Thursday, August 5, 2010

وہ لشکر کی کہانی میںفٹ ہوتا تو اسی وقت مار دیا جاتا

عزیز برنی

میں ریسرچ کا ایک ایسا طالب علم ہوں، جس کی ریسرچ کبھی مکمل نہیں ہوگی، مگر مجھے ہر روز اپنی تھیسس اپنے قارئین اور حکومت ہند کی خدمت میں پیش کرنی ہوتی ہے۔ آج کل میری ریسرچ کا موضوع ہے ’سہراب الدین شیخ کا فرضی انکاؤنٹر اور گجرات سرکار سے اس کا تعلق‘، لیکن اس موضوع پر سارا کچھ میں خود نہیں لکھ رہا ہوں۔ حالانکہ ہے بہت کچھ ہے ہمارے پاس، وہ بھی جو ہم دیگر میڈیا کے حوالے کے ساتھ شائع کررہے ہیں اور اس کے علاوہ بھی، لیکن ایسا ہم اس لےے کہ اگر اس موضوع پر سب کچھ صرف عزیز برنی لکھے تو خود کو ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کہنے والا اور اس کی شان میں دن رات قصیدے پڑھنے والوں کو یہ موقع مل جائے گا کہ اردو اخبارات اور اردو صحافی تو تعصب کا شکار ہیں، ہمارے خلاف زہر اگلتے ہی رہتے ہیں،ان کی ہر بات پر کیا توجہ دینا، لہٰذا مناسب یہ سمجھا گیا کہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں کسی ریاست کے وزیرداخلہ کا ایسا چہرہ پہلی بار سامنے آیا ہے، جو منظم طریقے سے جرائم کی دنیا سے وابستہ نظر آتا ہے اور جس نے اپنے عہدے کا استعمال مجرمانہ سرگرمیوں کے لےے کیا، اس کی پوری حقیقت منظرعام پر لائی جائے۔ آج قومی میڈیا سہراب الدین مرڈرکیس کے بارے میں سی بی آئی کے حوالہ سے یا اپنی تحقیق کی بنیاد پر بہت کچھ سامنے رکھ رہا ہے، وہ ہمیں بھی دستیاب ہے، مگر ایک ریسرچ اسکالر صرف اپنی بات نہیں کہتا، بلکہ حقائق کی تلاش میں اس کی جستجو جاری رہتی ہے اور وہ اپنے ریسرچ پیپر میں ان سب کا حوالہ پیش کرتا ہے، جو اس موضوع پر کوئی اہم بات کہہ رہے ہوں۔ آج بھی جن صحافیوں کی رپورٹ میرے سامنے ہے، ان کے اسمائے گرامی ہیں اوشا چاندنا، آلوک تومراور ملندگھاٹ وال۔ ایک ہندی اخبار میں امت شاہ کی شان میں بہت قصیدے پڑھے گئے، مضمون نگار بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ ہیں، مگر ہمارے سامنے جو رپورٹس ہےں، ان میں امت شاہ کا ایک دوسرا چہرہ نظر آتا ہے۔ ہرشد مہتا شیئرگھوٹالہ کے بعد گجرات میں جس 5ہزار کروڑ روپے کے کوآپریٹوبینک گھوٹالہ کا پردہ فاش ہوا، اس میں گجرات کے سابق وزیرمملکت برائے داخلہ کا نام بھی شامل ہے۔ کانگریسی لیڈر ارجن موڈواڈیا نے ایک جانچ رپورٹ کے ذریعہ امت شاہ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے رشوت لے کر کیتن پارکھ کو ضمانت دلانے میں مدد کی۔
ہم جانتے ہیں کہ سہراب الدین شیخ کوئی بھلا آدمی نہیں تھا۔ اس کا ایک مجرمانہ ریکارڈ تھا، مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ امت شاہ کے لےے بھی کام کرتا تھا۔ ذیل میں اہم جانکاریاں سامنے رکھ رہے ہیں۔
سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کا گواہ تلسی پرجاپتی، جس کا بعد میں قتل کردیا گیا ایسی بہت سی سچائیوں سے واقف تھا، جس کے سامنے آنے پر گجرات سرکار پریشانی میں پڑسکتی تھی۔ اسے اپنی جان کا خطرہ تھا۔ یہ رپورٹ انڈین ایکسپریس میں6اپریل 2010کو شائع کی گئی، ملاحظہ فرمائیں ملند گھاٹ وال کی رپورٹ:
اجین 26اپریل : سہراب الدین شیخ جس کے فرضی انکائونٹر معاملے میں گجرات پولس کے تین آئی پی ایس افسران گرفتار ہوچکے ہیں۔ سہراب الدین کا دوست تلسی رام پرجاپتی نے ادے پور عدالت کو لکھا تھا کہ اس کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ آخر کار 28دسمبر کو شمالی گجرات کے امباجی کے قریب پرجاپتی کا قتل ہوگیا۔ پرجاپتی کاقتل آئی جی پولس گپتا جوہری کی، شیخ کی موت کو فرضی پانے کی رپورٹ کے کچھ دنوں بعد ہی ہوا۔ پولس کا دعویٰ ہے کہ پرجاپتی کی موت بھی ایک مڈبھیڑ میں ہوئی جب وہ پولس حراست سے فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا۔
پرجاپتی نے سہراب الدین کے بھائی کو بھی محتاط رہنے اور گجرات میں داخل نہ ہونے کی غلطی نہ کرنے کے لئے متنبہ کیا تھا۔ پرجاپتی کا کہنا تھا کہ سہراب الدین قتل معاملے میں عدالت سے رجوع کرنے پر پولس نے مڈبھیڑ میں ختم کرنے کامنصوبہ بنایا تھا۔
سہراب الدین کے بھائی رباب الدین جس کی سپریم کورٹ میں عرضی پر ڈی آئی جی ڈی جی ونجارا اور دو دوسرے آئی پی ایس افسر سہراب الدین فرضی مڈبھیڑ معاملے میں گرفتار ہوئے۔ رباب الدین نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پرجاپتی کو پہلے سے معلوم تھا کہ وہ ماراجائے گا۔ حقیقت میں اس نے پولس سے پوچھا تھا کہ کیوں اسے سہراب الدین کے ساتھ ہی نہیں مار دیا تھا۔‘
رباب الدین نے پرجاپتی کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجھے سہراب الدین کے ساتھ اس لئے نہیں مارا گیا کیونکہ میں ہندو تھا اور میں پولس کی کہانی کہ لشکر نریندرمودی کو مارنا چاہتا ہے میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔ پرجاپتی نے ادے پور جیل اور سنوائی کے لئے جاتے ہوئے راستے میں اپنی حفاظت کے خدشے کے مدنظر ادے پور سیشن کورٹ کو 9صفحہ کا خط روانہ کیا تھا۔
رباب الدین نے بتایا کہ پرجاپتی کے قتل ہونے سے کئی ماہ قبل پرجاپتی نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ وہ اجین میں سنوائی کے دوران اس سے مل جائے۔ اس نے بتایا کہ مڈبھیڑ کرنے والے پولس اہلکار اس (رباب الدین) کو ضرور نشانہ بنائیں گے، کیونکہ وہ عدالت کے معاملے کو آگے بڑھا رہا ہے اور نیاب الدین (پانچ شیخ بھائیوں میں سب سے چھوٹا) کو کیونکہ وہ سرگرمی کے ساتھ ثبوت یکجا کرنے میں لگا ہے اور سہراب الدین کی گم ہوئی بیوی کوثر بی کو بھی تلاش کررہا ہے۔
جوہری کی رپورٹ بتاتی ہے کہ شاید پرجاپتی حیدرآباد سے سانگلی اسی بس میں سہراب الدین اور کوثر کے ساتھ سفر کررہا تھا جب پولس نے انہیں اٹھایا تھا اور نومبر 2005میں گجرات لائی تھی۔
27سالہ پرجاپتی اجین کے شانتی نگر جھگی بستی کا رہنے والا تھا اور مدھیہ پردیش، راجستھان اورگجرات میں اس کے خلاف جبراً وصولی، قتل اور چوری کے کئی معاملے تھے۔ پولس کا کہنا ہے کہ وہ شریف خان گروہ کا شوٹر تھااور مڈبھیڑ میں موت سے کچھ دنوں قبل جب احمدآباد سے ادے پور لے جایا جارہا تھا وہ فرار ہوگیا تھا۔
پرجاپتی اور سہراب الدین دونوں دوست بن گئے جب مدھیہ پردیش کی بھیرو گڑھ جیل میں قید تھے۔ دونوں نے ایک ساتھ گجرات اور راجستھان میں مل کر کام کیا اور کئی معاملات میں شامل تھے۔
تلسی پرجاپتی، جسے دسمبر006میں ایک انکاؤنٹر میں مار دیا گیا، اس کی وجہ کیا تھی اور اس حادثہ سے امت شاہ کا کیا تعلق تھا یہ سمجھنے کے لےے ستمبر006سے جنوری007تک گجرات کے سابق وزیرمملکت برائے داخلہ امت شاہ کے موبائل فون کی کال ڈیٹیلس کو ذہن میں رکھنا ہی کافی ہوگا۔ امت شاہ وپل اگروال، راج کمار پانڈیان، ڈی جی ونجارا سے لگاتار ٹیلی فون کے ذریعہ رابطہ میں رہے اور کال ریکارڈ کے مطابق تینوں پولس افسران سے 155منٹ باتیں ہوئیں۔ 7دسمبر006کو جب سپریم کورٹ میں پہلی بار درخواست گزاری گئی، تب امت شاہ نے ان پولیس افسران کو 20مرتبہ فون کیا۔ دسمبر006میں 42بار اور جنوری007 میں 73مرتبہ فون کیا گیا۔ 7اکتوبر004 سےمارچ005تک امت شاہ نے راجکمارپانڈیان سے 277مرتبہ بات کی۔ اس درمیان سہراب الدین اور پرجاپتی نے کئی جانے مانے بلڈروں کے یہاں وصولی کے لےے فائرنگ کی تھی اور اسی دوران ڈی سی پی ابھے چوڈاساما اور سہراب الدین کے رشتے ظاہر ہوگئے تھے۔ بعد میں چوڈاساما کو گرفتار کرلیا گیا اور یہ حقیقت مکمل طورپر سامنے آگئی کہ چوڈاساما کے سر پر امت شاہ کا ہاتھ تھا۔ امت شاہ کے موبائل824010090 اور825049392، اس کے علاوہ لینڈلائن فون 079-26404230سے راجکمار پانڈیان کے فون پر سیکڑوں کالس کی گئیں۔ دونوں کے درمیان تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹے باتیں ہوئیں۔ اب اس کی صفائی میں کچھ بھی کہا جائے، لیکن کسی بھی ریاست کے وزیرداخلہ اور اس کے ماتحت پولیس افسران کے بیچ اتنی بار کال کیا جانا اور اتنی لمبی باتیں ہونا بہت کچھ واضح کردیتا ہے۔ ہمارے پاس واقعات کی تفصیل میں جانے اور کہنے کے لےے بہت کچھ ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ سہراب الدین اور امت شاہ کے درمیان رشتوں کو ظاہر کرنے والی یہ رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے، جو 25جولائی کو نوبھارت ٹائمس میں شائع کی گئی، جس کا عنوان تھا
’کبھی شاہ کا ہی گُرگا تھا سہراب الدین‘
احمداباد، سہراب الدین انکائونٹر معاملے میں سی بی آئی نے گجرات کے سابق وزیر مملکت برائے داخلہ امت شاہ کے خلاف داخل چارج شیٹ میں ان پرقتل جبراً وصولی، اغوا اور مجرمانہ سازش کے الزامات عائد کئے ہیں۔ چارج شیٹ کے مطابق شاہ ریاست کے سینئر پولس افسران کے ساتھ مل کر جبراً وصولی کا ریکٹ چلاتے تھے۔ شاہ اس کے سرغنہ تھے اور سہراب الدین فرنٹ مین تھا، جبکہ سی ڈی آئی جی ڈی جی ونجارا اور ڈی سی پی ابھے چوڈاساما درمیان کی کڑی تھے۔ چاروںمل کر اس دھندے کو چلارہے تھے۔
سی بی آئی کا دعویٰ ہے کہ بعد میں سہراب الدین نے اکیلے ہاتھ پیر مارنے شروع کردئے۔ اس نے راجستھان کے کئی ماربل تاجروں سے جبراً وصولی شروع کردی، جو اس وقت راجستھان میں بی جے پی کے اقتدار کے محور کے قریبی تھے۔ یہیں سے شاہ اور سہراب الدین کے رشتوں میں تلخی آگئی۔ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ شاہ اپنی حد سے واقف تھے، لیکن سہراب الدین اس سے بے پروا تھا۔ جب شاہ سے سہراب الدین کو قابو میں کرنے کے لیے کہا گیا تو ان کے پاس اسے راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ سہراب الدین 2002 سے ہی تلسی پرجاپتی کے ساتھ گروہ بناکر وصولی کا کام کر رہا تھا۔ گروہ بنانے کے بعد اس نے اپنے حریف حامد لالہ کا قتل کردیا۔ سی بی آئی کے مطابق 2004میں سہراب الدین نے راجستھان کے آر کے ماربل کے مالک پٹنی برادرس کو وصولی کے لیے فون کیا۔ اس کے بعد بڑھتے دبائو کے درمیان شاہ نے بی جے پی کے چوٹی کے لیڈروں کی نظر میں چڑھنے کے لیے سہراب الدین سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ڈی جی ونجارا کو اس کے قتل کا حکم دیا، جبکہ اس کے خلاف گجرات میں کوئی بھی معاملہ درج نہیں تھا۔ چارج شیٹ کے مطابق ونجارا نے احمد آباد پولس کی کرائم برانچ کے سربراہ ابھے چوڈاساما سے رابطہ کیا اور سہراب الدین کے خلاف گجرات میں معاملہ درج کیا گیا۔ چوڈاساما نے تلسی پرجاپتی سے رابطہ کیا اور سہراب الدین کو گجرات بلانے کے لیے کہا۔ ونجارا نے بھی پرجاپتی سے ملاقات کی اور اسے یقین دہانی کرائی کہ سہراب الدین کا قتل نہیں کیا جائے گا۔
سی بی آئی کا دعویٰ ہے کہ ونجارا نے پرجاپتی سے کہا کہ یہ ایک سیاسی دبائو ہے۔ ہم سہراب الدین کو صرف گرفتار کریں گے، اس کے بعد پرجاپتی نے پولس کو سہراب الدین کا پتہ ٹھکانہ بتادیا۔ ونجارا اور چوڈاساما نے ایک مقامی بزنس مین سے کوالس کارلی، پھر ڈنگولا کے پاس اس بس کو روکا، جس میں سہراب الدین اپنی بیوی اور تلسی پرجاپتی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔
چارج شیٹ کے مطابق پولس نے سہراب الدین کو بس سے نیچے اترنے کو کہا۔ اس دوران سہراب الدین کی بیوی کوثر بی بھی ضد کرنے لگی کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے گی۔
اس دوران گجرات پولس نے پرجاپتی کو ایک پرانے کیس میں راجستھان بھیج دیا اور سہراب الدین کا قتل کردیا گیا، پھر اسے انکائونٹر کا نام دیا گیا۔ بعدمیں کوثر بی کا بھی قتل کردیا گیا۔ اس کی لاش ونجارا کے ہوم ٹائون ایلول میں جلادی گئی۔ اس کی راکھ نرمدا ندی میں بہا دی گئی۔
چارج شیٹ کے مطابق سہراب الدین کے بھائی رباب الدین نے اپنے بھائی کے قتل کی تفتیش کے لیے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی۔ اس کے بعد چوڈاساما نے کیس واپس لینے کے لیے اسے 50 لاکھ روپے کا لالچ دیا۔ جب رباب الدین نے انکار کردیا تو چوڈاساما نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی۔
lمیرے اس قسطوار مضمون کی آئندہ قسط بیرون ملک کے سفر سے واپسی کے بعد انشاء اللہ2اگست کو

No comments: