Thursday, April 8, 2010

امریکہ چاہتا ہے، اب ہیڈلی پر نہیں داؤد ابراہیم پر بات ہو!

عزیز برنی

اسے اپنے منھ میاں مٹھو بننے کی کوشش نہ سمجھی جائے تو آج ایک بات کہنے کو جی چاہتا ہے اور وہ یہ کہ امریکی عزائم اور ہندوستان کے تحفظ کے درمیان اگر کوئی شے آہنی دیوار کے طرح کھڑی ہے تو وہ ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘ ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں اس تاریخ ساز اردو روزنامہ کا ایڈیٹر ہوں، مگر ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی ہے کہ کیوں میں صرف ایک اردو اخبار کا ہی ایڈیٹر ہوں، انگریزی اور دیگر علاقائی اخباروں کا بھی ایڈیٹر کیوں نہیں۔ اس لےے کہ ہمارے ملک کے خلاف سازشی ذہن رکھنے والے جب کوئی بات کہتے ہیں تو ساری دنیا کا میڈیا اسے نمایاں طور پر جگہ دیتا ہے، مگر جب ہم اس سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تنہا کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ کچھ لوگ ساتھ آتے تو ہیں، مگر جب دل یہ صدا دیتا ہے کہ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے، بہرحال کوئی مایوسی نہیں… ممکن ہے یہ بھی مصلحتِ خداوندی ہو، جس طرح اس نے ابابیلوں کی چونچ میں دبے پتھروں کی مار سے ابرہا کے ہاتھیوں کے لشکر کو چبائے ہوئے بھوسے میں تبدیل کردیا، شاید روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع مضامین کا ایک ایک لفظ ایسی ہی ابابیلوں کی چونچ میں دبے پتھروں کی مانند بن جائے اور آج جو ہم لکھ رہے ہیں، وہ آنے والے کل کی تاریخ شمار کی جائے۔
میں نے اپنی کل کی تحریر میں ہی یہ لکھ دیا تھا کہ آج مجھے امریکی تھنک ٹینک کی تازہ رپورٹ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے، جس میں انہوں نے 26نومبر008کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے سے داؤدابراہیم کا تعلق ثابت کیا ہے۔ امریکہ جسے اپنی بے پناہ طاقت پر گمان ہے، وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے، ثابت کرسکتا ہے، مگر سچ 7 پردوں میں بھی چھپایا جائے تو ایک روز سامنے آتا ہی ہے، یہی ہمارایقین کامل ہے۔ بس ضرورت ہے تو تلاش حق میں ایک ایسی جستجو کی جو کبھی تمام ہونے کا نام ہی نہ لے۔
ہم مسلسل لکھ رہے تھے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے بارے میں، ایف بی آئی سے اس کے رشتوں کے بارے میں، امریکی خفیہ تنظیم سی آئی اے سے اس کے تعلق کے بارے میں، ممبئی کے راستے ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں اس کے ملوث ہونے کے بارے میں اور ثبوتوں دلیلوں کے حوالے سے واضح کررہے تھے کہ کس طرح اس نے نام اور ولدیت بدل کر ہندوستان میں اس خوفناک دہشت گردانہ حملے میں کلیدی کردار انجام دیا۔ تحقیق جس سمت میں جاری ہی تھی، ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہوئے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں یہ چہرہ ملوث نظر آنے لگا تھا، مگر حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ امریکہ خود اپنے بنے جال میں پھنستا نظر آیا۔ دراصل روزِاوّل سے ہی 26/11کے دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکی حکمراں مسلسل یہ کہتے چلے آرہے تھے کہ ہندوستان پر اس دہشت گردانہ حملے کی سازش پاکستان میں رچی گئی اور اس کوشش کے پیچھے چھپی منشا یہ تھی کہ جس طرح ہم نے بن لادن کے ذریعہ افغانستان میں بیٹھ کر 9/11کی سازش رچنے کے الزام میں افغانستان کو تباہ کردیا، افغانستان پر حملہ کیا، ہندوستان کو بھی اسی طرز پر 26/11کے دہشت گردانہ حملے کی سازش رچنے کے الزام میں پاکستان پر حملہ کردینا چاہےے، مگر ان کے اس ارادے کے درمیان ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کا اصل چہرہ آگیا اور جو بات پاکستان کے حوالے سے کہی جارہی تھی، اس کا رُخ خود امریکہ کی جانب مڑ گیا۔ اب اگر یہ سازش امریکی زمین پر ہندوستان کے خلاف رچی گئی، اور اس دہشت گردانہ حملے کا کلیدی مجرم اجمل امرقصاب نہیں ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ہے، اگر اس سازش کو رچنے والی تنظیم لشکرطیبہ نہیں، ایف بی آئی یا سی آئی اے ہے تو پھر ہندوستان کا موقف کیا ہونا چاہےے؟ اگر ہم امریکی طرزانتقام کو ہی درست قرار دیں تو پھر کیا پاکستان کی بجائے اس کا رُخ امریکہ کی طرف نہیں مڑجائے گا، لہٰذا ضروری تھا کہ اب امریکہ کوئی ایسا شگوفہ چھوڑے کہ ڈیوڈکولمین ہیڈلی کا نام پس پشت چلا جائے اور جس طرح اس حملے کے فوراً بعد سب کی زبان پر دہشت گرد کی شکل میں اجمل عامر قصاب کا نام تھا اور اس دہشت گردی کے سرچشمہ کے طور پر پاکستان کا نام تھا، پھر وہی صورتحال سب کو نظر آنے لگی، لہٰذا اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا ایک بہترین طریقہ یہی ہوسکتا تھا کہ امریکی تھنک ٹینک اپنی تحقیق کی بنیاد پر داؤد ابراہیم کا نام سامنے رکھ دے، کیونکہ آج داؤد ابراہیم کے نام کے ساتھ جوڑ کر وہ کچھ بھی کہے، کوئی دفاع کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ وہ گناہ جو اس نے کےے ہیں، وہ سب اس کے نام اور جو اس نے نہیں کےے وہ سب بھی اس کے نام، جو گناہ ہمارے دشمن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب بھی اس کے نام، اب کس میں ہمت ہے کہ ان الزامات کے رد میں ایک لفظ بھی کہے، لیکن اگر داؤد کا نام لے کر ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے، اصل مجرموں کو بچانے کی کوشش کی جائے تو پھر ہم چپ کیسے رہیں؟داؤد ابراہیم ہمارا مجرم ہے، ہمارے ملک کا مجرم ہے، ہم اس کے گناہوں کے بارے میں جانتے ہیں، ہماری خفیہ ایجنسیوں نے اس کے حوالے سے بہت سی وہ معلومات حاصل کررکھی ہیں، جن کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس وقت امریکی مدد کی ضرورت ہے، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے بارے میں، نہ کہ داؤد ابراہیم کے بارے میں۔ بات کو گھمانے کے فن کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ ایک بار پھر گیند کو پاکستان کے پالے میں ڈال کر خود صاف بچ جانا چاہتا ہے۔ ہم کرلیں گے داؤد ابراہیم کے گناہوں کا حساب، ہم طے کرلیں گے کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے، لیکن 26نومبر008کو ہندوستان پر جو دہشت گردانہ حملہ ہوا، اس کا کلیدی مجرم ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ہے، یہ اقبال جرم امریکی عدالت میں بھی محفوظ ہے، بات اس پر کیوں نہ کی جائے؟ امریکہ ہیڈلی کو ہمارے حوالے کیوں نہیں کرنا چاہتا، بات اس پر کیوں نہ کی جائے؟ ہم6/11سے جڑی ہر معلومات ہیڈلی سے حاصل کریں، امریکہ کو اس میں اعتراض کیوں ہے؟ ہیڈلی پر ہندوستان کی عدالت میں مقدمہ چلے اور اسے ہمارے قانون کے مطابق سزا دی جائے، اس میں امریکہ کو پریشانی کیا ہے؟
نہیں ملے گا ایسے کسی بھی سوال کا جواب، اس لےے کہ ہم جانتے ہیں ہر سوال کا جواب امریکہ کے اس چہرے کو بے نقاب کردے گا، جسے وہ چھپانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داؤد ابراہیم کے حوالے سے امریکی تھنک ٹینک کی پیش کردہ اس رپورٹ پر میری گفتگو کا سلسلہ اس حوالے سے جاری رہے گا، مگر پہلے ایک نظر اس رپورٹ پرجو ’’اسٹریٹیجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ آف دی یو ایس آرمی وار کالج‘‘ کے ذریعہ جاری کی گئی۔
دائود نے 26/11حملے میں مالی اور ساز وسامان کی مدد کی: رپورٹ
انڈرورلڈ ڈان دائود ابراہیم کی کراچی میں واقع ڈی کمپنی نے 26/11حملے میں حتی الامکان اہم رول نبھایا تھا۔ یہ انکشاف لشکر طیبہ پر جاری وزارت دفاع کے اسٹریٹیجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ آف دی یو ایس آرمی وار کالج کی رپورٹ میں ہوا ہے۔
رپورٹ کے اس نئے انکشاف سے ممبئی حملوں کے معاملے میں نیا موڑ آگیا ہے۔ دہشت گردانہ کارروائی کو انجام دینے میں ڈی کمپنی کی لشکر طیبہ کے دہشت گردوں کو ساز وسامان مہیا کرانے میں مدد ہوسکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دائود ابراہیم 1993سے پاکستان میں رہ رہا ہے۔ پاکستان میں اب اس کے پاس شاپنگ مال، عالیشان گھر اور سمندری جہاز ہیں جو ہندوستان میں ہتھیاروں او رہیروئن کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی کمپنی کے نفع کا ایک حصہ لشکر طیبہ کی مدد حاصل کرنے والے اسلامک ملی ٹینٹ گروپ کو جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ثبوت بتاتے ہیں کہ یہ تعلق 1993کے بعد میں اور 1994کی شروعات میں بنے۔ ٹائیگر میمن اور جموں و کشمیر اسلامک فرنٹ کے لیڈروں کے ساتھ اس کی تصویریں آئی ایس آئی کے مظفر آباد میں واقع پناہ گاہ سے سامنے آئیں اور یہ کشمیر میں مافیا کے پیسے کے استعمال کا پہلا ثبوت تھا۔
رپورٹ کے لکھنے والے ریان کلارک کا ماننا ہے کہ ڈی کمپنی نے سعودی عرب میں بھی اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ لشکر طیبہ ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں کے 60فیصد معاملوں کے لئے ذمہ دار ہے۔ لشکر طیبہ کے آئی ایس آئی اور دائود کی مدد سے دنیا کے کئی حصوں میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔
پوری دنیا میں لشکر طیبہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ جون 2003میں اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف کے امریکی دورے کے دوران بھی ایف بی آئی نے لشکر کے 7دہشت گرد امریکہ سے گرفتار کئے تھے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ تاہم اس خبر کو دبا دیا گیا تھا تاکہ صدر مشرف کو شرمندگی نہ ہو۔ واشنگٹن اور فلاڈیلفیا سے گرفتار کئے گئے دہشت گردوں پر الزام تھا کہ انہوں نے ہتھیاروں کا ذخیرہ یکجا کررکھا تھا اور کشمیر کے دہشت گردوں کی حمایت میں ہندوستان کے خلاف جہاد کی سازش کررہے تھے۔
حالانکہ لشکر طیبہ کی حمایت کرنے والوں کا دائرہ کافی وسیع ہے جو کئی براعظم تک پھیلاہے۔ ڈان دائود ابراہیم ہتھیاروں کو پہنچانے والا اہم ذریعہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈی کمپنی کی لشکر طیبہ کے میدان کارروائی سے جغرافیائی نزدیکی اور کم وقت کی اطلاع پر ایک چھوٹی جنگ کے لئے ہر دم تیاری ڈی کمپنی کی قابلیت ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں منظم جرائم کرنے والے نشیلی اشیا کی تجارت میں ملوث افراد، غیر قانونی روپے کے لین دین، دہشت گردانہ کارروائی اور چھوٹے ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں آپسی تعلق کی بنا پر ہی یہ حقائق بتائے گئے ہیں۔
تھنک ٹینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ لشکر طیبہ انٹرنیٹ پر بھی فنڈ اکٹھا کرتی ہے اور کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعہ بازار کی اچھی فہم بھی رکھنے لگی ہے۔ اس کے علاوہ ایسا امکان ہے کہ یہ گروپ افغانستان سے ہیروئن کی اسمگلنگ میں ملوث ہو جس میں فائدہ کافی ہے کیونکہ لاگت کم ہے اور مقامی اور بیرونی ملکوں میں مانگ کافی ہے۔ تھنک ٹینک کے مطابق لشکر طیبہ فارس کی کھاڑی، برطانیہ میں قیام پذیر پاکستانی لوگوں، اسلامی این جی اوز اور پاکستانی/ کشمیری تاجروں اور جماعت الدعوۃ سے امداد حاصل کرتی ہے۔
سعودی، کویت شہریوں میں سے لشکر کی حمایت کرنے والوں سے بھی امداد حاصل کرتی ہے اور کئی آئی ایس آئی لیڈرس سے بھی۔ اس کے علاوہ رپورٹ بتاتی ہے کہ لشکر فلی پینس سے لے کر مشرق وسطیٰ اور چیچنیا کے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے جماعت الدعوۃ کے نیٹ ورک کے ذریعہ اپنا تعلق بنائے رکھتا ہے۔
حالانکہ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کی دہشت گرد گروپوں پر کڑی کارروائی سے قبل لشکر طیبہ مالی اداروں میں فنڈ جمع کرتا تھا اور ان میں سے روپے نکال کر کئی دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جاتی تھی تاکہ ضبطی سے بچا جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق یہ بلیک منی کئی دوسرے ذرائع اور حوالہ کے ذریعہ پاکستان سے باہر بھی جاچکی ہے۔ یا تو سیاسی ارادے کی کمی یا پھر عمل کرانے میں نااہلی کے سبب پاکستان کے دہشت گردوں کو مالی مدد حاصل کرنے سے روکنے کے لئے اٹھائے گئے قدم ناکافی ہیں۔

No comments: