Thursday, November 25, 2010

نتائج بہارـہماری جیت، سنگھ پریوار کی ہار

عزیز برنی

میرا اندازِ فکر ذرا مختلف ہے اور کبھی کبھی میری باتیں بھی عجیب لگتی ہوں گی، جیسے میری آج کی یہ تحریر۔ کیوں میں نے اپنے مضمون کو عنوان دیا ’’نتائج بہارـہماری جیت، سنگھ پریوار کی ہار‘‘؟ سنگھ پریوار تو بہار کے ان ریاستی انتخابات میں کہیں تھا ہی نہیں اور سچ پوچھئے تو ہم بھی کہاں تھی۔ ویسے بھی اگر امیدواروں کی کامیابی کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سنگھ پریوار کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو تاریخ ساز کامیابی حاصل کی ہی۔ اس سے پہلے بہار میں اسے اتنی سیٹیں کبھی نہیں ملیں اور اپنی طرف نظر ڈالیں توبراہِ راست ہمیں کسی طرح کی کہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہم تو ہم سیکولر سمجھی جانے والی پارٹیاں تک اس الیکشن میں بے حیثیت نظر آئیں۔ پھر میں سیاستدانوں کی طرح اس ہار میں بھی جیت کا پہلو کیوں تلاش کررہا ہوں؟ کیوں اسے اپنی جیت سے تعبیر کررہا ہوں؟ کیوں تسلیم نہیں کرلیتا کہ بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی پہلے سے بھی زیادہ اور ایک بڑی طاقت کی شکل میں سامنے آئی ہی؟ جس طرح ترون وجے نے ٹیلی ویژن چینل پر کہا کہ مسلم اکثریت والی سیٹوں پر بھی انہیں ہی زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہی، بھلے ہی یہ سب نتیش کمار کی وجہ سے ہوا ہو، لیکن اگر سچ ہے تو پھر یہ سیکولر پارٹیوں کی سب سے بڑی ہار ہی۔ ہاں، مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ نتیش کمار کو ہم آج بھی سیکولر ہی مانتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ پانچ برس انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر سرکار چلائی اور اب پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر سرکار بنانے جارہے ہیں۔
بہرحال یہ تو وہ تصویر ہے جو ہمیں سیدھے سیدھے اور صاف صاف دکھائی دے رہی ہی۔ آئیے اب ذرا اس تصویر کے دوسرے رُخ پر بات کریں، جس کو ذہن میں رکھ کر میں نے آج کے مضمون کو مندرجہ بالا عنوان دیا اور اس موضوع سے ہٹ کر گفتگو شروع کی، جس پر میں آج کل لکھ رہا ہوں، یعنی دہشت گردانہ واقعات اور اس کے اسباب۔ میں نے بہار کے ان ریاستی انتخابات کے دوران اس الیکشن کی بات تو دور سیاست پر بھی ایک لفظ نہیں لکھااور نہ بولا۔ میں کسی طرح بھی اس الیکشن کو اپنی تحریر یا تقریر سے متاثر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں جس موضوع پر کام کررہا ہوں، وہ میرے قارئین ہی نہیں، میرے ملک اور ہندوستانی قوم کے سامنے ہی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میرا پہلا ہدف ہی۔ اس کے ساتھ ہی فرقہ پرستی کو ختم کرنا، سیکولرزم کو مضبوط بنانا، جمہوری نظام کو تقویت پہنچانا میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہوں، اس لئے کہ یہی ملک و قوم کے حق میں ہی۔ آپ نے دیکھابہار کا یہ الیکشن، ابتدا سے اختتام تک اور اب نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ کیا سنی کہیں کوئی منڈل کمنڈل کی بات؟ اٹھا مندراور مسجد کا مدعیٰ؟ کہاں گئی فرقہ پرستی اور ذات پرستی؟ جس پارٹی کا وجود ہی فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہوا، جس نے 1901میں ہندومہاسبھا اور 1925میں آر ایس ایس انہی مقاصد کے پیش نظر بنائی، جس کی سیاسی جماعت جن سنگھ اورپھر بھارتیہ جنتا پارٹی کا وجود انہی فرقہ پرستی کی بنیادوں پر عمل میں آیا۔ جس کا ایجنڈا مندرجہ ذیل چار نکات تک محدود رہا، (1) رام مندر کی تعمیر: روز اوّل سے ہی بی جے پی کا بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا عزم رہا ہی۔ اس ایشو کو بی جے پی نے اپنے لوک سبھا انتخابی منشور میں بھی ہمیشہ شامل کیا۔2)آرٹیکلـ70: ہندوستانی آئین ک آرٹیکلـ70کے تحت ریاست جموںوکشمیر کو خصوصی درجہ عطا کیا گیا ہی۔ اس آرٹیکل کے مطابق دفاع، خارجہ امور، فائنانس اور کمیونی کیشن کے معاملات کے علاوہ ہندوستانی پارلیمنٹ کے دیگر قوانین کو نافذکرنے کے لئے وہاں کی ریاستی سرکار کی رضامندی ضروری ہوتی ہی۔ بی جے پی ہمیشہ اس آرٹیکلـ70کو ختم کرنے کی بات کرتی رہی ہی۔ (3)یکساں سول کوڈ کا نفاذ: جس کا مقصد بنیادی طور پر مسلمانوں کو ہندوستانی آئین کے مطابق حاصل، شادی اور وراثت جیسے امور میں خصوصی اختیار ختم کردینا اور ہندوستان کے تمام شہریوں کو ایک ہی قانون سے ہانکنا ہی، جس کے لئے وہ ہمیشہ پارلیمنٹ و پارلیمنٹ کے باہر آواز اٹھاتی رہی ہی۔4)گائے کاذبیحہ: ووٹ حاصل کرنے کے لئے یہ ایشو بھی بی جے پی لیڈران کے لئے سرفہرست رہا ہی۔
اور اسی ایجنڈے کی بھٹی میں جلا تھا گجرات۔جسے اپنی سیاست میں کامیابی گجرات کی لیبارٹری ٹیسٹ میں دکھائی دیتی تھی، جو 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے لگاتار 20برس تک رام مندر کے نام پر سیاست کرتی رہی، جس کی نظر میں نریندرمودی ’’ہندوہردے سمراٹ‘‘ رہا۔ اس نے دیکھا کہ بہار کے اس الیکشن نے کیا سبق دیا بہار کے عوام نے نامنظور کردیا ان تمام ایشوز کو۔ اس کی سمجھ میں اگر کوئی بات آئی تو صرف اپنی ریاست کی ترقی، بدعنوانی پر قابو، بے خوف ماحول اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گزشتہ پانچ برس میں بہار ہر طرح کے فرقہ وارانہ تنازع سے پاک رہا؟ ریاست کے عوام کو بے خوف ماحول ملا؟ ترقی کے کام ہوئی؟ ذات اور مذہب کو نہ تو روزمرہ کی زندگی میں اہمیت دی گئی اور نہ ہی الیکشن میں۔ ووٹ ذات برادری کے نام پر اس طرح نہیں ڈالا گیا، جس طرح کہ اس سے پہلے ہوتا رہا تھا؟ یہ ملک کے لئے خوش آئند پیغام ہی۔ اگر ہم بہار کے اس الیکشن کو ہندوستان کی بدلتی ہوئی تصویر کی شکل میں دیکھیں، جس طرح دہلی میں شیلا دکشت کی واپسی، ان کے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ہوئی، جس طرح نتیش کمار ترقی کی بنیاد پر پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو کر اپنی ریاست میں واپس آئے تو پھر یہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا انہیں اب بھی مذہب و ذات کی بنیاد پر اعدادوشمار اکٹھا کرنے کی ضرورت ہی؟ کیا انہیں جذبات کو مشتعل کردینے والے ایشوز درکار ہیں؟ کیا مذہبی منافرت کو سیاسی حصولیابی کے لئے استعمال کرنا کارگر ہوسکتا ہی؟ اور اگر دوراندیش نگاہوں سے دیکھیں تو بدعنوانی پر قابو پانے کا آسان طریقہ بھی یہی ہے کہ الیکشن صرف اور صرف ترقی کی بنیادوں پر لڑا جائی، پھر آپ کو ہزاروں کروڑ روپے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ سیاسی پارٹیاں الیکشن میں کامیابی کے لئے اور اقتدار میں آنے کے بعد اگلے الیکشن کی تیاریوں کے لئے جس رقم کو جمع کرنا ضروری سمجھتی ہیں، اگر وہی رقم ترقیاتی کاموں میں خرچ ہوجائے تو الیکشن کے وقت اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی، کامیابی خودبخود ان کے قدم چومے گی۔
ہم نے اسے سنگھ پریوار کی ہار اسی لئے قرار دیا کہ اس نے بہار کے اس الیکشن اور الیکشن کے نتائج سامنے آنے تک اپنا ہر ایشو کھودیا۔ یہاں تک کہ نتیش کمار نے ثابت کردیا کہ جس نریندر مودی پر اسے بڑا ناز ہی، ان کا نہ آنا بہار میں ان کی پارٹی کے لئے بھی زیادہ کارگر ثابت ہوا۔ یعنی اب بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاست میں زندہ رہنا ہے تو سنگھ پریوار کے بنیادی ایجنڈہ کو طلاق دینا ہوگا۔
jآئیے اب ایک اور پہلو پر گفتگو کرتے ہیں، جسے اس الیکشن اور اس کے نتائج کا سب سے منفی پہلو قرار دیا جاسکتا ہی۔ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو گلے لگانے سے پہلے تک یہ پارٹی اقتدار سے دور تھی اور اسے کوئی خاص سیاسی حیثیت بھی حاصل نہیں تھی، لیکن ایک بار جب اسے بڑے پیمانہ پر اقتدار میں حصہ داری کا موقع ملا تو پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ ایک سیکولر سیاستداں ہونے کے باوجود کانگریس سے اپنی ناراضگی کے سبب اس سے بدلہ لینے اور اقتدار کی چاہ میں ایک ایسی غلطی کرگئی، جس کا خمیازہ ہندوستانی قوم بالخصوص مسلمان آج تک بھگت رہے ہیں۔ خدا نہ کرے آنے والے کل میں نتیش کمار کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو گلے لگانا، بہار میں اور زیادہ مضبوط بنانا اس کی اگلی کڑی ثابت ہو، اس لئے کہ اس پارٹی کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرہ وہ ہی، جو سب کو صاف صاف نظر آتا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ فکر رکھتے ہوئے بھی ایک سیاسی پارٹی ہی، مگر اس کا ایک دوسرا چہرہ بھی ہی، جس میں وہ سیاسی پارٹی کے چولہ میں ایک ایسی مسلم دشمن اور تخریبی ذہنیت رکھنے والی پارٹی ہی، جس کا وجود صرف اور صرف اسی مقصد کے پیش نظر ہی۔ میں نے جان بوجھ کر اسے ایک کٹرہندووادی ذہن کی پارٹی کہنے سے گریز کیا، اس لئے کہ میں مانتا ہوں کہ حقیقت یہ ہے ہی نہیں، یہ تو ہندوؤں کو متاثر کرنے کے لئے ایک حربہ بھر ہی۔ اب بہار میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر آنے کی شکل میں، پھر حکومت میں حصہ داری پالینے کی شکل میں وہ اس کا استعمال کس طرح کرے گی، اس پر نظر رکھنا ہوگی۔ کس طرح فوج میں کرنل پروہت جیسے عناصر پیدا ہوئی، کس نے ان کی ذہن سازی کی، کس طرح وزارت داخلہ ایک مخصوص انداز میں کام کرتی رہی؟ فرقہ وارانہ فسادات کی بات ہو یا دہشت گردانہ حملوں کی، اس کا نظریہ ایک مخصوص فرقہ کی مخالفت میں ہی دکھائی دیتا رہا۔ فروغ انسانی وسائل محکمہ میں جڑیں جمانے کا موقع ملا تو نصاب میں تبدیلی اور تعلیم کو بھگوا رنگ دینے کی کوششیں کسی سے چھپی نہیں رہیں۔ کل ملا کر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس پارٹی کا ظاہری ایجنڈے کے ساتھ ساتھ ایک چھپا ایجنڈہ بھی ہوتا ہے اور وہ چھپا ایجنڈہ ایک لمبے ہدف کو ذہن میں رکھ کر عملی جامہ پہنایا جاتا رہتا ہی، یعنی وہ دیانندپانڈے کے لیپ ٹاپ سے نکلے مشنـ025 جیسا ہوتا ہی۔ جس طرح اقتدار حاصل کرنے کے بعد راجستھان، مدھیہ پردیش اور گجرات کو انہوں نے نہ صرف فرقہ واریت کے لئے استعمال کیا،بلکہ بم دھماکوں کی تفتیش کے بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان ریاستوں میں دہشت گردی کو کس درجہ فروغ دیا گیا۔ ہمیں نتیش کمار کی کارکردگی پر بھروسہ ہی، انہوں نے جس طرح گزشتہ پانچ برس میں اس پارٹی کے ایجنڈے پر لگام رکھی، وہ آئندہ پانچ برس بھی رکھیں گی، مگر چھپے طور پر یہ لوگ کیا کرتے رہیں گی، کیا ہر بات پر نظر رکھنا آسان ہوگا؟ یہ الیکشن نتیش کمار کے چہرے کو سامنے رکھ کر ترقی کی بنیاد پر لڑا گیا۔ نتائج سامنے ہیں۔ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ کو 116 سیٹیں حاصل ہوئیں اور ٹیلی ویژن چینلز پر تجزیہ نگاروں نے یہاں تک بھی کہنا شروع کردیا کہ نتیش اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے محتاج نہیں ہیں۔ اگر آنے والے کل میں کسی بھی وجہ سے ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے نہیں نبھتی تو ان کے لئے مشکل نہیں ہوگا، کچھ دوسروں کی مدد حاصل کرکے اکیلے دم سرکار بنالینا۔ نتیش اس بات سے انکار کریں گی، وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گی، مگر اس سیاست کا کوئی بھروسہ ہے کیا؟ کب کیا رنگ بدلے پہلے سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ اگر تعداد میں اضافہ نتیش کمار کی پارٹی کو ہوا ہے تو یہ اضافہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبران کی تعداد میں بھی ہوا ہی۔ اگر نعم البدل کا موقع نتیش کمار کے پاس ہے تو یہ موقع بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس بھی ہی۔ بیشک اعدادوشمار کے معاملہ میں وہ بہار میں اپنی سرکار کسی بھی صورت میں بنانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتی، مگر اپنی بڑھی ہوئی طاقت کو مزید بڑھانے اور کچھ نئے ساتھیوں کی تلاش میں لگ جانے کی کوششیں تو کرسکتی ہی۔ پانچ سال ایک طویل مدت ہی۔ نتیش کمار سرکار چلائیں گے اور ان کے ساتھی مودی کیا گل کھلائیں گی، اس کو سمجھنے اور اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہی۔ ہم نے ایک مرتبہ نتیش کمار کو یہ مشورہ دیا تھا، اس وقت جب ہم دونوں ایک بڑے اجلاس کو خطاب کررہے تھے کہ وہ تنہا میدان میں اتریں، کامیاب ہوں گے اور سرکار بنائیں گی۔ اگر انہیں ہماری بات یاد ہو تو آج کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ اگر نتیش کمار اکیلے اپنے دم پر الیکشن لڑے ہوتے تو بھی وہ واضح اکثریت کے ساتھ جیت کر آئے ہوتی، سرکار بنانے کے لئے کسی کی ضرورت نہیں پڑتی، اورنہ ساجھیداری کی سرکار چلانے کی مجبوری ہوتی، ساتھ ہی مرکز سے اور بہتر رشتے بنانے کا موقع ہوتا، شردیادو مرکزی وزیر ہوتی۔ نظریاتی اعتبار سے نتیش کمار سے ہم آہنگی نہ رکھنے والی پارٹی (بی جے پی) اتنی طاقتور نہ ہوتی۔ عین ممکن ہے کہ اس صورت میں بی جے پی کی سیٹیں آرجے ڈی سے کم ہوتیں، بھلے ہی لالو، پاسوان اور کانگریس کی سیٹوں میں کچھ اضافہ ہوجاتا۔
[اب آخری چند سطریں۔ آخر میں نے اس کو ہماری جیت کیوں قرار دیا؟ بیشک اس انتخابی میدان میں ہم کہیں بھی نہیں تھی، بھلے ہی کچھ پارٹیوں نے اپنا امیدوار بنایا ہو، کچھ جیت کر آگئے ہوں، لیکن ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہی۔ باوجود اس کے ہم نے اسے اپنی کامیابی اس لئے قرار دیا کہ ہم نے اس الیکشن میں سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے طے شدہ ایجنڈہ کو شکست دے دی ہی۔ انہیں یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا کہ یہ ملک جسے جمہوری قدروں پر چلنا ہی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی میں یقین رکھتا ہی، ان کی مذہبی منافرت سے بھری سوچ پر نہیں۔ مسلم دشمنی پر نہیں۔

No comments: