Wednesday, October 27, 2010

دہشت گرد کون اور گرفتاریاں کن کی، اب تو سوچو…!

عزیز برنی

روزنامہ راشٹریہ سہارا محض ایک اخبار نہیں، بلکہ اس دور کی تاریخ قلم بند کرنے جارہا ہی۔ ہم نے تو یہ اسی وقت طے کرلیا تھا، جب اس مشن کی شروعات کی تھی، لیکن خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے قارئین بھی اس حقیقت کو محسوس کرنے لگے ہیں اور ان کی دعائیں ہر پل ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ انہی کی دعاؤں اورحوصلہ افزائی کی طاقت ہے کہ ہم مسلسل اس سمت میں آگے بڑھتے جارہے ہیں اور پوشیدہ حقائق منظرعام پر آتے چلے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ایک اہم بات جو اس وقت کہی جاسکتی ہے کہ وہ یہ مکمل طور پر نہ سہی، مگر ایک حد تک ہم اس مایوس کن دور سے باہر نکل آئے ہیں، جب حکومتوں سے یہ امید ہی نہیں کی جاسکتی تھی کہ ان کی تفتیش کا رُخ مسلمانوں سے ہٹ کر کسی اور سمت میں بھی آگے بڑھ سکتا ہی۔ اگر ابتدا میں ہی یہ قدم اٹھالئے جاتے تو ملک کو جن دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا، شاید ان سے بچ جاتی۔ بہرحال آج کی اس مختصر تحریر میں میں اپنے قارئین اور حکومت ہند کے سامنے چند لفظوں میں وہ حادثات سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جن سے بارہا ہمارے ملک کو گزرنا پڑا۔ ابھی ذکر صرف ان کا، جن کی جانچ کے نتائج منظرعام پر آگئے ہیں یا آتے جارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے باقی حادثات کی بھی نئے سرے سے چھان بین ہو تو ایسا ہی کچھ سامنے آئی۔ یہ چند مثالیں اس لئے کہ ہماری حکومت اور خفیہ ایجنسیاں اندازہ کرسکیں کہ ہم نے ان بم دھماکوں کے بعد کن لوگوں کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا اور جب سچ سامنے آیا تو کن کے چہرے سامنے آئی۔
مالیگاؤں دھماکی-
(ستمبر006)
37ہلاک
ابتدا میں جوافراد گرفتار ہوئے وہ سلمان فارسی، فارق عبداللہ مخدومی، رئیس احمد، نورالہدیٰ شمس الہدیٰ، شبیر بیڑی والا۔
بعدکی تفتیش:008کے مالیگاؤں بم دھماکوں میں ہندودہشت گردوں کے منظرعام پرآنے کے بعد دیگر معاملات میں بھی شک کی سوئی ہندو دہشت گردوں پرہی گئی۔
سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ
18فروری007
68ہلاک زیادہ ترپاکستانی شہری
ابتدائی تفتیش میں لشکر اور جیش محمد پرالزام لگایا گیا اور اس سلسلے میں پاکستانی شہری عظمت علی کو گرفتار کیا گیا۔
بعد کی تفتیش میں سامنے آیا کہ ان واقعات کے پس پشت ہندودہشت گرد ہوسکتے ہیں۔ ان دھماکوں میں جو طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے وہ مکہ مسجد کے دھماکوں سے ملتا ہواہی۔ اس معاملہ میں پولیس کو آرایس ایس کے پرچارک سندیپ ڈانگے اور رام جی کے نام سامنے آئی۔
مکہ مسجددھماکہ
18مئی007
14افراد کی موت
ابتدامیں مقامی پولیس نی0مسلم نوجوانوں کو پکڑا تھا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی، جن میں سی5افراد کو گرفتار کرلیا گیا، کوئی ثبوت نہ ملنے پر ان میں سے ابراہیم جنید، شعیب جاگیردار، عمران خان اور محمد عبدالحکیم وغیرہ کوباعزت بری کردیا گیا۔
بعدکی تفتیش کے بعد جو نتیجہ سامنے ہی، وہ اس طرح ہی: 2010میں سی بی آئی نے اعلان کیا کہ وہ اس معاملہ میں دوملزموں کے بارے میں صحیح اطلاع دینے والوں کو0لاکھ روپے کاانعام دے گی، پھر اس معاملہ میں سندیپ ڈانگی، رام چندر کالسنگہ اور لوکیش شرما کوگرفتار کیا گیا۔
اجمیرشریف دھماکہ
11اکتوبر007
3ہلاک
جیسا کہ اکثر بم دھماکوں کے بعد ہوتا رہا ہی، ابتدا میں ہوجی، لشکر پردھماکوں کا الزام لگایاگیا، اورجن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، وہ بھی مسلمان ہی تھی۔ ان میں عبدالحفیظ، شمیم خشی الرحمن، عمران علی شامل تھی۔
806صفحات پرمشتمل چارج شیٹ میں جوراجستھان اے ٹی ایس نے ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں داخل کی ہی۔ اس میں پانچ ملزموں کے نام لکھے گئے ہیں۔ ابھینوبھارت کے دویندرگپتا، لوکیش شرما اور چندر شیکھر ہیں یہ پولیس کی حراست میں ہیں، جبکہ سندیپ ڈانگے اوررام جی کلسانگرے فرار بتائے جاتے ہیں۔
تھانے بم دھماکہ
4جون008
ہندوجن جاگرتی سمیتی اور سناتن سنستھا اس دھماکے کے پس پشت بتائے جاتے ہیں اور رمیش ہنومنت گڈکری اور منگیش دنکر نکم گرفتار کیے گئے تھی۔ ان دھماکوں کا مقصدفلم ’جودھااکبر‘ کی نمائش کے خلاف احتجاج کرناتھا۔
کان پور اور ناندیڑ بم دھماکی
اگست008
کانپورمیں بجرنگ دل کے دوممبران راجیومشرا بھوپندر سنگھ بم بناتے وقت دھماکہ ہونے سے مارے گئے تھی۔
اپریل 2006میں این راجکونڈوار اور ایچ پانسی، ناندیڑ میں بم بناتے وقت مارے گئے تھی، وہ دونوں بجرنگ دل کے ہی تھی۔
مالیگاؤں 2-
29ستمبر008
7ہلاک
ابتدا میں کہا گیا تھا کہ اس دھماکے میں انڈین مجاہدین شامل ہی۔ مگربعد میں ابھینوبھارت اور راشٹریہ جاگرن منچ کے ملوث ہونے کی بات سامنے آئی اس میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت اور سوامی امرتانند دیوتیرتھ(دیانند پانڈی) گرفتارہوئی۔
یہی وہ بم دھماکے تھی، جن کی تفتیش شہید ہیمنت کرکرے کررہے تھے اور جس سے دہشت گردی کا وہ چہرہ سامنے آیا، جس کے بارے میں پہلے سوچا ہی نہیں جاتا تھا، لیکن جیسے جیسے جانچ آگے بڑھتی گئی، پرتیں کھلتی گئیں۔ اگر6/11کے دہشت گردانہ حملہ میں ہیمنت کرکرے شہید نہ ہوئے ہوتے تو شاید آج دہشت گردی کا یہ مکمل نیٹ ورک ہمارے سامنے ہوتا، تاہم ان کے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں ہی۔ اجمیر بم دھماکہ کی تفتیش کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
گوادھماکی
16اکتوبر009
اس دھماکے میں جودوافراد ہلاک ہوئے ،وہ سناتن سنستھا کے ورکر تھی، مرنے والے مالگونڈا پاٹل اور یوگیش ناٹک اس وقت مارے گئے تھے جب وہ دھماکہ خیز مادّہ لے کر اسکوٹر سے جارہے تھے اور اس میں اچانک دھماکہ ہوگیا۔
جس وقت ناندیڑ، کانپور اور گوا میں بم بناتے یا لے جاتے ہوئے یہ لوگ ہلاک ہوئی، اگر اسی وقت ہماری خفیہ ایجنسیوں اور اے ٹی ایس نے مستعدی سے کام لیا ہوتا تو مکمل نیٹ ورک کا پردہ فاش ہوسکتا تھا یا کم ازکم کس ذہنیت کے لوگوں کا کارنامہ تھا اور کس سطح کے لوگ ان سازشوں میں ملوث ہیں، یہ سامنے آسکتا تھا۔ موضوع تفصیل طلب ہی، آج کے مضمون میں بھی اسے مکمل کیا جانا ممکن نہیں ہی، لہٰذا یہ سلسلہ ابھی اور کچھ وقت تک جاری رہ سکتا ہی، تاہم میں آج کے مضمون کو مکمل کرنے سے قبل درگاہ اجمیر شریف میں ہوئے بم دھماکہ کے فوراً بعد لکھا ایک مختصر اداریہ ایک بار پھر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں۔ میں اس بات کے لئے حکومت ہند کا شکرگزار بھی ہوں کہ جن باتوں کی طرف میں نے اپنے اس مضمون میں (2-10-2007، صفحہ نمبرـ) اشارہ کیا تھا، اس پر توجہ دی گئی اور آج نتیجہ ہمارے سامنے ہی۔ بعد صرف چند لوگوں کے پکڑے جانے یا ایک ڈائری میں چند نام لکھے ہونے کی نہیں ہی، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا یہ سلسلہ رک کیوں نہیں رہا تھا؟ شاید اس لئے کہ ہم نے اس سمت میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا، جس سمت میں آج نہ صرف سوچا جارہا ہی، بلکہ عمل درآمد کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہی۔ بیشک 26نومبر008کو ہوا دہشت گردانہ حملہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک تھا، لیکن اس کے بعد سے اگر چھوٹے چھوٹے معاملات کا تذکرہ نہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ تقریباً گزشتہ دو برس میں ملک کسی بڑے دہشت گردانہ حملہ کا شکار نہیں ہوا۔ کیا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب دہشت گردی میں ملوث وہ چہرے سامنے آنے لگے ہیں، جن کی طرف ہم تو مسلسل اشارہ کرتے رہی، مگر کسی نے ان اشاروں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بہرحال ملاحظہ فرمائیں میری وہ تحریر جو اجمیربم دھماکہ کے فوراً بعد لکھی گئی اور غور کریں آج کے بدلے ہوئے منظرنامہ پر، شاید کہ محسوس ہونے لگے کہ ہم مایوس کن دور سے باہر آتے جارہے ہیں۔
اجمیر بم دھماکہ
9/11پر بات آج نہیں، آج ذکر اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ پر ہوئے بم دھماکہ کا، جس میں 3افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئی۔ یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اپنے قارئین کو یہ بھی باور کرادینا چاہتے ہیں کہ آج ہی کے اخبارات میں گجرات اور ہماچل میں الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا ہی۔ راجستھان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار ہے اور گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے خونی کھیل کا نتیجہ سابقہ الیکشن میں دیکھ چکی ہی۔ گجرات کے سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے اسے ضرورت ہے کیشوبھائی پٹیل کے استعفیٰ سے توجہ ہٹانے کی اور اس کے لیے آسان طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ جو جگہیں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ایکتا کے پرتیک کی شکل میں دیکھی جاتی ہوں، جہاں ہندو اور مسلمان دونوں یکساں عقیدت کے ساتھ جاتے ہوں، وہاں عین روزہ افطار کے وقت بم بلاسٹ کا ہونا اور اس کی شدت جس میں 3ہلاک اور متعدد افراد کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع تادم تحریر مل چکی ہے اور واقعہ کی نزاکت کو سمجھے بغیر اس حادثہ کو مختلف زاویوں سے پیش کرنے کی کوشش بھی شروع ہوگئی ہی۔ یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ افطار کے وقت کا اعلان کرنے کے لیے جو گولہ چھوڑا جاتا ہی، یہ اس کا اثر بھی ہوسکتا ہی۔ پھر میڈیا کے ذرائع سے اس کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس اعلان کے لیے کئے جانے والے گولہ سے ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ ایک انتہا پسندانہ کارروائی بھی ہوسکتی ہی۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد کی مکہ مسجد، گوکل چاٹ بھنڈار اور لمبنی پارک میں ہوئے دھماکوں کی طرح یہ بھی دہشت گردوں کا عمل ہوسکتا ہی۔ تازہ ترین موصولہ اطلاعات کے مطابق ریاستی وزیرداخلہ گلاب چندکٹاریا کو اس طرح کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی کہ درگاہ خواجہ معین الدین چشتیؒ پر کسی وقت بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہی۔ مرکزی وزیرداخلہ شیوراج پاٹل کے ذریعہ یہ اطلاع ملنے کے بعد ریاستی سرکار کو بیدار ہوجانا چاہیے تھا اور درگاہ کی حفاظت کے معقول انتظامات کیے جانے چاہیے تھی۔ علاوہ ازیں درگاہ کمیٹی نے بھی ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ رمضان میں درگاہ میں سیکورٹی کے معقول انتظامات کئے جائیں۔ ہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے تو ایسی امید نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کا داغدار ماضی ہمارے سامنے ہی، جب کلیان سنگھ کی وعدہ خلافی نے اترپردیش میں بابری مسجد کی شہادت کے حالات پیدا کردئیے تھی۔ ہم اس نازک موقع پر مرکزی حکومت کے وزیرداخلہ اور بالخصوص کانگریس صدر سونیا گاندھی صاحبہ کے مشیر جناب احمدپٹیل صاحب سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ واقعہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس کی تفتیش کرائیں اور اگر ممکن ہوسکے تو جائے واردات پر خود پہنچ کر ان حالات کا جائزہ لیں، اس لیے کہ مرکزی حکومت میں بیشک وہ وزیر نہ ہوں، مگر مسلمان آج بھی امید بھری نگاہوں سے انہیں کی طرف دیکھتا ہی۔ اگر کانگریس سے کوئی شکوہ ہوتا ہے تو شکایت بھی انہیں سے کرتا ہے اور اگر کوئی امید ہوتی ہے تو دستک بھی انہیں کے دروازہ پر دیتا ہی۔
…………

No comments: