Monday, August 18, 2008

مسلمانانِ ہند ماضی،حال اورمستقبل؟؟؟

آزادی کے ساٹھ برس بعد اب ایک بار پھر ماضی کی تلخ داستان کا ذکر کیوں ؟جبکہ لوگ ان زخموں کو بھول چکے ہیں۔نئی نسل جوان ہو چکی ہے۔اب ہم ان حالات کا تذکرہ نہیں کرتے جو ہمارے بزرگوں پر گزرے ۔وہ یہ درد اپنے سینے میں لے کر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ پھر اب کیا وجہ ہے کہ میں ایک بار پھر قوم کے سامنے ماضی کے تمام حالات پیش کررہا ہوں؟ دراصل ہم نے ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا تو دیا مگر حالات بدلے کہاں؟ اگر حالات بدل جاتے، نئی نسل کو پرانے زخموںکا درد سہنانہ پڑتا اور ان کا روشن مستقبل دکھائی دے رہا ہوتا،تو پھر شاید اس داستان غم کو دہرانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔مگر کم و بیش حالات تو آج بھی وہی ہیں۔اس وقت مسلم لیگ کے ممبران بار بار مولانا آزاد سے کہہ رہے تھے کہ اب وہ ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہیں۔

وہ تو مسلم لیگ کے ممبران تھے، شاید ان کا احساس جرم انھیں یہ کہنے پر مجبور کر رہا تھا،مگر اب تو سب ہندوستانی مسلمان ہیں۔پاکستان کی چاہ اب یہاں کس کے دل میں ہے؟پھر کیوں گجرات اور مہاراشٹر میں آج بھی مسلمانوں کے دل میں یہی درد ہے کہ وہ ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہیں؟ کیا آج بھی انہیں وہی درجہ حاصل ہے جو باقی ہندوستانیوں کو ہے؟ اگر نہیں تو لکھنا ہوگا،ایک بار نہیں ،ہزار بارلکھنا ہوگا اور بولنا ہوگااور بولتے رہنا ہوگا۔ اس وقت تک جب تک کہ تمام ہندوستان کے لوگوں کے سامنے یہ سچائی نہ آجائے کہ تقسیم وطن کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا ایک تاریخی غلطی ہے جسے تاریخ کے اوراق سے اب مٹانا ہی ہوگا۔ورنہ آنے والی نسلیں بھی تباہی اور بربادی سے بچ نہیں سکیں گی۔

ہمارا ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ملک کی ترقی اور قوم کے وقار کے لئے ہمیں اس تحریک کو آگے بڑھانا ہی ہوگا۔میں ایک بار پھر یہاں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ راشٹریہ سہارا محض ایک اخبار نہیں،ایک تحریک ہے، قومی یکجہتی کی تحریک ،بے گناہ مسلمانوں کے دامن سے تقسیم کے داغ چھڑانے کی تحریک،تاریخی حقائق کو بے نقاب کرنے کی تحریک،عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والوں کو معقول جواب دینے کی تحریک۔

میری مودبانہ درخواست ہے کہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے ہم سب کو شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔اسے محض ایک اخبار کی طرح نہ پڑھیں بلکہ محفوظ رکھیں آنے والی نسلوں کے لئے تاکہ تاریخی حقائق اور اپنی بے گناہی کا ثبوت ان کے پاس رہے۔اب یہی آواز مساجد سے اٹھے،مدارس سے اٹھے اور یہی تذکرہ آپ کے ڈرائنگ روم میں بھی ہوکہ اگر ملک کی تقسیم کے لئے اس وقت کے سیاست داں ذمہ دار ہیں، مذہب نہیںتو پھر یہ داغ مسلمانوں کے دامن پر ہی کیوں؟

مولانا آزاد نے 15اپریل 1946 کو اپنے بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کو صاف لفظوں میں ہوشیار کر دیا تھا کہ اگر بٹوارہ ایک حقیقت بن گیا تب ایک دن انھیں پتہ چلے گا کہ اکثریتی مسلمانوں کے پاکستان جانے کے بعد وہ ہندوستان میں ایک چھوٹی اور کمزور اقلیت کی شکل میں رہ جائیں گے،سچائی ہمارے سامنے ہے۔مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور سرمایہ دار طبقہ پاکستان چلا گیا اور ہندوستان میں رہ جانے والا مسلمان واقعی ایک چھوٹی اور کمزور اقلیت کی شکل میں رہ گیا۔

یہی تو چاہتے تھے سردار پٹیل ،پنڈت جواہر لال نہرو اور اس وقت کی کانگریس کے صدر آچاریہ کرپلانی،کہ قد آور مسلمان جو ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں،انھیں کسی بھی طرح راستے سے ہٹا دیا جائے۔بھلے ہی انھیں زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہی کیوں نہ دینا پڑے۔اس کے دو فائدے ہوں گے، ایک تو حکومت کے دعویدار نہیں رہیں گے،یہ خطرہ سر سے ٹلے گا۔دوسرے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہندوستان سے الگ ہو جائے گی تو ان کے ووٹوں کی حیثیت بہت کم ہو جائے گی اور باقی جو بچیں گے انھیں بے حیثیت بنانے کےلئے دو طریقے اپنا لئے جائیں گے۔

ایک تو یہ کہ تقسیم کا داغ ان کے دامن پر لگا دیا جائے تاکہ وہ احساس کمتری میں جیتے رہیں،خود کو مجرم سمجھیں،برابری کا حق مانگنے کی جرا
¿ ت نہ کریں اور دوسرا طریقہ یہ اپنایا جائے گا کہ جن علاقوں میں ان کی آبادی کی کثرت ہے،ان میں سے زیادہ تر علاقوں کو reserve constituency بنایا دیا جائے گاتاکہ وہاں سے کوئی مسلمان الیکشن لڑنے کے بارے میں سوچ ہی نہ سکے اور ایک حد تک اس کا ووٹ ہمارے لحاظ سے بے اثر ہو جائے۔
آپ جانتے ہی ہوںگے کہ 15اگست کو ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پر جشن آزادی نہیں منایا جاتا اور رانی جھانسی مارگ جھنڈے والان نئی دہلی میں بھی آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پر جشن آزادی کی تقریب کی جگہ تقسیم وطن کی یا دمیں بحث و مبا حثہ ہوتا ہے۔

اس بار 15اگست کے موقع پر دین دیال شودھ سنستھان میں منعقد کی جانے والی ایک کانفرنس میں بحیثیت مقرر مجھے بھی دعوت دی گئی۔ موضوع تھا ”تقسیم نا منظور“۔ اس موضوع پر میں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :”بے شک تقسیم ہمیں نا منظو رہونی چاہئے، مگر اس تقسیم کی بنیاد کیا تھی؟ اس پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔سردار پٹیل وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے تقسیم پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کیبنٹ مشن کے دوران مہاتما گاندھی کے ذریعے ملک کی قیادت کےلئے محمد علی جناح کا نام پیش کر دئے جانے کی وجہ سے اس نام سے خوفزدہ ہو گئے۔ آچاریہ کرپلانی جو اس وقت کانگریس کے صدر تھے، اگر انھیں یہ تقسیم نا منظو رتھی تو کم از کم اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر تقسیم کے خلاف انھیں تحریک چلانا چاہئے تھی۔

اس موضوع پر کی گئی اپنی تقریر کی تفصیل کسی اور موقع پر قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی، ابھی میں اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہتا ہوں جو کہ 9اگست ”اگست کرانتی کے دن سے شروع کیا گیا تھا۔ اپنے عنوان کے لحاظ سے تو اسے 15 اگست 2008تک ہی جاری رہنا چاہئے تھا لیکن قارئین کی دلچسپی اور موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مجھے لگا کہ ابھی اس موضوع پر کچھ اور لکھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا عنوان بے شک بدل سکتا ہے۔ فی الحال تحریک کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

کیا یہ سچ نہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں سے کم و بیش ہندوستان کے محض دو پریوار حکومت کرتے رہے ہیں اور وہ ہیں نہرو پریوار اور سنگھ پریوار۔اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آزادی کے پہلے اور آزادی کے بعد ان دونوں پریواروں کا جدو جہد آزادی میں مسلمانوں کے مقابلے کتنا بڑا کردار رہا اور اس کے بعد مسلمانوں کے تعلق سے ان دونوں پریواروں کا کیا تعلق رہا۔ایک پریوار ضرور یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے مسلمانو ں کا اعتماد حاصل نہیں ہوا۔

اگر اس سے مسلمانوں کو کچھ ملا نہیں تو مسلمانوں نے اسے دیا ہی کیا،تو اس کا جواب ہے وہ تاریخی سچائی جو مولاناا بولکلام آزاد نے اپنی زندگی میں ہی لکھ دی تھی۔تقسیم وطن کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا آزاد نے لکھا تھا جو آپ نے اس مسلسل تحریر کی گزشتہ قسطوں میں پڑھا کہ ”تقسیم وطن کے وقت قتل و غارت گری کے دور میں فوج تک پر، اقتدار سے باہر کانگریسی لیڈران کا اعتماد نہیں تھا۔فوج کا یہ رویہ ایک مشکل مسئلہ بن چکا تھا۔ تقسیم سے پہلے فوج فرقہ پرستی کے زہر سے آزاد تھی،جب ملک کا بٹوارہ فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوا تو فرقہ پرستی کے جراثیم فوج میں بھی داخل ہوگئے ۔دلی میں زیادہ تر فوجی ہندو اور سکھ تھے۔کچھ ہی دنوں میں یہ صاف ہو گیا کہ اگر شہر میں قانون و انتظام بحال کرنے کےلئے سخت قدم اٹھانے ہیںتو ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔

دلی شہر میں قرول باغ،لودھی کالونی،سبزی منڈی اور صدر بازار میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے۔ان سبھی علاقوں میں جان و مال بہت زیادہ محفوظ نہیں تھا اور اس وقت کے حالات میں پوری طرح فوجی تحفظ بھی ممکن نہیں تھا۔ایک وقت تو صورت حال اتنی خراب ہو گئی تھی کہ کوئی بھی مسلمان اس یقین سے نہیں سوتا تھا کہ وہ کل صبح زندہ اٹھے گا۔“
یہ تھا اس وقت کا ہندوستان جب حکومت ہند کے وزیر داخلہ سردار پٹیل تھے۔ سردار پٹیل کا ذہن مسلمانوں کے خلاف کس طرح کام کر رہا تھا یہ مولانا آزاد کی آنکھوں دیکھی داستان قارئین کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہے۔ یہ سوچ تھی سنگھ پریوار کی مسلمانوںکے تئیں۔ جو مسلمان ان حالات سے گزرا ہو ، جس نے ان واقعات کا کرب محسوس کیا ہو ،جس کی آنے والی نسلیں تک اس عتاب کو برداشت کر رہی ہوں،اس کے دل میں جھانک کر دیکھو پھر اپنے دماغ پر زور ڈالو تو سمجھ سکوگے کہ یہ قوم سنگھ پریوار سے کتنی محبت کر سکتی تھی یا کر سکتی ہے۔اب رہا دوسرا پریوار یعنی نہرو پریوار ۔

اس پریوار کے قومی رہنما بھی مسلمانوں سے کتنی محبت کرتے تھے،یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔اس کا ایک ہلکا سا ذکر تو گزشتہ قسطوں میں کیا جا چکا ہے۔بقیہ تفصیل اس تحریر کی آنے والی قسطوں میں بیان کی جائے گی۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ باقی سب دودھ کے دھلے ہوں۔ا ن دونوں پریواروں کے علاوہ دیگر پارٹیوں سے بھی ملک کو نگہبانی کے لئے جو قائدین ملے ، ان میں سے چند کو چھوڑ کر اکثر و بیشتر ذات پرست ، فرقہ پرست، موقع پرست یا خود پرست تھے۔

ان میں سے کتنوں پر مسلمانوں نے اعتبار کیا اور فریب کھایا اس کی بھی ایک طویل داستان ہے۔ ذکر اس کا بھی ضروری ہے،اس لئے نہیں کہ آج ہم سب کو تنقید کا نشانہ بنانے بیٹھے ہیں،بلکہ اس لئے کہ اپنے ماضی اور حال کی روشنی میں کم از کم اب تو ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کردینا چاہئے۔اگر مایاوتی ایک کم عمر نوجوان کو جس کا تعلق ایک گمنام خاندان سے ہو ،جو ایک دلت کے گھر پیدا ہوا ہو، اسے اپنا جانشین قرار دے سکتی ہیں اور آنے والے کل کے لئے بھی دلتوں کا مسیحا بنا سکتی ہےں تو کیا اب بھی آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ آپ کو بھی اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

کیا یہ سچائی آپ کے سامنے نہیں کہ بابا بھیم راﺅ امبیڈکر نے دلتوں کے لئے پاکستان کی طرح دلستان نہیں مانگا، مگر ہندوستان میں رہتے ہوئے ہی ہندوستان کے اقتدار میں حصہ داری مانگ لی۔1952کے پہلے پارلیمانی انتخاب سے لے کر 2008تک ہونے والے انتخابات میں آپ کے ووٹ اور آپ کے قائدین کی کیا حیثیت رہی،گفتگو اس پر بھی ضروری ہے اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اس زندہ مثال پر یہ غور وفکر بھی ضروری ہے کہ کاشی رام جیسے ایک عام سے دکھنے والے شخص نے ایک سوچ کے ساتھ جنم لیا ۔دلتوں کی حیثیت بدل ڈالنے کا عزم کیا،پھر ایک تحریک چلائی ۔

اس تحریک میں مایا وتی جیسی انجان خاتون جو محض ایک اسکول ٹیچر تھیں،جن کا کوئی خاندانی سیاسی پس منظر نہیں تھا،جنھوں نے کسی بھی میدان میں ایسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا کہ اے پی جے عبدالکلام یا کرن بیدی کی طرح ان کی ایک الگ شناخت بن گئی تھی اور نہ ہی وہ کسی ایسے رئیس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں کہ ان کی دولت کاشی رام کے مشن کو آگے بڑھانے میں کام آئی ہو۔تاہم یہ آج کی سچائی ہے کہ دونوں کی محنت اور عزم رنگ لایااور آج مایا وتی نہ صرف یہ کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کی وزیر اعلیٰ ہیں،بلکہ ہندوستان کی وزارت عظمیٰ تک کےلئے ان کی دعوے داری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

اگر مصلحت کی مجبوری کو درکنار کر دیں تو آج ملک میں ایسی کو ن سی سیاسی پارٹی ہے جو انھیں نظر انداز کرنے کی ہمت کرتی ہے،شاید ایک بھی نہیں۔آج ووٹ بنک کے لحاظ سے وہ ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط طاقت ہیں۔ایسا آپ بھی کر سکتے ہیں،اتنے ہی اہم آپ بھی ہو سکتے ہیں۔اگر ایک فیصد سے بھی کم سکھ قوم کا ایک فرد اس ملک کا وزیر اعظم ہو سکتا ہے،ایک دلت خاتون اس ملک کی وزارت عظمیٰ کی دعویدار ہو سکتی ہیں اور یہ دعویداری حقیقت میں بدل بھی سکتی ہے،تو آپ مایوسی کا شکار کیوں؟ آپ میں ارادے کی مضبوطی کیوں نہیں؟ آپ کی صفوں میں اتحاد کی کمی کیوں؟ کیا کسی انجان سے چہرے میں آپ کو بھی کسی مایاوتی کا عکس نظر آ سکتا ہے؟ کیا آپ بھی کاشی رام جیسے کسی شخص کے ارادوں کو زندگی بخش سکتے ہیں؟ کیا آپ بھی ہندوستانی سیاست کی ایک اہم ضرورت بن سکتے ہیں؟

یقیناہاں! اگر آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ کم از کم ایک نکاتی پروگرام کے تحت سیاسی معاملات میں آپ متحد ہو جائیں اور جسے اپنا نمائندہ منتخب کریں ،اس میں فرشتوں جیسی خوبیاں تلاش نہ کریں ، اس کے فیصلوں پر نکتہ چینی نہ کریں،کسی ایک کے پیچھے متحد ہوں اور قوم و ملک کے مفاد میں جو فیصلہ اسے مناسب لگے یہ فیصلہ کرنے کا حق اس پر چھوڑ دیں۔کیا آپ نے دیکھا نہیں مایاوتی پر کس قدر الزام عاید ہوتے ہیں،کبھی وہ فرقہ پرستوں سے مل جاتی ہیں،کبھی وہ سیکولر پارٹیوں سے اتحاد کرتی ہیں،کبھی وہ دونوں کو دھتکار دیتی ہیں،کبھی ان پر بد عنوانی کے الزامات لگتے ہیں،کبھی وہ ’تلک ترازو اور تلوار ،ان کو مارو جوتے چار‘ کا نعرہ بلند کرتی ہیں اور کبھی سرو دلیے سماج کی رچنا یا سو شل انجینئرنگ کے نام پر پنڈت ،ٹھاکر ،بنیا اور مسلمان سب کو ساتھ لے کر چلنے کا فارمولہ اپناتی ہیں۔

کبھی سوال کیا ان سے ان کی قوم نے کہ مایاوتی جی آپ کے یہ بدلتے فیصلوں کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے ہم سے منظوری کیوں نہیں لی؟ نہیں ،کبھی نہیں۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔کیا کر سکیں گے ایسا آپ ؟ کیا بن سکیں گے سیاسی طاقت ؟ اگر ہاں تب تو اس ماضی اور حال کی داستان آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا کوئی مطلب ہے اور بہتر مستقبل کی توقع ،ورنہ سب کچھ بے سود۔جس طرح ماضی کی داستان اپنی تلخ یادوں کے ساتھ ہمارے سامنے ہے،ممکن ہے ایسی ہی خون آلودہ اورنا خوشگوار مستقبل کی سوغات ہم اپنی آنے والی نسلوں کو دے جائیں۔..................... جاری

No comments: