Thursday, May 13, 2010

عالمی دہشت گردی کا جواب شاہ فیصل

عزیز برنی

^منگل کے روز جب لکھنے کے لےے بیٹھا تو ایک ذاتی نوعیت کی وجہ نے قلم روک دیا۔ ہوا یہ کہ میرے چند ساتھیوں کے درمیان تعلقات میں کچھ کشیدگی محسوس کی جارہی تھی۔ میری ذمہ داری تھی کہ اس کو فوری طور پر ختم کیا جائے، لہٰذا اس سمت میں مجھے کچھ پیش رفت کرنا پڑی اور جو وقت لکھنے کے لےے مختص تھا، وہ اس کوشش کی نذر ہوگیا۔ کام یہ بھی بہت ضروری تھا، اس لےے مجھے اپنی تمام تر توجہ اس طرف لگانی پڑی۔ کوئی ضرورت نہیں تھی اس وقت اس واقعہ کے ذکر کے ساتھ مضمون شروع کرنے کی، لیکن آج اردو سہارا کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں کارکنان اس سے وابستہ ہیں اور ان سبھی کے درمیان خوشگوار تعلقات اس مشن کی کامیابی کی ضمانت ہوسکتے ہیں، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ مجھے آج اشارۃً اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تحریر کا آغاز کرناپڑا۔ دراصل ہم سب کو یہ ذہن نشیں کرنا ہوگا کہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے، جب خلافِ توقع تمام آندھیوں کے خلاف سہارا انڈیا پریوار کے زیرسایہ ایک چراغ جلانے کی کوشش کی گئی ہے، جس کی روشنی ہمارے ملک کی سرحدوں کے اس پار بھی پہنچی ہے، بلکہ کوشش تو یہ ہے کہ سات سمندر پار بھی پہنچے۔ ہم بے پناہ شکرگزار ہیں اپنے ادارے، ادارے کے سربراہ اور اپنے قارئین کے جنہوں نے بہت کم وقت میں ایک ایسی تاریخ ساز کامیابی سے ہمکنار کیا، جس کا آج سے قبل تصور بھی محال تھا۔ کامیابی صرف یہ نہیں کہ ہم 7 ریاستوں کے 10مراکز سے 27ایڈیشن کے ساتھ ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘ کی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی بین الاقوامی سطح کا ہفت روزہ ’’عالمی سہارا‘‘ اور ماہنامہ ’’بزم سہارا‘‘ بھی نہ صرف جاری ہے، بلکہ کامیابی یہ کہ آپ جو تحریک چلاتے ہیں، اسے کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
کون تصور کرسکتا تھا کہ ایک اخبار کے چند ادارےے تہاڑ جیل میں قید ملزمین کو باعزت رہائی دلاسکتے ہےں۔ برسہابرس سے عدالتوں کا چکر لگاکر پیروکار جب تھک چکے اور انہوں نے سہارا سے رجوع کیا تو قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے والے خود کو بے گناہ ثابت کرکے آزاد فضائوں میں سانس لینے کے حقدار بن گئے۔ پولس نے جنہیں مجرم گردانتے ہوئے راستہ سے اٹھالیا اور اگر ان کی بات کا یقین کریں تو وہ صرف آپ کے اخبار کی پیش رفت کی بنا پر انکاؤنٹر سے بچ گئے۔ 9/11 ، 26/11، بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر، یہ سب کے سب دہشت گردانہ حملے کہیں نہ کہیں ایک مخصوص قوم پر حملہ کی بنیاد بھی بنتے جارہے تھے۔ آپ کی تحریک نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دہشت گردانہ حملہ کوایک دہشت گردانہ حملہ کی شکل میں دیکھا جائے، اسے کسی مذہب سے نہ جوڑا جائے، پھر شہید ہیمنت کرکرے کی تفتیش نے یہ ثابت کیا کہ ہم جس سمت میں اشارہ کررہے تھے، وہ غلط نہیں تھی۔ مالیگاؤں کے بعد سمجھوتہ ایکسپریس، حیدرآباد مکی مسجد اور درگاہ اجمیر میں ہوئے بم دھماکوں کے تازہ انکشافات جن حقائق کو منظرعام پر رکھ رہے ہیں، اسے راشٹریہ سہارا کی پیشین گوئی سمجھیں یا منصف مزاج افسروں کے لےے اپنی تفتیش کو تنگ نظری کے دائرے سے باہر نکل کر حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی ترغیب بہرحال نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہر روز حقائق سامنے آرہے ہیں اور مذہب کو دہشت گردی جوڑنے والے آج خود اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنے کے لےے مجبورہیں۔
دارالعلوم دیوبند اور دیگر مذہبی درسگاہوں کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دینے کی کوشش ہویا وندے ماترم پر اٹھا طوفان۔ تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کا تنازع ملک کی فضا میں زہر گھول سکتا تھا، لیکن ایسے ہر ہر قدم پر اس اردو اخبار نے ہمدرد، زمیندار، الہلال اور البلاغ جیسے وطن دوست اخبارو ںکے دکھائے راستہ پر چلنے کی کوشش کی، جس کے خاطرخواہ نتائج بھی برآمد ہوئے، جو سارے ہندوستان کے سامنے ہیں مگر ابھی منزل بہت دور ہے۔ یا پھر یوں کہا جائے کہ ابھی تو بس اس کامیاب سفر کی شروعات بھر کی ہے۔ ابھی بہت دور جانا ہے۔ اگر ہماری ذاتی وجوہات کی وجہ سے یہ تحریک متاثر ہوئی تو شاید تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور شاید ہم بھی خود کو کبھی معاف نہ کرسکیں۔ اس سمت میں بس اتنا ہی لکھنا ہے، وہ بھی اس لےے کہ فرداً فرداً یہ پیغام تمام ہندوستان میں اس تحریک سے وابستہ افراد تک پہنچنا ممکن نہیں۔
اب بات اس موضوع پر جو منگل کے روز ہی قلمبند کیا جانا تھا۔ ہماری توجہ بٹلہ ہاؤس سے ہٹے، ہم یہ مان لیں کہ بس اس کاتعلق دو نوجوانوں سے تھا اور اب اس کو طول نہ دیں۔ ہم ریزرویشن کے سوال پر تحریک نہ چلائیں، یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ جن وجوہات کی بنا پر بابا بھیم راؤ امبیڈکر نے ایک مخصوص قوم کے لےے اس کی پسماندگی کی بنیاد پر معاشرے میں مساوی مقام دلانے کے لےے ریزرویشن کی تجویز منظور کرانے میں کامیابی حاصل کی، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق آج مسلم قوم ویسے ہی حالات سے گزر رہی ہے، لہٰذا آج مذہب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ایسے ہی اصولوں کی بنیاد پر، اس کی پسماندگی کی بنیاد پر اسے ریزرویشن ملنا چاہےے۔ ہم ہیڈلی کی بات نہ کریں۔ 26/11کا کلیدی مجرم جس کو مان کر چارج شیٹ داخل کی گئی، بس اس سے ہٹ کر کوئی بات نہ کی جائے۔ نہ ہیڈلی کے معاملے کو زیادہ طول دیا جائے، نہ انیتا اُدّیا اور Fender Samuel کا ذکر کیا جائے۔ فہیم انصاری اور صباح الدین احمد کو بیشک عدالت نے باعزت بری کردیا، اب قلم نئے سرے سے انہیں انصاف دلانے کے لےے جدوجہد نہ کرے، باعزت بری ہوجانے کے اعلان سے بڑا انصاف اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم کیوں اس جدوجہد کی بات کررہے ہیں کہ اگر کوئی ملزم بے گناہ ثابت ہوجاتا ہے تو جتنے دن اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑتے ہیں اور اس کے خاندان کو دہشت گردی کے داغ کے ساتھ سرجھکا کر مجرموں سے بھی کہیں زیادہ تکلیف دہ زندگی گزارنے کے لےے مجبورہونا پڑتا ہے، وہ کم اذیت ناک نہیں ہے۔ ہمارے پچھلے مضمون کے بعد فہیم انصاری کی اہلیہ نے بات کی ہم سے۔ جیل سے لکھے گئے خط کی کاپی بھی بھیجی۔ ہم سے درخواست کی کہ ہم انصاف کی اس جنگ کو جاری رکھیں۔ ہم جانتے ہیں یہ انصاف ابھی ادھوارا ہے، مکمل انصاف تو تب ہوگا جب انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرنے والوں کو بھی عبرتناک سزائیں ملیں گی۔ ہماری تحریک کو، ہمارے قلم کو متاثر کرنے کے لےے ایسے انسانیت دشمن، باطل پرست، تنگ نظر افراد اور تنظیمیں ہر وہ حربہ اپنانے کی کوششوںمیں لگاتار مصروف رہتی ہیں، جس سے کہ یہ تحریک دم توڑ دے اور اس تحریک کو چلانے والوں کا حوصلہ ٹوٹ جائے۔ بس اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ بدھ کے روز درگاہ اجمیر شریف کی زیارت کے لےے جانا پہلے سے طے تھا، لہٰذا وہ موضوع جس پر کئی روز قبل قلم اٹھانا تھا، اس پر گفتگو کا آغاز اب ہم کرنے جارہے ہیں۔
ہم نے بارہا لکھا اور کہا کہ جب تک ہم یہ کہتے رہیں گے ’’کشمیر ہمارا ہے‘‘ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور جب ہم یہ کہیں گے ’’کشمیری ہمارا ہے‘‘ تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔صرف زمین ہی نہیں، اس زمین پر رہنے والے بھی ہمارے ہیں۔ جب یہ پیغام عام ہوجائے گا تو کشمیر کامسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد خوشگوار ہوا کا جھونکا آیا ہے شاہ فیصل کی کامیابی کی شکل میں، جسے ایک ہی آواز میں سارے ہندوستان نے سراہا ہے اور اس کی کامیابی کو سلام کیا ہے۔ ہاں شاہ فیصل ہی دہشت گردی کے خلاف کامیابی کی علامت بن سکتا ہے۔ شاہ فیصل صرف ایک مسلمان نہیں ہے، شاہ فیصل صرف ایک کشمیری نہیں ہے، شاہ فیصل وہ شخص ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف محض لفاظی نہیں کی، تقریریں نہیں کیں، بلکہ عملی طور پر دہشت گردانہ حالات کو برداشت کرکے خود دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود ساری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کامیاب سمت کا طریقہ یہ ہے۔ یوں تو ہر برس سول سروسز کے امتحانات ہوتے ہیں، ہر بار کوئی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، ہر بار کوئی ہونہار لڑکا یا لڑکی اس مقام تک پہنچتا ہے، مگر تاریخ تبھی بنتی ہے جب ان میں سے کوئی شاہ فیصل ہوتا ہے۔ دہشت گردانہ حملے میں اپنے والدمحترم کو کھودینا اور یہ کوئی اچانک ہوا حملہ نہیں، کسی دہشت گردانہ حملہ کی گرفت میں آجانے جیسی کوئی بات نہیں، کوئی اتفاق نہیں، بلکہ دہشت گردوں کو پناہ نہ دینے کے فیصلے میں اپنی جان گنوا دینا دہشت گردی کے خلاف ایک عملی جہاد ہے۔ پھر اس کے بعد خاندان کے افراد کے ٹوٹ کر بکھر جانے کی بجائے، حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے گمراہ کن ہوائوں کا رُخ موڑ دینے کی جدوجہد یقینا ایک پیغام ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی چاہ رکھنے والوں کے لےے۔ ہم چاہتے ہیں کہ شاہ فیصل پر چند جملے لکھ کر بات ختم نہ کردی جائے، بلکہ ان حالات کو سمجھا جائے جن سے گزر کر شاہ فیصل اس مقام تک پہنچے۔ ہم اپنی کامیابی کے لےے کچھ آئیکن ذہن میں رکھتے ہیں، کچھ لوگ ہمارے رول ماڈل ہوتے ہیں، جن کا چہرہ دیکھ کر ہم آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ جن کے دکھائے راستے پر چلنا ہم قابل فخر سمجھتے ہیں۔ آج دہشت گردی ساری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں انسانیت کا قدم قدم پر لہوبہا ہے، جس نے صرف بستیوں کو نہیں، ملکوں کو ویران کردیا ہے۔ جس نے زندگی جینے کا سلیقہ سکھانے والے مذاہب کو بدنام کردیا ہے، آج اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان تو کئی سمت سے کیا جارہا ہے، مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا ایک انداز جارج واکر بش کا تھا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا ایک اندازشاہ فیصل کا ہے۔ جارج واکر بش نے دہشت گردی کے زخم کو اپنے جسم پر محسوس نہیں کیا، مگر شاہ فیصل نے دہشت گردی کے اس زخم کو اپنے دل پر محسوس کرکے اس جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے، لہٰذا اب فیصلہ انسانیت دوست انصاف پسند عوام کو کرنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کامیاب طریقہ کیا ہے، وہ جو جارج واکر بش نے اپنایا یا وہ جو شاہ فیصل نے اپنایا

No comments: