Saturday, February 13, 2010

کیا اب بھی کہوگے صرف10دہشت گرد؟

عزیز برنی ...................................قسط نمبر

83


یقین جانئے آج بھی میرے لےے یہ ممکن نہیں لگ رہا تھا کہ میں اپنے مسلسل مضامین کے ٹوٹے ہوئے سلسلہ کو جوڑ سکوں، مگر وقفہ بہت طویل ہوگیاتھا اور تمام طرح کے خدشات ہمارے قارئین کے ذہن میں آنے لگے تھے، جس کا اظہار وہ کبھی مل کر تو کبھی فون یا ایس ایم ایس کے ذریعہ کرتے رہے۔ ان کی فکر یا تجسس غیرفطری بھی نہیں تھا، کیونکہ اس سلسلہ کے شروع کئے جانے کے بعد سے اب تک شاید پہلے کبھی نہیں۔ بیرونِ ممالک کے سفر کے دوران بھی یہ سلسلہ اتنی مدت کے لےے منقطع نہیں ہوا تھا۔ جانتا ہوں کہ جس طرح لکھنا میری عادت بن گئی، شاید مجھے ہر روز پڑھنا میرے قارئین کی بھی عادت بن گئی ہے۔ میں اس محبت کے لےے اپنے قارئین کا شکرگزار ہوں، لہٰذا یہ سلسلہ تاحیات جاری بھی رکھنا چاہتا ہوں اور انشاءاللہ رکھوں گا بھی۔

مگر ہوا یوں کہ اس درمیان میں خود ہی اپنا لکھا پڑھنے لگا اور پھر ایک بار یہ سلسلہ شروع کیا تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، جو کچھ روزنامہ راشٹریہ سہارا، عالمی سہارا میں شائع ہوا، ادھر دو تین برسوں میں ہی نہیں1991میں ’سہاراا نڈیا پریوار‘ سے وابستگی کے بعد سے اب تک اردو میں، ہندی میں اور کبھی کبھی انگریزی میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ اس سے قبل اردو ماہنامہ ”پرچم قرآن“، ہندی ہفت روزہ ”کمنٹیٹر“ میں بھی بہت کچھ لکھا۔ بہت حد تک یہ سب کچھ میرے اخبار کی ویب سائٹ www.urdusahara.net پر موجود ہے اور وہ سب جو کچھ یہاں نہیں ہے، وہ بھی میری ویب سائٹ www.azizburney.comپردیکھا جاسکتا ہے، دراصل میرے قارئین کا مسلسل اصرار تھا کہ وہ میرے مضامین کے تراشے محفوظ رکھتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ انہیں کتابی شکل دے دی جائے، لہٰذا اپنے معزز قارئین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میں اس کوشش میں لگا تو اندازہ ہوا کہ ایک ہی زبان میں اگر انہیں کتابی شکل میں لایا جائے تو موضوع کے اعتبار سے 32سے زیادہ کتابیں شائع کی جاسکتی ہیں اور اگر ان کو اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی میں بھی پہلے کی طرح شائع کیا جائے تو یہ تعداد 100تک پہنچ سکتی ہے۔ اب یہ چند روز میں تو ممکن ہونہیں سکتا تھا، لہٰذا مجھے آسان لگا کہ ابھی تک جو مواد جس شکل میں بھی دستیاب ہے، اسے اپنی ویب سائٹ کے سپرد کردیا جائے، تاکہ کم ازکم محفوظ رہے اور قارئین کے زیرمطالعہ بھی۔ پھر جیسے جیسے وقت اور حالات اجازت دیں گے، اپنے قارئین کی خواہش کے مطابق انہیں کتابی شکل میں بھی پیش کیا جائے گا۔ انتہائی معذرت کے ساتھ یہ وضاحت اس لےے ضروری تھی کہ اپنے قارئین کی شکایات اور تجسس کا فرداً فرداً جواب دینا مشکل ہورہا تھا۔

آئےے! آج سے پھر سے اس ٹوٹے ہوئے سلسلہ کو جوڑتے ہیں۔ کوشش رہے گی کہ ہفتہ میں کم ازکم پانچ دن یہ قسط وار مضامین کا سلسلہ جاری رہے اور باقی دو روز ماضی کی یادوں کو سمیٹنے کے لےے بھی مختص رہیں۔ مقصد دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے، ہر لحاظ سے اپنے قارئین کی خواہش کا احترام۔گزشتہ 25روز میں متعدد موضوع ایسے تھے، جن پر قلم اٹھانے کی ضرورت تھی۔ ”مائی نیم از خان“ کی ریلیز پر شیوسینا کا متعصبانہ رویہ، ملائم سنگھ اور امرسنگھ کے درمیان طلاق کا معاملہ، دگ وجے سنگھ کااعظم گڑھ سنجرپور دورہ، یعنی بٹلہ ہاو


¿س ایک بار پھر موضوع بحث، ہند-پاک کے درمیان کبھی گرم تو کبھی نرم رشتے، امریکی حکمرانوں کا دورئہ ہنداور26/11یعنی ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ کے تعلق سے مسلسل بیانات.... واضح طور پر کہوں تو ہندوستان کو آمادہ کرنا کہ وہ پاکستان سے جنگ کرے۔ 4فروری کو ہمارے وزیرداخلہ کا بیان کہ26/11کے دہشت گردانہ حملوں میں کوئی ہندوستانی بھی ہوسکتا ہے۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، میرے مضامین کی فائل بھی میرے سامنے ہے، میں نے اپنے اس مسلسل مضمون کی 82ویں قسط تک، جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا یعنی ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے خلاف درج چارج شیٹ اور ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ میں واحد زندہ پکڑے گئے پاکستانی دہشت گرد اجمل عامرقصاب کا اقبالیہ بیان شائع کیا تھا، یعنی موضوع 26نومبر2008کو ممبئی کے راستے ہندوستان پر ہوا دہشت گردانہ حملہ ہی تھا اور اصولاً آج بھی مجھے اپنی بات اسی موضوع پر گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے شروع کرنی چاہےے، اس لےے کہ آج میں اس ٹوٹے ہوئے سلسلہ کو پھر سے جوڑ رہا ہوں۔

ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی چارج شیٹ اور اجمل عامر قصاب کا بیان شائع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میں واضح کرنا چاہتا تھا اور آج بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی حکومت حزب اختلاف اور عوام کی ایک بڑی آبادی نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ 26/11کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی کہانی من و عن وہی ہے، جو ہمیں دہشت گرد اجمل عامر قصاب کی زبانی معلوم ہوئی ہے۔ اگر آپ تقریباً ایک برس قبل کے دور میں واپس جاکر دیکھیں تو اجمل عامرقصاب کے بیان سے ہٹ کر نہ کوئی سوچنا چاہتا تھا، نہ بات کرنا چاہتا تھا، بلکہ اگر اس سے الگ کوئی بات بھی کرتا تھا تو اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کےے جاتے تھے۔ پھر ہمارے سامنے آئی ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی چارج شیٹ یعنی26/11کے دہشت گردانہ حملہ میں زندہ گرفت میں آئے ایک اور دہشت گرد کے بیانات پر مبنی کہانی۔ اگر آپ چاہیں تو اسے ایف بی آئی (FBI)کے انٹیروگیشن کے نتیجہ میں سامنے آنے والی کہانی بھی قرار دے سکتے ہیں، جس کی روشنی میں چارج شیٹ تیار کی گئی اور امریکی عدالت میں داخل کی گئی۔ اس وقت میں ڈیوڈ کولمین ہیڈلی عرف داﺅد گیلانی کی چارج شیٹ، اس کے دہشت گردانہ عمل یا ایف بی آئی کی نیت پر کچھ بھی نہیں کہنا چاہوں گا۔ اب ایک بار پھر سے یہ سلسلہ شروع ہوہی گیا ہے تو بات ان موضوعات پر بھی ہوگی، مگر پہلے اپنے قارئین، حکومت ہند اور حزب اختلاف کے یہ گوش گزار کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ چاہیں تو ایک بار پھر مطالعہ کرلیں زندہ گرفت میں آئے دہشت گرد اجمل عامرقصاب کا اقبالیہ بیان اور ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی چارج شیٹ، ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی داستان دو الگ الگ کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ اگر اجمل عامرقصاب کا بیان سچا، جیسا کہ ہم اب تک مانتے چلے آرہے تھے، تو قصاب کے اس وقت کے بیان میں وہ سب کچھ کیوں نہیں، جو اب ایف بی آئی کی انٹیروگیشن اور ہیڈلی کے بیان کے بعد سامنے آیا ہے.... اور اگر داو


¿د گیلانی عرف ہیڈلی کا بیان اور ایف بی آئی کی رپورٹ سچی ہے تو پھر اجمل عامر قصاب کے ذریعہ بیان کی گئی کہانی سے میل کیوں نہیں کھاتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سچائی ان دونوں بیانات سے ہٹ کر کیا کچھ اور بھی ہے یا پھر یہ دونوں ہی بیان جھوٹے ہیں تو پھر سچ کیا ہے اس کا پتہ لگانا تو ہماری خفیہ تنظیموں اور ایف بی آئی کے لےے ضروری ہے، کیوں کہ اب ایف بی آئی کا کردار بھی ان دہشت گردانہ حملوں میں سامنے آگیا ہے، اب اسے لاتعلق قرار نہیں دیا جاسکتا۔

میں ایک بار پھر قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ ممبئی پر ہوئے 26نومبر2008کے حملہ کے فوراً بعد پیدا ہوئے حالات پر غور کرےں، ہماری خفیہ ایجنسیوں اور حکومت کے رول پر غور کریں اور آج کی بدلی ہوئی صورتحال پر غور کریں۔ اگر ممکن ہوسکے تو ممبئی پر ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کے تعلق سے روزنامہ راشٹریہ سہارا نے اسی وقت جو کچھ لکھا تھا، اس کا مطالعہ کریں، شاید کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگے، میں خود بھی ایک بار پھر اس فائل کو کھول کر بیٹھ گیا ہوں، میرے سامنے اس وقت 26نومبر2008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے دن سے اگلے ایک مہینے تک شائع ہونے والے مضامین کی فہرست ہے۔ میں اپنے کل کے مضمون میں تاریخ وار شائع کےے گئے ایسے چند مضامین کے محض عنوانات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، تاکہ یہ واضح کرسکوں کہ آج جو ہمارے وزیرداخلہ کہہ رہے ہیں اور تازہ ترین انکشافات جس سمت میں اشارہ کررہے ہیں، روزنامہ راشٹریہ سہارا 14مہینے قبل ہی وہ سب کچھ سامنے رکھ چکا تھا، اگر اسی وقت ملک اور قوم کے مفادات کے پیش نظر اس جانب توجہ دی گئی ہوتی تو ہم آج اس طرح اپنے مسائل کے حل کے لےے بالخصوص دہشت گردی کے معاملہ میں، 26/11کے دہشت گردانہ حملہ کے معاملہ میں امریکہ کی طرف منہ اٹھاکر دیکھنے کے لےے مجبور نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک بار پھر وہ نکات منظرعام پر لانے جارہے ہیں، جن کو ہم نے اسی وقت ملک اور قوم کے سامنے رکھ دیاتھا، اس امید میں جس طرح آج ہم اس مضامین کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو جوڑ رہے ہیں، اسی طرح ہماری خفیہ ایجنسیاں اور حکومت ہند اپنی جانچ کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو جوڑ سکے اور اس دہشت گردانہ حملہ کا سچ دنیا کے سامنے لاسکے۔................(جاری)

No comments: