Saturday, August 16, 2008

(اگست کرانتی 9اگست 1942
سے یوم آزادی 2008تک)
مہاتما گاندھی کے قاتل کو بچانے کی پوری کوشش کی گئی

گاندھی جی کے برت کے بارے میں یہ رویہ صرف سردار پٹیل کا نہیں تھا۔ حقیقت میں ہندوﺅں کی ایک جماعت اس وقت سے گاندھی جی کے خلاف تھی جب انہوں نے پونے سے رہائی کے بعد جناح سے بات چیت شروع کی۔ ان کی ناراضگی آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی، وہ لوگ کھلے عام ہندوﺅں کے مفادات کی ان دیکھی کرنے کے لےے ان کی مذمت کرنے لگے۔ اس میں کوئی راز نہیں تھا اور یہ پورے ملک کو معلوم تھا۔

یہ باتیں تقسیم ہند کے بعد سامنے ا ٓئی تھیں۔ ہندومہاسبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی قیادت میں ہندوﺅں کا ایک گروپ کھلے عام کہہ رہا تھا کہ وہ ہندوﺅں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے مخالفین کو اپنی پرارتھنا سبھا میں بھی شامل کرلیا ہے۔ جہاں گاندھی جی کی ہدایت پر ہندوﺅں کی مذہبی کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن اور بائبل بھی پڑھی جاتی ہے۔ ستمبر1947میں ان کے دہلی آنے کے بعد ان میں سے کچھ لوگوں نے پرارتھنا سبھاﺅں کے خلاف تحریک چلانے کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ان میں قرآن اور بائبل پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس سلسلہ میں پمفلٹ اور ہینڈ بل بانٹ دےے گئے۔ لوگوں کو گاندھی جی کے خلاف انہیں ہندوﺅں کا دشمن کہہ کر بھڑکایا جانے لگا۔
ایک پمفلٹ میں تو یہاں تک کہاگیا کہ اگر گاندھی جی اپنا راستہ نہیں بدلیں گے تو ان کے قتل کے لےے قدم اٹھائے جائیں گے۔

گاندھی جی کی بھوک ہڑتال نے اس گروپ کو اور ناراض کردیا۔ اب وہ ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرنے لگے۔ انہوں نے جیسے ہی اپنی پرارتھنا سبھا ختم کی ان پر ایک بم پھینکا گیا۔ خوش قسمتی سے کوئی زخمی نہیں ہوا، لیکن اس سے پورے ہندوستان میں لوگوں کو صدمہ پہنچا کہ کوئی گاندھی جی کے خلاف ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔ پولس نے اپنی تحقیقات شروع کی اور یہ بہت ہی تعجب خیز لگتا ہے کہ وہ یہ معلوم نہیں کرسکی کہ وہاں یہ بم کس نے رکھا اور وہ برلاہاﺅس کے باغیچے میں داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہوا۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد بھی ان کی حفاظت کے لےے مناسب قدم نہیں اٹھائے گئے۔ اس واقعہ نے یہ صاف کردیا کہ تعداد میں کم سہی لیکن ایک گروپ ایسا ہے جو گاندھی جی کو ہلاک کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔

اس لےے یہ امید کرنا فطری تھا کہ پولس اور سی آئی ڈی گاندھی جی کی حفاظت کے لےے خاص قدم اٹھائے گی ،لیکن ہمیں شرم اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحفظ کے لےے بنیادی احتیاطی قدم بھی نہیں اٹھائے گئے۔ کچھ اور دن بیت گئے جیسے ہی گاندھی جی کی طاقت کچھ واپس آئی۔ انہوں نے پرارتھنا ختم ہونے کے بعد وہاں موجود بھیڑ کے سامنے دوبارہ تقریر کرنی شروع کردی۔ ہزاروں لوگ اس پرارتھنا میں موجود رہتے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا یہ سب سے کارگرراستہ ہے۔

30جنوری1948کو2.30بجے میں گاندھی جی کے پاس گیا، ان سے بہت سے اہم معاملوں پر تبادلہ
¿ خیال کرنا تھا۔ میں ان کے پاس ایک گھنٹے سے زیادہ بیٹھا، میں تب تو گھر واپس آگیا لیکن تقریباً 5.30بجے مجھے اچانک یاد آیا کہ کچھ خاص معاملوں میں، میں نے ان کی صلاح نہیں لی ہے۔ میں دوبارہ برلا ہاﺅس گیا اور مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ برلاہاﺅس کے گیٹ بند تھے۔ ہزاروں لوگ لان میں کھڑے تھے اور بھیڑ سڑک پر جمع تھی۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ کیا معاملہ ہے، لیکن جب لوگوں نے میری گاڑی کو دیکھا تو اسے راستہ دے دیا۔ میں گیٹ کے قریب آکرکار سے اترا اور اندر کی جانب چل پڑا۔ گھر پر دروازہ بھی بند تھا، شیشے سے ایک شخص نے مجھے دیکھا اور وہ مجھے لینے کے لےے باہر آگیا، جب میں اندر داخل ہوا تو کسی نے آنسوﺅں کے ساتھ کہا ”گاندھی جی کو کسی نے گولی ماردی اور وہ ساکت پڑے ہیں۔

یہ خبر اتنی تکلیف دہ اور اچانک تھی کہ میں مشکل سے اس کا مطلب سمجھ پایا۔ میں سکتے کے عالم میں گاندھی جی کے کمرے کی جانب بڑھا، میں نے دیکھا وہ فرش پر لیٹے تھے، ان کا چہرہ پیلا پڑگیا تھا اور ان کی آنکھیں بند تھیں۔ ان کے دو پوتے، ان کے پیروں کو پکڑے رو رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے خواب کے عالم میں کوئی کہہ رہا ہو ”گاندھی جی کا سورگ واس ہوگیا۔

گاندھی جی کے قتل سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ میں اس دن کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ ہم لوگ جدید ہندوستان کے عظیم سپوت کی زندگی کی حفاظت کرنے میں کیسے ناکام ہوگئے۔ بم کے واقعہ کے بعد یہ سمجھنا فطری تھا کہ پولس اور دہلی کی سی آئی ڈی ان کے تحفظ کے لےے اجتماعی قدم اٹھائے گی۔ اگر ایک عام آدمی کی زندگی پر حملہ ہوتا ہے تب بھی پولس خاص دھیان دیتی ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب دھمکی بھرے خط یا پمفلٹ ملتے ہیں۔ گاندھی جی کے معاملہ میں صرف خط، پمفلٹ یا لوگوں کی دھمکی ہی نہیں تھی بلکہ ایک بم بھی پھینکا جاچکا تھا۔ یہ ہندوستان کی ایک عظیم شخصیت یا لوگوں کی زندگی کا سوال تھا اور اس کے بعد بھی کوئی کارگر قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ایسا نہیں ہے کہ ایسے قدم اٹھانا مشکل تھا۔ پرارتھنا سبھا کھلے میدان میں نہیں ہورہی تھی بلکہ یہ برلا ہاﺅس کے لان میں تھی۔ یہ مقام چاروں جانب سے دیواروں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں کوئی بھی گیٹ کے سوائے دوسرے راستے سے داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ پولس کے لےے بہت آسان تھا کہ وہ اندر آنے جانے والے شخص کی جانچ پڑتال کرے۔
واقعہ کے بعد عینی شاہدین کی باتوں سے صاف تھا کہ قاتل بہت ہی عجیب وغریب طریقہ سے آیا۔ اس کی حرکتیں اور الفاظ ایسے تھے کہ سی آئی ڈی اس پر نظر رکھ سکتی تھی اور اسے ایسا کرنا چاہیے تھا۔ اگر پولس کارروائی کرتی تو اسے پکڑاجاسکتا تھا اور اس سے اسلحہ برآمد کیا جاسکتا تھا۔ وہ بنا کسی جانچ کے ایک ریوالور لے کر کیسے آگیا۔ جب گاندھی جی پرارتھنا سبھا میں پہنچے، وہ کھڑا ہوگیا اور گاندھی جی سے رسمی طور پر کہا ”آج آپ کو دیر ہوگئی“۔ گاندھی جی نے کہا ”ہاں“۔ اس سے پہلے کہ وہ اگلا لفظ کہتے تین گولیاں چلیں، جس نے ان کی قیمتی زندگی کا خاتمہ کردیا۔

اس پورے معاملے میں جو بات سب سے زیادہ توجہ کے قابل ہے، وہ یہ کہ سردار پٹیل گاندھی جی کے خلاف ہوگئے تھے۔ جب گاندھی جی نے مسلمانوں کی حفاظت کے سوال پر بھوک ہڑتال کی تو وہ ناراض تھے۔ پٹیل یہ سمجھتے تھے کہ یہ بھوک ہڑتال ان کے خلاف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرے انہیں بمبئی جانے سے روکنے پر بھی انہوں نے رکنے سے انکار کردیا۔

ان کے اس رویہ کا مقامی پولس پر بدبختانہ اثر پڑا۔ مقامی حکام سردار پٹیل کی جانب دیکھتے تھے اور جب انہوں نے پایا کہ انہوں نے گاندھی جی کے تحفظ کے لےے کوئی خاص ہدایت نہیں دی ہے، اس لےے انہوں نے کوئی کارگرقدم اٹھانا ضروری نہیں سمجھا۔

گاندھی جی کے سورگ واس پر پٹیل کی بے حسی اتنی واضح تھی کہ لوگوں نے اسے محسوس کیا۔ اس واقعہ کے بعد فطری طور پر غصہ کی لہر پھیل گئی۔ کچھ لوگوں نے سردار پٹیل پر کھلے عام ناکارہ ہونے کا الزام لگایا۔ جے پرکاش نارائن نے اس مسئلہ کو اٹھانے میں بے مثل بہادری دکھائی۔ گاندھی جی کے سورگ واس پر رنج و غم کا اظہار کرنے کے لےے بلائی گئی ایک میٹنگ میں جے پرکاش نارائن نے صاف لفظوں میں کہا کہ بھارت سرکار کے وزیرداخلہ اس واقعہ کی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔ انہوں نے سردار پٹیل سے وضاحت چاہی کہ آخر کیوں گاندھی جی کی حفاظت کے لےے کارگرقدم نہیں اٹھائے گئے ،جبکہ گاندھی جی کے قتل کے لےے لوگوں کو ورغلانے کے لےے کھلے عام تشہیر کی جارہی تھی اور ان پر بم پھینکا گیا تھا۔

کلکتہ کے جناب پرفل چندر گھوش نے بھی یہی آواز اٹھائی۔ انہوں نے گاندھی جی کی قیمتی زندگی کو بچانے میں ناکام رہنے پر بھارت سرکار کی نکتہ چینی بھی کی۔ انہوں نے بتایا کہ سردار پٹیل کی سیاسی زندگی گاندھی جی کی مرہون منت ہے۔ آخر آج وہ ایک مضبوط لیڈر اور وزیرداخلہ ہیں، وہ کیسے واضح کرسکتے ہیں کہ گاندھی جی کی زندگی بچانے کے لےے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟

سردار پٹیل نے ان الزامات کو خاص طور سے اپنے خلاف لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں بہت افسوس تھا لیکن انہوں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی کہ لوگ اس طرح ان پر کھلے عام الزام لگارہے ہیں۔ جب کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ ان سے ملے تو انہوں نے کہا کہ کانگریس کے دشمن ان پر اس طرح کے الزام لگا کر تنظیم کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے گاندھی جی کے تئیں اپنی وفاداری کو پھر ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان الزامات کا پارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وہ گاندھی جی کے قتل سے پیدا ہونے والے خطرناک حالات کے سامنے مضبوطی سے کھڑے رہیں گے۔ ان کی اپیل بے اثر نہیں تھی۔ کانگریس کے بہت سے ممبروں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔

ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے واقعات میں دیکھا گیا کہ اس وقت فرقہ واریت کا زہر کتنا اندر تک سرایت کرچکا تھا۔ پورا ملک اس قتل سے غم میں ڈوبا ہوا تھا ،لیکن کچھ شہروں میں لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، خوشی کا اظہار کرنے کے لےے تقریبات منعقد کیں۔ ایسا خاص طور پر گوالیار اور جے پور شہروں میں ہوا۔ مجھے اس سے تکلیف پہنچی جب میں نے سنا کہ ان دونوں شہروں میں کھلے عام مٹھائیاں تقسیم کی جارہی تھیں اور کچھ لوگ بے شرمی سے کھلے عام خوشی کا اظہار کررہے تھے۔

ان کی خوشی بہت کم لمحوں کے لےے تھی۔ پورا ملک رنج و غم میں ڈوبا ہوا تھا اور لوگوں کا غصہ ان سبھی لوگوں کے خلاف تھا جو گاندھی جی کے دشمن سمجھے جاتے تھے۔ اس افسوسناک واقعہ کے دو یا تین ہفتہ بعدبھی ہندومہاسبھا ،آر ایس ایس کے لیڈر باہر آکر لوگوں کا سامنا نہیں کرسکے تھے۔ ڈاکٹر شیاماپرسادمکھرجی اس وقت ہندومہاسبھا کے صدر اور مرکزی وزیر تھے۔ وہ اپنے گھر سے باہر آنے کی ہمت نہیں کرتے تھے اور کچھ دنوں کے بعد انہوں نے مہاسبھا سے استعفیٰ دے دیا۔ آہستہ آہستہ حالات بہتر ہوگئے اور کچھ مدت بعد لوگ خاموش بیٹھ گئے۔

مہاتماگاندھی کے قاتل گوڈسے کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ،لیکن اس کے خلاف کیس تیار کرنے میں طویل وقت لگا۔ پولس نے جانچ پوری کرنے میں کئی ماہ لگا دےے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاندھی جی کے قتل کے پیچھے ایک مبینہ سازش تھی۔ گوڈسے کی گرفتاری پر لوگوں کا ردعمل اس بات کا اشارہ تھا کہ ہندوﺅں کا ایک طبقہ کس طرح فرقہ واریت کے زہر سے متاثر ہے۔ ہندوستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے گوڈسے کی مذمت کی اور اسے ملک دشمن کہا لیکن کچھ باعزت خاندانوں کی عورتوں نے اس کے لےے سوئٹر بن کر بھیجا، اسے رہا کرانے کے لےے ایک تحریک چلی تھی۔ اس کے حامی کھل کر اس کی حمایت نہیں کرتے تھے ،لیکن وہ کہتے تھے کہ چونکہ گاندھی جی عدم تشدد کے پجاری تھے، اس لےے ان کے قاتل کو پھانسی نہیں دی جانی چاہئے۔ جواہر لال نہرو کو ٹیلی گرام بھیجے گئے تھے کہ گوڈسے کی پھانسی گاندھی جی کے نظریات کے خلاف ہے۔ قانون نے اپنا کام کیا اور ہائی کورٹ نے اسے پھانسی کی سزا سنائی۔

گاندھی جی کے سورگ واس کو دو مہینے گزرے تھے، جب سردار پٹیل کو دل کا دورہ پڑا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ وہ اس صدمہ کا نتیجہ تھا جو انہیں ہوا۔ جب تک گاندھی جی زندہ تھے، ان سے ناراض رہے۔ جب گاندھی جی کا قتل ہوگیا اور لوگوں نے کھلے عام سردار پٹیل پر ان دیکھی کرنے اور ناکارہ ہونے کا الزام لگایا تو اس سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا۔ اس کے علاوہ وہ یہ نہیں بھول سکتے تھے کہ ہر معاملے میں ان پر گاندھی جی کی مہربانیاں رہی ہیں۔ پٹیل کے لےے گاندھی جی کی محبت نے حالات کو اور مشکل بنادیا تھا۔ اس سب نے ان کے دماغ پر اثر ڈالا، یہاں تک کہ ان پر شدید بیماری کا حملہ ہوا۔ وہ اس کے بعد 4برس تک زندہ رہے لیکن ان کی صحت ٹھیک نہیں ہوئی۔

ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی تھی لیکن اپنی ایکتا کو کھودیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کی دین تھا۔ قدرتی طور پر مسلم لیگ کو اس نئے ملک کا اقتدار سنبھالنا تھا۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کس طرح مسلم لیگ کانگریس کی مخالفت کے لےے بنی تھی۔ اس وقت شاید ہی کوئی ممبر ہو جس نے ملک کی آزادی میں حصہ لیا ہو۔ انہوں نے کوئی قربانی نہیں دی تھی اور نہ ہی وہ لڑائی کے ضابطوں سے واقف تھے۔ وہ یا تو سابق حکام یا وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگی انگریزوں کے ماتحت گزاری تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جب نیا ملک بنااقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جن کا قربانی یا خدمت کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ نئے ملک کے بہت سے حکمراں مفاد پرست تھے جو کہ عام زندگی میں صرف اپنے نام کے لےے آئے تھے۔

No comments: