Monday, March 7, 2011

!یوم خواتین‘ جذبۂ عشق درکار ہے قوم کے لئے'

عزیز برنی

یوم خواتین کے موقع پر پرخلوص مبارکباد۔ بات اگر صرف روایتی انداز میں مبارکباد دینے کی ہوتی تو یہ ایک جملہ بھی کافی تھا، لیکن ایسا نہیں ہی۔ وقت اور حالات کا تقاضا کچھ اور ہی، جذباتی رشتوں کا تقاضا کچھ اور ہی، قوم و ملت کے تئیں فرائض کا تقاضا کچھ اور ہی، اس لئے بات ذرا تفصیل سے کرنی ہوگی اور مبارکباد بھی دل کی گہرائیوں سے دینی ہوگی۔ اسلام نے خواتین کو جو عزت بخشی ہی، جو مقام و مرتبہ دیا ہی، شاید وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہی۔ کہا کیا جاتا ہے اور ہوتا کیا ہی، یہ میری رائے سے الگ بھی ہوسکتا ہی۔ اس وقت میں اس پر زیادہ بحث کرنے کی بجائے توجہ اس طرف دلانا چاہوں گا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق سیرت رسول ؐ کی روشنی میں اسلامی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم خواتین کے کردار پر بات کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جب جب اسلام کے فروغ یا تحفظ کے لئے خواتین کے تعاون کی ضرورت درکار ہوئی ہے تو قوم کو مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہی۔ اگر ہم اسلام کے ابتدائی دور کی بات کریں تو رسول اللہ حضرت محمد مصطفیؐ جب اپنے عمل سے اپنے اخلاق سی، اپنے کردار سے اسلام کی تبلیغ کررہے تھی، اس وقت ان کا پہلا انتخاب ایک خاتون کی شکل میں حضرت خدیجہ الکبریٰ تھیں۔ آپ اس وقت عرب کی ایک مشہور تاجر تھیں اور بیوہ تھیں، ازواج مطہراتمیں آپ کا درجہ سب سے بلند ہی، آپ حضرت محمد مصطفی ؐ کے نکاح میں آئیں اور آل رسول میں جن کا شمار ہوتا ہی، ان کا سلسلہ آپ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی حضرت فاطمہ زہرا سے ہوا۔ کیونکہ سیرت رسول کے حوالہ سے خواتین کے مرتبہ کا ذکر کرنا ہی، اس لئے معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک ایک بات کو وضاحت کے ساتھ کہنا ہوگا۔ آج بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلم خواتین کو معاشرہ میں برابر کا مقام حاصل نہیں ہی۔ انہیں گھر کی چہاردیواری میں قید رکھا جاتا ہی۔ ان کے پاس ترقی کے مواقع دیگر خواتین سے کم ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت خدیجہ الکبریٰ ایک خاتون ہوکر اپنے کاروبار کو کس طرح سنبھال رہی ہوتیں، یعنی اس وقت بھی اسلام میں خواتین کو یہ مقام و مرتبہ حاصل تھا کہ کاروبار کرسکیں، اس میں ترقی حاصل کرسکیں، اپنی شناخت قائم کرسکیں۔ دوسری بات جس پر توجہ دلانا ضروری لگتا ہی، وہ یہ کہ ایک بیوہ عورت کو معاشرہ میں وہ مقام حاصل نہیں ہوتا تھا اور کچھ حد تک یہ اثر آج بھی دیکھا جاتا ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے والی عورت کو جو مقام حاصل ہوتا ہی، وہ ایک بیوہ عورت کو نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری شادی کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ رسول اکرمؐ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ایسا سوچنا غلط ہی۔ رسول اکرمؐ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ الکبریٰ کی شکل میںتھا، جو بیوہ تھیں، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام میں خواتین کو کیا مقام حاصل ہی۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ کی عمر رسول اللہ حضرت محمد مصطفی ؐ سے پندرہ برس زیادہ تھی، یعنی اللہ کے رسولؐ نے اپنے سے زیادہ عمر کی ایک بیوہ خاتون سے نکاح کرکے معاشرہ کو یہ پیغام دیا کہ صرف اس بنا پر کسی عورت کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی کہ وہ بیوہ ہے یا اس کی عمر زیادہ ہی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شکل میں ایک بار پھر حضور اکرم محمد مصطفیؐنے عمر کے فاصلہ کو بے معنی قرار دیا، یعنی ذہنی اعتبار سے اگر اتنی سمجھ ہے کہ وہ شریک زندگی بن سکے تو عمر کا یہ فاصلہ بہت زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ میں سیرت رسولؐ کے اس پہلو پر مزید روشنی ڈالتا، مگر اس وقت بات جس پیرائے میں کرنی ہے اور میں اس وقت ہندوستانی خواتین بالخصوص مسلم خواتین کو جس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں، اس کے لئے کم لفظوں میں اس تمہید کو ختم کرکے اصل موضوع پر آنا ہوگا۔
میرے نزدیک اپنی بات کو شروع کرنے کے لئے اس وقت کربلا کی مثال ہی۔ کربلا کے میدان میںشہادتوں کے بعد، جو کردار نبھایا حضرت ثانی زہرانی، اسے دورحاضر کی خواتین کے لئے ایک مثالی کردار کی شکل میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کربلا کی یہ جنگ حق و باطل کے درمیان تھی۔ اس جنگ کا نتیجہ سب کے سامنے تھا، مگر اہل ’شام‘ مکمل حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ دراصل کربلا کے میدان میں کیا ہوااور کیوں ہوا۔ اس تذبذب کو دور کیاحضرت زینبؓ کی اس تاریخی اور معرکۃ الآرا تقریر نے جو یزید کے دربار میں کی گئی۔ اس تقریر سے آپ نے واضح کیا کہ نواسۂ رسول حضرت امامؓ نے اپنے اہل خانہ اور محبت کرنے والوں کی جانیں کیوں قربان کیں۔ یہ قربانی اللہ کے محبوب ترین دین ’اسلام‘ کے لئے پیش کی گئی۔ آپ کی تقریر نے حقائق کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ یزید کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ آخر یہ کیا ہوگیا؟ اس واقعہ کو بس اتنا ہی بیان کرکے میں اس دور کی خواتین کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ پھر تحفظ اسلام کے لئے آپ کے ایسے ہی کردار کی ضرورت ہی۔ صرف ہندوستان ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر تعلیمات قرآن اور سیرت رسولؐ کا پیغام آج آپ کے ذریعہ بھی پہنچائے جانے کی اشد ضرورت ہی، اس لئے کہ ماں کی آغوش میں آنے کے بعد بچہ جو پہلی آواز سنتا ہی، وہ آپ کی آواز ہوتی ہی، جو پہلی تربیت اسے ملتی ہی، وہ آپ کی گود سے ملتی ہی، وہ جس زبان میں گفتگو کرتا ہی، وہ آپ کی زبان ہوتی ہی۔ اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز آپ کے ذریعہ ہوتا ہی، پھر معاشرہ میں وہ جو بھی مقام حاصل کری، اس کی ابتدا تو آپ ہی کے ذریعہ ہوتی ہی۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کے درجات بہت بلند بتائے گئے ہیں۔ جنت کو اس کے قدموں تلے قرار دیا گیا ہی۔ آج پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ماحول سازی کی جارہی ہی۔ اسے دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہی۔ اس کا معقول جواب اپنے عمل کی شکل میں دینے کی ضرورت ہی۔ ہم اپنی تقاریر کی معرفت، ہم اپنی تحریر کی معرفت جلسہ و جلوس اور اجتماع کی معرفت وہ بات نہیں کہہ سکتی، جو آپ کی سادگی کے ذریعہ کہی اور سمجھائی جاسکتی ہی۔ حیدرآباد کے نوجوان کلیم کی مثال ہمارے سامنے ہی۔ اس کی شناخت کسی عالم دین یا دانشور کی نہیں تھی۔ اس کے پاس دین اسلام کی تعلیمات جو بھی جتنی بھی تھیں، وہ اسے اس کی ماں کی آغوش اور اپنے خاندان کی تربیت سے ہی ملی تھیں۔ ہم آپ سے یہی توقع کرتے ہیں کہ آج معاشرے میں مخالف حالات کا سامنا کرنے کے لئے ایسی ہی تعلیم وتربیت دئے جانے کی ضرورت ہی۔
وقت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ بڑی تعداد میں سیاست میں دلچسپی لیں اور صحافت کو بھی اس حد تک ضرور سمجھیں کہ آپ کو اپنی بات کہنے کا سلیقہ آجائی۔ وہ اطلاعات جن کی آپ کو ضرورت ہی، وہ بروقت آپ کو موصول ہوتی رہیں اور انہیں آگے کس طرح پہنچایا جاسکتا ہی، یہ ہنر آپ سیکھ لیں۔ مجھے یاد ہے یوم خواتین کے موقع پر حیدرآباد کے ایک خصوصی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے میں نے جو چند باتیں کہیں تھیں، انہیں آج کی اس تحریر میں ضرور شامل کرلینا چاہتا ہوں۔ میں نے حضرت امام خمینی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب وہ رضا شاہ پہلوی کے دربار میں تقریر فرما رہے تھے اور ان سے رضا شاہ پہلوی نے کہا کہ ’خمینی میں اس ملک کا بادشاہ ہوں، یہاں میرا حکم چلتا ہی، تمہاری بات کون سنے گا، تمہاری بات پر کون عمل کرے گا‘ تو اس وقت امام خمینی نے ان خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کی گودوں میں معصوم بچے تھی، کہا کہ ’پہلوی، جب یہ نسل جوان ہوگی تو اس ملک پر تمہاری نہیں، اسلام کی حکومت ہوگی۔‘ تاریخ شاہد ہے اس کے بعد آئے انقلاب نے رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور تب سے آج تک ایران میں اسلامی حکومت قائم ہی۔ میں اپنی تحریر کی معرفت اس مثال کے ذریعہ یہی پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ آپ کی آغوش میں پلنے والی ہماری نئی نسل ہمارے ملک کو اسی عظیم الشان دور میں واپس لے جاسکتی ہی، جب یہاں ہر طرف قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی تھی۔ اس ملک کی تہذیب کو گنگا جمنی تہذیب قرار دیا جاتا تھا، لیکن آج مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے ہمارے ملک کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اور اسے آپ کے ذریعہ ہی روکا جاسکتا ہی، اس لئے کہ ہندوستان میں ہونے والے لاتعداد فرقہ وارانہ فسادات کا ریکارڈ میرے سامنے ہی، ان میں کہیں بھی یہ درج نہیں ہے کہ فساد ہندو اور مسلمان فرقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے درمیان ہوا۔ ہاں یہ بیچاری فسادات کا شکار ضرور بنتی ہیں، اس سے متاثر ضرور ہوتی ہیں، مگر فساد ان کے ذریعہ برپا کیا گیا ہو، شروعات ان کے ذریعہ کی گئی ہو، ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔ جبکہ خواتین ہندو ہوں یا مسلمان، وہ اپنے اپنے مذہب پر عمل زیادہ کرتی ہیں، عبادت گزار وہ زیادہ ہوتی ہیں، مندروں میں وہ زیادہ جاتی ہیں، روزہ نماز کی وہ زیادہ پابند ہوتی ہیں، مگر مذہب کے نام پر پھیلائی جارہی نفرت ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ اس موضوع پر متعدد مضامین لکھے جانے کی ضرورت ہی، لیکن میں صرف دو باتیں کہہ کر آج کی تحریر کو ختم کرنا چاہوں گا۔ میری آج کی تحریر ذرا بے ربط لگ سکتی ہی، اس میں تسلسل کی کمی ہی، میں لفظوں سے زیادہ مفہوم پر توجہ دلا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں اس وقت کم سے کم لفظوں میں مجھے کیا کہنا ہی۔ پردہ پر اگر بات نہ کروں تو شاید معاشرے میں پھیلی غلط فہمی کو دور نہیں کرپاؤں گا، اس لئے چند جملے پردے کے حوالے سے بھی کہنا چاہوں گا کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہیں بھی نہیں رہا ہی۔ میں نے اپنی بات کی شروعات حضرت خدیجہ الکبریؓ سے کی تھی۔ یہ تو اسلامی دور کی بات تھی، اگر ہندوستان کی آزادی کے بعد کے حالات پر نظر ڈالیں تو بھی ہندوستان میں مختلف علاقوں میں ترقی کرنے والی خواتین چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان ہندوستانی تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرتی نظر آئی نہ کہ مغربی تہذیب کا لباس آپ کے سامنے ہی، بیشک انہیں پردہ میں نہیں کہا جاسکتا، مگر یہ اس درجہ بے پردہ بھی نہیں ہیں، جس کی وکالت آج کے ترقی پسند کرتے نظر آتے ہیں یا جو غلط فہمی ہماری نوجوان لڑکیوں کے دل و دماغ میں پیدا کی گئی ہی۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو، بنگلہ دیش میں بیگم خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ واجد اپنے اپنے ملک میں بلندترین مقامات تک پہنچیں۔ ان کا مسلمان ہونا، کہیں بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا۔ جہاں تک پردہ کا یا لباس کا تعلق ہے تو ہمیں دنیا کی ابتدا سے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے تک کے بدلتے منظرنامہ پر نظر ڈالنی ہوگی۔ جب مرد اور عورت کو اس بات کا احساس ہوا کہ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی شرمگاہوں کو، جسم کے نازک حصوں کو چھپا کر رکھیں تو پیڑوں کی چھال سے ان حصوں کو ڈھکنے کی شروعات ہوئی۔ اس کے بعد جیسے جیسے ترقی کا سفر آگے بڑھا، پیڑوں کی چھال کی جگہ جانوروں کی کھال استعمال کی جانے لگی۔ وقت بدلا، ہم کچھ اور آگے بڑھی، کپڑے کا استعمال شروع ہوا۔ پھر جسم کو کپڑے سے ڈھکا جانے لگا۔ آہستہ آہستہ معاشرہ اور مہذب ہوا، یہ کپڑا لباس کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ اب جس کے جسم پر جتنا بہتر لباس تھا، اسے معاشرے میں اتنی ہی بہتر نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ آج جو ترقی پسند ممالک ہیں، ان کی مہارانیوں کے لباس دیکھیں، ساری دنیا میں خود کو تہذیب کا علمبردار قرار دینے والا عیسائی مذہب اپنی ’ننس‘ کو جس لباس میں پیش کرتا ہی، وہ آپ کے نقاب کے بیحد نزدیک ہی۔ ہندو مذہب کی تبلیغ کرنے والی خواتین کا لباس بھی مکمل تن ڈھکنے والا ہی، لہٰذا مسلم خواتین کا لباس اگر پوری طرح جسم کے ڈھکے ہونے کی حمایت کرتا ہے تو یہ ان کے ترقی یافتہ ہونے کی دلیل ہی، ان کے پسماندہ ہونے کی نہیں۔ سیاست میں داخل ہونے والی خواتین، چاہے وہ ہندوستان میں رہی ہوں یا پاکستان میں، کسی نے بھی مغربی لباس کا سہارا نہیں لیا۔
ایک آخری بات، پروردگارِعالم نے خواتین میں وہ صفت بخشی ہے کہ اگر وہ کسی کو اپنی طرف راغب کرنا چاہیں تو ایسا کرسکتی ہیں۔ اب یہ عشق کسی ایک فرد سے بھی ہوسکتا ہی، خدا سے بھی ہوسکتا ہی، معاشرہ سے بھی ہوسکتا ہی، اپنی مادری زبان سے بھی ہوسکتا ہی، آج آپ کو دیکھنا یہ ہے کہ یہ جذبۂ عشق صرف اپنی ذات تک محدودرہی،صرف کوئی ایک شخص آپ کی محبت کا حقدار بنے یا مکمل معاشرہ، جو آج آپ کی اس توجہ کا طالب ہی۔ بیشک معاشرہ سے محبت آپ کو خدا سے محبت کی طرف لے جائے گی۔ ہاں، اس میں وہ شخص بھی شامل ہوسکتا ہی، جو آپ کا منظورنظر ہو اور وہ اس کام میں آپ کے ساتھ مل کر قوم کو اس مقام تک لے جاسکتا ہی، جس کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں۔ اگر ایک بار ہماری خواتین نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ ملک و قوم کی تصویر بدلنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو مجھے یقین کامل ہے کہ نہ صرف یہی حقیقت ہوگی، بلکہ بہت جلدہوگی۔
………

No comments: