Monday, December 20, 2010

اسرائیل کو اعتراض ہے آر ایس ایس کو ’ہٹلر‘ کہنے پر

عزیز برنی

ہمیں لگا یہ کہ اب ہمیں ان موضوعات پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں ہی، جن پر گزشتہ چند برسوں میں متواتر لکھا جاتا رہا ہی۔ اس لئے کہ ہم چاہتے تھے کہ حکومت ہند کو ان حقائق سے روشناس کرائیں، وہ ان خدشات پر توجہ دے اور پھر اس ملک دشمن، قوم دشمن منصوبوں سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی۔ 19اور0دسمبر010کو براڈی میں منعقد ملک کی حکمراں جماعت کانگریس پارٹی نے اپنے 125سالہ جشن کے ایجنڈے میں تقریباً ان تمام باتوں کو شامل کرلیا، جن پر کہ ہم حکومت اور عوام کی توجہ دلانا چاہتے تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ اب ہمیں اپنی تحریر کے لئے کچھ نئے موضوعات پر ریسرچ کرنی ہوگی، لیکن یہ اجلاس اختتام تک پہنچنے سے قبل ہی پہلا اعتراض اسرائیل کے سفارتخانہ سے ہمارے سامنے آیا کہ انہیں اعتراض تھا کہ آر ایس ایس کا موازنہ ’نازیوں‘ سے یا ’ہٹلر‘ سے کیوں کیا گیا۔ دراصل اس کی وضاحت ہم اپنے سلسلہ وار مضامین میں پہلے بھی کرچکے ہیں اور آج پھر وقت کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس کے دوست اسرائیل کے سفارتخانہ سے جو آفیشیل اعتراض درج کیا گیاہی، ہم اس کے حقائق آر ایس ایس کے لفظوں میں ہی سامنے رکھ دیں، لہٰذا ہم ذکر کرنے جارہے ہیں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے ذریعہ قائم کی گئی ایک انتہائی اہم کمیٹی کی رپورٹ، جس میں آر ایس ایس کی تعلیمی درسگاہوں پر اپنی تحقیق پیش کی تھی۔ اس کمیٹی میں ملک کے دانشور اور درس وتدریس سے وابستہ سینئر افراد شامل تھی، جن کا تذکرہ ہم اپنے مندرجہ ذیل مضمون میں کرنے جارہے ہیں۔ واضح ہو کہ ہم یہ تمام باتیں پہلے بھی سامنے رکھ چکے ہیں اور انہیں اپنی تازہ تصنیف میں بھی شامل کیا ہی، مگر آج پھر ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمارے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات اب قومی بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔ حکمراں جماعت کے ایجنڈے میں شامل ہوچکے ہیں، لہٰذا ہم ان تمام باتوں کو جو کہتے رہے ہیں اور لکھتے رہے ہیں اپنی تحقیق کے ذریعہ ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور آئندہ بھی اگر ہمارے ذریعہ منظرعام پر لائے گئے کسی بھی موضوع پر کچھ بھی تفصیلات درکار ہوں گی تو انہیں پھر ایک بار منظرعام پر رکھ دیا جائے گا۔
سرسوتی ششو مندر ، جس کا پہلا اسکول آر ایس ایس چیف، ایم. ایس. گولوالکر کی موجودگی میں 1952 میں قائم کیا گیا تھا، اس کا اثر و رسوخ اب کئی گنا بڑھ چکا ہی۔ یہاں پر سب سے پہلے اس بات کا ذکر کرنا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کے ان ’مندروں‘ میں پڑھانے لکھانے کے نام پر کیا کچھ سکھایا، سمجھایا جاتا ہی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے سے پہلے اسکولی نصاب کی کتابوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کا نام تھا ’نیشنل اسٹیئرنگ کمیٹی آن ٹیکسٹ بک ایویلوئیشن‘ اور اس میں معروف اور قابل احترام دانشوروں کو مقرر کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی میں جو لوگ شامل تھی، ان کے نام ہیں پروفیسر بپن چندرا، پروفیسر ایمریٹس، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نیشنل پروفیسر اور چیئرمین، نیشنل بک ٹرسٹ (این بی ٹی) جنھیں اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا؛ پروفیسر روِندر کمار، سابق ڈائریکٹر، نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری؛ پروفیسر نیمائی سدھن بوس، سابق وائس چانسلر، وشو بھارتی یونیورسٹی، شانتی نکیتن؛ پروفیسر ایس. ایس. بال، سابق وائس چانسلر، گرو نانک دیو یونیورسٹی، امرتسر؛ پروفیسر آر. ایس. شرما، سابق چیئرپرسن، انڈین کونسل فار ہسٹوریکل ریسرچ؛ پروفیسر سیتارام سنگھ، مظفر پور یونیورسٹی؛ پروفیسر سروجنی ریگانی، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد اور شری وی. آئی. سبرامنیم کو بطور ممبران شامل کیا گیا تھا جب کہ این سی ای آرٹی کے ڈین، پروفیسر ارجن دیو کو ممبر سکریٹری بنایا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے جنوری 1993 اور اکتوبر 1994 کو ہونے والی اپنی میٹنگ میں ان رپورٹوں پر غور و خوض کیا جسے نیشنل کونسل فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (NCERT) نے متعدد ریاستوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کے حوالے سے تیار کیا تھا اور ساتھ ہی آر ایس ایس کے ذریعے چلائے جانے والے سرسوتی ششو مندر کے پرکاشن (پبلی کیشن) اور ودیا بھارتی پبلی کیشن کے ذریعے منظر عام پر لایا گیا تھا۔ اس پر غورو خوض کرنے کے بعد کمیٹی نے فروغ انسانی وسائل کی وزارت (HRD) اور مختلف ریاستوں کے تعلیمی اداروں کو جو تجویزیں پیش کیں اور این سی ای آرٹی نے جو رپورٹیں تیار کیں، ان کے چند اقتباسات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پارٹی کی سیاست اور فرقہ وارانہ زہرکیا ہوتا ہی، جس سے ہمارے بچوں کا ذہن پراگندہ کیا جارہا تھا۔ درج ذیل حوالوں میں جن الفاظ کو ہائی لائٹ کیا گیا ہی، وہ اس طرح ہیں:
سرسوتی ششو مندر پرکاشن کے بارے میں کمیٹی کی تجویز درج ذیل تھی:
’’سرسوتی ششو مندر میں پرائمری (بنیادی) سطح پر جو کتابیں پڑھائی جارہی ہیں، ان میں سے چند نصابی کتابوں میں ہندوستانی تاریخ کے نہایت زہرآلود اور فرقہ وارانہ نظریات کو پیش کیا گیا ہی…… یہ طریقہ پوری طرح عدم رواداری پر مبنی اورنہایت بچکانہ ہی، جس کی زبان بھی بھونڈی ہے اور تاریخی ’حقائق‘ کو جس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اس کا مقصد حب الوطنی کو فروغ دینا نہیں ہی، جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے بلکہ پوری طرح ہٹ دھرمی اور فسطائیت پر مبنی ہے …… ان نصابی کتابوں کو اسکول میں پڑھانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہےی۔‘‘
اسی طرح وِدیا بھارتی پبلی کیشن کے بارے میں اس کمیٹی نے درج ذیل تجویز پیش کی :
’’اس پبلی کیشن کے تعلق سے اور ’سنسکرتی گیان‘ کے عنوان سے لکھی گئی فرقہ وارانہ تحریروں ، جنھیں ملک کے مختلف حصوں میں قائم کیے گئے وِدیا بھارتی اسکولوں میں پڑھایا جارہا ہی، کے بارے میں جو تشویش اس رپورٹ میں ظاہر کی گئی ہی، اس سے یہ کمیٹی بھی اتفاق کرتی ہی۔ ایسے اسکولوں کی تعداد 6,000 بتائی جاتی ہی۔ یہ کمیٹی رپورٹ میں درج اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ’سنسکرتی گیان سیریز‘ کے تحت شائع کیے جانے والے متن کا مقصد ’نوجوان نسلوں کو کلچر کی تعلیم دینے کے نام پر ہٹ دھرمی اور مذہبی جنون کو بڑھاوا دینا ہی۔‘ اس کمیٹی کی رائے ہے کہ وِدیا بھارتی اسکولوں کو واضح طور پر ہنگامہ خیز فرقہ وارانہ خیالات کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جارہا ہے …… سنسکرتی گیان سیریز کی کتابوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انھیں مدھیہ پردیش اور دیگر مقامات پر واقع وِدیا بھارتی اسکولوں میں پڑھایا جارہا ہی۔ مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں کی تعلیمی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اسکولوں میں اس سیریز کی کتابوں پر پابندی لگا دی۔ ریاستی حکومتیں ان کتابوں کی اشاعت پر پابندی لگانے کے لےی، جو فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دیتی ہیں، کوئی مناسب قدم اٹھا ئیںاور ان امتحانوں پر بھی پابندی لگائیں جو ان کتابوں کے مواد سے متعلق وِدیا بھارتی سنستھان کے ذریعے لیے جاتے ہیں۔‘‘
اسکولوں میں بچوں کی ابھرتی ہوئی ذہنیت میں زہر بھرا گیا
گودھرا کے بعد والے واقعہ جس میں گجرات کے اندر انسانوں کی نسل کشی کی گئی جب کہ ریاست میں (اور مرکز میں بھی) بی جے پی کی حکومت تھی اور اسکولوں کے اندر بچوں کے تشکیلی ذہن میں زہر بھرا گیا، اس بات کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا۔ ریاست گجرات کے ذریعے چلائے جارہے اسکولوں میں گیارہویں کلاس کے بچوں کو سماجیات (سوشل اسٹڈیز) میں درج ذیل باتیں پڑھائی جاتی ہیں :
’’… مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں، پارسیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو بھی اقلیتی فرقوں کے طور پر جانا جاتا ہی۔ کچھ ریاستوں میں ہندو اقلیت میں ہیں، جب کہ مسلمان، عیسائی اور سکھ ان ریاستوں میں اکثریت میں ہیں۔‘‘
ان نصابی کتابوں میں یہ لکھا گیا کہ ’ہٹلر ہمارا لیڈر ہی‘
ریاست گجرات کی دسویں کلاس کی سوشل اسٹڈیز کی کتاب میں، جو فسطائیت اور نازی اِزم کی وکالت کرتی ہی، بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ان ’غیر ملکیوں‘ سے کیسے نمٹنا ہے جو ہندوئوں کو خود ان کے ہی ملک میں اقلیت بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔
’’نازی اِزم کی آئیڈیولوجی : فاشزم کی طرح، ایک ملک کو چلانے کے اصول یا نظریات جس کی بنیاد ہٹلر نے ڈالی تھی، اسے نازی اِزم کی آئیڈیالوجی کہا جاتا ہی۔ اقتدار میں آنے کے بعد نازی پارٹی نے ڈکٹیٹر (آمر) کو مکمل،بے انتہا اور تمام بڑے اختیارات دے دےی۔ ڈکٹیٹر کو ’فیوہرر‘ (Fuhrer) کے نام سے جانا گیا۔ ہٹلر نے پورے زور شور سے یہ اعلان کیا کہ ’پوری دنیا میں اصلی آریہ صرف جرمنی کے باشندے ہیں اور وہ دنیا پر حکومت کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ جرمن عوام سختی سے نازی اِزم کے اصولوں پر ہی کاربند رہیں گی، ان اصولوں کو تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کر دیا گیا۔ ان نصابی کتابوں میں یہ لکھا گیا کہ ’ہٹلر ہمارا لیڈر ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘
نوٹ:ـ اگلا مضمون 27دسمبر010کو اسلام جم خانہ، نیتاجی سبھاش چندربوس روڈ، میرین ڈرائیو، ممبئی میں اپنی تازہ تصنیف ’’آر ایس ایس کی سازشـ6/11؟‘‘ کی رسم اجرا کے بعد۔
……………

No comments: