Friday, February 11, 2011

ہم نے تو اسی وقت لکھا تھاـکیا قاتل خود ڈاکٹر تلوار؟

عزیز برنی

وقت کی دھول میں دبی آروشی مرڈر کیس کی فائل ایک بار پھر مجھے بھی اس لئے نکالنی پڑی کہ سی بی آئی نے ازسرنواس کیس کی تفتیش شروع کردی ہے اور بالآخر اس نے مان لیا ہے کہ آروشی کا قاتل اس کا باپ بھی ہوسکتا ہی۔ میں نے 22مئی008کو لکھے گئے اپنے مضمون میں ایسے متعدد نکات سامنے رکھے تھی، جن کی بنا پر آروشی کے قتل کا شک سب سے پہلے اس کے باپ ڈاکٹر راجیش تلوار پر ہی جاتا تھا اور اس مضمون کا عنوان تھا ’’کیا قاتل خود ڈاکٹر تلوار؟‘‘۔ میں اپنا یہ مضمون پھر ایک بار اپنے قارئین اور سی بی آئی کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، ہوسکتا ہے کہ اس کے کچھ نکات آروشی کے قاتل تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔ اس موضوع پر لکھے گئے اپنے ایک اور مضمون کی چند سطریں بھی سامنے رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بھی کچھ نکات ایسے ہیں، جن پر آج بھی توجہ کی ضرورت ہی۔ واضح ہوکہ آروشی کے قتل کے بعد نوکرکرشنا کی انگلیوں کے نشان آروشی کے بیڈروم اور باتھ روم میں بھی ملے تھی۔ کرشنا کو ملزم مانتے ہوئے اس کا نارکوٹیسٹ بھی کیا گیا تھا، تمام حالات و واقعات کی روشنی میں میں نے اسی وقت لکھا تھا کہ کرشنا کی انگلیوں کے نشان آروشی کے بیڈروم اور باتھ روم میں ملے اس میں حیران کرنے والی بات کیا ہی۔ کیا انگلیوں کے نشانات پر دن تاریخ اور وقت بھی درج ہی۔ سی بی آئی کو کیسے لگا کہ یہ نشانات 14، 15 مئی یعنی قتل کی رات کے ہی ہیں، اس کے بعد کے نہیں ۔ یہ انکشاف تو سی بی آئی نے 16 جون کو کیا۔ آروشی کے قتل کے بعد وہ خون آلودہ گدا ڈاکٹر تلوار یا نوپور تلوار نے نہیں، ان کے ڈرائیور اومیش اور دیگر افراد نے آروشی کے بیڈ سے اٹھا کر فلیٹ کی چھت پر رکھاتھا۔ کیا ان لوگوں کی انگلیوں کے نشان کمرے میں ،بیڈ پر یا چھت پر ملنا کچھ بھی حیران کن ہوسکتا ہی۔ دروازے پر دیواروں پر، بیڈ پر اور فرش پر پڑے آروشی کے خون کو کس نے صاف کیا۔ ڈاکٹر راجیش تلوار ، نوپور تلوار نے یا کسی نوکر نی۔ اس خون کو صاف کرنے کیلئے پانی سب سے نزدیک کس جگہ سے حاصل کیا گیا ہوگا۔ ظاہر ہے آروشی کے بیڈ روم سے متصل باتھ روم سی۔ یہ کام قتل کے بعد ہی کیا گیا ہوگا اور ایسے کسی بھی کام کیلئے ڈاکٹر راجیش یا نوپور کبھی بھی کرشنا کو حکم دے سکتے ہیں اور اسے بلی کا بکرا بنانا مقصد ہو تو اس درمیان ایک مہینے کے وقفے میں کسی بھی بہانے گھر کے کسی بھی کونے میں اس کی انگلیوں کے نشانات مل جانے کی وجہ پیدا کرنا، ایسے شاطر دماغ مجرم کیلئے کیا مشکل ہے جو ابھی تک ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کی نگاہوں سے چھپا ہوا ہی۔
بیٹی کے قتل ہوجانے پر ان کا غیر معمولی برتاؤ۔ پولس اور سی بی آئی کو تعاون نہ کرنا۔ اس رات پہنے ہوئے کپڑوں کے بارے میں نہ بتانا۔ بیٹی کی لاش کو تنہا کمرے میں چھوڑ کر آنے والوں سے ڈرائینگ روم میں باتیں کرنا۔ آروشی کے کیمرے سے تصاویر کا Deleteکردیا جانا ۔ سرونٹ روم یعنی ہیم راج کے کمرے کا دروازہ کھول کر نوکر انی کو اندر بلانے کے بجائے بالکنی سے چابی پھینک کر اندر بلانا وغیرہ وغیرہ۔
پھر کیا یہ حیران کن نہیں ہے کہ قاتل فلیٹ میں داخل ہوتا ہی، ڈرائنگ روم اورڈاکٹر تلوار کا کمرہ پار کرتے ہوئے برابر والے کمرے یعنی آروشی کے کمرے میں داخل ہوتا ہی، اس کا قتل کرتا ہے اس درمیان آروشی کا دروازہ کھلا رہنے دیتا ہی۔ قتل کرنے کے بعد اطمینان سے آروشی کا کیمرہ نکالتا ہی۔ اس کی سبھی تصاویر دیکھتا ہی۔ پھر ان میں سے اٹھارہ تصاویر Deleteکرتا ہی۔اس کا موبائل فون تلاش کرتا ہے اور ساتھ لے جاتا ہی۔ ڈائننگ ٹیبل پر انگریزی شراب کی بوتل رکھتا ہے ۔ اس کے پہلے یا بعد میں ہیم راج کا قتل کرتاہی۔ اس کی لاش کو گھسیٹ کر چھت پر لے جاتا ہی۔ زینے کا دروازہ لاک کرتا ہی۔ پھر اسپائڈر مین کے انداز میں کسی دوسرے راستے سے چھت پر پہنچتا ہی۔ چونکہ زینے کے دروازے کاتالا لگایا جا چکا ہے اور پھر وہ چھت کے راستے تین منٹ میں دوڑ کر اپنے کمرے تک پہنچ جاتا ہی۔ اس لئے کہ سی بی آئی بھی L32کی چھت سے اس کے کمرے تک تین ہی منٹ میں پہنچی تھی۔ بہتر ہوتا سی بی آئی L32سے کرشنا کے کمرے تک یہ دوڑ آدھی رات کے وقت لگاتی اور زینے کا تالا بند کرنے کے بعد کرشنا کے کمرے سے آروشی کے کمرے تک پہنچتی اور پھر واپس ایک مصنوعی واردات کو انجام دیتے ہوئے کرشنا کے کمرے تک پہنچتی، اس پر بھی غور کریں کہ کیا آروشی کے کمرے سے چیخ کی آواز نوپور تلوار کے کمرے تک پہنچتی ہے یا نہیں یہ بھی دیکھا جائے کہ زینے کا تالا بند ہونے کے بعد کرشنا کے کمرے تک کس راستے سے پہنچا جا سکتا ہی۔
حادثے کے بعد لاش کو دیکھنے والی پہلی عینی شاہد بنی گھر کی نوکرانی جو صبح سات بجے حسب معمول تلوار پریوار کے گھر پہنچی ۔ دروازہ کھلنے پر اس نے پایا کہ ڈاکٹر تلوار اور ان کی بیگم رو رہے تھے ۔ مسز تلوار صوفے پربیٹھی تھیں اورڈاکٹر تلوار کھڑے تھے ۔نوکرانی کے معلوم کرنے پر کہ رونے کی وجہ کیا ہے ؟ ان کا کہنا تھا کہ اندر جا کر دیکھ لے کیا ہوا ہی۔ اس کے بعد نوکرانی اس دردناک منظر کو دیکھ نہیں پائی اور چیختے ہوئے باہر نکل آئی ۔
حیرت ہے کہ اس طرح کا ردعمل پہلی بار آروشی کو اس حالت میں دیکھنے کے بعد اس کے ماں باپ کا سامنے نہیں آیا ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی بڑی حیثیت کی وجہ سے انہیں چیخنا چلانا چھوٹا پن لگا ہو اور اپنے دل کے درد کودل میں رکھنا ہی مجبوری بن گیا ہو۔ بہرحال آروشی کے قتل کی جانکاری جس پہلے باہری شخص کودی گئی وہ ان کا ڈرائیور اومیش تھا اور اسے بھی یہی بتایا گیا تھاکہ بے بی آروشی کا قتل نوکر ہیم راج نے کیا ہی۔ بھلے ہی پڑوسیوں سے اب ایسے رشتے نہ رہ جاتے ہوں، جیسا کہ ہندوستانی معاشرے کی تہذیب میں شامل رہا ہے ۔ تاہم ایسا بھی نہیں کہ اتنے بڑے حادثے کی اطلاع سامنے کے فلیٹ میں رہنے والوں کوبھی نہ دی جائی۔ جن کے دروازے کا فاصلہ دو تین گز سے بھی کم ہو ۔ کیا یہ عمل دانستہ کسی راز کوچھپانے والا نہیں تھا ؟ کیا حتی الامکان ماں باپ کی کوشش یہ نہیں رہی کہ جب تک وہ نہ چاہیں کسی کو بھی آروشی کے قتل کی اطلاع نہ ہو ۔ اورپھر جب انہوں نے یہ محسوس کرلیا کہ قتل کو راز رکھنا نا ممکن ہے تب ذہنی طورپر تیار ہو کر ایک ایسا بیان دیا گیا جس میں قتل کاشک نوکر ہیم راج اور بعد میں اس سے پہلے کے نوکر وشنو پرجائے ۔ چھ دن بعدیعنی آج 21 تاریخ کو رات آٹھ بجے تک بھی تمام میڈیا والے اور پولس والے ایک ہی بات کہتے جا رہے ہیں کہ قاتل بے حد قریبی ہی۔
ابھی تک (8مئی008)کے تمام حالات اور واقعات یہ اشارہ کرتے ہیں کہ قاتل آروشی کا باپ ڈاکٹر تلوار بھی ہوسکتا ہے ۔پتہ نہیں پولس ابھی تک اس سمت میں کتنی سنجیدگی سے کام کر رہی ہی۔پہلا بیان یہ تھا کہ ڈاکٹر تلوار اور مسزتلوار سو رہے تھی۔انہیں قتل کا اندازہ ہی نہیں ہوا ۔ پہلی بار ڈور بیل بجنے پران کی آنکھ کھلی ۔ جبکہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ڈاکٹر تلوا رکے گھر کے نمبر سے نوکر ہیم راج کے موبائل فون پر صبح چھ بجے کال کی گئی تھی ۔
یہ کال ڈاکٹر تلوار یامسز تلوار کے علاوہ اور کون کر سکتا تھا۔ کیا یہ کال نوکر ہیم راج کے قتل کے بعد اس کا موبائل فون تلاش کرنے کے لئے کی گئی تھی تا کہ بیل بجنے پر اسے آسانی سے تلاش کیا جا سکی۔ آروشی کا موبائل فون ابھی تک حاصل نہیں کیا جاسکا ہی۔ آروشی رات میں گھر پر ہی تھی جہاں اس کا قتل ہوا اور قتل ہونے سے پہلے رات میں اس نے اپنے موبائل فون سے بات بھی کی تھی۔ کیا آروشی کا موبائل فون ان کے ماں باپ کے پاس ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ وہ اسے ضائع کریں یا کسی خفیہ جگہ پر محفوظ رکھ دیں۔ نوکر ہیم راج کا فون سیکٹر 31 سے بر آمد ہوتا ہی۔ نوئیڈا سیکٹر 25 اور 31 کے درمیان محض تقریباً 80میٹر چوڑے روڈ کا فاصلہ ہی۔ کوئی اچھا اسپورٹس مین اگر سیکٹر 25 کی چھت سے موبائل فون پھینکنے کی کوشش کرے تو اس کی یہ کوشش کامیاب ہو سکتی ہے کہ وہ فون سیکٹر 31 میں جا گری۔ اگر سیکٹر 25 کے L بلاک سے جو سیکٹر 25 کا آخری کنارہ ہے سیکٹر 31 کا فاصلہ دیکھا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ 1000-1200 میٹر ہوگا۔ پیدل چلو تو بھی 5-7 منٹ، گاڑی سے جائو تو بھی 2-3 منٹ۔ اگر سیکٹر 31 کے آخری کنارے پر پھینکنا ہو تب بھی یہ ممکن ہی۔ صبح 6 بجے کے آس پاس جب ڈاکٹر تلوار کے گھر کے نمبر سے ہیم راج کے موبائل پر رنگ کی گئی اور ہم یہ مان لیں کہ گھنٹی بجنے پر ہیم راج کا فون مل گیا تو اسے سیکٹر 31 یا نٹھاری کے آس پاس کا علاقہ جو D5 کی وجہ سے خاصا مشہور ہے سے 10-12 منٹ میں واپس لوٹا جا سکتا ہی۔
بہر حال اس کے بعد پولس تک یہ اطلاع پہنچ جاتی ہے کہ آروشی تلوار کا قتل ہو گیا ہے اور قتل نوکر ہیم راج نے کیا ہی۔ ڈاکٹر تلوار خون سے سنے گدے چھت پر پھنکواتے ہیں۔ پولس کو تحقیقات کے لئے یہ ایشو اپنی کسٹڈی میں لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ طوفانی رفتار سے پوسٹ مارٹم ہو جاتا ہے اور تلوار خاندان آروشی کی آخری رسومات کے لئے نکل جاتا ہی۔ ابھی وہ نوئیڈا سے تھوڑے فاصلے پر ہی تھے کہ انہیں اطلاع مل جاتی ہے کہ جس نوکر ہیم راج پر قتل کا شبہ تھا، اس کی لاش چھت پر پڑی ہی۔ مگر تلوار پریوار واپس نہیں لوٹتا۔ کیا وجہ رہی اس کی؟ کیا آروشی کے قاتل تک پہنچنے کے تمام ثبوتوں کو ختم کرنے کی جلدی جو آروشی کی راکھ میں بھی ہو سکتے تھے یا پھرہیم راج کے قتل کی جانکاری ان کے لئے کوئی نئی جانکاری نہ ہو۔ انہیں پہلے سے ہی اس بات کا علم ہو۔ ابھی ہم کسی نتیجے تک نہیں پہنچ رہے ہیں، لیکن شک کے دائرے میں سب سے نزدیک جو شخص نظر آتا ہے وہ خود آروشی کا باپ ڈاکٹر تلوار ہی۔ ہیم راج کو قتل کرنے سے پہلے اس طرح کی دوا دینا جس سے وہ بے ہوش ہو جائی۔ قتل جس ہتھیار سے کئے گئے اس پر ڈاکٹروں کے ذریعے استعمال کئے جانے والے نائف کا شک ہونا۔ ڈاکٹر تلوار اور ان کی بیگم کا پولس کی مدد نہ کرنا۔ میڈیا سے منہ چھپا لینا، پڑوسیوں سے فاصلے پر رہنا۔ یعنی تقریباً ہر ایک سے نظریں چرانا، سوائے ان قریبی رشتہ داروں کے جن پر یہ مکمل اعتماد ہو کہ یہ ہر راز کو راز ہی رکھیں گی۔
پرانے نوکر وشنو کا نام محض اس لئے شامل ہونا کہ جانچ کے دائرے کو بڑھا کر نیپال تک لے جایاجائے تاکہ ثبوتوں کو مٹانے کے لئے کچھ اور وقت مل جائی۔ پولس کا لچک داررویہ ڈاکٹر تلوار کی مہربانیوں کی وجہ سے یا پھر یہ سست رفتاری اور کاہلی اب ان کے مزاج میں شامل ہوگئی ہے کہ جتنی جانچ پڑتال میڈیا نے کی، اتنی جانچ کرنے سے بھی پولس کتراتی رہی، لیکن اگر یہ تھیوری مان لی جائے کہ یہ سب کچھ اپنی بیٹی کے قتل کے لئے ڈاکٹرتلوار کا گیم پلان تھا ۔ جسے بے حد ذہانت سے عمل میں لایا گیا۔ توسوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کا قتل کیوں کرے گا؟ لیکن سوال تو یہ بھی پیداہوتاہے کہ کوئی باہری شخص ڈاکٹرتلوار کی بیٹی آروشی کا قتل کیوں کرے گا؟
گھر کازیور پیسہ سب کچھ سلامت رہا۔ قاتل اگر ڈکیت تھا تودو دو قتل کرنے کے بعد سب کچھ یو نہی کیوں چھوڑ کرچلاگیا جبکہ گھرمیں بچے باقی دونوں لوگوں کی نیند تو صبح تک بھی کھلی ہی نہیںتھی۔ قاتل اگر آروشی کادشمن تھا تو دشمنی کی ایسی پوشیدہ وجہ کیا تھی جس کا اندیشہ ماں باپ تک کو نہ تھا۔ ورنہ تحفظ کے لئے ماں اور بیٹی ایک کمرے میں تو سو ہی سکتے تھی۔ یعنی آروشی کو اکیلے سونے سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ وہ اپنے گھر میں تنہا اپنے کمرے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی تھی۔
Aآروشی کے ساتھ زنا بالجبر یا ہم بستری بھی نہیں کی گئی تھی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تو یہی کہتی ہی۔ مطلب نہ تو آروشی نے کسی سے ناجائزرشتہ قائم کیا اور نہ ہی نوکر ہیم راج نے اس کے ساتھ کوئی زبردستی کی، جس پر ڈاکٹر صاحب کو غصہ آگیا ہو اور وہ اپنی بیٹی کی آبرو پر ہاتھ ڈالنے کے جرم میں اپنے نوکر کے لئے سزائے موت طے کرچکے ہوں۔ ایسا اگر ہوتا تو پہلے سے بے ہوشی کی دوا دیئے جانے کا کیامطلب ؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ دست درازی ہوگی؟ کیا بیٹی کے چال چلن پر شک تھا؟ نوکر یا اس کے کسی دوست کو لے کر؟ ایسی صورت میں بھی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اگر اسے جنسی تعلقات سے درست ثابت کرتی ہے تو پھر بات صرف چھیڑخانی تک رہ جاتی ہے اور اس کے لئے تو سمجھایاجاسکتا ہی۔ پھربھی ہیم راج کا خون اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہی۔ کیا وجہ کچھ اور اتنی شرمناک تھی کہ جسے ہیم راج جان گیاتھا ۔اور اس کے زبان کھولنے پر بڑی بدنامی ہوسکتی تھی۔ کیا آروشی کے خاموش رہنے کابھی یقین نہیں رہ گیا تھا اوراس کی زبان بند کرنے کاایک ہی طریقہ قاتل کو نظر آیا۔ ’’ اس کی موت‘‘۔ اگر اس ننھی سی بچی کا عاشق بھی یہ قدم اٹھانے کے بارے میں سوچتاتو بھی ایسا کیا راز ہوسکتا تھا جس کے لئے اس کو اپنی معشوقہ کی جان لینی پڑتی۔ پرانا نوکر وشنو جو قتل کی رات نیپال میں تھا۔ آخر اس کی ایسی کیا دشمنی ہوگی کہ وہ نیپال سے انتہائی خفیہ انداز میں دلی اورپھر نوئیڈا پہنچی۔ گھر سے لے کر چھت تک کی تمام چابیاں اس کے پاس ہوں۔ وہ ڈاکٹر تلوار اور مسز تلوار پر جادو کی چھڑی گھما کر انہیں بے ہوش کردی۔ آروشی کے کمرے میں جاکر اس کاقتل کرے اور ہیم راج کا قتل کرکے اس کی لاش کو اس طرح چھت پر لے جاکر پھینک آئے جیسے مہابلی کھلی کسی بھی پہلوان کو رنگ سے اٹھاکر باہر پھینک دیتے ہیں اور وہ پھر دن نکلنے سے پہلے چند گھنٹوں میں ہی واپس نیپال پہنچ جائی۔
اگر یہ کسی فلم کی کہانی ہوتی تو شاید آپ اور ہم یقین کرلیتی، لیکن یہ تو حقیقت ہے اور پھر یہ حالات سوائے ڈاکٹر تلوار کے سب کو قتل کی وجہ سے دور لے جاتے ہیں۔ نوئیڈاسے جڑی پرانی کہانیوں کو ہم یاد نہیں کرنا چاہتے اور قتل کی کوئی ایسی گھنائونی وجہ بھی نہیں سوچناچاہتی، مگر پتہ نہیں کیوں ڈاکٹر تلوار اپنی بیٹی کے قتل کے شک سے دور نہیں ہوپار ہے ہیں۔ ہاں حیرانی ماں پر ضرور ہی۔ ان کی خاموشی ماں کی ممتا پر سوالیہ نشان ہی۔ یاشوہر کو بھگوان کادرجہ دینے والی ہندوستانی پتنی کی مجبوری، جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ غلطی شاید آروشی کی تھی اور اس کا علم آروشی کی ماں کو بھی تھا۔ بس اس کی غلطی کی سزا کچھ زیادہ طے کردی گئی۔ وہ غلطی کیا تھی؟ اس غلطی کی وہ خود کتنی ذمہ دار تھی؟ اور کوئی دوسرا کتنا؟ اور یہ دوسرا کوئی بے حد قریبی اور گھر کے اندر ہی تھا؟یا کوئی باہری ؟ اگر باہری تھا تو تلوار پریوار کو اس کا نام بتانے میں جھجھک کیسی ؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ بے چاری آروشی کا کوئی قصور ہی نہ ہو اور کسی قصور وار نے اپنے قصور کو چھپانے کے لئے اس کی جان لے لی ہو۔ اور بے چارہ ہیم راج صرف اس لئے بے موت مار اگیا ہو کہ اس پر کسی راز کی جانکاری ہونے کاشک ہو۔ یہ سب کچھ صرف ہمارا وہم اور قیاس بھی ہوسکتا ہے اور پولس کو آخری نتیجہ تک پہنچنے کیلئے ایک راستہ بھی۔
(2مئی008، جمعرات کو شائع میرے مضمون کے خاص پہلو)
……………

No comments: