे मांग लेते। मैं ख़ुशी से आपको भेंट कर देता, मगर यह क्या आप चरित्र से इतने गिरे हुए हैं कि जहां आप अतिथि बनकर ठहरे हुए थे वहीं आपने चोरी से भी परहेज़ नहीं किया। विद्वान के चेहरे पर मुस्कुराहट आ गई। उसने अत्यंत नम्रता के साथ राजा से कहा कि यही आपके प्रश्न का उत्तर है जो आपने मुझसे पूछा था। मेरे ज्ञान में आज भी कोई कमी नहीं है, मैं आज भी उतना ही ज्ञानी और योज्ञ हूं जितना कि मैं आपसे अपनी पिछली मुलाक़ात के दौरान था, मगर जब एक चोर के रूप में मुझे गिरफ़्तार करके आपके सामने पेश कर दिया गया तो मेरी पूरी योज्ञता और ज्ञान निरर्थक हो गए, केवल मेरे चरित्र की कमज़ोरी आपके सामने रही। राजा बहुत ख़ुश हुआ और उसने कहा कि आपने ठीक फ़रमाया कि चरित्र ज्ञान से भी कहीं अधिक महत्वपूर्ण है।
इस कहानी ने मुझे प्रभावित किया और इसलिए मैंने इसे अपने सभी पाठकों तथा देशवासियों की सेवा में पेश करना ज़रूरी समझा क्योंकि जहां एक ओर बटला हाउस और देश के विभाजन के मामले पर मेरे प्रयासों का भरपूर समर्थन किया जा रहा है, वहीं कुछ लोगों के मन में यह विचार भी पैदा हो रहा है कि आख़िर मैं बटला हाउस, वटला हाउस की चर्चा बार-बार क्यों कर रहा हूं? मैं शिक्षा की बात क्यों नहीं करता? मैं नौकरियों की बात क्यों नहीं करता? उपरोक्त कहानी से शायद मैं अपना दृष्टिकोण स्पष्ट कर पा रहा हूं कि पहले हमें अपना चरित्र सिद्ध करना है। अगर हमने यह सिद्ध कर दिया कि हमारा चरित्र क्या है तो फिर शिक्षा और नौकरी की समस्या इतनी कष्टदायक नहीं रह जाएगी। जब तक प्रश्न हमारे चरित्र पर रहेगा शिक्षा, नौकरी हमें हमारी समस्याओं से छुटकारा नहीं दिला सकती। देश के विभाजन का दाग़ दामन से छुड़ाना अत्यंत आवश्यक था, इसलिए उस विषय पर लगातार उस समय तक लिखा और बोला जाता रहा, जब तक कि स्वयं लालकृष्ण आडवानी ने पाकिस्तान पहुंचकर मुहम्मद अली जिन्ना को सैक्यूलर घोषित नहीं किया और भारतीय जनता पार्टी के वरिष्ठ नेता जसवंत सिंह ने अपनी पुस्तक ‘जिन्ना, इण्डिया-पाकिस्तान-इन्डिपेंडेंट्स’ लिख कर देश के विभाजन की वास्तविकता सामने नहीं रख दी। इसी प्रकार साम्प्रदायिकता के आरोप को भी ग़लत सिद्ध करना आवश्यक था, इसीलिए लम्बी अवधि तक मैं अपने लेखों के माध्यम से यह प्रयास भी करता रहा। आज मैं महसूस करता हूं कि मुसलमानों के दामन पर आतंकवाद का कलंक उनके चरित्र को कलंकित कर रहा है। भारतीय समाज में ही नहीं, अन्तरराष्ट्रीय स्तर पर उनकी एक ऐसी छवि पेश कर रहा है जो वास्तविक्ता से बहुत दूर है। यही कारण है कि जब 9/11 का मामला मेरे सामने आता है तो मैं बहुत गहराई में जाकर सभी घटनाओं तथा उपलब्ध तथ्यों की समीक्षा करता हूं फिर जो कुछ सच नज़र आता है उसे पाठकों की सेवा में पेश कर देता हूं। 26/11 के मामले में भी यही हुआ इस आतंकवादी हमले के तुरंत बाद भारत द्वारा पाकिस्तान पर हमला अपरिहार्य नज़र आने लगा। यह आवाज़ केवल भारत से ही नहीं उठ रही थी, बल्कि अमेरिका लगातार ऐसे प्रयासों में लगा था कि भारत पाकिस्तान पर आक्रमण कर दे। एक मेरा क़लम, आप की दुआएं और मेरा अख़बार लगातार इस प्रयास में लगा था कि पहले सारी परिस्थितियों को समझ लिया जाए, उसके बाद कोई क़दम उठाया जाए। उद्देश्य केवल भारत और पाकिस्तान को युद्ध से रोकना ही नहीं था बल्कि सारी दुनिया के सामने सच्चाई को पेश करना भी था। अल्लाह का करम है कि जैसे-जैसे समय बीतता गया, हालात बदलते गए, पहले अजमल आमिर क़साब और शेष 9 आतंकवादियों से आगे बढ़कर हम सोच ही नहीं रहे थे, यही मास्टर माइंड, यही आतंकवादी, यही विनाश करने वाले। फिर वह समय भी आया कि जब डेविड कोलमैन हेडली के रूप में मास्टर माइंड की हैसियत से एक नया चेहरा सामने आया। यह आतंकवादी एफबीआई का एजेंट था, अमेरिका ने अपनी गुप्तचर ऐजंसी के माध्यम से उसे पाकिस्तान के आतंकवादी संगठन लशकर-ए-तय्यबा में दाख़िल करा दिया था। अमेरिका में ही उसका नक़ली पासपोर्ट बना, जहां उसकी झूठी वलदियत और नागरिकता के साथ उसे भारत और पाकिस्तान में आतंकवाद फैलाने के लिए तैनात किया गया। आज सभी सच्चाइयां हमारे सामने हैं, कल जो लेख मैंने प्रकाशित किया था, उसमें श्री प्रिया दर्शन जी ने भी डेविड कोलमैन हेडली का उल्लेख किया है। मैं इस समय इस विषय पर विस्तार से नहीं लिखना चाहता, गृह मंत्री पी॰ चिदम्बरम के उस बयान कि बटला हाउस की न्यायिक जांच नहीं की जाएगी, के बाद मैंने बटला हाउस पर एक बार फिर लिखने का फैसला किया, इसका कारण क्या है यह आजके इस लेख के आरंभ में ही एक राजा और विद्वान के बीच बातचीत द्वारा स्पष्ट कर दिया गया है। मैं जब अपनी क़ौम कह कर सम्बोधित कर रहा होता हूं तो उसका अर्थ यह नहीं होता कि मैं केवल और केवल मुसलमानों की बात कर रहा हूं, क्योंकि सबसे अधिक आतंकवाद का दाग़ मुसलमानों के दामन पर लगा है, इसलिए यह बातें उनसे जुड़ी समझी जाती हैं। जबकि हमारी क़ौम से तात्पर्य भारतीय क़ौम है। हमने यह आवाज़ तब भी उठाई थी, जब मुम्बई में राहुल राज और गुजरात में प्रजापति का फर्जी एन्काउन्टर हुआ। हमने हाल ही में बुलंद शहर में एक सैनिक कुलदीप के फर्जी एन्काउन्टर का समाचार भी प्रमुखता से अपने अख़बार में प्रकाशित किया। लेकिन पूरा भारत जानता है कि बटला हाउस एन्काउन्टर, राहुल राज, प्रजापति और कुलदीप के एन्काउन्टर में बड़ा अंतर है। राहुल राज की जब मुम्बई में फर्जी एन्काउन्टर के बहाने हत्या की गई तो आरोप यह था कि वह राज ठाकरे की हत्या करने का इरादा रखता था, लेकिन आतिफ और साजिद का मामला इन सबसे बिलकुल अलग था। मुझे अच्छी तरह याद है कि राहुल राज के फर्जी एन्काउन्टर के बाद लालू प्रसाद यादव, राम विलास पासवान और नितीश कुमार ने एक मंच पर खड़े होकर खेद भी प्रकट किया था और महाराष्ट्र पुलिस की निंदा भी की थी, लेकिन दिल्ली के बटला हाउस में आतिफ़ तथा साजिद के एन्काउन्टर के बाद किसी भी मुस्लिम राजनीतिज्ञ ने न तो मारे जाने वाले विद्यार्थियों के सर्मथन में एक शब्द कहा और न दिल्ली पुलिस की निंदा की। मैं उनकी आलोचना नहीं कर रहा हूं, उस समय के हालात में उनका यही फैसला ठीक था। अगर किसी पर आतंकवाद का आरोप हो तो उसके समर्थन में खड़ा होना, बयान देना, संघर्ष करना बहुत कठिन होता है। 48 घंटे लगे मुझे भी यह फैसला लेने में कि क्या मुझे बटला हाउस एन्काउन्टर पर क़लम उठाना चाहिए। जब मेरे हाथ में इंस्पेक्टर मोहन चंद शर्मा का वह चित्र आया, जिसमें वह अपने दो साथियों की सहायता से पैदल चल कर अपनी जिप्सी तक पहुंच रहे थे और इससे पूर्व स्.18 की चैथी मंज़िल पर स्थित फ़्लैट की सीढ़ियां उतर कर नीचे आए थे, तब मुझे आश्चर्य हुआ कि क्या ऐसा व्यक्ति जो गोलियां लगने के बाद चार मंज़िला सीढ़ियां उतर सकता है, पैदल चल कर अपनी गाड़ी में बैठ सकता है और जिसे केवल पांच मिनट के भीतर चिकित्सा सुविधा उपलब्ध हो सकती है उसकी मृत्यु हो जानी चाहिए? थोड़ी बहुत डाक्टरी की शिक्षा मैंने भी प्राप्त की है, मस्तिषक इस बात को स्वीकार नहीं कर रहा था, फिर भी मैंने पुष्टि के लिए देश के योज्ञतम सर्जन डाक्टर अब्दुर्रहमान उंदरे जो मुम्बई के सबसे प्रसिद्ध अस्पताल लीलावती और जसलोक अस्पताल में कंसलटेंट सर्जन हैं तथा सैफ़ी अस्पातल के सर्जरी डिपार्टमेंट के प्रमुख हैं, उनकी सेवाएं प्राप्त कीं, और जब मुझे उनकी रिपोर्ट प्राप्त हो गईं तो मैंने क़लम उठाया। स्वयं घटनास्थल पर गया, हालात का जायज़ा लिया। सच्चाइयां सामने आती गईं और मैं लिखता गया। मुझे संतोष है कि आज राष्ट्रीय मीडिया भी यह महसूस करने लगा है कि यह एन्काउन्टर इतना साफ़ और पारदर्शी नहीं था कि जिसे प्रश्नों के घेरे में लाने की लाने आवश्यकता न महसूस की जाए। हालांकि उस समय मीडिया ने भी पुलिस के पक्ष को ही सामने रखा था। संतोष का एक दूसरा कारण यह भी है कि राष्ट्रीय मानवाधिकार आयोग जिसने पहले पुलिस के बयान को ही सही मानते हुए अपनी राय प्रकट की थी (हमने उसी समय अपने इस लगातार लेख की कई क़िस्तों में राष्ट्रीय मानवाधिकार आयोग की उस राय पर भी प्रश्न चिन्ह लगाए थे) लेकिन बाद में जब राष्ट्रीय मानवाधिकार आयोग ने देश में होने वाले फर्जी एन्काउन्टरों की सूचि प्रकाशित की तो उसमें बटला हाउस को भी शामिल कर लिया। इस सबके बावजूद भी अगर अब भारत के गृह मंत्री कह रहे हैं कि बटला हाउस एन्काउन्टर की न्यायिक जांच नहीं कराई जाएगी तो इसके अर्थों को समझना होगा। आख़िर वह क्यों नहीं चाहते कि इस एन्काउन्टर का सच सामने आए। जिस प्रकार उनके मन में कुछ बातें होंगी, कुछ ऐसे रहस्य होंगे जिन्हें वह सार्वजनिक नहीं होने देना चाहते, उसी प्रकार मेरे मन में भी कुछ बातें हैं। अगर वह अनुभव करते हैं, उन्हें यह डर है असलियत सामने आने पर वह चेहरे बेनक़ाब हो सकते हैं जिन्हें वह बचाना चाहते हैं तो बस ऐसा ही कुछ मेरे मन में भी है, अगर इस संघर्ष को जारी नहीं रखा गया और यही जनता के मन में बैठ गया कि वह आतंकवादी थे, दिल्ली, अहमदाबाद, जयपुर इत्यादि में हुए बम धमाकों के मास्टर माइंड थे, इण्डियन मुजाहिदीन के आतंकवादी थे और इस आधार पर यह बात भी भारत की जनता के मन में बैठ गई कि आज़मगढ़ आतंकवाद की फैक्ट्री है और इस अज़ीम शहर को आतंकगढ़ का नाम दे दिया जाना ठीक है, जबकि यदि वास्तविकता इसके विपरीत हो तो फिर यह बहुत बड़ा अन्याय होगा, उन दो युवकों के साथ भी और आज़मगढ़ के लोगों के साथ भी, इसीलिए मुझे आवश्यक लगता है कि सच का सामने आना राष्ट्रहित में भी और समाज हित में भी अतिआवश्यक है।