Wednesday, December 8, 2010

آخری لمحات میں کرکرے نے کی دگ وجے سنگھ سے دل کی بات!

عزیز برنی

کانگریس کے جنرل سکریٹری جناب دگ وجے سنگھ جی نے میری کتاب ’’آر ایس ایس کی سازشـ6/11؟‘‘ کی رسم اجرا کی تقریب میں جہاں ایک معرکہ آرا اور تاریخی تقریر کی، وہیں اس کے چند جملے ایسے بھی تھے جنہیں میں نے اپنے خطاب کا سرنامۂ کلام بنانا ضروری سمجھا۔ میں اس وقت وہی جملہ آپ کے ذہنوں میں رقم کرنے جارہا ہوں اور اس درخواست کے ساتھ کہ خدارا اسے کاغذ اور سیاہی تک محدود نہ رہنے دیجئی، نقش کرلیجئے اپنے دل و دماغ پر اس لئے کہ آزاد ہندوستان کو پہلی بار اپنے ملک پر کسی دشمن ملک کی فوج سے نہیں، بلکہ ایک دہشت گردانہ حملہ کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھی سرحدوں پر نہیں، بلکہ ہندوستان کی معاشی راجدھانی قرار دئے جانے والے شہر ممبئی کی اس بندرگاہ، جہاں سیکڑوں برس سے پانی کے جہاز آکر رکا کرتے تھے اور جہاں آج بھی گیٹ وے آف انڈیا ہندوستان کی آن بان شان کے ترجمان کی حیثیت سے کھڑا ہی۔ اس سے چند قدم کے فاصلہ پر ہوٹل تاج اس دہشت گردانہ حملہ کا مرکز تھا اور تاریخ تھی 26نومبر 2008 ، میں اپنے آج کے اس مضمون میں اس حملہ سے تین گھنٹہ پہلے یعنی محض80منٹ پہلے کی ایک ٹیلی فون کال کا ذکر کرنے جارہا ہوں، جو شہید وطن ہیمنت کرکرے کی کال تھی اور حکمراں جماعت یعنی کانگریس کے جنرل سکریٹری جناب دگ وجے سنگھ کے موبائل فون پرتھی۔ یہ فون کیا تھا خود شہید ہیمنت کرکرے نی۔ میں ایک ایک بات کو انتہائی وضاحت کے ساتھ اس لئے درج کررہا ہوں کہ ہر بات کے کچھ معنی ہوتے ہیں، اگر یہ فون جناب دگ وجے سنگھ کے ذریعہ ہیمنت کرکرے کو کیا جاتا تو بات کچھ اور ہوتی، اس کا مطلب کچھ اور ہوتا، اسے ہم ایک اتفاق قرار دے سکتے تھی، لیکن جب کوئی شخض پریشان ہوتا ہی، غمزدہ ہوتا ہے یا بعض اوقات کچھ عظیم شخصیتوں کو اس آنے والے وقت کا اندازہ ہوجاتا ہی، جس سے انہیں کچھ دیر بعد گزرنا ہوتا ہی، تب ان کی آنکھیں تلاش کرتی ہیں کسی ایسے ہمدرد کو، جس سے زندگی کے آخری لمحہ میں کچھ کہہ سکیں۔ ایسے جملے وصیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ عام طور پر بستر مرگ پر اپنی زندگی کے آخری لمحوں کو نزدیک محسوس کرتے ہوئے ہر شخص اپنے عزیزواقارب سے اپنے دل کی بات کرتا ہے اور اگر کوئی پیغام دینا چاہتا ہے تو ایسے شخص کو منتخب کرتا ہی، جس کے ذریعہ یہ پیغام وہاں تک پہنچ سکی، جہاں وہ پہنچانا چاہتا ہی۔ ایک اور بات ہماری عدالتیں کسی بھی شخص کی موت کے آخری بیان کو انتہائی اہمیت کا حامل مانتی ہیں۔ اسے حرف آخر قرار دیا جاتا ہی، اس لحاظ سے شہید ہیمنت کرکرے کے ان جملوں کو دیکھیں، جو انہوں نے دگ وجے سنگھ کو فون کرکے کہا، ’’میں انتہائی پریشانی کے عالم میں ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا پریشان کن دور نہیں دیکھا۔ میرا 17 سالہ بیٹا جو زیرتعلیم ہی، اسے دبئی میں ایک بڑا کنٹریکٹر بتاکر بدنام کیا جارہا ہی۔ میرے اہل خانہ جو ناگپور میں ہیں، انہیں بم سے اڑا دینے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور اس سب کے لئے انہوں نے سنگھ پریوار کو نامزد کیا تھا۔ پھر ذہن نشین کرلیں،سنگھ پریوار کو نامزد کیا تھا۔ اپنی موت سے صرف تین گھنٹے پہلی۔ اپنی جان کو خطرے میں بتایا تھا۔ اپنے خاندان کو بم سے اڑا دئے جانے کی بات کہی تھی۔ اپنے بیٹے کو 500کروڑ روپے کے کنٹریکٹ کے جھوٹے الزام میں پھنسانے کی بات کہی تھی۔ اور پھر ہوا ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ، جس کا پہلا شکار ہوئے شہید ہیمنت کرکری۔ میں پہلے گفتگو کو یہیں تمام کردوں، تاکہ واضح ہوجائے کہ ٹیلی فون پر کی جانے والی گفتگو کہاں سے کہاں تک تھی۔ اس حوالہ میں آخری جملہ جو میں نے لکھا کہ ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ کا شکار ہوئے شہید ہیمنت کرکری، یہ میرا جملہ تھا اور اس سے پہلے میں جن باتوں کا ذکر کررہا تھا، وہ شہید ہیمنت کرکرے اور جناب دگ وجے سنگھ کے درمیان ہوئی گفتگو تھی۔ میں نے اپنی کتاب کے رسم اجرا کے موقع پر اپنی مختصر تقریر اسی عنوان کے ساتھ شروع کی۔ موقع نہیں تھا کہ میں تفصیل سے اس وقت اس انتہائی اہم جملہ کو سامنے رکھ کر تمام واقعات کی روشنی میں وہ تاریخی حقیقت اسی وقت پیش کردیتا، جو اب مندرجہ ذیل لفظوں کے ذریعہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
نریمن ہاؤس وہ جگہ تھی، جہاں بدھوارا پیٹھ پرسمندر کے کنارے پہنچنے والے دہشت گرد ناؤ سے اترنے کے بعد سب سے پہلے پہنچے اور جو یہودی، اسرائیلی ربی کی رہائش گاہ تھی۔ جیسے ہی یہ اطلاع نریمن ہاؤس تک پہنچی کہ ہیمنت کرکرے اس دہشت گردانہ حملہ میں ہلاک ہوگئے ہیں، وہاں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ میں نے اپنے گزشتہ قسط وار مضمون ’’مسلمانانِ ہند…ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی 100ویں قسط ’’شہید وطن ہیمنت کرکرے کی شہادت کو سلام‘‘ کے عنوان سے اس عظیم شخصیت کو خراج عقیدت کے طور پر پیش کی تھی۔ مٹھائیاں تقسیم کئے جانے والا معاملہ تفصیل کے ساتھ اس 100ویں قسط میں پیش کیا تھا اور اب اپنی حالیہ کتاب ’’آر ایس ایس کی سازشـ6/11؟‘‘ میں بھی۔ میں ایک اور بات روزاوّل سے ہی کہتا چلا آرہا ہوں، یقینا میرے قارئین کو یاد ہوگا کہ میں اجمل عامرقصاب کی اس تصویر پر سوالیہ نشان لگاتا رہا ہوں، جو سی ایس ٹی اسٹیشن پر اس کے ہاتھ میں رائفل لئے ہوئے ہی۔ کل 7دسمبر010کے انگریزی روزنامہ ’’ہندو‘‘ کی خبر میرے سامنے ہی، جو من و عن قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں، جس میں صاف لفظوں میں درج ہے کہ قصاب نے اس تصویر کو جھوٹا قرار دیا ہی۔ یہ بات اس کے وکیل امین سولکر نے کہی ہے اور تصویر کھینچنے والے سیبا ستین ڈیسوزافوٹوگرافر نے بھی اقرار کیا ہے کہ ہاں یہ ممکن ہی، یعنی جو بات ہم نے دو برس پہلے ہی کہہ دی تھی، آج اس بات کی تصدیق ہورہی ہی، جو بات ہم مسلسل گزشتہ دو برس سے کہتے چلے آرہے ہیں، اگر شہیدہیمنت کرکرے کے وہ آخری جملے جو جناب دگ وجے سنگھ سے انہوں نے خود فون کرکے کہے ، انہی کی طرف اشارہ کررہے ہیں، جن کی طرف ہم کرتے رہے ہیں تو پھر تفتیش اس سمت میں کیوں نہیںکی جاتی؟ ملاحظہ فرمائیں ’’ہندو‘‘ کی یہ خبر، اس کے بعد میرا مضمون جاری رہے گا۔
پاکستانی دہشت گرد اجمل عامر قصاب نے کہا ہے کہ وہ 26/11ممبئی حملوں کے دوران، چھترپتی شواجی ریلوے ٹرمنس اور کاما ہسپتال پر موجود نہیں تھا۔ پیر کے روز اس نے دعویٰ کیا ہے کہ جن تصویروں میں اسے اور اس کے ساتھی اسماعیل کو ان مقامات پر دکھایا گیا ان سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہی۔ ممبئی ہائی کورٹ کے جج صاحبان جسٹس رنجن ڈیسائی اور جسٹس آروی مورے کو، جو کہ قصاب کی سزائے موت کی توثیق سے متعلق دلائل کی سماعت کررہے ہیں وکیل امین سولکر نے بتایا ہے کہ ’’قصاب کاما ہسپتال پر دہشت گردانہ حملوں کے وقت ان مقامات پر موجود نہیں تھا اور اس کی تصاویر سے جو کہ ٹرائل کورٹ میں پیش کی گئی ہیں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہی۔ ‘‘
قصاب عدالت میں لگائی گئی اس اسکرین پر بھی نہیں آیا تھا جو کہ اس لئے لگائی گئی تھی تاکہ وہ آرتھر روڈ جیل میں، جہاں وہ اس وقت زیر حراست ہی، مقدمہ کی کارروائی کو سن سکی۔
فوٹو گرافر کا بیان
مسٹر سولکر نے بتایا کہ میڈیا فوٹو گرافر سیباستین ڈیسوزا جس نے سی ایس ٹی یعنی چھتر پتی شیوا جی ٹرمنس پر قصاب کی تصاویر کھینچنے کا دعویٰ کیا تھا، جرح کے دوران اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ تصاویر سے چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہی۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے سابقہ بیان پربھی اڑا رہا کہ عدالت میں داخل کی گئی قصاب اور اسماعیل کی تصاویر اصلی ہیں۔مسٹر سولکر کا کہنا تھا کہ مسٹر سیباستین (فوٹو گرافر) نے تفتیش کے دوران پولس کو اپنے کیمرے کا میموری کارڈ نہیں دیا تھا۔ اس کے بجائے کچھ تصاویر کی انہوں نے ایک سی ڈی نکالی تھی اور اسے جنوبی ممبئی کے فورٹ علاقے کے ایک پرائیویٹ اسٹوڈیو سے Develop کرایا تھا۔ مسٹر سیباستین نے نہ تو اس اسٹوڈیو کی کوئی رسید پولس کو دی تھی او رنہ ہی انہوں نے اس دکان یا اس کے مالک کا نام پولس کوبتایا تھا۔
26/11پر لکھنے کا سلسلہ ابھی دیر تک چلنا ہی۔ عین ممکن ہے کہ میرے گزشتہ مضمون ’’مسلمانانِ ہند… ماضی، حال اور مستقبل؟؟؟‘‘ کی طرح میرے زیرنظر قسط وار مضمون ’’آزادبھارت کے اتہاس‘‘ کی 200ویں قسط بھی اسی موضوع پر ہو، اس لئے کہ یہ فاصلہ بھی اب زیادہ دور نہیں رہ گیا ہی۔ لیکن آج کا یہ مضمون ختم کرنے سے قبل اگر میں بنارس میں ہوئے بم دھماکہ پر گفتگو نہیں کروں گا تو بات ادھوری رہ جائے گی، یہ اس لئے بھی کہ کل صبح مجھے وزیراعظم کے ہمراہ بلجیم اور جرمنی کے دورہ پر جانا ہے اور اس مضمون کی اگلی قسط بیرون سفر سے واپسی کے بعد ہی ممکن ہی، لہٰذا اس وقت اگر میں بنارس میں ہوئے بم دھماکہ پر نہ لکھوں تو یہ پرانی ہوجائے گی۔
اس وقت میں بنارس میں ہوئے بم دھماکے کے محض 24گھنٹے بعد اس مضمون کو آخری شکل دے رہا ہوں اور اب تک اس بم دھماکہ کی تمام کڑیاں جڑ چکی ہیں۔ مجرموں کے نام سامنے آچکے ہیں، ماسٹر مائنڈ کون ہے معلوم ہوچکا ہی، اس کا نام سامنے آچکا ہی، وہ اس وقت کہاں چھپا ہی، سازش کب رچی گئی، سب کچھ ہماری خفیہ ایجنسیوں نے معلوم کرلیا ہی۔ کس قدر تیز رفتاری سے انہوں نے اس کارنامہ کو انجام دیا، مبارکباد کی مستحق ہیں وہ۔ ’’انڈین مجاہدین‘‘نے اس بم دھماکہ کی ذمہ داری لی ہی۔ چار صفحات کا وہ طویل خط بھی موجود ہی، جو انہوں نے میڈیا کو بھیجا ہی۔ ایـمیل نوی ممبئی سے کیا گیا، جن کی ایـمیل آئی ڈی کو ہیک کیا گیا، ان دونوں کے نام نکھل اور اکھل تنریجا ہیں، جنہیں حراست میں لے کر کچھ دیر بعد ہی چھوڑدیا گیا۔ کس قدر ذہین اور ایمانداری سے اپناجرم قبول کرنے والے دہشت گرد ہیں یہ، حادثہ کے فوراً بعد قبل اس کے کہ حادثہ کی تفتیش کی سمت طے کی جائی، اپنے جرم کا اقبال کرلیتے ہیں، وہ بھی دوچار سطروں میں نہیں، اتنے طویل خط کے ذریعہ کہ بم بنانے اور اسے پلانٹ کرنے کے لئے جتنا وقت درکار ہو، اس سے بھی زیادہ وقت وہ جرم کا اقرار کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اقبال جرم کی عبارت میں پیشانی پر لکھتے ہیں ’’بسم اللہ الرحمن رحیم‘‘ (شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سی، جو نہایت رحم کرنے والا ہی)، یعنی حددرجہ کی بے رحمی کے جرم کا اقرار کرنے والے اپنے خط کے پہلے ہی جملہ کو ہی اللہ جو رحم کرنے والا ہی، اس کے نام سے شروع کرتے ہیں۔ اگر وہ واقعی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے کام کو جہاد کا نام دینا چاہتے ہیں تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ انہیں اللہ کے اس پیغام کا ہی علم نہ ہو، جو ان کے پہلے ہی جملے میں ہی۔ یقینا قارئین کو یاد ہوگا، میں نے 2نومبر008 کو لکھے اپنے ایک مضمون کا عنوان دیا تھا ’’ہوسکتا ہے آسام میں بم دھماکے انڈین مجاہدین نے ہی کئے ہوں پر کیاانڈین مجاہدین بجرنگ دل کا ہی کوڈ نیم ہی!‘‘ آج پھر میں اپنی خفیہ ایجنسیوں سے یہ مؤدبانہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ جب وہ انڈین مجاہدین کے اس جرم کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کریں تو اپنی تفتیش میں اس پہلو کو بھی شامل رکھیں، اس لئے کہ سنگھ پریوار سازشیں رچنے میں کس قدر ماہر ہی، اس کا اندازہ تو 30جنوری948کو مہاتماگاندھی کے قتل کے فوراً بعد ہی ہوگیا تھا۔ اگر ناتھو رام گوڈسے پکڑا نہ جاتا اور اس کی اصل شناخت سامنے نہ آئی ہوتی تو مہاتماگاندھی کے قتل کا شبہ بھی مسلمانوں پر ہی جاتا۔ جگہ کم ہی، اس لئے بہت تفصیل سے گفتگو کرنا ممکن نہیں ہوپارہا ہی، ناندیڑ بم دھماکوں کے بعد ملی نقلی داڑھی اور ٹوپی کا حوالہ دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں، یہ بھی اسی لئے تھا کہ بم دھماکے وہ کریں اور شبہ مسلمانوں پر جائی۔ بنارس میں شیتلاگھاٹ پر ہوا بم دھماکہ کیا ایسی ہی ایک سازش کا حصہ تو نہیں کہ اس وقت جب مالیگاؤں، اجمیر، سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد حیدرآباد میں ہوئے بم دھماکوں میں سنگھ پریوار سے وابستہ مجرموں کے نام سامنے آرہے ہیں تو ان کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لئے بنارس میں بم دھماکہ کرکے انڈین مجاہدین کے حوالہ سے کچھ مسلم ناموں کو سامنے رکھا جارہا ہوکہ پھر ایک بار شک کی سوئی اس طرف مڑجائے اور بات پھر وہیں پہنچے جہاں سے شروع ہوئی تھی۔
……………

No comments: