Wednesday, February 16, 2011

دارالعلوم دیوبند تنازعـ سیاست بھی عداوت بھی…؟

عزیز برنی

آج بات سیاست پر! نہیں ابھی موضوع سے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں ہی۔ بات تو دارالعلوم دیوبند کے تناظر میں ہی ہی، بس زاویہ ذرا بدل گیا ہی۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی واضح کردیا تھا کہ دارالعلوم دیوبندکے تازہ مسئلہ پر ہم اپنی رائے اسی وقت سامنے رکھیں گی، جب تمام صورتحال واضح کردی جائی۔ مختلف مکتبہ فکر کی نمائندگی کرنے والوں کی رائے سامنے رکھ دی جائی۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اس منزل کے قریب آنے میں بھی ابھی اتنا وقت باقی ہے کہ مختلف زاویوں سے تمام تر صورتحال قارئین کی خدمت میں پیش کی جاسکی۔ 23فروری کا فیصلہ کن دن آنے سے قبل ہر روز متعلقین کے پاس غوروفکر کا موقع ہو اور پھر جب وہ کسی آخری نتیجہ پر پہنچنے کے لئے میٹنگ کرنے جارہے ہوں تو بہت سی باتیں ان کے سامنے آئینہ کی طرح صاف ہوں۔ ساتھ ہی ہمارے قارئین بھی واقف رہیں کہ آخر مہتمم کا سوال اور کتنے سوالوں سے جڑا ہی۔ اگر کوئی مخالف ہے تو کیوں اگر کوئی حامی ہے تو کوئی وجہ دارالعلوم کی فلاح و بہبود ہی ہے یا پس پردہ کچھ اور بھی۔
دراصل دارالعلوم دیوبند سیاست سے پاک نہیں ہی۔ شاید اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہی۔ جان بوجھ کر اس جملہ کو اس طرح نہیں لکھا گیا کہ دارالعلوم دیوبند اب سیاست سے پاک نہیں رہ گیا ہی، اس لئے اس عظیم دینی درسگاہ کی 145سالہ تاریخ پر نظر رکھنے والوں، مشاہدہ کرنے والوں کے پاس ایسی متعدد نظیریں ہوسکتی ہیں کہ کب کب، کس کس نی، کن کن مقاصد کے لئے کس کس طرح، کس کس سیاسی پارٹی کے لئے دارالعلوم دیوبند کا استعمال کیا۔ اگر گزشتہ چند برسوں پر نظر ڈالیں تو دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کا گہرا تعلق رہا ہے اور آج بھی یہ تعلق نہیں ہی، ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ مولانا اسعد مدنی مذہبی رہنما تھے اور سیاست میں بھی سرگرم رہی۔ کانگریس کے ٹکٹ پر ایوان بالا کے رکن رہی۔ مولانا ارشد مدنی کانگریس کے نزدیک ہیں، اکثروبیشتر یہ بات کہی جاتی رہی ہی۔ مولانا محمود مدنی لوک دل کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ مولانا وستانوی کے موضوع پر مولانا بدرالدین اجمل صاحب سے پیدا ہوا مولانا ارشدمدنی کا اختلاف سیاسی وجوہات کی بنا پر تھا، اس سے انکار کرنا بھی مشکل ہوگا۔ مولانا بدرالدین اجمل آسام سے منتخب ممبرپارلیمنٹ(لوک سبھا) ہیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی یوڈی ایف قائم کی، جس کے ٹکٹ پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ ریاستی اسمبلی آسام میں ان کی پارٹی کے 10 رکن ہیں اور عنقریب آسام میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں ان کی پارٹی پہلے سے بہتر کارکردگی کا ارادہ رکھتی ہی۔ جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی گروپ کے ریاستی سربراہ ہونے کے ناطے انہیں اس کا فائدہ حاصل ہونے کے قوی امکان تھی۔ سیاسی اعتبار سے نظریاتی اختلافات نے انہیں یہ فیصلہ لینے پر مجبور کردیا کہ وہ مولانا محمودمدنی کے ساتھ جاکھڑے ہوں اور جمعیۃ علماء ہند مولانا محمودمدنی گروپ میں وہی یا اس سے بہتر مقام حاصل کرلیں، جو ان کے پاس مولانا ارشدمدنی کے ساتھ رہنے پر تھا۔ سیاسی اعتبار سے مولانا محمودمدنی کے لئے بھی مولانا بدرالدین اجمل کا ساتھ سودمند ثابت ہوسکتا ہی۔ جہاں ایک طرف مرکزی سیاست میں ان کی اہمیت بڑھ جائے گی، وہیں دوسری طرف مولانا بدرالدین اجمل اور مولانا محمودمدنی مل کر آسام کے ریاستی انتخابات میں پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ واضح ہو کہ مولانا محمودمدنی نے اپنی سیاست کے لئے سب سے پہلے جس زمین کا انتخاب کیا تھا، وہ آسام ہی تھی، جہاں سے انہوں نے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کا الیکشن لڑا تھا۔مولانا غلام محمد وستانوی دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کی سیاسی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوں، یہ خارج ازامکان ہی۔ ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ جدید تعلیم سے بھی آراستہ ہیں۔ دنیاوی سمجھ اور سیاسی بصیرت بھی ان کے ساتھ یقینا موجود ہی، لہٰذا انہیں کس راہ پر چلنا ہی، اس کا فیصلہ بھی انہوں نے دارالعلوم دیوبند کا مہتمم بننے سے قبل ہی کرلیا ہوگا۔عین ممکن ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا مہتمم بن جانے کے بعد اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی سمت کے اظہار کا فیصلہ کرلیا ہو۔ اگر ان کی زبان سے نکلنے والے جملے زبان کے پھسل جانی، بے خیالی میں کہہ دئے گئے تو وہ نہ صرف بہت واضح انداز میں اپنے لفظوں کا خلاصہ سامنے رکھ کر بات ختم کردیتی۔ انہوں نے اتنی مضبوطی کے ساتھ کوشش نہیں کی یا ان کی کوشش میں کوئی کمی نہیں رہی، لیکن رائی کا پہاڑ بناکر پیش کرنے والوں نے بات ختم نہیں ہونے دی یا پھر انہوں نے اپنی سیاست کے لئے اپنے پیش رو مولانا اسعدمدنی یا جمعیۃ علماء ہند کے سربراہان مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمودمدنی کی طرز پر اور ذرا ہٹ کر اپنا سیاسی نظریہ سامنے لانے کا ارادہ کیا ہو تو یہ بہت حیران کن نہیں ہونا چاہئی۔ اور اگر ایسا نہیں ہی، بلارادہ انہوں نے ایسا کوئی جملہ نہیں کہا تھا اور اگر ان کے جملہ کا غلط تاثر چلا بھی گیا تھا تو ان کی بھرپور وضاحت کو تسلیم کرلیا جانا چاہئے تھا۔ دارالعلوم دیوبند کو کسی تنازع کا شکار نہیں ہونا چاہئے تھا، پھر بھی اگر ہوا تو کہیں یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاستدانوں کی موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش تو نہیں ہی، کیونکہ جس درجہ اس ایک جملہ کے بعد مولانا غلام وستانوی کو ان کی حمایت حاصل ہوئی، یہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہی۔
یہ تذکرہ منفی تناظر میں نہیں، مذہب کا سیاست سے اگر رشتہ ہو تو اس میں برائی کیا ہی۔ یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہی۔ ہاں، اس موضوع پر سب کو اپنی اپنی رائے پیش کرنے کا حق ہے کہ وہ کس کے ساتھ وابستگی کو کس شکل میں دیکھتے ہیں۔ اگر واقعی اب وہ وقت آگیا ہے کہ علمائے دین کھل کر سیاست میں حصہ لیں تو پھر جھجھک کیسی۔ علی الاعلان یہ کہہ دیا جائے کہ ہم دینی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ذمہ داریاں بھی نبھانا چاہتے ہیں اور ہم اس کے اہل ہیں۔ ہوسکتا ہے آزادی کے بعد سے مسلم قیادت کا جو فقدان اس قوم کے درمیان ہی، وہ پورا ہوجائی۔
اب یہ الگ بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے سیاسی استعمال سے وابستہ سیاستدانوں کو کیا ملے گا اور ان کی سیاست سے دارالعلوم دیوبند کو کیا حاصل ہوگا؟ آئیے اب ذرا اس سیاست کے ایک اور پہلو پر غور کرلیا جائی۔ مولانا وستانوی کی حمایت یا مخالفت کیا صرف ان کے اس ایک بیان کی وجہ سے ہے جو نریندر مودی کے حوالے سے تھا یا اس کے پس پردہ بھی کوئی سیاست کارفرما ہی۔ سیاست دونوں معاملات میں خارج ازامکان نہیں ہی۔ موافقت میں بھی اور مخالفت میں بھی۔ آج جو بھی جتنے بھی مولانا غلام محمد وستانوی کے بیان اور عمل پر تنقید کررہے ہیں، کیا ان سب کے پیچھے ان کی دینی اور ملی فکر ہے یا پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بنیاد پر مولانا وستانوی کو اس منصب سے ہٹانے کی راہیں ہموار کی جائیں۔ ماحول ایسا بنے کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں یا پھر ماحول ایسا بن جائے کہ ان سے استعفیٰ طلب کرلیا جائی، یعنی حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ ان کے خلاف محاذ آرائی کرکے انہیں اس ذمہ داری پر نہ رہنے دیا جائے اور پھر کوئی ایسا شخص جو حریفین کے سیاسی مقصد کو پورا کرنے میں حائل نہ ہو، اسے اس ذمہ داری پر بٹھادیا جائی۔ اسی طرح حمایت میں بھی سیاست خارج ازامکان نہیں ہی۔ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اور اس سے وابستہ افراد اس لئے پرزور حمایت پر آمادہ ہیں کہ وہ اپنے پسندیدہ شخص کو دارالعلوم دیوبند کا مہتمم دیکھنا چاہتے ہیں، تاکہ انہیں اپنے سیاسی مقاصد میں فائدہ حاصل ہو۔ بہرحال دارالعلوم دیوبند کی اس حیثیت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس ادارے سے اٹھنے والی آواز کا ملک گیر سطح پر ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر اثر ہوتا ہی۔ اگر کانگریس اس کی معترف رہی ہی، اس سے وابستہ اپنے مفادات کی حفاظت کرنے والے کو راجیہ سبھا سے نوازتی رہی ہی، اگر لوک دل کے اجیت سنگھ کو اس اہمیت کا اندازہ ہے اور مولانا محموداسعد مدنی کو راجیہ سبھا میں لاسکتے ہیں تو پھر اس اہمیت کا اندازہ کسی اور کو کیوں نہیں ہوسکتا۔
ایک اور پہلوـکیا وہ تمام لوگ، جو مولانا وستانوی کی حمایت کررہے ہیں، اس کے پیچھے وجہ صرف اتنی ہے کہ انہیں مولانا موصوف کے بیان میں کوئی ایسی بات دکھائی نہیں دی، جس کے لئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جائے یا وقت اور حالات نے انہیں یہ فیصلہ لینے پر مجبور کردیا ہے کہ بند کمرے میں بیٹھ کر اس اختلافی بیان یا عمل پر بات ہوجائے گی، لیکن جہاں تک بحیثیت مہتمم ان کی تقرری کا سوال ہے تو اس پر کوئی آنچ نہ آئی، اس لئے ان کی حمایت کی جائے اور ایسے حمایت کرنے والوں پر یہ الزام عائد کردینا بھی مناسب نہیں ہوگا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے کوئی قربت رکھتے ہیں، انہیں مودی سے انسیت ہی، انہیں مولانا وستانوی کے بیان سے کوئی اعتراض نہیں ہی۔ یا پھر وہ اس بیان کی حمایت کرتے ہیں، ان کی اس حمایت کی وجہ یہ بھی تو ہوسکتی ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے نظام میں بدلاؤ چاہتے ہیں۔انہیں شکایت اس ادارے کا نظام چلانے والوں سے رہی ہے اور اب موقع ملنے پر کسی بھی حالت میں وہ دارالعلوم دیوبند کا نظام ان ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتے ہیں، جن ہاتھوں میں گزشتہ برسوں میں رہا ہے اور انہیں مولانا وستانوی کی شکل میں ایک ایسا شخص مل گیا ہی، جو ان کی برسوں پرانی خواہش کو پورا کرسکتا ہی، لہٰذا اب وہ اس سلسلہ میں کچھ اور نہیں سننا چاہتی۔
ایک اور بات جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیا تنازع خاندان وراثت کے سوال کو لے کر بھی ہی۔ میرے سامنے ہے اس وقت ماہنامہ یادگارِ اسلاف کا تازہ شمارہ (فروری011)، جس کا اداریہ اسی موضوع پر ہی، لہٰذا اس ضمن میں خودکچھ نہ لکھ کر مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کی چند سطریں قارئین کی خدمت میں پیش کردوں، تاکہ تنازع کا یہ پہلو بھی ان کے ذہن میں رہی۔
دارالعلوم دیوبند کا اہتمام…اور… مجلس شوریٰ کا امتحان
دارالعلوم دیوبند پر ایک بار پھر گہرے بادل چھائے اور کچھ وقت کے لئے انسانوں کو قدرے تکلیف بھی پہنچی۔ 1982میں جب مجلس شوریٰ کی بالادستی کی گئی اور اس کی ہیئت حاکمہ تسلیم کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند میں مجلس شوریٰ کی طرف داری کرنے والوں کی فتح ہوئی تو اس کے مہتمم حکیم الاسلام جناب حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ اور ان کے خاندان اور وابستگان کو اندر سے باہر نکال کھڑا کردیا گیا، یہ جنگ شوریٰ کی بالادستی اور خاندانی وراثت کے مابین قرار دی گئی جس کا فیصلہ آیا تو پھر قاسمی خاندان کے لئے دارالعلوم کا دروازہ بند کردیا گیا، 60برس تک دارالعلوم کو بہرنوع بام عروج تک پہنچانے والے نہایت کرب و بے چینی کے عالم میں ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی۔
دارالعلوم دیوبند کی یہ جنگ بھی جو اس عظیم ادارہ کو خاندانی وارثت بنانے کا نعرہ دے کر قاسمی خاندان کے خلاف لڑی گئی، اس کے فیصلہ کے بعد دارالعلوم دیوبند کو شوریٰ نے جن ہاتھوں میں دیا، وہ اس وقت کے رکن مجلس شوریٰ حضرت مولانا مرغوب الرحمنؒ تھی۔ مرحوم کے والد بزرگوار بھی رکن شوریٰ رہ چکے تھی۔ مولانا مرغوب الرحمن صاحبؒ نے اپنے عہدئہ اہتمام کے زمانے میں جس دیانتداری اور حکمت عملی سے اموراہتمام انجام دئے وہ کسی پر مخفی نہیں ہیں۔ مرحوم نے بحد ممکنہ اس ادارہ کو ترقیات کی اعلیٰ منازل تک پہنچایا اور آخری دم تک وہ اس طرح زندگی گزار گئے کہ کسی کو انگشت نمائی یا حرف زنی تک کی گنجائش کا موقع نہیں دیا۔ انہوں نے اگرچہ اپنے رشتہ داروں کی ان تقریبات میں ضرور شرکت کی، جو ان کی نظر میں دارالعلوم سے باہر کی بات تھی، لیکن بعض اساتذہ ایک خاص خاندان سے وابستگی جتانے کے لئے ان کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہی۔
دارالعلوم دیوبند کے خدام و اساتذہ کرام کے ذہن میں یہ بات رہی کہ یہ لڑائی جمعیۃ کے لوگوں نے لڑ کر قاسمی خانوادہ سے آزاد کرایا ہے

1 comment:

Abdul Muqsith said...

I am a regular reader of your writings in Rashtriya Sahara and appreciate your endeavors in the field of objective journalism.

The latest series on Darul Uloom Deoband was good. However I am not with you in excessively flattery of Madrasas and religious scholars (so called Maulanas - so called because nowhere eslse this term which is meant for Allah (SWT) has been self arrogated by the clergy of our subcontinent.) It was the advent of these madrasas and 'maulanas' that simle religion got complicated and resulted in a number of sects based on masaliks. Today each one is boastful his own maslak as the only one that is right. How sad.

This tribe without knowledge and experience of the world at large has monopolized the right to offer rulings at the drop of the hat. They have perpetuated the un-Islamic view of Tagleed - blind following. They ensure this by convincing everyone that without proper education in madrasa it is not possible and acceptable to say anything on religion.

You have wrongly compared the compartmentalization of modern education in specialized fields like medicine, law, engineering etc. This analogy does not hold good in respect of religion which is like a soul in a body which has many parts for different functions.

Every doctor, lawyer, accountant, engineer is responsible for his/her deed on the day of judgment. None will be allowed to blame others for misguidance. Qur'an is emphatic and explicit on this. Any one who has read Qru'an with simple translation knows this. Then how can you and me hand over the task of guidance to these people who do not agree on a single point within themselves. They have even overturned their own rulings on may issues.

Constraints of space prevents me in going greater details to drive home the point that the present day maulanas are a bit too many with no prospects of earning a decent income to live comfortably. They are quite dispensable only if every Muslim performs the fundamental duty of understand the holy message first hand which was the case in early days. It is too risky to hand over the fate of akhirat in the hands of some else.

My earnest request to you is not to pamper this category too much giving a wrong impression that they are indispensable in our spiritual life. Qur'an was revealed for simple people of average intelligence and the way our beloved Prophet (SAWS) practiced it is too well known through the Qur'an itself.

Finally let me share a piece of information with you. It was after the era of the four Sunni Imams, who divided the ummah in four major sects, that their followers went to the extent of having their own jamat within the precincts of Ka'bah with separate prayer leader except one - Magrib. Permanent pavilions were put up for each of the four Sunni Masalik!!