Friday, October 8, 2010

مقدمہ کا قانونی پہلو نیازاحمد فاروقی کی نظر میں

عزیز برنی

بحیثیت قانون کے ایک طالب علم کی اور جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری کے بابری مسجد مقدمہ کے مایوس کن فیصلہ کے بعد مجھ سے جماعت میں داخلی طور پر اور مختلف احباب نے یہ مشورہ طلب کیا کہ اس سلسلہ میں ہمارا ردعمل اور موقف کیا ہوناچاہیی، میرا پہلا ردعمل یہی تھا کہ جلدبازی سے گریز اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ہی رائے قائم کی جائی، لیکن صد افسوس مسلمانوں کے بہی خواہوں نے جمعیۃ علماء ہند کی اپیل کے باوجود اپنے موقف کا کہ ہم سپریم کورٹ میں اپیل کریںگی، برملا اعلان کرنا شروع کردیا، میں سلام کرتاہوں جناب عزیز برنی صاحب کی زیر کی اور دانائی کو کہ انھوں نے بروقت قوم کو اس طرف توجہ دلائی کہ تمام پہلوؤں پر نظر ڈال لی جائے اور سپریم کورٹ میں اپیل سے پہلے اچھی طرح غور کرلیا جائی، میں نے ذاتی ملاقات میں ان کے اس موقف پر اپنی رائے کا اظہار کیا تو موصوف نے فرمایا کہ میں اس فیصلہ کے بارے میں کوئی معروضی جائزہ پیش کروں تاکہ ٹھوس بنیادوں پر صحیح رائے قائم کی جاسکی، میں پھربھی اپنی بے انتہاء مصروفیت اور جمعیۃ علماء کی ’’کشمیر کانفرنس‘‘میں مشغولیت کی وجہ سے بروقت تعمیل نہ کرسکا اور ایک سبب یہ بھی تھا کہ بڑے بڑے قانونی دماغوں اور قائدین کی رائے کے خلاف منھ کھولنے کی اپنے آپ میں ہمت نہیں پاتاتھا، اس دوران سنی وقف بورڈ کی اپیل کا فیصلہ اور اس کاطمطراق اعلان دیکھ کر یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اگر صحیح صورت حال عوام کے سامنے نہیں لائی گئی تو یہ فرض میں بڑی کوتاہی ہوگی۔
بابری مسجد ملکیت سے متعلق چار مختلف مقدمات میں سے اہم ترین مقدمہ سنی وقف بورڈ کا تھا جو عدالت نے خارج کردیا، باقی مقدمات کو زیربحث نہ لاتے ہوئے میں صرف سنی وقف بورڈ کے مقدمہ پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں اور کوئی تبصرہ کیے بغیر یہ درخواست کرنا چاہتاہوں کہ سنی وقف بورڈ کے مقدمہ میں جوسوالات قائم کیے گئے اور سنی وقف بورڈ نے جو دلائل اور شواہد پیش کیے اس کے بارے میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے کیا فیصلہ کیا اور کیوں کیا؟ تقریباً تمام تر سوالات پر سنی وقف بورڈ کے موقف کے خلاف فیصلہ ہوا ہی، سوائے چند ایک کے ، ایسی صورت حال میں یہ رائے قائم کرنا کہ ہمارا مقدمہ بہت مضبوط ہی، صرف کچھ تکنیکی وجوہات سے ردکیاگیا ہے اور سپریم کورٹ میں ہمارے تمام دعوؤں کے تسلیم کیے جانے کی قوی امید ہی، یہ کہاں تک درست ہی؟ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ تمام تر سوالات پر سنی وقف بورڈ کے مخالف فیصلہ اکثر ججوں کی رائے کے اعتبار سے ہے ورنہ کئی ایک سوال پر فاضل جج ایس یو خاں کا فیصلہ سنی وقف بورڈ کے حق میں ہے لیکن فیصلہ تو اکثریت کا ہی غالب مانا جائے گا۔
%سنی وقف بورڈ کے موقف پر تنقید کیے بغیر قارئین خود پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ ہائی کورٹ میں سنی وقف بورڈ نے کیا سوالات قائم کیے اور کیسے دلائل پیش کیی، کیا فیصلہ ہوا اور کیوں ہوا، نیز سپریم کورٹ میں اپیل سے کیا توقع کی جاسکتی ہی، میرا تاثر یہ ہے کہ ’’پنبہ کجا کجا نہم کہ ہمہ تن داغ دار شد‘‘ میری اس طالب علمانہ کوشش کا ہرگز یہ مطلب نہ نکالاجائے کہ جمعیۃ علماء ہند کا موقف کیا ہی، اس سلسلہ میں جماعت میں قومی سطح پر مشورہ ہوگا اور اس کے بعد کھلے ذہن سے فیصلہ کیا جائے گا لیکن جو فیصلہ ہو وہ شفاف ہو اور عوام کو پوری طرح واقف کرایاجائی۔
ذیل میں پیش ہے بابری مسجد کے بارے میں سنی وقف بورڈ کی طرف سے دائر مقدمہ کی تفصیلات: اولین فرصت میں دیگر مقدمات کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی کوشش کروںگا جس کے بغیر کسی ایک نتیجہ پر پہنچنا ہرگز مناسب نہیں۔
مقدمہ او او ایس989 (رجسٹرڈ مقدمہ نمبر1-12)
مدعی سنی سینٹرل وقف بورڈ اترپردیش لکھنؤ ودیگر بنام مدعا علیہ گوپال سنگھ وشارد ودیگر
سنی وقف بورڈ نے زیر بحث مقدمہ 1961ء میں دائر کیا اور یہ استدعا کی کہ متنازعہ جگہ کو مسجد اور اس سے ملحق زمین کو قبرستان ڈکلیئر کیا جائی، اس کے بعد 1995ء میں ترمیم کی درخواست دی گئی اور قبضہ حاصل کرنے کا مطالبہ بھی بڑھایاگیا اور مانگ کی گئی کہ متنازعہ جگہ کو اس کے حوالے کیا جائے تاکہ نماز اداکی جاسکی۔
مختصراً مدعی کا دعویٰ یہ تھا کہ تقریباً 443 سال پہلے بابر نے ایودھیا میں ایک مسجد بنائی یا اس کے حکم سے بنائی گئی اور شاہی خزانے سے بابری مسجد کی دیکھ بھال کے لیے گرانٹ منظور کی۔ 1934ء میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسجد کو نقصان پہنچا اور اس کے بعد 22 اور3دسمبر949 کی درمیانی رات میں ہندؤوں کی ایک بڑی بھیڑنے مسجد کے اندورنی حصے میں مورتیاں رکھ دیں، اس کے بعد متنازعہ جائیداد کو دفعہ 145 سی آر پی سی کے تحت قرق کرلیاگیا۔
مدعا علیہ کی جانب سے الگ جواب دعویٰ داخل کیاگیا اور یہ کہا گیا کہ یہ عمارت مسجد نہیں ہے اور اسلام کے اصولوں کے خلاف مندر کو مسمار کرکے بنائی گئی ہی، اس سلسلہ میں آثار قدیمہ کی رپورٹ حاصل کی گئی، جس نے یہ ثابت کیا کہ سابقہ عمارت جس پر مسجد بنائی گئی مذہبی نوعیت کی تھی، آثار قدیمہ کی رپورٹ کی بنیاد پر مذہبی نوعیت کی بڑی عمارت کو آثار قدیمہ ایکٹ 1958ء کے مطابق بحیثیت قومی یادگار کے برقرار رکھنا حکومت کا فرض ہی۔ سپریم کورٹ نے راجیو منکوٹیا بنام سکریٹری جمہوریہ ہند ودیگر مقدمہ میں حکومت ہند کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایسی قومی یادگار عمارتوں کو محفوظ اور برقرار رکھی، اس لیے مرکزی حکومت پر لازم ہے کہ وہ 1958ء کے قانون نمبر4 کی پاسداری کرے اور اس ملک کے تہذیبی ورثہ اور اس کی شان کو برقرار رکھے اور متنازعہ جگہ مدعی (سنی وقف بورڈ) کے حوالہ نہ کی جائی۔
بعض مدعا علیہ کی طرف سے یہ دعویٰ کیاگیا کہ صرف بیرونی احاطہ میں ہی نہیں بلکہ داخلی احاطہ میں بھی لوگ رام مورتی کی بحیثیت جائے پیدائش پوجاکرتے تھے اور نامعلوم مدت سے پوجاکی جارہی ہی، فریقین کے دعوؤں اور دلائل سننے کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے سنی وقف بورڈ کے دعوے کو خارج کردیا۔
جن سوالات پر عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا وہ درج ذیل ہیں:
پہلا سوال1): کیا زیر بحث عمارت جسے ملحقہ نقشہ میں مسجد دکھایاگیا ہی۔ مدعی کے دعوے کے مطابق مسجد تھی۔ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو…
دوسرا سوال1a) :اسے کب بنایاگیا اور کس نے بنایا، بابر نے جیساکہ مدعی کا دعویٰ ہے یا میر باقی نے جیساکہ مدعا علیہ نمبر3 کا دعویٰ ہی۔
جواب … مدعی (سنی وقف بورڈ) یہ ثابت نہیں کرسکا کہ مسجد بابر نے بنائی یا میرباقی نے اور کب بنائی اس لیے فیصلہ مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں ہی۔
تیسرا سوال (1b): کیا متنازعہ عمارت کو مدعا علیہ نمبر3کے دعوے کے مطابق ہندو مندر کو مسمار کرکے اس کی جگہ پر تعمیر کی گئی، اگر ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہی۔
جواب … آثار قدیمہ کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کی تعمیر اس جگہ کی گئی جہاں پہلے سے مذہبی نوعیت کی کوئی عمارت تھی اور کھنڈر ہوچکی تھی اس بنا پر مدعا علیہ کے حق میںاور مدعی کے خلاف فیصلہ کیاگیا۔
چوتھا سوال (A)1:کیا عمارت کے مشرق، شمال اور جنوب میں ملحقہ زمین جنھیں نقشہ میں EFGHحروف کے ذریعہ واضح کیاگیا ہی، ایک قدیمی قبرستان اور مسجد تھی جیساکہ دعویٰ کے پیرا 2 میں کہاگیا ہی؟
پانچواں سوال :a(B)1 کیا یہ عمارت ایودھیا شہر کے رام کوٹ محلہ کوٹ رام چندرا کے خسرہ میں نزول پلاٹ نمبر 583 میں موجود تھی؟ اگر ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہی۔
جواب … نزول پلاٹ نمبر 583جو سرکار کی ملکیت تھی، اس میں جائیداد (مسجد) موجود تھی۔
چھٹاسوال :b(B)1 کیا عمارت مدعیوں کے دعوے کے مطابق اللہ تعالیٰ سے منسوب (اللہ کی مسجد )تھی۔
جواب… اسے اللہ کی مسجد نہیں کہا جاسکتا، مدعی کے ذریعہ فراہم کردہ ثبوت ناکافی، مسجد اسلام کے اصولوں کے خلاف بنائی گئی اس لیے فیصلہ مدعی کے خلاف۔ فاضل جج ایس یو خان نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
ساتواں سوال :c(B)1 کیا یہ عمارت نامعلوم مدت سے مسلمان نماز پڑھنے کے لیے استعمال کرتے رہے تھی، اگر ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہی۔
جواب… مسلمان جب سے مسجد تعمیر ہوئی یعنی528ء سے نماز پڑھنے کے لیے استعمال کرتے تھی، 1934ء کے فسادات کے بعد نماز متروک ہوگئی، 1949ء کے بعد نماز قطعاً بند ہوگئی ، نیز855ء سے فریقین مشترکہ طور پر متنازعہ عمارت کے مختلف حصوں پر قابض رہی، 1528ء سے پہلے کیا صورت تھی وہاں کسی مندر کا کھنڈر تھا اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان نامعلوم مدت سے وہاں نماز پڑھتے رہے تھے لہٰذا یہ فیصلہ مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں ہی۔
آٹھواں سوال :d(B)1 کیا مبینہ قبرستان کو مسلمان مسلمانوں کی لاش دفن کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اگر ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہی۔
جواب… اس سوال کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بحکم عدالت مورخہ3-2-1996منسوخ کردیاگیا۔
نواں سوال (2):کیا مدعیان 1949تک متنازعہ جائیداد پر قابض تھے اور کیا انھیں جیساکہ دعوے میں کہاگیا ہے 1949ء میں بے دخل کردیاگیا۔
دسواں سوال4): کیا عام طور سے ہندو اور خاص کر بھگوان شری رام کے پجاریوں نے متنازعہ جگہ پر پوجاکرنے کا حق پوری طرح حاصل کرلیا۔ ان کا یہ دعویٰ کہ وہ 1855ء کے بعد سے مختلف حصوں پر پوجاکرتے رہے ہیں اور 1949ء سے پوری جگہ پر پوجاکرتے رہے ہیں، کیا ان کے پوجاکرنے اور مسلسل قبضے کی وجہ سے ان کی مکمل قانونی ملکیت ثابت ہوتی ہی۔ (تشریح: شہادت کے قانون کی دفعہ 110کے مطابق قبضہ ملکیت کا ثبوت ہے اور قابض کے خلاف ملکیت کے ثبوت کے لیے انکار کرنے والے پر شہادت پیش کرنے کی ذمہ داری ہے چونکہ ہندوؤں نے اپنا قبضہ ظاہر کیا اور مسلمانوں نے اس کا انکار کیا اس لیے مدعی (سنی وقف بورڈ) پر شہادت پیش کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہی)
گیارہواں سوال10):کیا مدعی (سنی وقف بورڈ)نے اپنے قابض ہونے کی وجہ سے ملکیت کا جو دعویٰ کیا ہے اس سے اس کی قانونی ملکیت ثابت ہوتی ہی۔
بارہواں سوال15): کیا مسلمان متنازعہ جائیداد پر528سے مسلسل کھلم کھلا قابض رہے ہیںاور مدعا علیہ اور عام ہندوؤں کو اس کا علم تھا۔
تیرہواںسوال28):کیا مدعا علیہ نمبر 3 کبھی بھی متنازعہ جگہ پر قابض رہے ہیں اور مدعی (سنی وقف بورڈ) کبھی بھی اس پر قابض نہیں رہی۔
جواب … ان تمام 9تا 13سوالات کے جوابات مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں ہیں۔
چودہواںسوال3):کیا یہ مقدمہ قانونی طور پر مقررہ میعاد کے اندر دائر کیاگیا۔ (تشریح: ملکیت کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے قانون نے ایک مدت مقرر کی ہے پرانے قانون میں ڈکلیئریشن کے لیے 6سال کی مدت مقرر تھی جوکہ بعد کے قانون میں بدل گئی، مدعا علیہ کے طرف سے یہ اعتراض تھا کہ مدعی نے متعینہ مدت میں مقدمہ دائر نہیںکیا اس لیے اس کا دعویٰ خارج کیا جانا چاہیی۔
جواب… مدعی (سنی وقف بورڈ) نے مقدمہ متعینہ مدت میں دائر نہیں کیا اس لیے ناقابل سماعت ہے لیکن فاضل جج ایس یو خاں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
پندرہواں سوال (a)5 : اترپردیش کے 1936کے ایکٹ نمبر (3) کی دفعہ 5 () کو دیکھتے ہوئے کیا مدعا علیہ پر متنازعہ جائیداد جوکہ مدعی () کے زیرانتظام ہے کے خلاف بحیثیت وقف چیلنج کرنے کی قانونی بندش ہی۔
جواب… فاضل سول جج اپنے آرڈر مورخہ 21-4-1966کے ذریعہ اس امر کا فیصلہ نفی میں کرچکے ہیں۔
سولہواں سوال (b)5 : کیا مذکورہ قانون عام طور سے ہندوؤں کے اور خاص طور سے مدعا علیہ کے پوجا کرنے کے حق سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں؟
جواب… مدعی (سنی وقف بورڈ) کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ کیاگیا۔
سترہواں سوال (c)5 : مذکورہ ایکٹ کے تحت کی گئی کارروائی کیا اپنے انجام کو پہنچی؟
جواب… اس امر کا فیصلہ 21-4-1966کو فاضل سول جج نفی میں کرچکے ہیں۔
اٹھارہواں سوال (d)5 : کیا 1936کے ایکٹ نمبر (3) کی مذکورہ دفعہ غیردستوری ہی، جیساکہ جواب دعویٰ میںکہا گیا ہی۔
جواب… مدعا علیہ کے وکیل نے اس سوال پر زور نہیں دیا اس لیے فاضل سول جج نے 21-4-1966کے آرڈر میں اس کا جواب نہیں دیا۔
انیسواں سوال (e)5 : فاضل سول جج نے 21-4-1966کے آرڈر میں قضیہ (7) کے متعلق جو نتیجہ اخذ کیا کہ 1936کے ایکٹ (3) کی دفعہ 5 () کے تحت قانونی طور پر متنازع جائیداد سے متعلق کوئی اطلاع کبھی نہیں جاری کی گئی ۔ اس بنا پر کیا مسلم سنی سینٹرل وقف بورڈ کوزیر نظر مقدمہ کو برقرار رکھنے کا حق نہیں ہے ۔
جواب … اس کا جواب مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں ہی۔
بیسواں سوال (f)5 : مذکورہ اخذ کیے گئے نتیجے کے زیر نظر کیا یہ مقدمہ خارج از بحث ہے کیوں کہ دائرہ عدلیہ اورمتعینہ قانونی مدت کے اندر نہیں ہی۔ اور یہ کہ اتر پردیش مسلم وقف ایکٹ 1960ء کے آغاز کے بعد اس مقدمے کو داخل کیا گیا ۔
جواب … اس کا جواب مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں ہی۔
اکیسواں سوال6): کیا یہ ایک نمائندہ مقدمہ ہے ، جس میں مدعی مسلمانوں کے مفاد کی نمائندگی کرتے ہیں اور مدعا علیہ ہندؤوں کے مفاد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
جواب … سنی وقف بورڈ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے اس لیے یہ جواب مدعی کے حق میں اور مدعا علیہ کے خلاف ہی۔
بائیسواں سوال (a)7 : کیا مہنت رگھو برداس نے جو کہ مقدمہ 61/280/1885 کے مدعی ہیں، انھوں نے جنم استھان کی جانب سے اور جنم استھان کے مفاد میں شریک تمام لوگوں کی طرف سے مقدمہ دائر کیا تھا ۔ (تشریح: مہنت رگھوبرداس نے 1885ء میں چبوترے پر تعمیر کے لیے اجازت مانگی تھی، اس مقدمے میں انھوں نے اس بات کا انکار نہیں کیا تھا کہ مسجد کا اندرونی حصہ اور احاطہ مسجد نہیں ہی، وقف بورڈ نے اسے بنیاد بناتے ہوئے یہ کہا کہ انھوں نے اپنے دعویٰ میں مسجد کے وجود کو تسلیم کیا تھا، اس لیے اس سے مسجد کا وجود اور مسلمانوں کی ملکیت ثابت ہوتی ہے اور چونکہ اس کا فیصلہ مذکورہ مقدمے میں ہوچکا ہے دوبارہ اسے مقدمے کا موضوع نہیں بنایا جاسکتا ہی۔مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ رگھوبرداس نے تمام ہندوؤں کی طرف سے مقدمہ نہیںکیا تھا اس لیے اس کا اثر موجودہ مقدمے میں نہیں پڑتا ہی)
جواب … ایسا کوئی ثبوت نہیں جس سے پتہ چلے کہ مہنت رگھوبرداس نے تمام ہندوؤں کی طرف سے مقدمہ دائر کیا تھا اس لیے مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ دیا گیا ۔
تئیسواں سوال (b)7 : کیا محمد اصغر مبینہ بابری مسجد کے متولی تھے اور کیا انھوں نے کسی بھی مسجد کی طرف سے مقدمہ لڑا ؟ (تشریح: قبضہ حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ مسجد کا کوئی متولی ہے کیونکہ قبضہ صرف متولی کو دیا جاسکتا ہی، اس لیے یہ سوال قائم کیا گیا۔
جواب … مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں کیا گیا ۔
چوبیسواں سوالc)7 : کیا مذکورہ مہنت رگھوبر داس مقدمے کے فیصلے کو نظر میں رکھتے ہوئے ہندؤوں اور مدعا علیہ کو قانون اس بات سے روکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت اور قبضے کا انکار کریں چونکہ مذکورہ مقدمہ میں مسجد کے وجود کا انکار نہیں کیا گیا تھا۔
جواب… مدعا علیہ پر قانونی بندش نہیں ہے اس لیے مدعی کے خلاف فیصلہ کیا گیا ۔
پچیسواں سوال (d)7 : کیا مذکورہ مہنت رگھوبرداس مقدمے میں متنازع جائیداد پر مسلمانوں کی ملکیت کے جزوی یا کلی حق کے بارے میں اس دعوے کے مدعی نے کوئی اعتراف کیا تھا۔ اگر ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہی۔
جواب … مذکورہ مقدمہ میں رگھوبرداس نے مسجد کے وجود سے انکار نہیں کیا تھا لیکن اس کے وجود کا اعتراف بھی نہیں کیا تھا، نیز یہ مقدمہ سب کی طرف سے نہیں تھا اس لیے مدعی (سنی وقف بورڈ) کے خلاف فیصلہ کیا گیا ۔
چھبیسواںسوال8): کیا مہنت رگھو برداس کا فیصلہ زیر نظر مقدمے میں مدعا علیہ کے خلاف کیا گیا اور وہ فیصلہ ریس جوڈی کاٹا یعنی دوہرے مقدمے کا اثر رکھتاہے یعنی قضیہ کا پہلے فیصلہ ہوچکا ہے ۔ اب دوبارہ اس پر مقدمہ قائم نہیں ہوسکتا ہی۔
جواب… فیصلہ مدعی کے خلاف کیا گیا یعنی مدعی کی طرف سے دوہرے مقدمے کی دلیل رد کی گئی ہی۔
ستائیسواںسوال9): کیا مدعی نے سی پی سی کی دفعہ 80 کے تحت قابل تسلیم اطلاع نامہ جاری کیا۔
جواب … اس قضیہ کو5/22 مئی 1950ء کے آرڈرسے منسوخ کردیا گیا ۔
اٹھائیسواںسوال11):کیا متنازعہ جائیداد شری رام چندر کی جائے پیدائش ہے ؟
انتیسواںسوال13):کیا عام طور سے ہندئووں کو اور خاص طور سے مدعا علیہ کو چرن اور سیتا رسوئی ، دیگر مورتیوںاور دوسری پوجا کرنے کی اشیاء کی متنازعہ جگہ پر پوجا کرنے کا کوئی حق تھا ۔
تیسواںسوال14): کیا ہندو متنازعہ جگہ پر رام جنم بھومی یا جنم استھان کی حیثیت سے پوجا کرتے رہے ہیں او رایک مقدس زیارت کرنے کی جگہ کی حیثیت سے نامعلوم مدتوں سے زیارت کرتے رہے ہیں اگر ہاں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہی۔
اکتیسواں سوال (a)19 : کیا عمارت کی تعمیر کے بعد بھی بھگوان شری رام براجمان اور استھان شری رام جنم بھومی کی مورتیاں متنازعہ جائیداد پر موجود رہی ہیںجیساکہ مدعاعلیہ 13 کا دعویٰ ہے اور پجاری مذکورہ جگہ کی پوجا کرتے رہیں ہے ،اگر ہاں تو کیا مذکورہ جائیداد کے مالک مذکورہ دیوتاہیں ۔
بتیسواں سوال (c)19 : کیا متنازعہ عمارت کی تعمیر سے پہلے جائیداد کا کوئی بھی حصہ ہندئووںکی عبادت گاہ کے طور پر زیر استعمال رہا ہے ۔اگر جواب ہاںمیں ہے تو کیا کوئی مسجد اسلام کے بنیادی اصولو ں کو مدنظر رکھتے ہوئے متنازعہ جگہ پر وجود میں آسکتی تھی۔
جواب … سوالات 28تا 32کا فیصلہ مدعی کے خلاف کیا گیا ۔
تینتیسواں سوال12):کیا مورتیاں اور عبادت کی چیزیں عمار ت کے اندرونی حصہ میں 22 اور 23 دسمبر 1945ء کی درمیانی رات میں رکھی گئیں جیسا کہ دعویٰ کے پیرا گراف 13میں کہا گیا ہے ،دونوں صورتوں میں نتیجہ ۔
جواب… مورتیاں عمارت میں 23/22دستمبر949ء کے درمیانی رات میں رکھی گئیں۔
چونتیسواںسوال17): کیا متنازعہ جائیداد سے متعلق 1936 کے مسلم وقف ایکٹ (3) کی دفعہ 5/1کے تحت کوئی قانونی طور پر مسلم کبھی بھی اطلاع نامہ جاری کیاگیا؟ اس کا نتیجہ
جواب… اس امر کا فیصلہ فاضل سول جج 21-4-1966کے آرڈر کے ذریعہ کرچکے ہیں۔
پینتیسواںسوال18):غلام عباس ودیگر بنام اترپردیش مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا فاضل سول جج 21-4-1966 کے قضیہ 17سے متعلق آرڈر پر کیا اثر ہوگا؟
جواب… مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ کیا گیا۔
چھتیسواں سوال (b)19 : کیا عمارت میں داخلہ کا راستہ چاروں طرف سے بند ہے اور ہندوعبادت گاہ سے گزرے بغیر عمارت میں داخل نہیں ہوا جاسکتا اگر ہاں تو اس کا نتیجہ۔
جواب… مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ کیاگیا۔
سینتیسواں سوال (d)19 : کیا زیربحث عمارت اسلامی قانون کے اندر مسجد نہیں ہوسکتی تھی، کیوں کہ یہ امر معترف بہ ہے کہ اس میں کوئی مینار نہیں تھا۔
جواب… مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ کیا گیا۔

اڑتیسواں سوال (e)19 : کیا زیر بحث عمارت قانونی طور پر مسجد نہیں ہوسکتی تھی کیوں کہ مدعی کے اپنے بیان کے مطابق وہ سہ طرفہ قبرستان سے گھری ہوئی تھی۔
جواب… مدعی کے خلاف فیصلہ کیاگیاکہ ایسی عمارت مسجد نہیں ہوسکتی لیکن فاضل جج ایس یو خان نے اس سے اختلاف کیاہی۔
انتالیسواں سوال (f)19 : کیا متنازعہ عمارت کے اندرونی اور بیرونی حصہ میں واقع ستونوںپر ہندو دیوی دیوتائوں کی صورتیں بنی ہوئی ہیں ، اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو کیا اس بناپر متنازعہ عمارت اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق مسجدنہیں ہو سکتی
جواب… مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں کیا گیا یعنی ستونوں پر مورتیاں کنداں ہیں اس لیے یہ عمارت مسجد نہیں لیکن فاضل جج ایس یو خان نے اس سے اختلاف کیا۔
چالیسواں سوال (a)20 : کیا مذکورہ وقف سنی وقف نہیں ہو سکتاکیوں کہ متازعہ عمارت بیان کے مطابق کسی سنی محمڈن نے نہیں بنائی تھی بلکہ اسے بیان کے مطابق میر باقی نے بنایاتھا جو کہ ایک شیعہ مسلم تھا اور مبینہ متولیان شیعہ تھی، اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا نتیجہ…
جواب… مدعی کے خلاف کیاگیا لیکن فاضل جج ایس یو خان نے اختلاف کیا۔
اکتالیسواں سوال (b)20 : کیا مبینہ وقف کا کوئی متولی تھا اور چونکہ وہ مبینہ متولی زیربحث مقدمہ میں فریق نہیں ہے تو کیا یہ مقدمہ قبضہ حاصل کرنے کے مطالبہ کے بارے میں قابل سماعت نہیں ہی۔
جواب… مقدمہ قابل سماعت نہیں ہے اور اس قضیہ کا فیصلہ مدعا علیہ کے حق میں کیا گیا یعنی چونکہ اس مسجد کا کوئی متولی نہیں ہے اس لیے وقف بورڈ قبضہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔
بیالیسواںسوال21): کیا یہ مقدمہ ناقص ہے کیوں کہ مبینہ دیوتاؤں یعنی رام للا کو فریق نہیں بنایاگیا ہی۔
جواب…مدعی کے خلاف اور مدعاعلیہ کے حق میں فیصلہ کیاگیا۔
تینتالیسواںسوال23):کیا وقف بورڈ اسٹیٹ کا آلہ کار ہی، اگر ہاں تو کیا مذکورہ وقف بورڈ اسٹیٹ کے خلاف ہی مقدمہ دائر کرسکتا ہی؟
چوالیسواںسوال24):کیا وقف بورڈ دستور کے آرٹیکل 12 کے تحت اسٹیٹ ہے اگر ہاںتو اسٹیٹ ہوتے ہوئے مذکورہ وقف بورڈ نمائندہ کی حیثیت سے ایک مخصوص قوم کی طرف سے دوسری مخصوص قوم کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتا ہی؟
جواب…مدعی کے خلاف فیصلہ کیاگیا اور مقدمہ قابل سماعت نہیں ہے لیکن فاضل جج ایس یو خان نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
پینتالیسواںسوال25):کیا متنازعہ ڈھانچہ کے گرائے جانے کے بعد جیساکہ مدعی کا دعویٰ ہے اسے اب بھی مسجد کہا جاسکتا ہی، اگر نہیں تو مدعی کا دعوی خارج کیا جانا چاہیے کیوں کہ اب وہ برقرار رکھے جانے کے قابل نہیں ہی۔
جواب … مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں کیا گیا۔
چھیالیسواںسوال26):کیا مسلمان کھلی ہوئی جگہ کو مسجد کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں جبکہ وہاں پر کھڑے ڈھانچہ کو گرایا جاچکا ہی۔
جواب… مدعی کے خلاف اور مدعا علیہ کے حق میں کیا گیا یعنی مسلمان اسے مسجد کے طور پر استعمال نہیں کرسکتی۔
سینتالیسواںسوال27):کیا بیرونی احاطہ میں رام چبوترا، بھنڈار اور سیتارسوئی تھے تو کیا 6دسمبر 1992ء کو مرکزی مندر کے ساتھ انھیں بھی ڈھادیا گیا۔
جواب … اثبات میں فیصلہ کیاگیا۔
اڑتالیسواںسوال16):کیا مدعیان کسی بھی راحت دیئے جانے کے حق دار ہیں؟
اننچاسواںسوال22):کیا مقدمہ کو خصوصی ہرجانہ کے ساتھ خارج کیا جانا چاہیی۔
جواب … مدعی کسی بھی راحت کے حق دار نہیں ہیں، مقدمہ کو معمولی ہرجانہ کے ساتھ خارج کیا جاتا ہی۔
بابری مسجد مقدمہ عوام کی عدالت میں… خود فیصلہ کریں کہ کیا کرنا چاہیی
نیاز احمد فاروقی
ایڈووکیٹ دہلی ہائی کورٹ، سکریٹری جمعیۃ علماء ہن

No comments: