Tuesday, August 3, 2010

’ہندو‘ شری رام کے کردار میں بستا ہے راون کے نہیں!

عزیز برنی

ہندو دہشت گردی کا مطلب ہندو مذہب کی دہشت گردی نہیں ہے۔ مسلم دہشت گردی کا مطلب مذہب اسلام کی دہشت گردی نہیں ہے۔ راون ہندو تھا، ہندو مذہب کا اچھا جانکار تھا، ویدوں کا زبردست جانکار تھا، مگر عمل دہشت گردوں جیسا تھا، لہٰذا اس کی کسی بھی حرکت کو، اس کے کسی بھی عمل کو ہندو مذہب سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے۔ بس ہمیں کرنا یہ ہے کہ ہندو مذہب کو شری رام کا مذہب مانیں، راون کا نہیں اور ہندو دھرم میں جو راون جیسے ہیں، انہیں بے نقاب کریں۔ اگر ایسے کچھ لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور انہیں ہندو دہشت گردوں کی شکل میں بے نقاب کیا جارہا ہے تو یہ ہندو دھرم کے لےے دسہرے کے تیوہار کی طرح خوشی کی علامت ہے، نہ کہ افسوس کا یاشرمندگی کا مقام۔ اگر ہندو دھرم کا سہارا لے کر کچھ لوگ راون کے نقش قدم پر چلنے والوں کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں شری رام کے آدرشوں پر چلنے والا کیسے کہا جاسکتا ہے۔ ہندو دھرم کا سچا انویائی کیسے کہا جاسکتا ہے۔ سچے انویائی، سچے ہندو، سچے رام بھکت تو وہ ہیں، جو ہندو دھرم میں چھپے راون کے انویایوں کو ڈھونڈ نکالنے اور انہیں بے نقاب کرنے کا کام کررہے ہیں۔ اگر ایسا ہی کام شہید ہیمنت کرکرے نے کیا تو وہ سچے ہندو بھی تھے اور سچے دیش بھکت بھی۔ یہ تو ہوئی بات ہندو دھرم کی اور ہندوؤں کی پہچان کی۔آئےے اب کچھ بات کریں، ان کی جنہوں نے پہلے شری رام کا راج نیتی کرن کیا اور اب دہشت گردی کا راج نیتی کرن کررہے ہیں۔
آج کل بھارتیہ جنتا پارٹی کے خیمہ میں بڑی ہلچل ہے۔ بڑے سے بڑے نیتا یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ امت شاہ کی گرفتاری کے بعد یہ آگ کبھی بھی ان کے دامن تک پہنچ سکتی ہے، اس لےے بار بار یہ دہرا رہے ہیں کہ اگر نریندرمودی پر ہاتھ ڈالا گیا تو یہ آگ میں ہاتھ ڈالنے جیسا ہی ہوگا۔ وہ جو بھی کہنا چاہتے ہیں، اگر ہم ان کا اشارہ غلط نہیں سمجھ رہے ہیں تو وہ یہی ہے کہ اگر ہندو دہشت گردوں کے چہروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی اور کڑیاں جوڑتے جوڑتے آخری سرے تک پہنچنے کا ارادہ کیا گیا تو خوفناک انجام بھگتنے کے لےے تیار رہنا ہوگا۔ ہم بیحد ادب سے یہ عرض کردینا چاہتے ہیں کہ انجام نہ تو کانگریس پارٹی کو بھگتنا ہوگا اور نہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو۔ انجام تو بہرحال معصوم بے گناہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے، لیکن کیا اس ڈر سے دہشت گردی کو جاری رہنے دیا جائے۔ ان چہروں کو بے نقاب نہ کیا جائے، جو نہ صرف متعدد دہشت گردانہ حملوں کے لےے ذمہ دار ہیں، بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کے لےے بھی ذمہ دار ہیں۔ بالفاظ دیگر ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں، ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کررہے ہیں، ملک کو پھر سے توڑ ڈالنے کی سازشیں کررہے ہیں، اگر نریندر مودی کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں تو وہ لاکھ یہ دعویٰ کریں کہ وہ کسی سے ڈرتے نہیں ہیں، یہ ڈر ان کی چوکھٹ تک پہنچ ہی جائے گا۔ ان کی پارٹی کے بڑے لیڈران بھلے ہی ببانگ دہل یہ دعویٰ کریں کہ اس آگ میں ہاتھ ڈالنے کا انجام خطرناک ہوگا، بےشک وہ سڑکوں پر اتر آئیں، افراتفری کا ماحول پیدا کردیں، لیکن کیا سچ کو دبا سکیں گے۔ کیا مالیگاؤں کا سچ دبایا جاسکا؟ نہیں ہیں آج ہمارے درمیان شہیدہیمنت کرکرے۔ مانا کہ ان کی تحقیقات کا معاملہ ذرا سست ہوگیا، یہ بھی درست ہے کہ تقریباً ایک برس پورا ملک سکتہ کے عالم میں رہا۔ ہم شہیدہیمنت کرکرے جیسے جانباز کو کھودینے کے دکھ سے ابھر نہیں پائے، مگر کیا وہ تمام ملزمین آج بھی چین کی سانس لے پارہے ہیں، وقتی مسکراہٹ ضرور کچھ چہروں پر نظر آئی، مگر اپنے انجام سے بے خبر وہ بھی نہیں ہیں۔ نریندرمودی کے ذریعہ بار بار نفسیاتی اعتبار سے گاندھی کے گجرات کے باشندوں کے جذبات کو ہوا دینے کی کوشش، ہر بات کو گجرات کے وقار سے جوڑ دینے کی کوشش ان کے سیاسی حربے کو کارگر نہیں بناسکتی۔ اگر سہراب الدین کیس گجرات کی عدالت سے باہر چلا گیا تو گجرات کا وقار داؤ پر لگ جائے گا، یہ کیسے سوچ لیا انہوں نے۔ گجرات کے وقار کو بچانے کے لےے ہی تو ایسے تمام چہروں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے، جو گجرات کے ماتھے پر کلنک بن گئے ہیں۔ اس بات کا اعتراف تو ہندوستان کے سابق وزیراعظم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بڑے لیڈر اٹل بہاری واجپئی نے بھی کیا تھا۔
اسی طرح بعض ہندو دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہوجانے پر اور لفظ ’’ہندودہشت گردی‘‘ کا استعمال ہونے پر تمام ہندو بھائیوں کے جذبات کو ہوا دینے کی سازش بھی اب کسی سے چھپی نہیں ہے۔ ہندو دہشت گردی کا مطلب ہندو مذہب کی دہشت گردی ہوہی نہیں سکتا اور اگر کوئی ہندو دہشت گرد ہے تو اسے صرف اس بنا پر بخشا نہیں جاسکتا کہ وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے، یہ اس ملک کا قانون ہے اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یا وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ ہوں۔ ہمارے پاس ابھی تک جتنا مواد موجود ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امت شاہ کی حیثیت نریندر مودی کے ایک فرمانبردار کارکن سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔ ہم اپنے اس مسلسل مضمون کی اگلی قسط میں وہ تمام حقائق جو سی بی آئی کی تفتیش کے بعد سامنے آئے ہیں اور مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچے ہیں، اپنے قارئین کے سامنے رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس میں پرجاپتی کے سیاسی استعمال اور قتل کئے جانے کی داستان بھی شامل ہے اور کس طرح نریندرمودی اور امت شاہ کی ایما پر سہراب الدین کو گجرات لاکر ایک فرضی انکاؤنٹر کا شکار بنایاگیا، اس کی بیوی کوثر بی کا قتل کرکے اس کی لاش کو جلایا گیا اور راکھ ندی میں بہادی گئی، تمام تفصیل موجود ہے، لیکن آج ہم اپنے اس مضمون میں شامل اشاعت کررہے ہیں، کچھ ایسی اہم خبروں کے تراشے، جنہیں ہم نے ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ سے لیاہے۔ یقینا یہ ہم سب کے لےے اطمینان کی بات ہے کہ اب ہمارا قومی میڈیا بھی دہشت گردی کے خاتمہ کی مہم میں جٹ گیا ہے اور اسے اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں ہے کہ اس کی زد میں کون آرہا ہے اور کون آسکتا ہے۔ ہماری تحقیقی صحافت کا سلسلہ جاری رہے گا، ملاحظہ فرمائیں کچھ اہم خبروں کے تراشے اور اندازہ کریں کہ یہ آگ اب کس کس کے دامن تک پہنچ رہی ہے۔ ہم پھر حاضر ہوں گے کل آپ کی خدمت میں کچھ نئی اور اہم معلومات کے ساتھ۔
مودی نے سہراب الدین کیس میں تفتیشی ٹیم میں تبدیلی کی ہدایت دی تھی
گیتا جوہری پر دباؤ ڈال کر انکوئری کو غلط سمت دی: سی بی آئی
نئی دہلی، ( دھننجے مہاپاترا ، ٹائمس نیوز نیٹ ورک)
سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس میں سی بی آئی کے ذریعہ وزیر اعلی نریندر مودی کو پوچھ گچھ کے لئے طلب کئے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔سی بی آئی کا دعوی ہے کہ اس کے پاس ثبوت ہیں کہ مودی نے اس کیس کی تفتیش کو دبانے کی کو شش کی۔سی بی آئی کا یہ بھی دعوی ہے کہ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کی تفتیش کرنے والی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی سربراہ گیتا جوہری پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ انکوائری کو غلط سمت میں لے جائیں۔ذرائع کے مطابق اس کیس کی رپورٹ جو سپریم کورٹ کو پیش کی گئی ہے، اس میں سی بی آئی نے دعوی کیا ہے کہ اس کے پاس وہ فائل موجود ہے، جس پر لکھے گئے نوٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس کیس میں پولس افسران ابھئے چوڈاساما اور این کے امین خود ملوث ہیں، اس کیس کی تفتیش کرنے والی ٹیم میں ان دونوں افسران کی تقرری نریندر مودی کی ہدایت پر کی گئی تھی۔اس فائل نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سی ایم (وزیر اعلی نریندر مودی) کی ہدایت جو ایک اعلی افسر (اس افسر کانام پوشیدہ رکھا گیا ہے) سے ملی، ایس آئی ٹی میں تبدیلی کی گئی۔
جمعہ کے روز سی بی آئی نے کہا کہ اس کو سہراب الدین اور اس کی بیوی کوثر بی کیس کی تفتیش کو پوری کرنے کے لئے مزید وقت درکار ہے، کیوں کہ اب تک کی تفتیش سے لگتا ہے کہ اس معاملے میں سابق وزیر داخلہ امت شاہ سے اوپر کے لوگ ملوث ہیں، خیال رہے کہ hirarchy ضابطے کے مطابق گجرات کے سابق وزیر مملکت امت شاہ سے اوپر وزارت داخلہ کے انچارج نریندر مودی ہیں اور وہی سینئر افسران کے تبادلے اور تقرری کے لئے ذمہ دار ہیں۔ذرائع کے مطابق سی بی آئی کا کہنا ہے کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گیتا جوہری نے یہ دھمکی ملنے کے بعد کہ گجرات میں تعینات ان کے شوہر کے خلاف، جو کہ انڈین فوریسٹ سروسز کے افسر ہیں، آفیشیل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے،اپنی تفتیش کو اس کے منطقی انجام تک لانے کی بجائے اچانک اس کے رُخ کو ہی موڑ دیا تھا۔
گیتا جوہری کو پلاٹ بدلنے پر مجبور کیا گیا
دھننجے مہا پاترا(ٹی این این)
نئی دہلیسی بی آئی نے اشارہ دیا ہے کہ اس کے پاس ایسے شواہد ہیں، جو ثابت کرتے ہیں کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سہراب الدین انکائونٹر میں براہ راست ملوث ہیں۔ اس میں ایک ایسی فائل بھی موجود ہے کہ جس میں ہدایت دی گئی ہے کہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) میں پولس افسران ابھے چوڈاساما اور این کے امین کو شامل کیاجائے۔چوڈاساما اور امین کو ایس آئی ٹی میں اس لےے شامل کیا گیا تھا، تاکہ وہ گیتا جوہری کی قیادت والی ایس آئی ٹی کی سمت پر نظر رکھ سکیں، کیونکہ گیتا جوہری نے اس بات کا پتہ لگالیا تھا کہ سہراب االدین اور کوثر بی کے ساتھ ایک تیسرا شخص کوئی اور نہیں، تلسی رام پر جاپتی تھا۔ گیتا جوہری راجستھان جیل میں قیدپرجاپتی سے پوچھ گچھ بھی کرنا چاہتی تھیں۔
سی بی آئی کے ذرائع کے مطابق گیتا جوہری کے منصوبے کا پتہ ایس آئی ٹی میں تعینات کیے گئے ان افسران کی مخبری کی وجہ سے ہی لگا۔ ان دونوں کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں نے پرجاپتی کو ایک فرضی انکائونٹر میں ہلاک کردیا تھا۔ پرجاپتی کا فرضی انکائونٹر اس سے صرف ایک دن قبل کیا گیا، جس روز گیتا جوہری اس سے پوچھ گچھ کرنے والی تھیں۔
سی بی آئی اب ان گرفتار اعلیٰ پولس افسران سے پوچھناچاہتی ہے کہ وہ نریندر مودی کیوں چوڈاساما اور امین کو ایس آئی ٹی میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کو اس بات کا پتہ کب چلا کہ یہ دونوں افسران اس فرضی انکائونٹر میں ملوث ہیں، جن کی تفتیش خود ایس آئی ٹی کررہی ہے۔
سی بی آئی یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ جب گیتا جوہری کو ایس آئی ٹی سے ہٹانے کے بعد ان کی جگہ رجنیش رائے کو کیوں لایا گیا اور پھر ان کو بھی کیوں ہٹادیا گیا۔
پہلی حکمت عملی : یعنی تمام گواہوں کو فرضی انکائونٹر میں ہلاک کرنے پر کام شروع کیا گیا اور ایس آئی ٹی میں اپنے لوگ تعینات کرنے کے بعد، دوسری حکمت عملی، جو گیتا جوہری کی تفتیش کو غلط سمت میں لیجانے کے لیے مجبور کیا جانا تھی۔
سی بی آئی کا دعویٰ ہے کہ گیتا جوہری کے شوہر، جو آئی ایف ایس ہیں کے خلاف اسپیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت معاملات چل رہے ہیں، اس کیس کے ذریعہ گجرات حکومت گیتا جوہری سے سپریم کورٹ میں کہلوانا چاہتی تھی کہ اغوا کیا جانے والا تیسرا آدمی تلسی پرجا پتی نہیں، بلکہ کلیم الدین تھا اور آندھرا پردیش پولس، جس نے گجرات اور راجستھان پولس کو پوری مدد فراہم کی تھی، یہ بات سپریم کورٹ کو بہتر طور پر بتانے میں کامیاب ہوتی

No comments: