Thursday, April 1, 2010

کانگریس مجھے پسند ہے اور امیتابھ بچن بھی

عزیز برنی…………………………………قسط 111

کانگریس پارٹی مجھے پسند ہے،اس لےے کہ یہ ملک کی سب سے بڑی اور سیکولر پارٹی ہے، جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ امیتابھ بچن مجھے پسند ہیں، اس لےے کہ اپنے فن کی معرفت انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔ اگر میں ایک ہی وقت میں دونوں کا ساتھ چاہوں اور یہ مشکل نظر آئے تو بڑی تکلیف دہ اور افسوسناک بات ہوگی۔ امیتابھ بچن سیاستداں نہیں ہیں۔ ہوتے بھی تو کیا دو مخالف پارٹیوں کے لیڈر ایک ساتھ بیٹھتے نہیں ہیں، اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اشوک چوہان اور امیتابھ بچن ممبئی میں سی لنک فلائی اوور کے افتتاح کے موقع پر ایک ساتھ مل کر کیا بیٹھے، دیر تک یہ واقعہ موضوع بحث بنا رہا۔کیوں! امیتابھ بچن گجرات کے برانڈ ایمبسڈر ہیں۔ کچھ سوال ان کی اس پوزیشن کے بھی کےے جارہے ہیں۔کیوں! سمجھ میں نہیں آتا امیتابھ بچن گجرات کے ایمبسڈر ہیں، گجرات ہندوستان کی ایک ریاست ہے، جہاں آزادی کے مسیحا مہاتماگاندھی نے جنم لیا، یہ کسی بھی شخص کے لےے باعث فخر ہے کہ اسے اپنے ملک کی ایسی ریاست کا برانڈ ایمبسڈر منتخب کیا جائے۔ ہاں، یہ سوال حق بجانب ہوسکتا ہے کہ اگر امیتابھ بچن اس سرکار کے برانڈ ایمبسڈر ہوتے، جو 2002میں گجرات فسادات کے لےے ہندوستان کی پیشانی پر کلنک کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ ہاں، امیتابھ بچن سے سوال ہوسکتا تھا، اگر وہ اس سیاسی پارٹی کے برانڈ ایمبسڈر کے طور پر سامنے رکھے جاتے، جسے فرقہ وارانہ فسادات کے لےے جانا جاتا ہے۔ ریاست گجرات کا برانڈ ایمبسڈر ہونا کس طرح قابل اعتراض ہوسکتا ہے۔ اگر آج وہی شخص اس ریاست کا وزیراعلیٰ ہے، جو 2002میں گجرات فسادات کے لےے ذمہ دار ہے اور جسے اس وقت کے وزیراعظم نے بھی ’’راج دھرم‘‘ نبھانے کی تلقین کی تھی… اور اسے پھر سے اس عہدے پر پہنچانے میں امیتابھ بچن جی کا نمایاں کردار ہے اور اسی کے عوض انہیں یہ تمغہ ملا ہوتا، تب تو ان سے سوال کیا جاسکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ان سے یہ سوال کیوں؟ یہ سوال ان سے کیوں نہیں، جنہوں نے اسی شخص کو ایک بار پھر گجرات کا وزیراعلیٰ بنایا، جو گجرات فسادات کے لےے ذمہ دار ہے؟ خامی اگر سسٹم میں ہے تو یہ سوال اس سسٹم سے کیوں نہیں، جس سسٹم نے ایک ایسے شخص کو، جس کے دامن پر بے گناہوں کے خون کے داغ ہیں، ریاست کا وزیراعلیٰ بنایا۔ یہ شخص آج بھی اس لےے اس کرسی پر موجود ہے، کیوں کہ عدلیہ کی رفتار بہت سست ہے اور ریاست کے چیف جسٹس خود اس کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھتے ہیں تو یہ سوال عدلیہ سے کیوں نہیں؟ اگر قانون میں اس بات کی گنجائش ہے کہ ایک ایسی سرکار، جس سے عدل، جمہوریت کی بقا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی امید نہ ہو تو اسے برخاست کیا جاسکے (ماضی میں ایسی سرکاریں برخاست کی گئی ہیں) تو پھر یہ سوال ان سے کیوں نہیں، جو قانون کی اس دفعہ کا استعمال نہ کرکے اسے اپنی کرسی پر جمے رہنے کا موقع فراہم کرتے رہے ہیں، کررہے ہیں؟ ہمیں بہت سی باتوں کو ذاتی سطح سے اوپر اٹھ کر بھی سوچنا ہوگا اور قدم وہ اٹھانا ہوگا، جو ملک کے مفاد میں ہو، قوم کے مفاد میں ہو۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی عرض کیا تھا کہ کانگریس پارٹی مجھے پسند ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کانگریس گجرات سرکار کے مکھیا کو اس کرسی سے ہٹانے کا موقع ملنے کے باوجود اس کا استعمال نہ کرے۔ اس پسندیدگی کے یہ معنی بھی نہیں کہ فرضی انکاؤنٹر ہوتے رہیں اور لب سی لےے جائیں۔ اس پسندیدگی کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہندوستان میں دہشت گردانہ حملے کے لےے پاکستان کو ذمہ دار سمجھا جائے تو مرکزی حکومت زمین آسمان ایک کردے اور اگر اس کی زد میں امریکہ نظر آئے تو وہ خاموشی اختیار کرلے۔ میرا ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے امیتابھ بچن صاحب سے۔ چند ملاقاتوں کی بات چھوڑ دی جائے تو شاید ان جیسے مصروف شخص کو میرا نام اور چہرہ یاد بھی نہ ہوگا۔ اور جو کچھ میں لکھ رہا ہوں، یہ ان کے بچاؤ میں ہے بھی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ حق اور انصاف کا تقاضا ہے کہ کسی کو اس کے ناکردہ گناہوں کے لےے موردالزام نہ ٹھہرایا جائے۔
مجھے آج ایک نہیں تین موضوعات پر مختصر مختصر گفتگو کرنی ہے، اس لےے کہ جمعہ اور ہفتہ کے روز میں نہیں لکھوں گا، یعنی اب میرا یہ مسلسل مضمون پیر کے روز میرے قارئین کے سامنے ہوگا۔ اس وقت میں جس موضوع پر مسلسل گفتگو کررہا ہوں، وہ ہیڈلی کے بے نقاب ہونے کے بعد ہندوستان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کو مختلف زاویوں سے دیکھنا ہے، لہٰذا گفتگو آج بھی اسی موضوع پر تمام ہوگی، لیکن ایک اور موضوع جس پر چند سطریں لکھنا ضروری سمجھتا ہوں، وہ اس لےے کہ دراصل مجھے آج اس وقت پٹنہ میں ہونا چاہےے تھا، جہاں جمعیۃ علماء ہند کا ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا ہے۔ مجھے بھی اس میں شرکت کرنی تھی، مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ مقررین کو جن موضوعات کی روشنی میں بولنے کے لےے دعوت دی گئی تھی، وہ حسب ذیل ہیں:
-1سیاسی اداروں میں مسلمانوں کے لےے ریزرویشن۔
-2وقف جائداد پر ناجائز قبضے۔
-3بہار میں فرقہ وارانہ فساد مخالف بل کی شروعات۔
-4پولس فورس میں مسلمانوں کے لےے ریزرویشن۔
-5بھاگلپور فسادات متاثرین کو معاوضہ۔
-6مدرسہ بورڈ کے نصاب میں اصلاح۔
-7مسلم اکثریتی علاقوں میں تکنیکی اداروں کا قیام۔
-8مسلم علاقوں میں سڑک، اسکول اور اسپتال جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان۔
-9اقلیتی اداروں کی تعمیر کے معاملے میں قانون کو نرم بنانا۔
-10مسلم اکثریتی علاقوں میں بینک جیسے اقتصادی اداروں کا فقدان۔
-11اقلیتی محکموں کے لےے زیادہ بجٹ رقم کا التزام۔
-12اردو جاننے والے پولس افسران اور سب انسپکٹر کی تقرری۔
-13بلاک اور کلکٹر دفتر میں اردو مترجمین کی تقرری۔
-14تکنیکی تعلیم کے لےے مسلمانوں کو بلاسودی قرض۔
میں ان سبھی سے اتفاق کرتا ہوں اور یہ تمام موضوعات ایسے ہیں، جن میں سے ہر ایک پر مجھے بولنا چاہےے تھا۔ شاید آئندہ کسی اجلاس میں یہ ممکن ہوپائے، لیکن آج اگر میں وہاں ہوتا تو ان موضوعات سے ہٹ کر بھی کوئی بات کرتا اور وہ یہ ہوتی کہ ہندوستان کی اس عظیم الشان تنظیم نے ہندوستان کی آزادی میں ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے۔ آج پھر ملک کی آزادی کے تحفظ کے لےے جمعیۃ علماء ہند کے ایسے ہی تاریخ ساز رول کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک پر فرنگیوں کا قبضہ تھا، جب جمعیۃ علماء ہند کی داغ بیل ڈالنے والوں نے ہندوستان کی آزادی کو مقدم سمجھا اور آج ایک بار ہم غیر ملکی سازشوں کا شکار ہوتے رہے ہیں، جسے دیکھنے اور سمجھنے کے لےے انتہائی دواندریشی کی ضرورت ہے اور جمعیۃ علماء ہند کے پاس ایسی دوراندریش نگاہیں ہیں۔ وہ تیسرا موضوع جس پر مجھے اپنی گفتگو تمام کرنی ہے، اسی کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے۔ کیوں خاموش ہے جمعیۃ علماء ہند، ہیڈلی کے سوال پر؟ میری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان کی خاموشی پر کوئی سوال کررہا ہوں، ہوسکتا ہے کہ وہ اس ضمن میں بول بھی رہے ہوں، مگر اس طرح نہیں جس طرح دہشت گردی کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے قومی سطح پر ایک تحریک چلائی تھی۔ میں خود اس کے متعدد جلسوں میں شریک ہوا تھا۔ ان جلسوں کو خاطرخواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ کسی بھی دہشت گردانہ حملے کے بعد جو فضا قائم کردی جاتی تھی، اللہ کا کرم ہے اب وہ نہیں ہوتی، مگر آج بھی ملک دہشت گردی سے پاک کہاں ہے؟ ملک میں دہشت گردی جاری ہے، بس مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرانا بند کردیا جائے یا کم کردیا جائے تو اس سے ہمارا مقصد کہاں حل ہوتا ہے۔ ہم صرف مسلمانوں کا بچاؤ ہی نہیں کرنا چاہتے، ہم ہندوستان کو دہشت گردانہ حملوں سے بچانا چاہتے ہیں، اس لےے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ مسلمان موردالزام ٹھہرانے سے بچ جائیں، بلکہ لازم یہ بھی ہے کہ جو اصل مجرم ہےں، وہ بے نقاب ہوں۔ ملزم اگر کمزور ہو تو ہم چیخ چیخ کر کہیں اور ملزم اگر طاقتور ہو تو ہم دبی زبان میں گفتگو کریں یا نام آنے پر بغلیں جھانکنا شروع کردیں۔ نہیں، یہ وطن سے محبت کی شناخت نہیں ہے۔ لہٰذا کرے بے نقاب جمعیۃ علماء ہند ان دہشت گرد طاقتوں کو جن کا مقصد ہندوستان کی تباہی ہے اور ترغیب دے اوروں کو بھی۔
جی ہاں! اب میں واپس آتا ہوں اپنے اسی موضوع پر، جس پرگزشتہ کئی روز سے گفتگو جاری ہے۔ دو روز قبل میرے مضمون کا عنوان تھا ’’کیا کبھی سوچا ہے آپ نے ’’ٹیررٹریڈ‘‘ کے بارے میں!۔ ہوسکتا ہے آپ نے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہو اور اسے بہت گہرائی سے سوچنے کے لائق نہ سمجھا ہو، مگر جناب جب آپ حقائق سے روبرو ہوں گے تو آپ چونک جائیں گے۔ اس وقت جنگی ہتھیاروں کی خریدوفروخت سے تعلق رکھنے والی ایک اہم فائل میرے سامنے ہے، جس میں 2001سے008تک ہتھیاروں کی بکری کی تفصیل بھی موجود ہے اور 2008کے اعدادوشمار بھی۔ اس درمیان کس ملک نے کس ملک کو کتنے ہتھیار فروخت کئے، کتنی دولت کمائی، یہ سب اعدادوشمار آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آج دنیا کے بڑے حصہ میں جو دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں، کہیں نہ کہیں ان کا کوئی رشتہ اس ’’ٹیررٹریڈ‘‘ بالفاظ دیگر ہتھیاروں کی خریدوفروخت سے بھی ہوسکتا ہے۔ آج اتنی گنجائش نہیں ہے کہ اعدادوشمار کے ساتھ بات کروں، وہ تمام تفصیل اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کروں، جو یہ واضح کردے کہ دنیا میں ہتھیاروں کے دو بڑے تاجر ملک امریکہ اور روس کا بزنس گزشتہ آٹھ برسوںمیں کیسا رہا؟ امریکہ ہتھیاروں کی فروخت میں کتنا آگے گیا؟ روس کتنا پیچھے گیا؟ کس ملک نے کتنے ہتھیار خریدے؟ پھر جب ان تمام اعدادوشمار کی روشنی میں 9/11 یعنی امریکہ کے شہر نیویارک میں ہوئے دہشت گردانہ حملے سے لے کر6/11یعنی ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملے تک کے واقعات پر غورفرمائیں گے، افغانستان اور عراق کی تباہی کے پس منظر پر غور کریں گے، لیبیا کی خودسپردگی، ایران پر منڈلاتے خطرے کے بادل اور پاکستان کے تباہ کن حالات کا جائزہ لیں گے تو سب کچھ آئینہ کی طرح صاف نظر آنے لگے گا۔ یہ بھی کہ 9/11 اور 26/11میں مماثلت کیا ہے۔ دونوں دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے کیا سازش کارفرما ہے، اس لےے کہ بات صرف اتنی سی نہیں ہے کبھی طالبان کو ذمہ دار قرار دے دیں اور بات ختم ہوجائے۔ القاعدہ، لشکرطیبہ کے نام سارے دہشت گردانہ حملے لکھ دیں اور بات ختم کردی جائے۔ پاکستان کو دہشت گردملک ثابت کردیں اور باقی سب کو کلین چٹ دے دی جائے، نہیں یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ہمیں اس دہشت گردی کی بنیاد کو تلاش کرنا ہوگا۔ طالبان دہشت گرد ہیں تو وہ چاہتے کیا ہیں؟ طالبان دہشت گرد ہیں تو امریکہ ان کی مدد کیوں کرتا تھا؟ آخر وہ ان دہشت گردوں کا کیا استعمال کررہا تھا، کیااستعمال کرنا چاہتا تھا؟ لشکرطیبہ دہشت گرد ہے اور امریکہ امن پسند تو دونوں کے رشتے اتنی قربت والے کیسے ہیں کہ وہ جب جسے چاہیں لشکرطیبہ میں دہشت گردی کی ٹریننگ کے لےے داخل کردیں اور جب چاہیں اس دہشت گرد کا استعمال ہندوستان اور پاکستان کی تباہی کے لےے کرلیں۔ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے تو وہ پاکستان کو اپنا دوست کیوں رکھتے ہیں؟ یاد کریں، افغانستان اور عراق کی امریکہ کے ذریعہ تباہی اور پاکستان سے اس کے دوستانہ رشتے۔ پاکستان ایک دہشت گردملک ہے تو وہ اسے ہتھیار بیچتے کیوں ہیں؟ کیا نہیں جانتے کہ یہ ہتھیار دہشت گردی کے لےے بھی استعمال ہوسکتے ہیں؟ بات پھر اسی مقام پر ختم کرتا ہوں، جہاں سے شاید کوئی پیغام آپ تک پہنچا سکوں۔ وہ ہندوستان کو ہتھیار بیچتے ہیں، تاکہ ہندوستان دہشت گردی کا مقابلہ کرسکے، وہ پاکستان کو ہتھیار بیچتے ہیں، تاکہ دہشت گردی کے لےے ان کا استعمال ہوسکے۔ اگر ان دونوں باتوں میں ذرا بھی سچائی ہے تو پھر یاد کرلیجئے وہ تیسری چوتھی کلاس والی کہانی، جب ایک چالاک بندر دو بلیوں کی روٹی خود ہضم کرجاتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں میں بچپن کی باتیں بھولتا ہی نہیں، آپ کو بھی کچھ یاد آتا ہے کیا؟

No comments: