Wednesday, November 3, 2010

’کانپور‘ تو ایک چاول ہے ہانڈی میں جھانکیں تو...

عزیز برنی

ائیرپورٹ، شاپنگ مال، سنیما ہال، فائیواسٹار ہوٹل ہر جگہ سیکوریٹی کے انتظامات انتہائی سخت ہوگئے ہیں۔ آپ معاشرہ میں بھلے ہی ایک بڑا مقام رکھتے ہوں، مگر سیکوریٹی کے معاملہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں، آپ کو اس سے گزرنا ہی ہوگا، یہ اس لئے کہ دہشت گردی آج ملک اور قوم کو درپیش ایک بڑا مسئلہ ہے، لہٰذا کیا یہ صحیح وقت نہیں ہے، جب ہم اس سمت میں غور کریں کہ آتش گیر مادّہ کی کھلے عام بکری کو بھی ممنوع قرار دیا جائے یا پھر اتنے سخت اقدام کئے جائیں کہ کسی شرپسند کے لئے اس کا ناجائز استعمال ناممکن بن جائے۔ دیوالی کا تہوار ہمارے لئے ایک بڑا اور پرکشش تہوار ہے، جسے ہم انتہائی گرم جوشی کے ساتھ مناتے ہیں۔ چراغاں کرتے ہیں، آتش بازی کا استعمال کرتے ہیں اور مٹھائیاں بھی تقسیم کرتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت بدل رہا ہے، ہمارا خوشیوں کو منانے کا طریقہ بھی بدل رہا ہے۔ پہلے قندیل اور مٹی کے دیوں میں سرسوں کا تیل ڈال کر روشنی کیا کرتے تھے، اب اس کی جگہ رنگ برنگی لائٹوں نے لے لی ہے۔ مٹھائی کے چلن میں بھی قدرے کمی آئی ہے اور اس کی جگہ چاکلیٹ کے ڈبے چلن میں آگئے ہیں۔ ڈرائی فروٹ کا دستور اپنی جگہ قائم ہے، لیکن آتش بازی کے معاملہ میں ہم نے ابھی جدت پسندی سے کام نہیں لیا ہے یا اس سمت میں کارگر نعم البدل ابھی ایجاد نہیں ہوا ہے۔ شاید اب اس سمت میں سوچے جانے کی ضرورت ہے کہ تہوار کی شان بھی باقی رہے، مگر کسی طرح کے خطرے کی گنجائش بھی نہ ہو۔
پٹاخوں میں دھماکے کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جو مادّہ پٹاخے بنانے میں استعمال ہوتا ہے، تقریباً وہی بم بنانے میں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ اب خرافاتی ذہن اس کا کیا استعمال کرے، اس کا پہلے سے اندازہ کرنا آسان نہیں ہے۔ کانپور کے حالیہ واقعہ نے ہمیں ایک بار پھر سنجیدگی سے اس سلسلہ میں سوچنے کا موقع دیا ہے، کیونکہ پہلے دن کی خبروں میں ہم نے اسے پٹاخوں کے ذخیرے میں لگی آگ ہی مانا تھا، لیکن جب راجیش کے پاس سے زندہ بم برآمد ہوئے تو معلوم ہوا کہ بات اتنی معمولی نہیں تھی، جتنی کہ پہلے دن سمجھی جارہی تھی اور اب ہم اپنی خفیہ ایجنسیوں اور حکومت کی توجہ اس طرف بھی دلانا چاہتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا تنہا واقعہ نہیں ہے۔ پیشہ سے تو وہ سرکاری اسپتال میں وارڈ بوائے تھا، پھر اس نے اتنی بڑی مقدار میں بم بنانے کے لئے آتش گیر مادّہ کہاں سے حاصل کیا، لہٰذا ہم ذیل میں کچھ ایسی خبروں کے تراشے اپنے قارئین، خفیہ ایجنسیوں،انتظامیہ اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ پچھلے دو تین برس کی مدت میں کس قدر آتش گیر مادّہ غائب ہوا ہے۔ اب اس میں سے کتنا غلط ہاتھوں میں پڑا، اس کا کیا استعمال ہوا یا ہوسکتا ہے، یہ سوچنے سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ ایک پستول کا گم ہوجانا بھی جہاں بہت بڑی بات ہوتی ہو، کسی نامور شخص کے سامان سے غلطی سے چلی گئی پستول کی ایک گولی بھی اگر ائیرپورٹ پر برآمد ہوجائے تو نہ صرف سخت پوچھ تاچھ کی جاتی ہے، بلکہ مکمل تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہوا، جو کہ صحیح بھی ہے، جب کہ پستول کے بغیر وہ ایک گولی کتنی نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے، یہ سمجھا جاسکتا ہے اور اس کے برعکس ایک بڑی مقدار میں آتش گیر مادّہ جو سیکڑوں ٹرکوں میں لدا ہو، غائب ہوجائے اور ہم اسے بہت سنجیدگی سے نہ لیں، بس اتنی خبر سننے کو ملے کہ آتش گیر مادّہ سے لدے اتنے ٹرک جو فلاں جگہ سے فلاں جگہ جارہے تھے، راستہ سے غائب ہوگئے یا ان میں سے کتنے ٹرک اس حالت میں برآمد ہوئے۔ کیا اتنا ہی کافی ہے؟ کیا ہمیں نہیں غورکرنا چاہئے کہ اس وقت ملک جن حالات سے گزررہا ہے، بم دھماکے اور دہشت گردانہ کارروائیاں عام بات ہوگئی ہیں۔ وہاں آتش گیر مادّے کا غائب ہوجانا کتنے بڑے خطرے کی علامت ہوسکتی ہے۔ دہشت گردی کے لئے اس کا استعمال ملک و قوم کے لئے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ اس ضمن میں ہمیں ابھی کافی کچھ لکھنا ہے، لہٰذا تمہید ختم، پہلے ایسے چند واقعات اور خبروں کے تراشے، اس کے بعد چند جملے راقم الحروف کے قلم سے۔
آتش گیر مادّے کی پراسرارگمشدگی کے واقعات کا سلسلہ
26؍جولائی2008کے 21بم دھماکوں میں جن میں56افرادہلاک اور200سے زائدزخمی ہوئے تھے اور اگلے ہی روز یعنی27؍جولائی2008کو گجرات کے ایک اور شہر سورت میں بڑی مقدار میں آتش گیر مادّہ برآمد ہوا تھا، جس کو ماہرین بروقت ناکارہ بنادیا تھا،یہ ناکارہ بنایا گیا آتش گیر مادّہ راجستھان ایکسپلوسیو کیمیکل لمیٹڈ Rajasthan Explosive Chemical Limitedکی فیکٹری کا بنا ہوا تھا۔اس وقت راجستھان سرکار کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا تھیں اور وزیرداخلہ گلاب چند کٹاریا تھے۔ اگر قارئین کو یاد ہو تو سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹر میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچنے والے گجرات کے سابق وزیرمملکت برائے داخلہ امت شاہ کا جو گینگ سہراب الدین جیسے مہروں کا استعمال کرتا تھا، اس میں گلاب چند کٹاریا کا نام بھی لیا جارہا تھا۔ بہرحال میں ذکر کررہا تھا راجستھان کیمیکل فیکٹری کے دھماکہ خیز مادہ کا، جس کا استعمال سورت دھماکوں میں ہوا تھا اور جس کی جانچ کا کام نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA)نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ یہ ٹرک راجستھان کے راستے مدھیہ پردیش جانے والے تھے اور یہ آتش گیر مادّے سے بھرے ہوئے تھے، جس ریاست کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان تھے اور ہیں۔ یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ دونوں سرکاریں انہیں لوگوں کی تھیں، جو اجمیر بم دھماکوں میں اندریش کا نام آنے پر چراغ پا ہیں۔
بہرحال اس وقت اس معاملہ کی تفتیش راجستھان کی اے ٹی ایس کررہی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کا کہناہے کہ 13؍اگست 2010تک 900ٹن آتش گیر مادّہ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکاہے۔ ان ٹرکوں میں زیادہ جیلاٹن کی چھڑیں اور Detonetorہیں۔5؍ستمبر تک بھیل واڑہ پولیس 164لاپتہ ٹرکوں میں سے صرف26کاپتہ لگاپائی تھی۔ مدھیہ پردیش پولیس صرف اگست تک ان کو راج گڑھ میں Traceکرپائی، لیکن اس کے بعد کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ایم پی پولیس نے راجندر چوبے کوگرفتار کیا جوجے کشن اشونی(بھوپال) کا ساتھی بتایاجاتا تھا۔ جے کشن اشونی آرای سی ایل(راجستھان ایکسپلوسیو کیمیکل لمیٹڈRajasthan Explosive Chemical Limited) سنگھم ایکسپلوسیو (Sangam Explosive) چندیری، مدھیہ پردیش کا مالک جے کشن اشونی ہی ہے۔ جے کشن اشونی نے آرای سی ایل کو 61ٹرک پردھماکہ خیز مادہ کے لیے ایک آرڈر گنیش ایکسپلوسیو (ساگر) کودیا۔ اور یہ مال اپنے رشتہ داروں شیوچرن ہیڈا(Heda)اور اس کی بیوی دیپا ہیڈا کومنتقل کردیا۔ ان دونوں کی رائے گڑھ (راجستھان) احمدنگر(مہاراشٹر) اور راج کوٹ(گجرات) میں کمپنیاں ہیں۔ اشونی، گنیش ایکسپلوسیو (Ganesh Explosive)کے لائسنس کو استعمال کرتا رہا، جو اس کے اصل مالک دھیریندرسنگھ ٹھاکر(Dhirendra Singh Thakur)کے نام سے تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے ہ یہ لائسنس 31؍مارچ2010کو ختم ہوچکا تھا۔ جبکہ یہ تمام آتش گیر مادّہ اپریل اورجولائی میں بھیجاگیا۔
اشونی 103ٹرکوں میں بھرے آتش گیرمادہ کے غائب ہونے کے گھوٹالے میں شامل تھا۔ آرای سی ایل سے سنگم ایکسپلوسیو اشوک نگر (ایم پی) کو بھیجا گیاتھا، یہ Explosive راستہ میں ہی غائب ہوگیا تھا۔ راجستھان پولیس نے ہیڈا اور اس کی بیوی کے بار ے میں اور مدھیہ پردیش پولیس نے دیپا اور ٹھاکر کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے دس دس ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا تھا۔اسی دوران بھیل واڑہ پولیس نے ہیڈا کی کمپنی پی ایم ٹریڈرس کے گوداموں سے ڈیڑھ ہزار ڈیٹونیٹر، جلاٹن کی چھڑیں اور فیوزوائر برآمد کیں۔ بھیل واڑہ کے سرکل آفیسر (صدر) رام کمار کاسوا کا کہناہے کہ ان کو ابھی تک غائب ہوئے مال کا کوئی سامان نہیں ملا ہے۔ بھیل واڑہ پولیس اشونی کمار اور ہیڈا کے درمیان تجارتی معاملات کی تفتیش کررہی ہے۔ ابھی بہت سے ٹرکوں سے آتش گیرمادّہ کی گمشدگی کی تفتیش چل رہی ہے۔ اگر یہ Explosive آتش گیر مادّہ بم بنانے والوں کے ہاتھوں پڑگیا تو اس کا استعمال کس قدر خوفناک ہوسکتا ہے، اس کا صرف قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کا یہ پہلا اور تنہا معاملہ نہیں ہے۔ آئیے اب کچھ اور ایسے ہی معاملات پر آپ کی توجہ دلاتے ہیں۔
w 19؍ستمبر2010،جے پور دھول پور کی ایک عدالت میں آرای سی ایل کے چاروں افسران کی ضمانت کی عرضی مسترد کردی گئی۔ یہ لوگ 900ٹن آتش گیر مادّہ کی پراسرار گمشدگی کے معاملہ میں گرفتار ہوئے تھے۔
w 6؍اکتوبر2010،الور(راجستھان): آرای سی دھول پور راجستھان ایکسپلوسیوکیمیکل لمٹیڈRajasthan Explosive Chemical Limited) کے چار افسران کوگمشدہ آتش گیر مادہ کی تفتیش کے معاملہ میں ساگر کے منیجنگ ڈائرکٹر (مدھیہ پردیش) لے جایاگیا۔ (ٹائمزآف انڈیا)
wیہ چار افسران منیجنگ ڈائریکٹربی ڈی اگروال، یونٹ ہیڈ ایڈورڈکیلی، سینئرمنیجر وی کے گرگ اور مارکیٹنگ منیجرراجیش اگروال شامل تھے۔
w 26؍اگست2010،الور(راجستھان):آرسی ای ایل کے چارافسران کے خلاف 61ٹرکوں کے غائب ہونے پر لاپروائی اور سازباز کرنے کے الزام کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ (ٹائمزآف انڈیا)
w 27؍اگست2010،این ڈی ٹی وی نے خبردی کہ آتش گیر مادّہ کے جو ٹرک غائب ہوئے تھے، ان کی تعداد 60نہیں بلکہ163تھی۔ پولیس نے مزید کہا کہ یہ تعداد اور بڑھ سکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ غائب ہونے والے ٹرک کئی سوہوں۔
w 7؍ستمبر2010،آرای سی ایل کے افسران کے خلاف Explosives Act, 2008کے تحت معاملہ درج کرلیا گیا ہے۔
w 10؍اکتوبر2010،شیوچرن ہیڈاجو کہ راجستھان دھول پور کا رہنے ولا ہے، نے اعتراف کیا ہے کہ 571ٹرک جن میں آتش گیر مادّہ بھرا ہوا تھا، سنگم ایکسپلوسو ایجنسی (Sangam Explosive Agency) کو بیچے گئے تھے۔ یہ بات ساگر رینج کے انسپکٹر جنرل آف پولیس انویشن بنگم نے دی۔("webindia123.com" 10؍اکتوبر2010)
w 18؍ستمبر2010،جودھپور، پولیس نے شیوچرن ہیڈا جو کہ بھومی انٹرپرائزز کے مالک جے کشن اشونی کا رشتہ دار ہے، کے یہاں چھاپہ ما راگیا، اس کے یہاں سے 70ٹن آتش گیر مادّہ برآمد کیا۔بھومی انٹرپرائزز(Bhumi Enterprises) راج کوٹ میں قائم ہونے والی اپنی کمپنی کا نام ہیڈا کی بیٹی’’ بھومی‘‘ پررکھاتھا۔(بھاسکر نیوز،18؍ستمبر2010)
wاطلاعات کے مطابق13؍اگست2010،مرکزنے مدھیہ پردیش سرکارسے راجستھان سے بھیجے جانے والے 600ٹن آتش گیر مادّہ کو جو مدھیہ پردیش پہنچنا تھااورجو راستہ میں ہی غائب ہوگیا ہے، کے معاملہ میں رپورٹ طلب کی اورکہا کہ یہ ایک بہت سنگین معاملہ ہے۔ ہوم منسٹری کے ذرائع کے حوالے سے یہ بات تسلیم کی گئی ہے۔
مدھیہ پردیش کے ہوم منسٹر نے کہا ہے کہ اس سلسلہ میں پولیس ٹیم، راجستھان، آندھراپردیش اور مہاراشٹر بھیجی گئی ہے۔(پی ٹی آئی)
wٹیلی ویژن چینل آئی بی این7کی رپورٹ کے مطابق61ٹرکوں میں جو مال گم ہوگیاتھا، کے بارے میں ساگر کے آئی جی نے اندیشہ کااظہار کیا کہ یہ ٹرک غلط ہاتھوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کی پولیس نے ابتدائی رپورٹ کے بعد بتایا کہ یہ آتش گیر مادّہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے پرائیویٹ ڈیلروں اور فرموں کے ہاتھوں بیچا گیا ہے۔ (14؍اگست2010 "Visionmp.com"نیوز سرورس)
واقعات ابھی اور بھی ہیں، مگر آج کے مضمون میں بس اتنا ہی۔ ہم نے آج کی اس تحریر میں آتش گیر مادّہ کی مقدار اور منسلک افراد کے نام انڈرلائن کردئے ہیں۔ وہ صرف اس لئے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں ایک بار پھر ان واقعات کی تفصیل میں جاکر حقائق کا پتا لگائیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ اگر اس آتش گیر مادّہ کی کچھ مقدار کا استعمال بھی ملک کی فضا خراب کرنے کے لئے ہوا ہے، صاف کہیں تو بم دھماکوں میں ہوا ہے تو پھر تلاش کرنا ہوگا کہ وہ نیٹ ورک کیا ہے، جو آتش گیر مادّہ سپلائی کرنے والی فیکٹریوں سے نکلے ہوئے ٹرکوں کو راستے میں ہی غائب کردیتا ہے اور پھر اس کا استعمال کن ملک دشمن، قوم دشمن سرگرمیوں کے لئے کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)

No comments: