Thursday, November 11, 2010

مظلوموں کو انصاف دلانا بھی کارِثواب ہے!

عزیز برنی

راحت اندوری ایک مشاعرے میں لاکھوں سامعین کی موجودگی میں اپنا کلام سنا رہے تھے۔ وہ کبھی دائیں طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے کہتے کہ عمران تم خاموش کیوں بیٹھے ہو، سمجھ میں نہیں آرہا کیا؟ اور جس سمت میں وہ اشارہ کرتے ایک ساتھ کئی لوگ حرکت میں آتے اور داد دینا شروع کردیتے۔ کبھی وہ بائیں طرف ہاتھ کا اشارہ کرکے کہتے کہ ساجد تم اتنی دور کیوں بیٹھے ہو، چہرہ صاف نظر نہیں آرہا، قریب آؤ، تاکہ میں تمہیں دیکھوں اور تم مجھے سنو۔ پھر ہجوم سے کئی لوگ آگے بڑھتے اور پہلی صفوں میں جگہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے، کوئی انہیں روکتا بھی نہیں۔ میں نے مشاعرے کے بعد راحت اندوری صاحب سے دریافت کیا کہ آپ ملک اور بیرون ملک کے سیکڑوں شہروں میں اپنا کلام سناتے ہیں، ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں کیسے یاد رکھتے ہیں کہ کون عمران ہے اور کون ساجد۔ راحت اندوری صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے کہ کیا عزیز بھائی۔۔۔ کون عمران اور کون ساجد، یہ تو ہماری ایک ادا ہے۔ کچھ نام تو ایسے ہوتے ہیں، جو ہر جگہ مل ہی جاتے ہیں، پھر لاکھوں کے ہجوم میں ایک نہیں دس عمران اور دس ساجد نکل آئیں گے۔ ان کو اگر مجھ سے وابستگی اور قربت کا احساس ہو تو انہیں بھی کچھ اپنا پن محسوس ہوتا ہے اور مجھے بھی یہ اچھا لگتا ہے۔ بس اس وقت یہ چند نام،میرے ذریعہ سامنے رکھے گئے ہیں، لیکن یہ بھائی اندروی صاحب کی طرح ہوا میں اچھالے گئے نام نہیں ہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے اور اس لئے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایسے کسی نام والے کو آپ جانتے ہیں یا یہ نام آپ کے کسی اپنے کا ہے۔ بس ان ناموں کو اسی جذبہ کے ساتھ پڑھیں اور محسوس کریں، اگر یہ بے گناہ ہیں تو آپ کے اپنے ہوں نہ ہوں، آپ انہیں اپنا سمجھیں اور انہیں انصاف دلانے کی جدوجہد میں عملی کردار نبھائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو، کل اس فہرست میں کوئی ایسا نام بھی شامل ہوجائے، جو واقعی آپ کا اپنا ہو اور پھر آپ تنہا کھڑے نظر آئیں۔
ظاہر ہے، گزشتہ چند برسوں میں ہوئے درجنوں بم دھماکوں میں ملوث پائے گئے یا سمجھے گئے ہزاروں لوگوں کی تفصیلات جمع کرنا اور شائع کرنا ممکن نہیں ہے، مگر یہ سوچ کر حق و انصاف کی راہ میں جدوجہد ہی نہ کی جائے، یہ بھی مناسب نہیں ہوگا، اس لئے کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہ تمام نام بھلے ہی ہمارے ذریعہ سامنے نہ رکھے جاسکیں، مگر خفیہ ایجنسیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ کل کتنے نام ہیں، کتنے سامنے آگئے اور ابھی کتنے باقی ہیں، جن کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ محض شک تھا یا شک بھی بے بنیاد تھا، اس لئے کہ اب تک ایسے ثبوت نہیں ملے ہیں کہ وہ مجرم ثابت ہوں تو پھر ان کے حال پر نظرثانی کریں، انہیں ایک اندھیری کوٹھری میں ڈال کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھول نہ جائیں، کیونکہ وہ بھی آپ کی اور ہماری طرح ایک انسان ہیں۔ہماری اس آواز میں آپ کی آواز بھی شامل ہو تو شاید سیکڑوں ہزاروں ایسے لوگ حکومت کی توجہ کا مرکز بن جائیں، جنہیں ایک بار کسی الزام کے تحت گرفتار کرکے بھلا دیا گیا ہے۔ اور اگر وہ واقعی مجرم ہیں تو اپنے کئے کی سزا ضرور پائیں۔
ڈاکٹر ابراہیم علی حیدر(28سال):۔
وہ نظام طبیہ کالج کاتیسرے سال کا طالب علم تھا۔ 18؍مئی 2007کو مکہّ مسجد میں نماز پڑھنے گیا تھا اور وہاں اچانک بم دھماکے ہوگئے جو لوگ ان دھماکوں میں زخمی ہوئے ان میں اس کا پروفیسر بھی تھا، جس کو اس نے ہسپتال میں داخل کرادیا۔دودن بعداس کے پاس اسپیشل انویسٹی گیشن سیل کا فون آیا۔انہوں نے اس کو سکندرآباد کے ٹاسک فورس دفتر میں بلایا اور شام تک پوچھ تاچھ کی۔ پھر انہوں نے حیدر کو گھر سے گرفتار کرلیا آنکھوں پر پٹی باندھ کر پوچھ تاچھ کی۔ایک پولیس والے نے اس کی کنپٹی پر ریوالوار رکھ کر کہا:اگر تو نے اقبال جرم نہیں کیا تووہ گولی ماردے گا۔
3؍ستمبر جب وہ جامعہ ہمدرد، نئی دہلی میں ایک کانفرنس میں شرکت کرکے گھرلوٹ رہا تھا تو اسے یعقوب پورہ(Yaqubpura) ریلوے اسٹیشن سے اٹھا لیا گیا اور ایک نامعلوم جگہ لے جایا گیا۔انہوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں سہراب الدین کیس میں ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن کے دفتر گیا۔اس کا نارکوٹیسٹ کیاگیا ،بعد میں پولیس نے اس کو گرفتاردکھایا تھا، اس کو پانچ ماہ تک جیل میں رکھا۔عدالت سے بری ہونے کے بعدکالج نے اس کو دوبارہ داخلہ دینے سے انکار کردیا لیکن اس نے اے پی ہائی کورٹ میں اپیل کی تواسے امتحان دینے کی اجازت ملی پھر اس کوناکافی حاضریوں کی وجہ سے امتحان میں نہیں بیٹھنے دیا گیا۔اس کے بعدبھی پولیس طویل عرصے تک اس کے کالج اور گھر کے چکر لگاتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
9؍نومبر2007:پولیس نے ایک حیدرآبادی خاتون وزیر سلطانہ (رضیہ سلطانہ) سمیت دو افراد کو مکہّ مسجد دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا ہے ،یہ بات اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس (چار مینار ڈویژن )نے اخبار نویسوں کو بتائی۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 18؍مئی کے مکہّ مسجد دھماکہ کے ملزموں کو پناہ دی تھی۔
پولیس کاکہنا ہے کہ اس نے معراج الرحمن (Mirajurrehman) کو پناہ دی تھی۔ معراج الرحمن بنگلہ دیش کارہنے والا ہے اور حرکت الجہاد اسلامی کارکن ہے، سلطانہ کی شادی بنگلہ دیشی صدیق الرحمن سے ہوئی تھی ،پولس کا کہنا تھا کہ صدیق الرحمن 1992سے حیدرآباد میں غیر قانونی طریقہ سے رہ رہا ہے۔کورٹ نے سلطانہ کو عدالتی ریمانڈ پر بھیج دیا۔
(پی ٹی آئی، 6دسمبر 2007)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکہّ مسجد دھماکہ۔17افراد عدالت سے بری
یکم جنوری 2009:مقامی عدالت نے مکہّ مسجد دھماکہ میں 17افراد کو ناکافی ثبوتوں اور شہادتوں کی بنیاد پر رہا کردیا ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ پولیس ملزموں کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ،عدالت کی رائے تھی کہ صرف ملزموں کے اقبال جرم کی وجہ سے ان کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔اس سے قبل پولیس نے چار افراد جن میں مہاراشٹر کے جالنہ علاقہ کاشعیب جہانگیر بھی شامل تھا،رہا کردیا تھا۔پولیس نے 21افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔ چارج شیٹ میں ان پر ملک کے خلاف سازش کرنے اور دھماکہ خیز مادہ منتقل کرنے جیسے الزامات عائدکئے تھے۔(پی ٹی آئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو گرفتار دہشت گردوں سے پوچھ تاچھ
27اگست 2007:حیدرآباد کے 25اگست کے دو دھماکوں میں گرفتار دو افراد سے پولیس پوچھ تاچھ کررہی ہے۔اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے شیخ نعیم عرف سمیر جو کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں بھی ملوث بتایا جاتا ہے او ر اس کے خلاف فرضی پاسپورٹ رکھنے کا معاملہ درج کرلیا گیا تھا، اس سے حید رآباد لاکر پوچھ تاچھ کی ہے۔سمیر جالنہ (مہاراشٹر) کا رہنے والا تھا۔پولیس کا الزام ہے کہ سمیر کو مغربی بنگال پولیس نے دو کشمیریوں او رایک پاکستانی کے ساتھ سرحد پارکرکے بنگلہ دیش جاتے (فرارہوتے)وقت گرفتار کرلیا تھا۔
ایس آئی سی (اسپیشل انویسٹی گیشن سیل) نے آئی ایس آئی ایجنٹ محمد عبدالستار عرف انو عرف انور کو سکندر آباد ریلوے اسٹیشن سے جون 2007میں گرفتار کیا تھا۔پولیس ناگپور کے سہیل سے پوچھ تاچھ کرنے کے لئے روانہ ہوگئی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ سہیل کی فیکٹری سے تیارمال ان دھماکوں کو انجام دینے کے لئے استعمال کیاگیا تھا۔Reddiff،PTI
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10افراد جہادی لیٹریچر کے ساتھ گرفتار
6؍ستمبر2007:حیدرآباد پولیس نے دس افراد کو جہادی لٹریچر ،سی ڈی کے ساتھ گرفتار کیا ہے۔ ان کو دہشت پھیلانے اور فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کی سازش کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ان کو 25اگست کے دھماکوں کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کو 2004کے معاملات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار کیے جانے والے لوگوں میں شیخ مقصود ،شیخ زید، ساجد،عبدالرؤف عرف چورعمران ،محمد نصیر الدین عرف ناصر ،محمد عبدالرحیم ابو سمیع ودیگر تین افراد کو مکہّ مسجد کے دھماکوں کے ملزم عبدالستار کے اقبال جرم کے بعد گرفتار کیاگیا ہے، عبدالستار نے مبینہ طور پر ان کے نام لئے تھے۔
ان کے خلاف دفعہ 121کے تحت ملک کے خلاف جنگ کرنے اور حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے الزمات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ان میں 4 افراد ایس آئی ٹی کو مطلوب تھے، ان پر 2004میں گنیش وسرجن کے دوران سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کے قریب گنیش مندر پر دھماکہ کرنے کا الزام ہے۔ ان پر بی جے پی کے لیڈروں جن میں اس وقت کی ریاستی یونٹ کے سربراہ اندر سین ریڈی شامل ہیں، کو مارنے کا الزام ہے۔ ان پر جنوری 2004میں بی جے پی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ کے دوران دھماکہ کرنے کی سازش کا بھی الزام تھا۔
(rediff news 6 sep. 2007)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر آباد۔5؍ستمبر2007
مکہ مسجد بم دھماکہ کے ملزم عمران عرف سعید خان نے نارکو ٹیسٹ میں ہوجی کے کمانڈر شاہد بلال کو مکہ مسجد دھماکے کے پس پشت بتا یا ہے۔ بنگلور میں کئے گئے اس نارکو ٹیسٹ میں یہ بات سامنے آئی۔ یہ نارکو ٹیسٹ ساڑھے تین گھنٹے چلا۔ بلال نے کہا کہ اس کی ملاقات کبھی بھی شاہد بلال سے نہیں ہوئی ہے، مگر وہ مسلسل اس کے رابطہ میں رہا ہے۔ عمران ایک کوآپریٹو بینک میں ملازم تھا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران نے نارکو ٹیسٹ کے دوران جرم کو انجام دینے کے طریقِ کار کے بارے میں بھی بتایا اورکئی دوسرے مشتبہ افراد کے نام بھی بتائے۔ پولیس عمران کا برین میپنگ ٹیسٹ اور پولی گرافی ٹیسٹ کراچکی تھی۔
(پی ٹی آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالستار کے اقبال جرم پر 20لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔یہ گرفتاری 15جون 2007کو عمل میں آئی تھی۔ 13ستمبر2007کو رہا کیا گیا۔انہیںآئی پی سی کی دفعہ 120(بی)،125اور 126کے تحت گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف ملک مخالف سرگرمیاں انجام دینے کے علاوہ ان کے پاس سے بابری مسجد انہدام اور 2002کے گجرات فسادات کے کیسٹز اور سی ڈیز بھی ان سے برآمد کی گئیں۔ ان گرفتار شدگا ن نے بتایا کہ جو لوگ ان سے پوچھ گچھ کررہے تھے، ان کے کاندھوں پر GHSکے بیج لگے ہوئے تھے۔ یہ فورس آندھراپردیش کی نکسل مخالف یونٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)

No comments: