Sunday, February 20, 2011

دارالعلوم دیوبندـیہی میرا پہلا اور آخری مشورہ ہی!

عزیز برنی

میں اس وقت حیدرآباد میں ہوں۔ کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں میڈیا اسٹوڈنٹس سے خصوصی خطاب کرنا تھا، جس کے لئے میں حیدرآباد حاضر ہوا تھا۔ آج صبح تقریبات کا سلسلہ پریادرشنی کالج، نام پلی حیدرآباد سے شروع ہوا۔ یہ جلسہ کل ہند اردو تعلیمی کمیٹی کے ذریعہ منعقد کیا گیا اور اس کے بعد جلسۂ سیرتِ رسول بسلسلہ یوم ولادت حضرت محمد مصطفی ؐ، پرکاشن ہال، گاندھی بھون اور دیر رات مغل پورہ میں منعقد کیا گیا۔ ان تینوں مقامات پر میری تقریر کا موضوع کیا رہا اور میں نے کیا گفتگو کی، اس کا ذکر پھر کبھی، اس لئے کہ فی الحال میں دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر لکھ رہا ہوں اور ابھی اس سے ہٹنا نہیں چاہتا۔ ضمناً یہ تذکرہ بھی اس لئے کہ پریا درشنی کالج کے جلسہ میں بزرگ شاعر نانک سنگھ نشتر کا ایک شعر اس موضوع کی مناسبت کے بہت قریب لگا اور دل چاہا کہ میں اسے کوڈ کرتے ہوئے اپنے آج کے مضمون کی شروعات کروں، لہٰذا پہلے ملاحظہ فرمائیں یہ شعر، پھر اس کے بعد میری تحریر…
پہلے یہ سمجھ لیجئے مسئلہ کا حل کیا ہی
صرف مشوروں سے تو رہبری نہیں ہوتی
مجھے یہ شعر بروقت اور بموضوع اس لئے لگا کہ جب سے میں نے دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر لکھنا شروع کیا ہی، قارئین کو میرے مشورے کا انتظار ہے اور صاف لفظوں میں میں ابھی کوئی بھی مشورہ دینے کی جسارت نہیں کرسکا ہوں، صرف منظرنامہ پیش کرنے کی کوشش رہی ہے یا ان خدشات کو سامنے رکھا ہی، جن کا خدانخواستہ سامنا کرنا پڑسکتا ہی، لیکن اب اس سلسلہ کو اور طویل نہیں کیا جاسکتا، زیادہ وقت بھی نہیں ہی، لہٰذا آج میں اپنی گفتگو کو وہ شکل دینا چاہتا ہوں، جسے مشورہ کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہی۔
بہت مشکل ہے کسی شخصیت کی تعمیر کرنا اور بہت آسان ہے کسی کی شخصیت کو مجروح کردینا، لہٰذا میرے قلم کے ذریعہ کسی کی کردارکشی کا تو سوال ہی کیا، انگلیاں کانپ جاتی ہیں کسی منفی موضوع پر لکھتے ہوئی۔ فرض کا تقاضا نہ ہوتا تو شاید درگزر کردیتا اور اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہی نہیں۔ ہر طرف سے اس وقت یہ آوازیں آرہی ہیں کہ دارالعلوم دیوبند سے منسلک ذمہ دار افراد گروپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ فلاں کی منشا یہ ہے اور فلاں کی منشا یہ ہی، اسے اس لئے ہونا چاہئے اور اسے اس لئے نہیں ہونا چاہئی، ہمیں خاندانی اجارہ داری سے نجات پانی ہی، وغیرہ وغیرہ۔ سب سے پہلے تو یہ خاندانی اجارہ داری کے تصور کو ذہن سے نکالنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کسی بھی خاندان سے وابستہ کوئی شخص اگر باصلاحیت ہے تو اسے صرف اس بنا پر تنقید کا نشانہ بنانا مناسب ہی؟ پنڈت جواہر لعل نہرو سے جو سلسلہ شروع ہوا، وہ محترمہ اندراگاندھی، راجیوگاندھی، سونیاگاندھی سے گزرتے ہوئے راہل گاندھی تک پہنچ چکا ہی۔ کیا یہ قابل اعتراض ہی؟ اگر ایسا ہوتا تو راہل گاندھی کو ملک کے مستقبل کی شکل میں کس طرح پیش کیا جاسکتا تھا۔ محترمہ وجے راجے سندھیا، مادھوراؤ سندھیا، وسندھرا راجے سندھیا اور جیوتی رادتیہ سندھیا کیا ایک ہی خاندان کے فرد نہیں ہیں۔ ملائم سنگھ یادو، پروفیسر رام گوپال یادو، شیوپال یادو، اکھلیش یادو، دھرمیندریادو سب کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہی۔ ایسی بیشتر مثالیں سیاست کے علاوہ دیگر شعبہ ہاے زندگی میں بھی دی جاسکتی ہیں، لہٰذا مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اسعد مدنی، مولانا ارشدمدنی، مولانا محمودمدنی کا تعلق اگر ایک ہی خاندان سے ہے تو کیا صرف اسی بنا پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہئی۔ آج جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سب جنہیں ہم الگ الگ گروپوں میں محدود کرتے ہیں یا قرار دیتے ہیں، ان سب کو متحد کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ ہم کیوں ان کے درمیان انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ وقتی طور پر نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہی، اختلاف کی وجوہات کچھ اور بھی ہوسکتی ہیں، ہاں وہ بھی ہوسکتی ہیں جو آپ کے ذہنوں میں ہیں، مگر کیا ہمیں اس نازک گھڑی میں ایک کامن منمم پروگرام کو ذہن میں رکھتے ہوئے سب کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئی۔ میں مولانا غلام محمد وستانوی کو اس اتحاد میں شامل دیکھنا چاہتا ہوں، قطع نظر اس کے کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کا فیصلہ کس کے حق میں ہو۔ وہ بھلے ہی مولانا غلام محمدوستانوی اپنے عہدہ پر برقرار رہنے کی شکل میں ہو یا کوئی دوسرا، مگر فیصلہ جو بھی ہو، اس میں یہ سب شامل ہوں۔ خوش دلی کے ساتھ شامل ہوں اور حسن سلوک کے ساتھ کوئی ایسا راستہ نکالیں، جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ کسی کی شخصیت مجروح نہ ہو۔ اگر ہم نے اس نازک گھڑی میں کسی بھی وجہ سے کسی ایک بھی ایسی شخصیت کو مجروح کردیا، جو ہم سب کے لئے قومی سرمایہ سے کم نہیں ہیں تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ان شخصیتوں کو بنانے کے لئے ہمارا کیا رول ہی، اگر نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ حق کس نے دے دیا کہ ہم ان شخصیتوں کے وقار کو تنازع بنانے کی سمت میں رات دن ایک کردیں۔ جہاں تک مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کا تعلق ہے تو کیا ان سے شکایت صرف اتنی ہی کہ انہوں نے گجرات یا نریندرمودی کے حوالہ سے جو کلمات اپنی زبان سے ادا کئی، وہ قابل گرفت تھے اور ایک تقریب کے دوران بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرتے ہوئے جو مومنٹو پیش کئی، حقائق کے اعتبار سے ان کا پیش کیا جانا ضروری نہیں تھا۔ اس پر بہتر رائے مفتیانِ کرام کی ہوگی اور دیکھنا یہ ہوگا ہماری مجلس شوریٰ کو کہ جب انہوں نے مولانا غلام محمد وستانوی کا انتخاب بحیثیت مہتمم دارالعلوم دیوبند کیا تو کیا وہ تقریب عمل میں آچکی تھی۔ جہاں تک گجرات اور نریندر مودی کے تعلق سے اگرچہ جملوں کی بات ہے تو مولانا غلام محمد وستانوی کے مدارس یا جدید تعلیم کے مراکز گجرات میں ہیں۔ ان کے نظریات کیا پہلے ہماری مجلس شوریٰ کے سامنے نہیں تھی۔ کیا یہ پہلا موقع ہی، جب انہوں نے اپنے نظریہ کو سامنے رکھا یا مجلس شوریٰ نے ان کے انتخاب کے وقت ایسی کسی بھی بات کو قابل توجہ نہیں مانا۔ ان کے بارے میں تمام تفصیلات جاننے کی ضرورت نہیں سمجھی یا ایسا بہت کچھ سامنے آنے پر بھی انہوں نے نظرانداز کرنا ضروری سمجھا۔ آج یہ سوال مجلس شوریٰ کو خود اپنے آپ سے کرنا ہوگا۔ جہاں تک میرا اندازہ ہی، تمام قارئین کو تو شاید اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ مجلس شوریٰ میں کون کون سی شخصیتیں شامل ہیں، ان کا تعلق کس کس شہر اور کس کس خاندان سے ہی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ان سب کو بھی دیوبند کے کسی ایک مخصوص خاندان کے فرد کی شکل میں دیکھ رہے ہوں، لہٰذا میں ضرور سمجھتا ہوں کہ کم ازکم اتنی جانکاری تو اپنے قارئین کو فراہم کردی جائے کہ ان کے اسمائے گرامی کیا ہیں اور ان کا تعلق کس کس شہر سے ہی، لہٰذا ملاحظہ فرمائیں ان کا مختصر تعارف:
(1) مولانا مفتی منظور احمد :۔ کانپور کی’’ قاضئ شہر‘‘ ہیں، علاقے کے بڑے علما میںان کا شمار ہوتا ہی۔
(2) مولانا محمد یعقوب :۔ مدرسہ کاشف الھدی (چنئی) کے سرپرست اور صوبہ تامل ناڈو کے امیر شریعت نیزکئی مدارس کے سرپرست ہیں۔
(3) مولانا عبد العزیز:۔مجلس علمی حیدر آباد (آندھراپردیش) کے ذمہ دار ہیں۔
(4) حافظ محمد صدیق :۔مراد آباد میں بیڑی کے بڑے تاجر ہیںکانگریس کے ٹکٹ پر ایم پی اور رکن اسمبلی نیز ریاستی وزیر رہ چکے ہیں۔
(5) مولانا ازہر نعمانی:۔ مدرسہ حسینیہ رانچی (جھارکھنڈ) کے سرپرست ہیں۔
(6) مولانا ابو القاسم نعمانی :۔ جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس کے شیخ الحدیث اور مفتی اعظم ہیں۔حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی ؒ کے خلیفہ ہیں۔
(7) مولانا بدر الدین اجمل:۔ عطر کے بڑے تاجر ہیں، یو ڈی ایف آسام کے بانی اور رکن پارلیمان ہیں۔
(8) مولانا نظام الدین :۔ امیر شریعت بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں۔
(9) مولانا غلام محمد وستانوی:۔ مدرسہ اشاعت العلوم ، اکل کوا (مہاراشٹر)کے بانی مہتمم اور بہت سے تعلیمی اداروں کے سرپرست ہیں۔ اس وقت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم ہیں۔
(10)مولانا عبد العلیم فاروقی:۔ دارالمبلغین لکھنؤ کے ذمہ دار اور جمعیۃ علماء ہند(الف) کے ناظم عمومی ہیں۔
(11)مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی:۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سربراہ اعلیٰ ہیں۔
(12)مولانا محمد طلحہ:۔ حضرت مولانا شیخ محمد زکریانوراللہ مرقدہ کے صاحبزادے اور معروف پیر طریقت ہیں۔ مظاہر علوم سہارنپور کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں۔
(13)مولانا سید میاں خلیل حسین:۔ مدرسہ اصغریہ دیوبند کے مہتمم اور مشہور بزرگ ہیں۔
(14)مولانا محمد اسماعیل :۔ دارالعلوم محمدیہ مالی گائوں کے شیخ الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ مالیگاؤں اسمبلی حلقہ سے رکن اسمبلی بھی ہیں۔
(15)مولانا محمد اشتیاق :۔ مدرسہ جامعہ العلوم مظفر پور(بہار)کے ناظم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ محمد زکریاؒ کے خلیفہ ہیں۔
(16)حاجی جمیل احمد:۔ شہر کلکتہ کے مشہور اور بڑے تاجر ہیں۔
(17)مولانا ملک محمد ابراہیم:۔ مدرسہ مفتاح العلوم ویل وشارم کے سرپرست اور چمڑے کے بڑے تاجر ہیں۔
(18)مفتی سعید احمد پالنپوری:۔ دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرس کی حیثیت سے مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔
یہ ہیں مجلس شوریٰ کے ارکان، جنہوں نے بحیثیت مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی کا انتخاب کیا یا 23فروری011کی دوسری میٹنگ میں یہ فیصلہ لینے کے مجاز ہیں کہ ان کی تقرری کو بحال رکھا جائے یا اس میں کسی طرح کی تبدیلی کی جائی۔ میں یہ پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ تنازع جلدازجلد اپنے اختتام کو پہنچے اور اس طرح پہنچے کہ مولانا غلام محمد وستانوی، مولانا ارشدمدنی، مولانا محمود مدنی، مولانا بدرالدین اجمل یا ان جیسی کسی بھی شخصیت بشمول مجلس شوریٰ کے ارکان کسی کی شخصیت کو نقصان نہ پہنچی، اس لئے کہ اگر ایسا کچھ بھی ہوتا ہے تو یہ دارالعلوم دیوبند کے مخالفین کی سب سے بڑی کامیاب ہوگی۔ دارالعلوم دیوبند کے خلاف سازشی ذہن رکھنے والوں کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ دارالعلوم دیوبند کے وقار کو مجروح کرنے کی کوششیں انجام دینے والوں کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت کو ناکام بنانے کی کوشش میں ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اگر ہمیں ان حالات سے ابھرنے کے لئے مصلحت سے کام لینا پڑے تو بھی لیا جائی۔ اگر کہیں تھوڑا بہت کمپرومائز کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے تو اس پر بھی غور کیا جائی۔ اگر واقعی ذرا بھی ان میں سے کسی کے آپسی رشتوں میں رتی برابر بھی ناہمواری ہے تو انہیں ہموار کرنے کی دل و جان سے کوشش کی جائی۔ کیا ہم اس سے سبق حاصل نہیں کرسکتے کہ دو مختلف نظریات کے لوگ اپنی سیاسی کامیابی یا کاروباری فروغ کے لئے ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ نظریاتی اعتبار سے نتیش کمار اور بھارتیہ جنتا پارٹی الگ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک ساتھ مل کر سرکار چلاتے ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ یوپی اے جس کی آج مرکز میں سرکار ہی، اس کی حلیف جماعتیں آپس میں ہم خیال نہیں ہیں، مگر اقتدار کے لئے متحد ہیں۔ ہمارے سامنے تو ایک تاریخی ساز ادارے کے مستقبل کا سوال ہی، کیا ہمیں ذاتی انا، ذاتی مقاصد اور ذاتی وجوہات سے اوپر اٹھ کر متحد ہونے کے لئے آمادہ نہیں کرتا۔ اگر نہیں تو پھر کس حق سے ہم دارالعلوم دیوبند کے معاملہ میں اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں؟ اگر یہ ہمارا قومی سرمایہ ہی، جسے ہم اپنا سرمایہ مانتے ہیں تو اسے بچانے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے اور اسے بچانے کا مطلب محض عمارت کو بچانا نہیں، ان سے وابستہ تمام شخصیتوں اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے مستقبل کو بچانا بھی ہی۔ کیوں یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان میں سے اپنی رائے فلاں کے حق میں فلاں کے خلاف دینی چاہئی۔ جب تک لکیر کے اس پار یا اس پار نہیں ہوں گی، ہماری رائے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ میری رائے ہے کہ اس معاملہ میں رائے دینے والا اگر مجلس شوریٰ یا متعلقہ ذمہ دار افراد جن میں سے کچھ کا ذکر میں نے اپنی تحریر میں کیا ہے سے زیادہ قابل ہی، زیادہ دینی علم رکھتا ہی، زیادہ بہتر فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو بیشک وہ اپنا مشورہ دی، اس مشورہ کو منظرعام پر رکھی، ورنہ خدا کے لئے اپنی انا کی تسکین کیا کسی کے ساتھ کھڑے ہونے کے شوق میں اسے اور پیچیدہ بنانے کی کوشش نہ کریں، کوشش کریں، کوشش کریں، کوشش کارگر کامیاب ہوتی نہ نظر آئے تو دعا کریں کہ ’’سب متحد رہیں۔آپسی اتحاد اور خلوص کے ساتھ اس مسئلہ کا حل نکلے اور بہتر ہے کہ3فروری سے پہلے نکلی۔ اس ضمن میں یہی میرا پہلا اور آخری مشورہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس موضوع پر میں اپنی گفتگو تمام کرتا ہوں۔
……………

No comments: