Friday, April 1, 2011

’’کھیل کو کھیل ہی رہنے دو کوئی اور نام نہ دو‘‘

عزیز برنی

30
مارچ011کو جس وقت میں اپنے مسلسل مضمون کی 224ویں قسط بعنوان ’’میری آنکھوں میں تمہارے خواب ہیں‘‘لکھ رہا تھا،اس وقت موہالی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ چل رہا تھا۔ ایک ایسا کرکٹ میچ جس کا تصور اس سے پہلے کبھی بھی نہیں تھا۔ مجھے طالب علمی کے زمانے سے ہی کرکٹ کا شوق رہا ہی۔ یونیورسٹی لیول تک کرکٹ کھیلتا بھی رہا ہوںاور آج بھی ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کا مقابلہ چاہے کسی بھی ملک کی کرکٹ ٹیم سے ہو، میں وہ میچ ضرور دیکھنا چاہتا ہوں اور اس میچ میں ہندوستان کی فتح بھی ضرور چاہتا ہوں، لیکن 30مارچ011کو ورلڈ کپ سیمی فائنل میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والا کرکٹ میچ محض ایک کرکٹ میچ نہیں لگ رہا تھا۔ جس طرح کی تشہیر اور انتظامات اس کرکٹ میچ کے لئے کئے جارہے تھی، انہیں دیکھ کر یہ قطعاً اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ یہ کوئی کھیل کا مقابلہ ہی۔ ہمارے ملک کے سربراہان وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، یوپی اے کی چیئرپرسن محترمہ سونیا گاندھی، حکمراں جماعت کانگریس کے جنرل سکریٹری اور نوجوان لیڈر راہل گاندھی، پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت ہندوستان کے فلم ورلڈ اور کارپوریٹ ورلڈ کی مایہ ناز شخصیتیں اس میچ کا لطف لے رہی تھیں۔ کرکٹ ان سب کا پسندیدہ کھیل ہے یا یہ اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لئے اپنی تمامتر مصروفیات کے باوجود وہاں موجود تھی۔ یہ تو وہی جانیں، ہاں اگر دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کو بہتر بنانے کی نیت سے اور گفتگو کے نئے باب کی شروعات کے لئے کرکٹ میدان کا خوشگوار ماحول ان کے ذریعہ منتخب کیا گیا تو اسے خوش آئند پیغام سمجھا جاسکتا ہی۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہندوستان نے اس میچ میں جیت حاصل کی، لیکن ہمیں افسوس ہے کہ پاکستان کی ہار کے بعد بہت سے پاکستانی شہریوں کو یہ صدمہ برداشت نہیں ہوا، خودکشی سے لے کر دل کی دھڑکن بند ہوجانے یعنی ہارٹ اٹیک تک کے واقعات سامنے آئی۔ کیا ہمیں کھیل کو اس درجہ جذباتی انداز میں لینا چاہئی۔ کیاہندوستان اور پاکستان کے درمیان کھیل کھیل نہ رہ کر آبرو کا سوال بن گیا ہی۔ وقار کی جنگ بن گیا ہی۔ کھیل کی اس ہار جیت کو کیا ہم نے دو ملکوں کی ہار جیت تسلیم کرلیا ہی۔ اگر ایسا ہے تو یہ مناسب نہیں ہی۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے اس ورلڈکپ میں جس قدر بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا، اس کے لئے تمام پاکستانی کرکٹ کھلاڑی اور کپتان شاہد آفریدی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پاکستانی ٹیم نے جس طرح ویسٹ انڈیز کو دس وکٹ سے ہرایا، آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کو شکست دی اور فائنل تک پہنچنے والی سری لنکا کی ٹیم کو بھی ہرانے میں کامیابی حاصل کی، کیا یہ کوئی معمولی بات تھی۔ رہا سوال ہندوستان سے ہار جانے کا تو دو اچھی ٹیموں کے درمیان جب مقابلہ ہوتا ہے تو ان میں سے کوئی ایک تو جیتتی ہی ہے اور دوسری ہارتی ہی۔ اسے ہمیں ایک کھیل کی طرح لینا اور سمجھنا چاہئی۔ اگر پاکستان کے کپتان کو ہندوستان سے شکست کے بعد احساس جرم ہو اور اپنے ملک کے عوام سے معافی مانگنی پڑے تو کیا اسے کھیل کی صحت کے لئے ایک مثبت قدم قرار دیا جاسکتا ہی۔ انگلینڈ جس نے کرکٹ کے کھیل کو جنم دیا، وہ ٹیم سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچ پائی۔ اس ورلڈ کپ میں اسے بنگلہ دیش، آئرلینڈجیسی ٹیموں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا اس ٹیم کے کپتان نے ورلڈ کپ میں اس ہار کے لئے اپنے ملک کے شہریوں سے معافی مانگی۔ ساؤتھ افریقہ اور آسٹریلیا کرکٹ کی دنیا کی سب سے مضبوط ٹیمیں مانی جاتی رہی ہیں۔ دونوں ہی سیمی فائنل تک نہیں پہنچ سکیں۔ کیا انہوں نے اپنے اپنے ملک کے شہریوں سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس کی۔ کرکٹ ایک کھیل ہی۔ کھیل میں کوئی بھی ٹیم ہار سکتی ہے اور اس روز کھیل کے ہر شعبہ میں بہترین مظاہرہ کرنے والی ٹیم جیت سکتی ہی۔ اس کھیل کو بالخصوص جب یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہو تب بھی ہارجیت کو اس طرح جذبات کے ساتھ نہیں جوڑ لینا چاہئے کہ اس کے منفی اثرات دیکھنے کوملیں۔
ایسے وقت میں جب ہندوستان کی تمام سڑکوں کا رُخ چنڈی گڑھ کی طرف مڑگیا تھا، تقریباً ہر ہندوستانی یہ میچ دیکھنے کے لئے موہالی پہنچنا چاہتا تھا۔ پاکستان سے واگھہ بارڈر کے راستہ بڑی تعداد میں کھیل کے شائقین موہالی پہنچ رہے تھے اور جو نہیں پہنچ سکے وہ ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر اس کھیل کا لطف لے رہے تھی۔ اس وقت میں اپنا مضمون ’’میری آنکھوں میں تمہارے خواب ہیں‘‘ لکھ رہا تھا۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کرکٹ ایک زمانہ سے میرا پسندیدہ کھیل رہا ہے اور آج بھی ہی، لہٰذا یہ بڑا مشکل تھا کہ میں خود کو اس روز اس کھیل سے دور رکھ پاتا۔ پوری طرح رکھ بھی نہیں پایا، لیکن مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ میں اپنے مضمون کے تسلسل کو ٹوٹنے بھی نہیں دینا چاہتا تھا، اس لئے کہ بہرحال کھیل ایک کھیل ہی۔ فرض اور ذمہ داری کا احساس اس سے الگ ہی۔ اگر دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں تو بہت بہتر ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکتا ہو تو ہم اپنی ذمہ داریوں سے منھ نہیں موڑ سکتی۔ آج یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ شاید آنے والے کل میں ہم کرکٹ کو ایک کھیل تک محدود نہیں رہنے دینا چاہتی، بالخصوص ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اگر یہ کرکٹ کا کھیل ہورہا ہو تویہ عامرخان کی فلم ’’لگان‘‘ کی کہانی بن جاتا ہی۔ اس فلم کا موضوع یہی تھا، مگر اس وقت اس کھیل میں جیت کا مقصد کچھ اور تھا۔ آج ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والا کرکٹ میچ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچوں کی طرح تو دیکھا جاسکتاہی، لیکن کسی جنگ کی طرح نہیں۔ ان دونوں میں سے کسی بھی ملک کے شہری ہار اور جیت سے اس درجہ متاثر ہونے لگیں کہ ان کی جان پر بن آئے تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر ہم نے اب کھیل کو کیا بنا دیا ہی۔ یہ نوابوں کا دور نہیں ہے کہ دو بٹیروں کی لڑائی وقار کی لڑائی بن جائی۔ یہ ایک کھیل ہے اور ہمیں اس کو کھیل کے جذبہ سے لینا ہی۔ اگر کسی بھی ملک کا کھلاڑی اچھے کھیل کا مظاہرہ کررہا ہی، مگر اس کی ٹیم جیت حاصل نہیں کرسکی تب بھی وہ کھلاڑی قابل تعریف سمجھا جانا چاہئی۔ ہوسکتا ہے میری یہ رائے قابل رد ہو، قابل اعتراض ہو، مگر کوئی بھی کھیل یا کسی بھی کھیل کا مقابلہ اس کھیل کے شائقین کی جان کے لئے خطرہ بن جائے تو مجھے لگتا ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہی۔
کل ہمیں ورلڈ کپ کے آخری مقابلہ میں سری لنکا کے خلاف میدان میں اترنا ہی۔ جس وقت آپ میرا یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گی، تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینلز ممبئی کے وانکھیڑے اسٹیڈیم میں چلنے والی سرگرمیوں کی خبریں دکھا رہے ہوں گی۔ ممبئی شہر کے ہر گلی کوچے میں کس طرح اس کھیل کا تذکرہ ہورہا ہی، یہ آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہوگا۔ مہاراشٹر میں پہلے ہی سرکاری تعطیل کا اعلان کردیا گیا ہی۔ مجھے یہ امید ہے کہ ہماری ٹیم یہ آخری مقابلہ بھی ضرور جیت لے گی اور میری خواہش بھی یہی ہی۔ لیکن خدانخواستہ اگر نتیجہ ہماری امیدوں یا خواہشات کے برعکس ہو تو بھی ہم اپنے ملک کے ایک بھی شہری کو جان گنواتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کریں گی۔ آج ہم نے اس کھیل میں برتری ساری دنیا پر ثابت کر دی ہے کہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم آج دنیا کی بہترین کرکٹ ٹیم ہی۔ سچن تندولکر جیسا بلے باز آج ساری دنیا میں نہیں ہی۔ برسوں بعد کرکٹ کے میدان پر ہمیں یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہماری ٹیم ایک ٹیم کی طرح کھیل رہی ہی۔ ٹیم کا ہر کھلاڑی کسی نہ کسی شکل میں جیت کا حصہ بنتا نظر آرہا ہی، جو کھلاڑی میدان کے باہر بیٹھے ہیں، وہ بھی اتنے باصلاحیت ہیں کہ ان میں سے اگر کسی کو بھی اپنے ملک کے لئے کھیلنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اپنی اہمیت ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتا نظر آتا ہی۔ ہماری کرکٹ ٹیم کے کپتان مہندرسنگھ دھونی صرف اپنی کپتانی کے لئے بھی اس ذمہ داری کے لئے شائقین کی پہلی پسند بن گئے ہیں۔ نہ ٹیم ٹکڑوں میں بٹی ہی، نہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں کسی سیاست کا دخل نظر آرہا ہے اور نہ ہی یہ کہ کوچ کا فیصلہ کپتان کو اپنی پسند کے کھلاڑی چننے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہی۔ ان تمامتر خوبیوں کے باوجوداگر ہم کسی ایک میچ میں اس دن کامیابی حاصل نہیں کرپاتے تو اس کو اس درجہ دل پر قطعاً نہیں لیا جانا چاہئے کہ ہمارے کھلاڑیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی، وہ خود کو شرمندہ محسوس کریں یا انہیں اسے احساس جرم ہونے لگی۔ وہ ہمارے ملک کے لئے کھیل رہے ہیں، انہیں ہمارا پیار اور دعائیں درکار ہیں اور ہماری اخلاقی حمایت بھی، لیکن ہماری خواہشات اور آرزوؤں کا بوجھ اس طرح ان کے سر پر نہ ہو کہ وہ اپنے کھیل کے ساتھ انصاف نہ کرپائیں، شاید یہی کھیل کے حق میں ہی۔
aایک اور اہم موضوع جس پر میں کل بھی لکھنا چاہتا ہوں اور آج بھی اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ لکھنے کے لئے اب گنجائش بہت کم رہ گئی ہی، لہٰذا کرکٹ کے تذکرہ کو یہی ختم کرتے ہوئے میں اسیمانند کے تازہ رُخ پر چند جملے ضرور لکھنا چاہتا ہوں۔ اسیمانند نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ یہ اقبالیہ بیان ان کی مرضی کے مطابق نہیں تھا، ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا، اس لئے انتہائی مجبوری میں انہیں اس طرح کا بیان دینا پڑا۔ ہوسکتا ہے سچ وہی ہو، جو وہ اب کہہ رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ سچ یہ ہو کہ انہوں نے اس وقت جو بیان دیا وہ بغیر کسی دباؤ کے تھا اور دباؤ ان پر اب ڈالا گیا ہی۔ آج وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ انتہائی مجبوری میں اور دباؤ ڈالے جانے کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ دونوں بیانات کے درمیان کے وقفہ پر بھی ہمیں نظر ڈالنی ہوگی۔ اسیمانند نے یہ بیان جب مجسٹریٹ دیپک دباس کے سامنے درج کرایا، وہ تاریخ 18دسمبر010 تھی۔ ہم اس بیان کے ابتدائی مراحل اپنے قارئین کے گوش گزار ضرور کردینا چاہتے ہیں، تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ اس وقت جب اسیمانند مجسٹریٹ کے سامنے یہ بیان درج کرا رہے تھے تو کس حد تک ذہنی دباؤ میں تھے یا سی بی آئی کا دباؤ ان پر تھا۔ ممکن ہے کہ آج کے بعد کل کا مضمون پھر اسی موضوع پر ہو، لیکن آج مزید کچھ بھی لکھنے سے قبل ہم چاہیں گے کہ اسیمانند نے کب کن حالات میں اپنا یہ بیان خود اپنے قلم سے درج کیا، پہلے ایک نظر اس پر ڈالیں پھر اس پہلو پر غورکریں کہ تب سے اب تک یعنی دوسرا بیان جاری ہونے تک کیا واقعی اسیمانند کو اتنا موقع نہیں ملا کہ جو بات وہ آج کہہ رہے ہیں، ان کے اس قبول نامہ کے بعد کے چند روز میں نہیں کہی جاسکتی تھی۔بہرحال اس موضوع پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن پہلے اسیمانند کا وہ قبول نامہ درج کرائے جانے کے وقت کے حالات قارئین کے سامنے رکھ دینا ضروری ہی۔ ملاحظہ فرمائیں:
"At this stage, I have told the accused that I am a Magistrate and he (accused) is no longer in CBI/police custody and CBI officers cannot enter the chamber without my permission and whatever is happening inside the chamber is not audible or visible to the people outside the chamber.
I have asked the accused whether he wants to make a confessional statement before me or not. To this, the accused has answered in the affirmative.
I have asked the accused whether he is making the confession voluntarily or under some fear, force, coercion or inducement. Accused has submitted that he is making confession voluntarily without any fear, force, coercion or inducement.
I have told the accused that he is not bound to make the confession or any statement at all and if he makes any such statement or confession then, It may be used against him in evidence during the trial of present case and he may be convicted on the basis of his confessional statement. To this, accused has submitted that he fully understands the consequences of making a confessional statement. Accused has further submitted that he is giving his confessional statement voluntarily."
اس موقع پر میں نے ملزم کو بتایا کہ میں ایک مجسٹریٹ ہوں اور وہ (ملزم) اب سی بی آئی/پولیس حراست میں نہیں ہے اور میری اجازت کے بغیر چیمبر میں سی بی آئی افسر داخل نہیں ہوسکتے اور جو کچھ بھی اس چیمبر میں ہورہا ہی، اسے چیمبر کے باہر موجود لوگ نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔
پھر میں نے ملزم سے پوچھا کہ وہ میرے سامنے اقبالیہ بیان دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس پر ملزم نے ہاں میں جواب دیا۔
میں نے ملزم سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنا اقبالیہ بیان اپنی مرضی سے دے رہے ہیں یا کسی خوف، دباؤ، مجبوری یا اکسانے پر دے رہے ہیں۔ ملزم نے درج کرایا کہ وہ اقبالیہ بیان بغیر کسی خوف، دباؤ یا مجبوری کے اپنی مرضی سے دے رہا ہی۔
میں نے ملزم کو بتادیا ہے کہ وہ اقبالیہ یا کوئی اور بیان دینے کا بالکل بھی پابند نہیں ہی۔ اور اگر وہ کوئی اقبالیہ بیان دیتا ہے تو وہ بیان اس کے خلاف حالیہ سماعت کے دوران ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے اقبالیہ بیان کی بنیاد پر مجرم قرار دیا جاسکتا ہی۔ اس پر بھی ملزم نے کہا کہ وہ اقبالیہ بیان دینے کے نتائج مکمل طور پر سمجھتا ہی۔ ملزم نے پھر کہا کہ وہ اقبالیہ بیان خود اپنی مرضی سے دے رہا ہی۔

No comments: