Friday, November 5, 2010

اوباما کی آمد پر ہمارا طرزعمل...؟

عزیز برنی

عزت مآب عالیجناب مولانا کلب جواد صاحب نے امریکی صدر براک حسین اوباما کی ہندوستان آمد کے موقع پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے صدر براک اوباما کے ہندوستان آنے کی مخالفت کریں گے اور اس سلسلہ میں جمعہ کو دوپہر کی نماز کے بعد آصفی امام باڑہ کے باہر امریکہ کے خلاف مظاہرہ کیا جائے گا۔ لکھنؤ کے پریس کلب میں منعقد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا کلب جواد صاحب نے فرمایا کہ
’’امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد براک اوباما نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ اسرائیل پر پابندی لگائیں گی، لیکن اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی فلسطینیوں پر اسرائیل کا ظلم و زیادتی جاری ہی۔ لوگ بھوک اور دواؤں کے فقدان سے مررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور اوباما خاموش تماشائی بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کے صدر سی آئی اے کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرتی۔ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ وہاں صدر بدلتا ہی، لیکن پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔‘‘
انتہائی ادب واحترام کے ساتھ میں یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں وہ یہ کہ آپ نے جو کچھ فرمایا سب کچھ درست، لیکن میرا خیال ہے کہ شاید یہ مناسب موقع نہیں ہی، جب ایسا کوئی بھی مظاہرہ کیا جائی۔ گوکہ مسلمانوں کے تعلق سے امریکی پالیسیوں میں آج بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہی۔ اسرائیل کے حوالہ سے امریکہ کا طرزعمل انتہائی قابل اعتراض ہی، مگر اس وقت ہمیں ایک میزبان ملک کے عوام کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئی۔ اپنی بات کہنے کے مواقع اور بھی ہوسکتے ہیں اور شائستہ انداز میں اس وقت بھی اپنے جذبات کی ترجمانی کی جاسکتی ہی، لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہم اس وقت ایک انتہائی نازک دور سے گزررہے ہیں۔ ایسے میں جب ہمیں اس سمت میں بھی سوچنا ہے کہ ہمارے دشمن تو ہرطرف ہیں، مگر ہمارے دوست کہاں ہیں؟ تو کیا ایک ساتھ سبھی کے خلاف محاذ کھول دینا دانشمندی ہوگی۔ پھر اگر ان میں سے کوئی دشمنی کا رویہ اپنانے والا اگر جھوٹا ہی سہی، ہمارے سامنے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے تو وقت اور حالات کا تقاضا کیا ہی، اس سلسلہ میں غور کرلینے میں حرج ہی کیا ہی؟ سیاست کا سلیقہ اگر اوروں کو آتا ہے تو ہم اگر اپنے ماضی کے دامن میں جھانک کر دیکھیں تو کسی سے پیچھے کب رہے ہیں۔ کیا اس وقت ہماری کوئی ایسی حکمت عملی نہیں ہوسکتی کہ ہم اس طرح سوچیں کہ ہمیں اپنا وہی مقام حاصل کرنے کے لئے جو کبھی تھا، کیا لائحہ عمل اپنانا چاہئی۔ کس کس سے دشمنی ہماری ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہی، ہمیں کمزور کررہی ہی، ہمیں اپنے ہی ملک میں بے حیثیت بنا دینے کا ماحول تیار کررہی ہی۔ بین الاقوامی سطح پر ہمیں بدنام کرکے ساری دنیا کو ہمارا دشمن بنارہی ہی، ہم اس پر غور کریں۔ ان حالات میں کس طرح تبدیلی لائی جاسکتی ہی۔ اس چوطرفہ لڑائی سے نکلنے کی کیا صورت بن سکتی ہی؟ جنگی اصولوں کو ذہن میں رکھ کر حکمت عملی بنائیں تو وہ کون ہوسکتے ہیں، جن سے دشمنی کم کردی جائے یا پھر دشمنی ختم کرنے کی ایسی کیا صورت نکل سکتی ہے کہ ہمارا وقار قائم رہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کا رویہ اختیار کرنے والے اپنے اندازفکر میں تبدیلی لے آئیں۔ بہرحال اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں ہمیں قباحت کیوں ہو کہ دنیا میں وہ تمام ممالک جو مسلمانوں کے ملک کہے جاتے ہیں، اقتصادی اعتبار سے کمزور نہ ہوتے ہوئے بھی کمزور ہیں اور بڑی طاقتوں کے شکنجہ میں ہیں کہ ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے اور جن کے دباؤ میں ہیں، اگر ہم ان سے کھلی دشمنی بند کردیں تو شاید ہمارے ساتھ کھڑے ہونے میں ان کی جھجھک دور ہوجائی۔ ہمیں اس وقت اس سچائی کو سمجھنا ہوگا کہ آج ہم اپنے ملک میں کن حالات سے دوچار ہورہے ہیں۔ دہشت گردانہ سازشوں کی دلدل سے کچھ ابھرے تو ہیں مگرابھی بھی پوری طرح نکلے نہیں ہیں، یہ کس سے چھپا ہے کہ یہ سب کن کی سازشوں کا نتیجہ ہی۔ پرتیں کھل رہی ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں، زمانہ دیکھ رہا ہی، ہم ایسے لوگو ںکو کیوں یہ موقع دیں کہ جن سے ہم ناراضگی کا اظہار کریں یا ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیں، محبت کا اظہار کریں، پھر ان کی نفرت کی طاقت دوگنی ہوجائی، ہمارے خلاف سازشیں اور گہری ہوجائیں، ان کا دائرہ اور بڑا ہوجائی۔ نہیں ہمیں چوطرفہ جنگ میں نہیں گھرجانا چاہئی۔ افغانستان اور عراق کے معاملہ میں امریکہ سے خطا ہوئی ہی۔ اس کا اعتراف خطاکار(جارج ڈبلیو بش) نے بھی کیا ہی۔ اپنے اندازفکر میں تبدیلی کا اظہار صدراوباما نے بھی کیا ہی۔ ابھی کچھ خاص نہیں ہوا ہی، مگر ہمیں پوری طرح ناامید بھی نہیں ہونا چاہئی۔ اسرائیل کے معاملہ میں امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہی، اس سلسلہ میں کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہئے کہ اگر امریکہ اسلام دشمنی کو ختم کرنے کی بات کررہا ہے تو اسے اس بات کا احساس ہوجائے کہ آخر مسلمان قبلۂ اوّل بیت المقدس سے دستبردار کیسے ہوسکتے ہیں اور فلسطینیوں پر یکطرفہ ظلم کو کب تک برداشت کرسکتے ہیں، وہ جو ساری دنیا میں خود کو حقوق انسانی کا علمبردار قراردیتے ہیں، آخر وہ اس سمت میں سوچتے کیوں نہیں؟
اگر مناسب سمجھیں تو ہماری حقیر سی رائے یہ ہے کہ مولانا کلب جواد صاحب یا جو بھی مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس میں ذرا سی تبدیلی یہ کرلیں کہ ایک میمورنڈم کی شکل میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت ہند کی معرفت یا براہِ راست سفارتخانہ تک پہنچا دیں۔ شاید کہ کوئی بہت بہتر راستہ نکلے اور نہ بھی نکلے تو کم ازکم ہمیں اتنا تو سوچنا ہی ہوگا کہ ہم اپنے دشمنوں کو طاقتور ہونے کا کوئی بھی ایسا موقع نہ دے دیں، جسے بہانا بناکر وہ نفرت کے اس کھیل کو جاری رکھ سکیں، کیونکہ اسے تو اب ہر حال میں روکنے کی حکمت عملی بنانی ہی ہوگی۔
آئیے میں اب واپس لوٹتا ہوں اسی موضوع کی طرف، جس پر گزشتہ کئی روز سے لکھ رہا ہوں۔ اگر میں کانپور کے چھوٹے سے واقعہ پر مسلسل لکھ رہا ہوں تو اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ بیشک کچھ لوگ اسے بال کی کھال نکالنے کی عادت قرار دے سکتے ہیں یا پھر حقیقت کی تہہ تک جانے کا جنون بھی۔ آپ جو بھی سمجھیں، کانپور کے اس بم حادثہ میں میرے ذہن میں اٹھنے والے کچھ سوال ابھی بھی جواب چاہتے ہیں۔ راجیش ایک وارڈبوائے ہوتے ہوئے بھی اتنا دبنگ کیوں تھا کہ اس کے افسر بھی اس سے خوف کھاتے تھی؟ اسے کس کی سرپرستی حاصل تھی؟ یہ جاننا ضروری ہی…… اس کا ماضی مجرمانہ تھا، وہ جیل بھی جاچکا تھا، اس کے باوجود اسے وارڈبوائے کی نوکری دلانے کی سفارش کس نے کی…؟ وہ بم سازی کا کام کب سے کررہا تھا اور اس کے ذریعہ بنائے گئے بموں کا استعمال کہاں کہاں ہوا……؟ کس کس نے کیا…؟ یہ جاننا ضروری ہی……بم بنانے کے لئے بارود یا وہ آتش گیر مادّہ جس سے بم بنائے جاتے تھی، اسے کس سے اور کہاں سے دستیاب ہوتا تھا؟…… ہم جو لگاتار غائب ہونے اور برآمد ہونے والے آتش گیر مادّہ کی تفصیل منظرعام پر لارہے ہیں، اس کا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنی خفیہ ایجنسیوں اور حکومت ہند سے یہ درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ جان لیوا آتش گیر مادّہ کی اگر ایک رتّی بھی کسی کے ہاتھ لگا تو کب اور کس طرح اور کس نے اس کا کیا استعمال کیا؟ ہمیں شک ہے اور شاید ہمارا شک بے بنیاد بھی نہیں ہے کہ جن بم دھماکوں کی پرتیں کھل رہی ہیں، ان میں اس گمشدہ آتش گیر مادّہ کا استعمال شامل ہوسکتا ہی۔ اگر ہمارا شک درست ثابت ہوا تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ابھی کتنی بڑی مقدار میں گمشدہ آتش گیر مادّہ انسانیت دشمن عناصر کے ہاتھ میں ہے اور اگر ایسا نہیں ہی، تب بھی اس سب کی تلاش اس لئے ضروری ہے کہ کہیں وہ ملک اور قوم دشمن عناصر کے ہاتھ نہ لگ جائی۔ سوال ابھی اور بھی ہیں اور ہم اس سلسلہ کو ختم نہیں کرنا چاہتی، اس لئے کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ موضوع ہی۔ ہم کیوں اس بات کے لئے فکرمند نہیں ہیں کہ آخر اتنی بڑی مقدار میں غائب ہوجانے والا یہ آتش گیر مادّہ کن ہاتھوں تک پہنچا اور ان کی منشا کیا ہی؟ لہٰذا پھر ایسے چند واقعات آپ کے زیرنظر مضمون کے ساتھ شامل اشاعت کررہے ہیں، جن میں آتش گیر مادّہ غائب ہونے یا برآمد ہونے کی تفصیلات ہیں۔
n 14اگست :جھارکھنڈ کے ہزاری باغ میں پولس نے 210کلو گرام امونیم نائٹریٹ برآمد کیا۔ اس کو بم بنانے اور بارودی سرنگ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔(آئی اے این ایس )
n 19فروری 2010:نولیا پور سے 70کلو گرا م Ammonium Nitrate،جلاٹن کی چھڑیں اور بڑی تعداد میں detonatorبرآمد کئے ۔تفصیلات کے مطابق برآمد سامان میں 2440جلاٹن کی چھڑیںاور665ڈیٹونیٹرزایک گھر سے برآمد کئے گئی۔ (پی ٹی آئی )
n 2مئی 2010:الٰہ آباد سے 800کلو گرام امونیم نائیٹریٹ کے ساتھ دو افراد کو گرفتار کیا گیا ۔برآمد سامان میں 1900 Detonatorsاور فیوز وائر شامل تھی۔
n 14فروری 2010:الٰہ آباد پولیس نے وای اور واساد ضلع میں چھاپہ مارکر بڑی مقدار میں آتش گیر اور دھماکہ خیز مادہ برآمد کیا،جس میں 200کلوmmonium Nitrateاور00 Detonator بھی برآمد ہوئی۔ پنے کی مشہور بیکری جرمن بیکری کے دھماکہ کے ایک دن بعد یہ برآمدگی ہوئی تھی ۔یہ سامان 4بوریوں میں کئی مقامات پر پڑا ہوا ملا تھا، اس سلسلہ میں 4افراد گرفتار ہوئے تھی۔(ٹائمز آف انڈیا)
n 10اکتوبر 2010:بہار کے شیخو پورہ ضلع میں ایک ٹرک سے 250کلوگرام امونیم نائیریٹ 5بوریوں سے برآمد کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ٹرک ڈائیور کو گرفتار کرلیا گیا ہی۔(پی ٹی آئی )
کون کیا ہے ؟
شیوچرن ہیڈا اور اس کی بیوی دیپاہیڈا جے کشن اشونی کے رشتے دار ہیں۔ جے کشن اشونی راجستھان ایکسپلوسیو کیمیکل لمٹیڈajasthan Explosive Chemical Limited اور سنگم ایکسپلوسیوangam Explosive Agency کا مالک ہی۔ راجستھان کیمیکل راجستھان میں قائم ہے جبکہ سنگم ایکسپلوسیوچندیری مدھیہ پردیش میں ہی۔دیپا اور شیوچرن کا کاروباررائے گڑھ( راجستھان)، احمدنگر(مہاراشٹر)، راج کوٹ (گجرات) میں پھیلا ہوا ہی۔جے کشن اشونی کے پاس اپنا کوئی لائسنس نہیں تھا اور وہ گنیش ایکسپلوسیوکا لائسنس استعمال کرتا تھا۔ گنیش ایکسپلوسیو کے مالک کا نام دیویندرسنگھ ٹھاکر تھا۔ اشونی، دیپا اور شیوچرن ان بڑے پیمانے پر غائب ہونے والے دھماکہ خیز مادّے سے بھرے ہوئے ٹرکوں کے گھوٹالے کے کلیدی ملزم ہیں۔
شیوچرن ہیڈا راجستھا ن کے ڈھالوں کا رہنے والا ہے اور اس نے قبول کیا کہ آرای سی ایل کے ذریعہ اس نے پورے ملک میں 571ٹرک آتش گیر مادہ بھیجا اور خریدنے والے Sangam Explosive Agency کے تھے ۔
آتش گیر مادّہ بنانے والے صنعتکار گاہک کو سامان دیتے وقت Explosive Rule 2008کے مطابق Indent Formدینا چاہئے اور اس پر اس شخص کے دستخط ہونے چاہئیں، جس کے نام لائسنس ہے اور اس کے نمائندے کے دستخط ہونے چاہئیں۔ لین دین کرنے والوں کی تصویریں بھی لگی ہونی چاہئیں، جن پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوں ۔
راجستھا ن کی سی آئی ڈی اس معاملہ کی تفتیش کر رہی ہے ۔
گنیش ایکسپلوسیو (Ganesh Explosive)کے دو ملازمین جن میں اکائونٹینٹ بھی شامل ہے ،فرار ہونے کی کوشش کرتے وقت گرفتار کرلیے گئی۔ ان کے نام راجندر چوبے اور گوپال کمار ہیں۔
Ganesh Explosive کے مالک د وندر سنگھ ٹھاکر ہیں ان کو جے سی نگر ۔ساگر سے گرفتار کیا گیا ۔
n آرای ایل نے اپریل تا جون کے درمیا ن 900ٹن آتش گیر سامان۔ساگر(مدھیہ پردیش) کے Ganesh Explosive اور چندیری کے سنگھ ایکسپلوسیو Chander Explosive کو فراہم کیا۔یہ آتش گیر مادّہ راستہ میں ہی ہیڈ انے غائب کراکر پی ایم ٹریڈرس اور بھیل واڑہ کے Ajay Explosive کومنتقل کرادیا۔ (ٹائمزآف انڈیا)
نوٹ:ـ اگلا مضمون اب دیوالی کی چھٹیوں کے بعد…
…………

No comments: