Sunday, December 19, 2010

کانگریس کا25سالہ سفرـتب جنگ انگریزوں سے اب سنگھ سی

عزیز برنی

آج صبح درجن بھر سے زیادہ اخبارات کا مطالعہ کرنے کے بعد دفعتاً میری نظر ہندی روزنامہ ’نئی دنیا‘ کی باٹم اسٹوری ’’انتہا پسند ہندووادی وہاں بھی ٹٹول رہے ہیں ایٹمی جنگ کے امکاناتـ’ہندوتو‘ حوصلہ افزائی کے لئے امریکہ میں بھی کروڑوں ڈالر خرچ‘‘، یہ اسٹوری اخبار کے ایڈیٹر ’آلوک مہتا‘ کی تھی۔ خبر انتہائی اہم تھی۔ آج ہی براڑی میں کانگریس اپنا 125سالہ جشن منارہی تھی، مجھے ضروری لگا کہ اس خبر کا تذکرہ میں کانگریس میں اپنے ایک قریبی سیاستداں سے جناب دگ وجے سنگھ سے کروں، لہٰذا فوری طور پر میں نے اس خبر کے وہ تراشے انہیں پڑھ کر سنائی، جو اس وقت میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں اور ساتھ ہی اس خبر کی اسکین کاپی، ان کے ایـمیل پر سینڈ بھی کردی، تاکہ یہ خبر تفصیل سے پڑھنے کا اگر ان کے پاس موقع ہو تو پڑھ سکیں۔
آج کے تقریباً تمام اخبارات نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا کہ کانگریس کے اس اجلاس میں سنگھ پریوار نشانے پر رہے گا۔ قیاس درست ثابت ہوا، پارٹی کی صدر محترمہ سونیاگاندھی نے اپنی تقریر میں ’سنگھی سرگرمیوں‘ پر متوقع گفتگو کی اور پھر پارٹی کے جنرل سکریٹری جناب دگ وجے سنگھ نے ایک بار پھر سنگھ پریوار کے تعلق سے اپنے اسی رُخ کا اظہار کیا، جیسا کہ وہ کرتے رہے ہیں، بلکہ آج ان کا لہجہ اور بھی سخت تھا، اس میں مالیگاؤں سے اجمیر تک ہوئے بم دھماکوں اور تازہ تفتیش میں سامنے آئے چہروں کا ذکر بھی تھا، مسلمانوں کے تئیں سنگھ نظریات اور اڈوانی کی رتھ یاترا کے منفی اثرات اور اس بات پر زور بھی کہ سنگھی عناصر تمام شعبہ جات میں پیوست ہوگئے ہیں، لہٰذا ان پر نظر رکھنی ہوگی۔ آج کے اس کانگریسی اجلاس میں اگر خلاف توقع کچھ تھا تو پارٹی کے جنرل سکریٹری اور کانگریس کا مستقبل سمجھے جانے والے راہل گاندھی کا وکی لیکس کے ذریعہ منظرعام پر لائے گئے اپنے بیان کے حوالہ سے کچھ بھی نہ کہنا، جبکہ گزشتہ تین روز سے اس بیان پر زبردست ہنگامہ جاری تھا، بھارتیہ جنتا پارٹی برہم تھی اور ہم بھی یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آخر وکی لیکس کے ذریعہ منظرعام پر لائے گئے اس بیان میں ایسا کیا ہی، جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اس قدر برہم ہیں۔ اگر یہ مکمل انکشاف ہمارے سامنے نہ ہوتا تو ہم بھی اس غلط فہمی کا شکار رہتے کہ شاید راہل گاندھی نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہی، جو حقیقت پر مبنی نہیں ہی، مگر جب ہم نے وکی لیکس کے اس انکشاف کا لفظ بہ لفظ جائزہ لیا تو ہمیں لگا کہ اس میں تو ایسا کچھ ہے ہی نہیں، جس کی آج راہل گاندھی کو وضاحت کرنا چاہئے تھی یا بھارتیہ جنتا پارٹی یا سنگھ پریوار کو چراغ پا ہونا چاہئے تھا۔ اگر گنجائش ہوتی تو میں اس موضوع پر ذرا تفصیل سے لکھتا، لیکن اس وقت ضروری یہ لگتا ہے کہ وکی لیکس کے ذریعہ راہل گاندھی کی امریکی سفیر سے گفتگو کا انکشاف اپنے قارئین اور بالخصوص سنگھ پریوار کی خدمت میں پیش کردوں، تاکہ سمجھا جاسکے کہ اس میں ایسا کیا تھا، جس پر انہوں نے اتنا طوفان برپا کیا۔ ہمیں تو لگا راہل گاندھی نے ضرور کچھ ایسا کہہ دیا ہوگا، جو حقیقت پر مبنی نہ ہو ایسا نہیں تھا،حقیقت تو اس سے کہیں زیادہ ہے اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہی، یعنی امریکی سفارتکار Timothy Roemer سے اگر یہ نہ کہا گیا ہوتا تو بھی جو کچھ مالیگاؤں تحقیق کے بعد منظرعام پر آگیا تھا، وہ کس سے چھپا تھا۔جگہ کی تنگی کی وجہ سے مجھے اپنی گفتگو یہیں تمام کرنی ہوگی، لہٰذا ملاحظہ فرمائیں پہلے آلوک مہتا کی خبر، پھر اس کے بعد وکی لیکس کا وہ انکشاف جس پر ہنگامہ جاری تھا۔
انتہا پسند ہندووادی وہاں بھی ٹٹول رہے ہیں ایٹمی جنگ کے امکانات
’ہندوتو‘ حوصلہ افزائی کے لئے امریکہ میں بھی کروڑوں ڈالر خرچ
آلوک مہتا
یونائٹیڈ اسٹیٹ امریکہ ہندوتو کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے لئے بڑے پیمانے پر تعاون کر رہا ہی۔
یہی نہیں ایسے انتہا پسند ہندوتو وادی بھی امریکہ میں پالے پوسے جا رہے ہیں، جو ہندوستان کی ایٹمی طاقت کو ’ہندو بم‘ بناتے ہوئے ایٹمی عالمی جنگ کے امکانات پر پچاسوں صفحات تیار کرکے ویب سائٹ اور کتابوں کے ذریعہ زہر گھول رہے ہیں۔
فلوریڈا کی یونیورسٹی میں گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی تک کے لئے رہائشی تعلیمی نظم ہی۔ اسی طرح امریکہ کی کچھ دیگر یونیورسٹیوں میں ہندو مذہبی صحیفوں کی تعلیم و تربیت کے نصاب شروع ہوئے اور اب تو کیتھولک چرچ کی جانب سے نیوادہ میں چلائی جا رہی کیتھولک یونیورسٹی میں بھی ’ہندوتو نصاب‘ شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے تحت ہندوئوں کے دیوی دیوتا، گیتا، اپنشد، ہندو روایتی ثقافت کو پڑھاکر سند دی جارہی ہی۔ رپورٹ یہ بھی ہے کہ ہندو مذہب کی تعلیم کا غلط استعمال کرکے ’ہندوتو‘ اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کی کوشش بھی ہورہی ہی۔
بھاجپائی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے 2000 کے دورۂ امریکہ کے دوران ہندوتو کی تعلیم و تربیت دینے والوں کے لئے سرکاری گرانٹ کا اعلان ہوا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں انتہا پسند ہندو نظریات کے مبلغ کالکی گور نے واجپئی اور وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو ہندوستان کے ’ہندوبم‘ کے بل پر مختلف ممالک پر حکومت اور ایٹمی جنگ کے امکانات پر مبنی مبینہ ریسرچ ورک کی ایک کتاب اور اس کی سی ڈی پیش کی تھی۔ کالکی گور اس کے بعد مسلسل ’ایٹمی اسلحہ‘ کے جنگی جنون سے متعلق مبینہ تحقیق اور نئی نئی کتابیں تیار کر رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکہ یا ہندوستان کی کسی حکومت نے ایسے خطرناک ارادوں والی تحریر اور پروپیگنڈہ پر کوئی روک نہیں لگائی ہی۔
اس انتہا پسندکالکی گور نے اپنی حالیہ کتاب میں ہندوستانی فوج اور ایٹمی طاقت کو ہندووادی شکل دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مختلف ممالک کے مابین ’عالمی جنگ‘ چھڑنے پر ہندوستان امریکہ کے ساتھ مل کر جنگ کرسکی۔
امریکہ میں سرگرم وشو ہندو پریشد گزشتہ برسوں کے دوران زیادہ سرگرم اور طاقتور ہوئی ہی۔ امریکی وشو ہندو پریشد بین الاقوامی رابطہ نیٹ ورک بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہی۔
………
امریکی سفارت خانہ کے کیبل: سفیر نے متنبہ کیا کہ ہندوستان میں لشکر طیبہ کے مقابلہ میں ہندو انتہا پسند گروپوں سے زیادہ خطرہ ہوسکتا ہی
guardian.co.uk جمعرات، 16دسمبر 2010،:30بجے شب
مضمون کی تاریخ
EU12958DECL :08/03/2019
Tags PREL :08/03/2019
موضوع: راہل گاندھی اور دیگر نوجوان ممبران پارلیمنٹ
ریفر: Ref:Section 008
درجہ بندی بذریعہ AMB Timothy J.Roemer.Reasons 1.4 (B,D)
اختصار:
ہندوستان میں برسر اقتدار کانگریس پارٹی کی قیادت کے بظاہر ولی عہد 40سالہ راہل گاندھی کے کیریئر اور صلاحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی سفیر نے اس بات چیت کی رپورٹ دی جو اس نوجوان سیاستداں سے کی گئی اور جس میں ان کے حالیہ بیانات اور مستقبل کے لئے ان کی صلاحیت کا خاص طور پر ذکر ہی۔ اس کے کلیدی اقتباسات نمایاں طور پردئے جارہے ہیں۔
_1ـ اختصار: 20جولائی کو وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ذریعہ سکریٹری کو دئے گئے ظہرانہ کے دوران سفیر کے ساتھ بات چیت میں انڈین کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی نے کہا کہ ان کی توجہ آنے والے ریاستی ومقامی انتخابات پر ہی، یوپی اے نے اپنے پروگراموں پر عمل آوری کی منصوبہ کے سلسلہ میں درپیش چیلنجوں اور ہندوئوں ومسلمانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کیا۔ راہل گاندھی نے سفیر کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی لی۔ نوجوان ممبران پارلیمنٹ و دیگر ہمارے لئے کلیدی ساجھیدارہوسکتے ہیں کیونکہ ہم ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک مکالمہ کے لئے کوشاں ہیں۔ اختصار ختم۔
نئی دہلی میں جولائی 2004میں سکریٹری کے ساتھ میٹنگوں کے دوران وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سکریٹری کے اعزاز میں ایک ظہرانہ دیا۔ انڈین کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی نیز سیاست، تجارت اور معاشرہ کے معززین بھی مدعوئین میں شامل تھی۔ گاندھی نے جو سفیر کے برابر میں بیٹھے ہوئے تھی، سیاسی موضوعات، سماجی چیلنجوں اور آئندہ پانچ برسوں کے لئے کانگریس پارٹی کے انتخابی ایشوز پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
دیہی حکمت عملی
;3ـ راہل گاندھی نے زور دے کر کہا کہ وہ مہاراشٹر ریاستی اسمبلی کے ہونے والے انتخابات اور مقامی سطح پر پارٹی کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کریں گی۔ وہ ملک گیر پیمانے پر بااثر امیدواروں کو لانے میں مصروف تھی۔ گاندھی کا فوکس ایسے نوجوان پارٹی ممبران کی تلاش ہے جو پرانے کانگریسی امیدواروں کا بوجھ نہ ڈھوئیں۔ ان کا نشانہ چھوٹے قصبوں اور دیہات میں پارٹی کو از سر نو منظم کرنا اور رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرنا ہی۔ ’انہیں یقین ہے کہ وہاں بڑی اپوزیشن پارٹی بی جے پی کمزور ہی۔ وہ دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں انتخابی مساعی کرتے نظر نہیں آئی۔
ہنی مون کا دور ختم ہوا
یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ گزشتہ موسم بہار کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس پارٹی کی فتح نے یوپی اے حکومت کو ایک آرام دہ پوزیشن میں رکھ دیا ہے تاہم گاندھی نے پارلیمنٹ میں اپنے پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کی یوپی اے کی صلاحیت کو درپیش متعدد چیلنجوں کے بارے میں تشویش کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہنی مون کا دور ختم ہوا اور اب انہیں توقع ہے کہ بی جے پی اور لیفٹ پارٹیاں سرکاری پروگراموں کو مسلسل ہدف تنقید بناتی رہیں گی۔ پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس جب جاری تھا تب گاندھی نے یوپی اے سرکار کو صحیح راستے پر برقرار رہنے میں درپیش مشکلات کا بھی ذکر کیا تھا۔ یہ بات چیت 16جولائی کو شرم الشیخ میں ہندـپاک مشترکہ اعلامیہ کی زبردست مخالفت سے قبل ہوئی تھی۔
بڑھتی ہوئی انتہا پسندی؟
علاقہ میں لشکر طیبہ کی سرگرمیوں اور ہندوستان کو درپیش فوری خطرہ کے بارے میں سفیر کے ایک سوال کے جواب میں راہل گاندھی نے کہا کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان کے مسلم فرقہ میں کچھ عناصر اس گروپ کے حامی ہیں۔ تاہم راہل گاندھی نے متنبہ کیا کہ زیادہ بڑا خطرہ انتہا پسند ہندو گروپوں میں اضافہ ہوسکتا ہے جو مذہبی کشیدگی اور مسلم فرقہ کے ساتھ سیاسی ٹکرائو پیدا کرتے ہیں۔ (تبصرہ : گاندھی بی جے پی میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی جیسے لوگوں کے ذریعہ پیدا کردہ کشیدگیوں کی طرف اشارہ کررہے تھی) ہندوستان میں اسلامی گروپوں یا پاکستانی دہشت گردوں کے حملوں کے رد عمل کے طور پر ’ملک کے اندر‘ پیدا ہونے والے انتہا پسندمحاذ کا خطرہ بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث ہے اور مستقل توجہ کا متقاضی بھی۔
تبصرہ:
راہل گاندھی نے آنے والے مہینوں میں کانگریس پارٹی اور یوپی اے حکومت کو درپیش چیلنجوں کو کھل کر بیان کیا۔ گزشتہ چار برسوں میں وہ کم رابطہ میں تھے لیکن وہ امریکہ تک پہنچنے میں دلچسپی لے سکتے ہیں بشرطیکہ ہماری جانب سے ایک سوچی ، سمجھی، سیاسی لحاظ سے حساس اور حکمت عملی پر مبنی اپروچ کی جائی۔ ہم ان کے اور نئی نسل کے دیگر نوجوان ممبران پارلیمنٹ سے مزید ملاقاتوں کے مواقع تلاش کریں گی۔ راہل گاندھی نے بتایا کہ حالیہ انتخاب میں 60ممبران پارلیمنٹ 45سال یا اس سے کم عمر کے ہیں۔ ایک ایسے نظام میں جسے بہت عرصے سے نسبتاً منجمد سمجھا جاتا ہی، نئے چہروں اور راہل گاندھی جیسے بڑھتے ہوئے قد کے لیڈروں کی آمد ہمارے لئے حمایت کی طویل مدتی اسٹریٹجک ساجھیداری کے وسیع مواقع پیدا کرتی ہی۔
……………

No comments: