Saturday, February 26, 2011

کیا کرنل قذافی کا انجام بھی صدام حسین کی طرح…

عزیز برنی

مصر، لیبیا اور بحرین کے حوالہ سے لکھا گیا کل کا مضمون خاصا طویل ہوگیا تھا، اس لئے جو خبریں ان ممالک کے حوالہ سے انتہائی اہم تھیں اور جنہیں تحریر کے ساتھ شامل اشاعت کیا جانا چاہئے تھا، جگہ نہیں پاسکیں، لہٰذا آج کی تحریر کو مختصر رکھنا ہوگا، تاکہ وہ خبریں جو کل چھوٹ گئی تھیں، انہیں آج ہم اپنے قارئین کے سامنے رکھ سکیں، جو کہ مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں اور جن خبروں سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ میں اب ایک نیا ڈرامہ شروع ہوچکا ہی، جیسا کہ عراق کے تعلق سے ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا، پہلے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں، جس سے وہاں کے عوام کا جینا محال ہوگیا، پھر صدام حسین کو تاناشاہ ڈکلیئر کیا گیا، مہلک ہتھیاروں کے ذخیرہ کا الزام لگایا گیا، جو کہ برآمد نہ ہونے پر بعد میں امریکہ کے سابق صدر جارج واکر بش کے ذریعہ معافی مانگ لی گئی، لیکن اس درمیان عراق کے ہزاروں بے گناہ قتل کئے جاچکے تھی، لاکھوں بے گھر ہوچکے تھے اور صدام حسین صدرعراق کو پھانسی دی جاچکی تھی۔ اس سب کے جواب میں سابق امریکی صدر جارج واکر بش کی معافی اور بس۔ اب پھر امریکہ میں یہ ماحول پیدا کیا جارہا ہی، گویا امریکی حکومت دباؤ میں ہی، اسے امریکی قدروں کا دھیان رکھنا ہی۔ اسے لیبیا میں عوام کے اوپر ہونے والی زیادتی کو نظرانداز نہیں کرنا ہی، لہٰذا لیبیا پر اقتصادی پابندی عائد کئے جانے کی ضرورت ہی۔ یعنی وہی جو عراق کے ساتھ ہوا تھا، اب لیبیا کے ساتھ کئے جانے کا ماحول تیار کیا جارہا ہی۔ آج کی اس تحریر کے ساتھ تفصیلی خبر آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی، جس میں یہ بھی درج ہے کہ لیبیا میں وہائٹ ہاؤس کو مخاطب کرتے ہوئے نعرے لگائے جارہے ہیں کہ ’’وہائٹ ہاؤس تم کہاں ہو، ہمیں تمہاری ضرورت ہی‘‘ ایسا اس لئے کہ کل اگر امریکہ کو لیبیا پر حملہ کرنا پڑے تو وہ یہ کہہ سکے کہ ہم نے لیبیائی عوام کی پکار پر لبیک کہا تھا، ان کے اوپر ہونے والے ظلم کو روکنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔ کرنل قذافی کے ظلم سے نجات دلانے اور اسے قابو میں کرنے کا بس یہی ایک طریقہ تھا۔ اب یہ کون ثابت کرے گا کہ یہ نعرے لگانے والے لیبیائی عوام کیا واقعی اسی جذبہ کے ساتھ امریکہ کو پکار کررہے تھی، جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے یا پھر ان کا انتظام امریکہ نے کیا تھا، تاکہ اسے مداخلت کا جواز فراہم ہوسکی۔ اسی طرح دیگر خبروںکے مطابق امریکہ صدر اوباما پر جن دباؤ ڈالنے والوں کا حوالہ پیش کیا جارہا ہی، کیا یہ ان کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہی۔ کس کو کس طرح کا رول پلے کرنا ہی، کسے ماحول سازی کرنی ہی، کسے دباؤ بنانا ہی، پھر کسے کارروائی کو انجام دینا ہی، تاکہ افغانستان اور عراق کی طرح کٹھ پتلی سرکاریں قائم کی جاسکیں اور یہ سب کچھ پہلے سے طے ہی۔ بس ساری دنیا کے سامنے رکھنے کا ایک طریقہ ہی، تاکہ عالمی برادری کا خودساختہ مکھیا یہ حق حاصل کرلے کہ وہ دنیا کے جس ملک میں چاہے مداخلت کرسکتا ہی، جو چاہے فیصلہ لے سکتا ہی، ہم اس مباحثہ میں شامل امریکی حکمرانوں سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اگر انہیں فکر ہے لیبیائی عوام پر ہونے والے ظلم کی، وہاں مارے جانے والے شہریوں کی اور آپ چاہتے ہیں کہ عالمی لیڈران کو متحد ہوکر قذافی کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنی چاہئی، اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا اور یہ بیان ہے ایوان زیریں کی رکن جو حزب اختلاف سے تعلق رکھتی ہیں ری پبلکن پارٹی کی الیناروز کا جنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کو لیبیا پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ املاک منجمد کرنے اور لیبیا کے حکام، افسران اور اہل خانہ پر سفر کرنے کی پابندی عائد کردینی چاہئی۔ باالفاظ دیگر انہیں ان کے گھروں میں نظربند کردینا چاہئی۔ ہوسکتا ہے پھر کرنل قذافی پر بھی صدام حسین کی طرح امریکی ایما پر قائم کی گئی ایک عدالت میں مقدمہ چلے اور انہیں بھی پھانسی کی سزا سنا دی جائی۔ عالمی برادری کیا اسی طرح امریکہ کو کھلی چھوٹ دینے کی حامی ہے کہ اسے کسی بھی ملک میں اپنی مرضی سے اپنے انداز میں مداخلت کاحق حاصل ہی۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ ہزاروں بے گناہ عراقیوں اور افغانیوں کے قتل کے جرم میں جارج واکر بش پر مقدمہ چلائے جانے کی بات کسی نے نہیں کہی۔ کیا اپنی غلطی کو تسلیم کرلینا اور معافی مانگ لینا ہی کافی ہی۔ ہوسکتا ہے اس موضوع پر بدلتے حالات کی روشنی میں آئندہ پھر لکھناپڑی، لیکن اس وقت ہم چاہتے ہیں کہ وہ خبریں جو امریکہ میں جاری ان سرگرمیوں کو آپ تک پہنچاسکیں، ہم اس تحریر میں شامل کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
لیبیا کے تعلق سے اوباما پر مداخلت کرنے کا دباؤ
Tواشنگٹن (رائٹر) لیبیا میں معمر قذافی کے ذریعہ جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف خونی تشدد روکنے کے لئے مداخلت کے سلسلہ میں وہائٹ ہاؤس پر دباؤ بڑھ گیا ہی، کیونکہ صدربراک اوباما کے قانونی مشیر نے لیبیا میں تیل کمپنیاں بند کرنے پر زور دیا ہی۔ اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ کو فوجی کارروائی سمیت لیبیا کے ہوائی اڈوں پر بمباری، ممنوع پروازی ژونNo Fly Zone)جیسے مطالبات کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہی۔ اس کے ساتھ ہی صدر براک اوباما کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ لیبیا میں تشدد کے دوران جہاں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں، وہ خاموشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔
سینیٹ کی خارجہ روابط کمیٹی کے چیئرمین سینئر جان کیری نے تو صدر براک اوباما سے یہ مطالبہ بھی کردیا ہے کہ وہ لیبیا پر سخت پابندی عائد کرنے پر دوبارہ غور کریں۔ کیری نے مزید کہا کہ عالمی لیڈران کو متحد ہوکر قذافی کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
کیری کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے ان کی مدمخالف ایوانی زیر کی ری پبلکن رکن الینا روزلہتی نینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کو لیبیا پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ املاک منجمد کرنے اور لیبیا کے حکام، افسران اور ان کے اہل خانہ پر سفر کرنے کی پابندی عائد کردینی چاہئی۔
واشنگٹن پوسٹ اخبار نے اپنے اداریے میں تحریر کیا ہے کہ لیبیا میں نئی حکومت کے لئے عوام کے مطالبہ سمیت لیبیا کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہی۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ قذافی کا 41سالہ دوراقتدار زیادہ تر امریکہ کے خلاف رہا ہی۔
لیکن امریکہ میں حزب اختلاف کا موقف مصر اور بحرین کے مقابلہ میں لیبیا میں کمزور ہی، کیونکہ مصر اور بحرین میں واشنگٹن اپنے اتحادیوں کے ساتھ طویل مدت تک دباؤ قائم رکھنے میں کامیاب رہا۔ جب امریکہ کی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ مخالفت برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں تو انہوں نے کہا کہ امریکی حکام ’’مناسب‘‘ کارروائی کے سلسلہ میں فیصلہ کرنے کے لئے عالمی برادری کے ساتھ غوروخوض کررہے ہیں۔
ہلیری کلنٹن نے واضح طور پر کہا کہ لیبیا میں امریکی شہریوں کے تحفظ کے تعلق سے واشنگٹن کا محتاط رویہ ہی۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کی عافیت اور ان کا تحفظ ہماری اعلیٰ ترین ترجیح ہی۔
اس سے قبل امریکی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ غیرضروری سفارتکاروں اور ان کے اہل خانہ کو لیبیا سے واپس بلانا مشکل امر ہی۔ اس کے بعد حکومت کے ترجمان پی جے کراؤلے نے کہا تھا کہ 35ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو مزید کچھ دنوں کے لئے وہاں چھوڑ دیا گیا ہی۔
قذافی مخالف بہت سے مظاہرین وہائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے یہ نعرے لگائے ’’وہائٹ ہاؤس تم کہاں ہو، اب لیبیا کو آپ کی ضرورت ہی۔‘‘
کانگریس کے ایک اسٹاف نے اس بات کا انکشاف کیا کہ سال010-میں لیبیا کو امریکی معاونت ایک ملین ڈالر سے کم تھی، تاہم تجارت کا فروغ اس وقت شروع ہوا جب سالـ004میں پابندیاں ہٹالی گئیں۔ واضح رہے کہ لیبیا کو امریکی ایکسپورٹ 665ملین ڈالر کا تھا، جبکہ امپورٹ.12ملین ڈالر کا تھا۔
اس وقت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں پیدا ہونے والی عوامی تحریک سے اوباما انتظامیہ نبردآزما ہی۔ ہر ایک ملک نے واشنگٹن کے سامنے اپنے اپنے مسائل اور چیلنج پیش کردئے ہیں، اس لئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی دہائیوں پرانی یہ پالیسی ایسا معاملہ نہیں ہی، جو ہفتہ دو ہفتہ میں حل ہوجائی۔
وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا ہے کہ واشنگٹن بڑھتے ہوئے تشدد کی سرزنش کرتا ہی، جس کی وجہ سے امریکہ میں تیل کی قیمتیں ڈھائی سال کی مدت میں سب سے اونچی سطح تک آگئی ہیں۔
جان کیری نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ لیبیا کے تعلق سے امریکہ کے پاس محدود آپشن(ption) ہیں تاہم اوباما انتظامیہ کو لیبیا پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے اور توانائی کی کمپنیوں کو بھی اسی طرح کا قدم اٹھانا چاہئے ۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ تمام امریکی اور بین الاقوامی تیل کمپنیوں کو اس وقت تک لیبیا میں فوری طور پر کام روک دینا چاہئی، جب تک کے عوام کے خلاف تشدد نہ روک دیا جائی۔
اٹلی کی اینی نے کہا ہے کہ لیبیا سے ان کے ملک کو سب سے زیادہ مقدار میں حاصل ہونے والی تیل سپلائی کو روک دیا گیا ہے ۔ اس عوامی تحریک کا اثر و نٹر شیل (inter shall)کی اکائی بی اے ایس ایف پر بھی پڑا ہے جو لیبیا کی تیل پیداوار کو متاثر کرنا چاہتی ہے ۔ اس کے علاوہ بی پی اور رائل ڈچ مشیل سمیت دیگر بہت سی فرموں نے عالمی اسٹاف کو واپس بلا لیا ہی۔
کونوکو فلپس ، مراتھن آئل اور ہیس (ess) ایسی امریکی فرمیں ہیں جن کا لیبئن نیشنل آئل کا رپوریشن کے جوائنٹ وینچر میں 40فیصد سے زائد کی حصہ داری ہے جو کہ وہاں (aha) استثنیٰ کے تحت 350,000بیرل تیل روزانہ پیدا کرتی ہیں۔
’آکسیڈ نیٹل پٹرولیم ‘ امریکہ کی ایسی اولین فرم ہے جن نے پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد سب سے پہلے لیبیا میں تیل پیدا کرنے کا کام شروع کیا ۔ تیل کے شعبہ میں واپس آنے سے قبل اس نے 2دہائی پہلے کام شروع کیا تھا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اثر انداز ہونے کے لئے نئی پابندیاں عائد کرنے میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ اس کے تیل ماہرین نے تیل کو ’ ہارڈ کرنسی‘ کی شکل دے دی ہی۔ وہائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق جان کیری کی تجویز کا مطالعہ کیا جا رہا ہے ۔ تاہم اس وقت انتظامیہ کی توجہ خون خرابہ بند کرانے پر مرکوز ہی۔واشنگٹن میں واقع ’بروکنگس انسٹی ٹیوشن‘ کے مفکر ڈینپل بائمین کا کہنا ہے کہ لیبیا میں امریکہ کا نسبتاً اثر معمولی ہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے امریکی مفاد وابستہ ہیں لیکن یہ مفادات زیادہ تر بین الاقوامی ہیں اور وہ بھی خصوصی طور پر تیل۔
مبصرین کا خیال ہے کہ فوجی کارروائی سے ملک میں تیل کا بحران پیدا ہوسکتا ہے حالانکہ امریکہ نے ماضی میں قذافی کے خلاف فورس استعمال کرنے میں گریز نہیں کیا تھا ۔
امریکی فوجی افسران کے لئے قائم کئے گئے ویسٹ برلن ڈسکوپر بمباری کی پاداش میں امریکہ نے 1986میں ترپولی اور دوسرے بڑے شہر بن غازی میں بمباری کی تھی اور اس وقت 40سے زائد لیبیائی شہری ہلاک ہوئے تھی،جس میں قذافی کی گود لی گئی لڑکی بھی ہلاک ہوگئی تھی۔
لیبیا کے ذریعہ دہشت گردوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے کئی دہائیوں تک تعلقات کشیدہ رہنے کے بعد جب 2003میں قذافی نے تباہ کن ہتھیاروں کا پروگرام ترک کر دیا تو امریکہ نے آہستہ آہستہ تعلقات بہتر کرنے شروع کر دئی۔ 1988 میں جب اسکاٹ لینڈ میں پان ایم 103طیارہ پر بمباری کرنے کی لیبیا نے ذمہ داری قبول کر لی تو امریکہ نے آہستہ آہستہ اقتصادی پابندیاں ہٹا لیں تھیں

1 comment:

Azra Ahmad said...

Saddam Hussain ko America in Qatal karwakar Maqbool kar Diya
Ghaddafi apney hi awam ko qatal kara ker Zaleel Ho rahay haiN
Saddam per to shayed roney waley bhi miljaeN.Ghaddafi key Anjaam per Koi Ansoo Bahaney wala nahiN Mileyga