Thursday, April 29, 2010

عزیزبرنی کی سیمانچل سے ذہنی وابستگی


شمالی بہار کے 7 اضلاع پر مشتمل دوکمشنریوں کو سیمانچل کہا جاتاہے۔ پورنیہ کمشنری کے تحت پورنیہ ،ارریہ ،کشن گنج اور کٹیہار جیسے اقلیتی اضلاع ہیں تو کوسی کمشنری میں سہرسہ ،سپول اور مدھے پورہ شامل ہیں۔سیمانچل کے نام سے الگ ریاست کا مطالبہ شروع میں سابق مرکزی وزیر محمد تسلیم الدین نے کیا تھا۔سیمانچل اس پورے خطے کوکہا جاتا ہے جو ہندنیپال سرحد کے قریب واقع ہے۔ہندوستان کے سب سے بڑے اردومیڈیا نیٹ ورک روزنامہ راشٹریہ سہارا، ہفت روزہ عالمی سہارا، ماہنامہ بزم سہارا کے گروپ ایڈیٹر عالی جناب عزیز برنی کی سیمانچل سے ذہنی وابستگی تو عرصہ ٔ دراز سے تھی کیونکہ اسی خطہ کے ارریہ شہر میں سہاراانڈیا پریوار کے سرپرست اعلیٰ سہاراشری سبرت رائے سہارا کا جنم ہواتھا،تاہم جب وہ 2008میںمنعقد ’’اردوکانفرنس‘‘میں شرکت کی غرض سے کشن گنج تشریف لائے اور اس خطے کے بھولے بھالے اور حالات کے شکارعوام کی عقیدت ومحبت دیکھی،یہاں کی پسماندگی کامشاہدہ کیااوراس سرزمین پلنے والی صلاحیتوںکو سمجھنے کی کوشش کی تو ان کی اس خطہ سے قربت بڑھتی گئی۔سابق مرکزی وزیر محمد تسلیم الدین او ربہاراسمبلی کے رکن اخترالایمان کی دعوت پر منعقداردو کانفرنس میں دولاکھ سے زائد عقیدتمندوں کو خطاب کرتے ہوئے عزیز برنی نے اپنے درد مند دل کی ہر ٹیس عوام کے سامنے رکھ دی تھی۔اس کانفرنس کے بعد کشن گنج ضلع کے ٹپوگائوں میں ’’ملی گرلزاسکول‘‘میںبھی محترم عزیز برنی صاحب کو جانے کا اتفاق ہوا تھا جہاںانہوں نے کہا تھا کہ اس مٹی میں بڑی صلاحیتیں موجودہیں۔ اگر انہیں مثبت رخ دیاجائے تو تعلیمی انقلاب آسکتاہے۔اسی سفر کے دوران مولانا اسرارالحق کی تعلیمی خدمات کو محسوس کرتے ہوئے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرکے انھوں نے کانگریس پارٹی سے پارلیمنٹ کا ٹکٹ دلواکر جیت سے ہمکنار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اسی طرح 2009 میں ’’دہشت گردی مخالف کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے ایک بار پھر برنی صاحب کو کشن گنج آنے کااتفاق ہوا،جس میں لاکھوں لوگ ان کاخطاب سننے کے لیے صبح سے شام تک یکسو ہوکر بیٹھے رہے۔چارٹرڈ فلائٹ سے اس کانفرنس میں شریک ہونے والوں میں عزیز برنی کے ساتھ فلمساز مہیش بھٹ، مشہورسماجی کارکن تیستاسیتلواڈ ،فلم اداکار رضامراد، شہباز خان، سوامی اگنی ویش وغیرہ بھی شامل تھے۔اس کانفرنس کے داعی سیاسی رہنما محموداشرف تھے۔
> سیمانچل سے غیر معمولی محبت وانسیت رکھنے والے عزیز برنی اپنی بے پناہ مصروفیتوں کے باوجود 11اپریل 2010کو ضلع ارریہ کے جوکی ہاٹ میں منعقدہ ’’مسلم کانفرنس‘‘میں شرکت سے خود کو روک نہ سکے۔ حالانکہ انہیں 6 اپریل کو کٹیہار میں منعقد ملی کانفرنس میں بھی آنا تھا، مگر جب یہ کسی طرح بھی ممکن نہ ہوسکا تو انھوں نے بذریعہ فون ایک جمِ غفیر کو خطاب کیا۔ اس طرح سیمانچل کے ہزاروں لاکھوں عوام کی انہیں سننے کی تمنا تو پوری ہوئی مگر دیکھنے کی حسرت باقی رہی جو ایک ہفتہ کے اندر ہی اس وقت پوری ہوئی جب وہ ارریا تشریف لائے ۔ جوکی ہاٹ میں عزیز برنی کاخطاب سننے کے لیے ڈیڑھ لاکھ انسانوں کاٹھاٹھیں مارتاہوا ہجوم سہ پہر تین بجے سے ہی پنڈال میں موجود تھا۔جب برنی صاحب نے قوم وملت کے درد میں ڈوبی ہوئی اپنی تقریر شروع کی تو سناٹے کاسا سماں تھااورپوری یکسو ئی سے لوگ آپ کے خطاب سے فیضیاب ہورہے تھے۔جب وہ اپنی تقریر میں حق وانصاف کو معروضی رخ دیتے تو پورے مجمع میں تالیاں گونجنے لگتیں۔اس اجلاس میں جامع مسجد دہلی کے شاہی امام مولاناسید احمدبخاری اوررکن اسمبلی جناب اخترالایمان سمیت درجنو ں علماء و دانشوروں نے بھی خطاب کیا۔اس سفرمیںعزیز برنی کو سہاراشری سبرت رائے سہارا کی جائے پیدائش اورارریہ شہر کی تاریخی اور جغرافیائی صورتحال سے واقفیت ہوئی نیز انہوں نے ان گلیوں کا بھی مشاہدہ کیا جہاں سہاراشری کا بچپن گزراتھا۔
اس سفرکے بعد تو عزیز برنی کی ارریہ شہر سے غیر معمولی محبت چھلکنے لگی اور وہ اس بات پر غور کرنے لگے تھے کہ اس چھوٹے سے شہر کی 1948میں کیا کیفیت رہی ہوگی، جب ہندوستان کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کرنے والی شخصیت سہاراشری سبرت رائے سہارا نے جنم لیا ہوگا۔چنانچہ انہوںنے اس تحقیقی پروجیکٹ پر غورکرنا شروع کردیاجس سے یہ پتہ چلایاجائے کہ آخر دنیا کی عظیم ترین شخصیت نے کس طرح نامساعد حالات میں ترقی کاانقلابی سفرشروع کیا۔اس نقطہ نظر سے سوچنے والے عظیم صحافی عزیز برنی کے ذہن ودماغ میں دراصل یہ نکتہ رقص کررہا تھا کہ اگر عزم محکم اور عمل پیہم ہو تو مشکل حالات میں بھی کس طرح منزل کی حصولیابی ہوسکتی ہے ،چنانچہ ان کی یہ فکر ہے کہ ان نکات سے ملک وملت کو آگاہ کیاجائے تاکہ اس عظیم شخصیت کے نقوش پر عمل آوری کی راہ روشن ہو۔
ارریہ شہر ،اطراف وجوانب اورپورے سیمانچل کا تاریخی پس منظر نیز حال کی حقیقی صورتحال سے واقفیت کی کشش عزیز برنی کے اندر بڑھتی ہی جارہی تھی،چنانچہ 26اپریل 2010کو سیمانچل کے مدھوبنی ضلع سپول میں منعقد ہونے والے ’’پیام انسانیت کنونشن‘‘ میں شرکت کی دعوت ملی توہرچند کہ ان ایام میں آپ بے پناہ مصروفیت اورہجوم کار کے دوران گھرے ہوئے تھے ،لیکن اسے سیمانچل سے ان کی محبت ہی کہی جائے گی کہ انہوں نے ایک بار پھر سیمانچل کے سفر کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرلیا۔
E
25اپریل 2010کو عزیز برنی صاحب نئی دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز باگ ڈوگرا پہنچے اوروہاں سے بذریعہ کارچاربجے ارریہ شہر تشریف لائے جہاں ان کاقیام ایورگرین ہوٹل میں تھا۔اس سے قبل برنی صاحب جب ارریہ تشریف لائے تھے تو اس شہر سے واقفیت کی تشنگی باقی تھی، اس لیے انہوں نے شہر پہنچتے ہی سہاراشری کے آبائی گھر میں حاضری دینے کو ترجیح دی جہاں پہلے سے ہی ماما شری (سہاراشری کے ماما) برنی صاحب کا انتظار کررہے تھے۔برنی صاحب جب آشرم روڈ ارریہ میں واقع سہاراشری کے آبائی مکان میں داخل ہوئے تووہاں پہلے سے ہی ماما شری اور سہاراانڈیاپریوار کے کئی اعلیٰ اہلکار استقبال کے لیےموجود تھے۔ عزیز برنی صاحب کی ماما شری سے ایک یادگارملاقات ہوئی اور تفصیل سے گفتگوہوئی۔برنی صاحب نے اس شہر سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے جب ماما شری سے سہاراشری کے بچپن کی یادوں کے حوالے سے کچھ جاننا چاہا تو لمبی گفتگو کا سلسلہ چل پڑا۔تفصیلات جان کر وہ بے خو د ہوگئے۔ماما شری نے ارریہ شہر کی 1948سے 1958تک کی صورتحال کا اجمالی تعارف پیش کیا اور سہارا شری کے دو قریب ترین دوست ونودکمار رائے(سابق ایم ایل اے ارریہ)اورانجودا (پجاری کالی مندر) نے سہاراشری کے ساتھ گزارے اپنے بچپن کی یادوں کی جھلکیاں پیش کیں جس سے اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ دنیا میں سب سے بڑے پریوار (سہاراانڈیاپریوار)کے سرپرست اعلیٰ سہاراشری کی عادت وخصلت بچپن میںہی ایسی تھی جو کسی سماجی انقلاب کی کہانی بیان کررہی تھی۔عزیز برنی نے ’’سمیتی بھون‘‘ اور کالی مندر کابھی دورہ کیا ۔
ملک وملت کے مسائل کو بے باکانہ انداز میں اٹھانے والے عظیم صحافی عزیز برنی کی ارریہ آمد کی اطلاع جیسے ہی لوگوںکو ہوئی ،وہ ایورگرین ہوٹل کی جانب پروانہ وارکھنچے چلے آئے جہاں برنی صاحب کاقیام تھا۔برنی صاحب کا مقبول ترین کالم پڑھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ارریہ میں بھی موجود ہے جو برنی صاحب کو اپناحقیقی نمائندہ اور رہنما تصورکرتے ہیں، چنانچہ ایورگرین ہوٹل میں درجنوں علاقے کے نمائندہ افراد ان سے ملاقات کے لیے شام کو ایورگرین میںجمع ہوگئے۔ملاقات کرنے والوں میں ارریہ ضلع سے ہی تعلق رکھنے والے آندھراپردیش کے آئی جی آف پولس جناب احسن رضا ،اس علاقے کے پہلے انجینئر جناب محمدزبیر صاحب ،ماہرتعلیم جناب محسن صاحب،شمالی بہارجماعت اسلامی کے امیر جناب نیّرالزماں، علاقائی زبان کے مشہورشاعر ہارون رشیدغافل ، جنتادل یو کے لیڈر نوشاد عالم، شہر کی مشہورسماجی وملی شخصیت جناب غلام سرور، جناب ارشد انورالف، عبدالسبحان جامی، جمعیۃ علماء ہند کے مقامی صدرمفتی نسیم الدین قاسمی سمیت درجنوں ذمہ داران شہر شامل تھے۔شدہ شدہ شہر کے ممتازدانشوروں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی جس سے متاثر ہوکرعزیز برنی صاحب نے مختلف موضوعات پرتفصیلات حاصل کرنی شروع کردیں۔اسی درمیان شہرکے ذمہ داران نے برنی صاحب سے یہ خو اہش ظاہر کی کہ وہ وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار کے سامنے ارریہ سمیت پورے سیمانچل کے مسائل کو رکھیں ،چنانچہ برنی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جملہ مسائل کو غورسے سنا ۔عمومی طورپر سبھوں نے کہا کہ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے قیام کی ودیارتھی پریشد مخالفت کررہی ہے، اس لیے وزیر اعلیٰ سے یہ درخو است کی جائے کہ عمومی مفاد میں یونیورسٹی کی شاخ کی جو تجویز ہے اسے جلد عملی جامہ پہنایاجائے،اسی طرح ارریہ شہر میں اقلیتی ہاسٹل کی تعمیر ہوچکی ہے، لیکن قانونی رکاوٹوں کو بہانہ بنا کر ابھی تک اس عمارت کو اقلیتی طلبہ کے حوالے نہیں کیاگیاہے، اس لیے اس کی جانب وزیراعلیٰ کی توجہ مبذول کرائی جائے۔کئی ذمہ داروں نے کہا کہ ارریہ ضلع حکومت ہند کے ان نوے اضلاع میں شامل ہے جنہیں اقلیتی اضلاع قراردیاگیاہے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ اقلیتی فنڈ کایا تواستعمال نہیں ہورہا ہے یا اقلیتوں کی فلاح کے لیے متعین فنڈ کو دوسرے مدات میں خرچ کیاجارہاہے۔چند لوگوں نے برنی صاحب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ارریہ میں فساد پھوٹ پڑاتھا جس میں تین مسلمان مارے گئے تھے، لیکن انہیں آج تک معاوضہ نہیں دیاگیا ۔ارریہ ضلع او رسیمانچل کے نوع بنوع مسائل کو برنی صاحب نے بغورسنا اور یہ فیصلہ کیا کہ ارریہ ضلع کے ذمہ داروں کی ایک فہرست تیارکی جائے اور ان کی ایک میٹنگ بلائی جائے اور میں اس میں شریک ہوکر یہاں کے تمام بنیادی مسائل سے واقف ہوناچاہتاہوں کیونکہ اس علاقے سے مجھے غیر معمولی انسیت ہوگئی ہے اور میں یہاں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرناچاہتاہوں۔
26اپریل 2010کی صبح موسم نہایت خوشگوار تھا،عزیز برنی صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایورگرین ہوٹل سے نکل کر سب سے پہلے ماما شری سے ملاقات کی اورعالی جناب سہارا شری جی کی جائے پیدائش یعنی اس خاص کمرے میں نماز ادا کی، جس کا بہت ہی خوبصورت اہتمام جناب ماما جی نے کیا تھا۔ پھر اس کے بعد مدھوبنی ضلع سپول کے لیے روانہ ہوئے جہاںانہیں ’’پیام انسانیت کنونشن‘‘ میں شریک ہوناتھا۔ راستے میں انہوںنے اس علاقے کے لہلہاتے کھیتوں کا بھی مشاہدہ کیااو رگائوں کے رہن سہن کو بھی دیکھا ،جوٹ کی کھیتیاں بھی دیکھیں اور اس سے متعلق جملہ معلومات بھی دریافت کرتے رہے۔ راستے میں سیلاب کی تباہی کے نقوش سے بھی آگہی ہوئی ۔ہفتہ بھر قبل آئے طوفان میں ہلاکتوں کے ذکر پر ان کی آنکھیں چھلک آئیں۔
عالمی شہرت یافتہ کہانی کار اور فلم ’’تیسری قسم‘‘ کے مصنف پھنیشورناتھ رینو‘‘کے گائوں سے قریب ہوکر جب گزرے تو رینو کاہندی ادب میں مقام اوران کی شہرت پر گفتگو کرتے رہے کہ اتنی عظیم شخصیتیں ایسے پسماندہ گائوں میں جنم لے سکتی ہیں۔فاربس گنج ،نرپت گنج ہوتے ہوئے جب برنی صاحب کاقافلہ مدہوبنی گائوں پہنچا تووہاں سیکڑوں افراد ان کے استقبال میں آنکھیں بچھائے کھڑے تھے ۔ہرطرف استقبالیہ گیٹ ،استقبالیہ سلوگن کے رنگارنگ بینر اور تاحد نگاہ شامیانوں سے بنا خوبصورت پنڈال اوراسی کے عقب میں جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کی عظیم الشان مسجد اور کئی وسیع عمارتیں جنہیں دیکھ کر برنی صاحب دم بخود رہ گئے اورجامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ مدھوبنی ضلع سپول کے بانی ومہتمم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے۔
محترم عزیز برنی صاحب جب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے تو لاکھوں سامعین کا ٹھاٹھیں مارتاہو ا ہجوم ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہا تھااور ہرطرف زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے ۔پیام انسانیت کنونشن کے مہمان خصوصی بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمارتھے جب کہ مہمان ذی وقار کی کرسی پر عزیز برنی صاحب جلوہ افروزتھے۔نتیش کمار نے جب عزیز برنی صاحب کو اسٹیج پر دیکھا تو ان کے چہرے پر بھی یک گونہ چمک بڑھ گئی۔اس دوران وزیراعلیٰ نتیش کمار اور عزیزبرنی سمیت چند علماء کے ہاتھوں ’’شیخ زکریا چیریٹیبل ہاسپٹل‘‘کاسنگ بنیادرکھا گیاکنونشن کے دوران نتیش کمار کو بہترین کارکردگی کی بنیادپر ’’وکاس پُرش ایوارڈ‘‘دیا گیا جب کہ محترم عزیز برنی کو بہترین صحافتی خدمات کے عوض ’’مولانا آزاد ایوارڈ‘‘سے نوازاگیا۔اس موقع پر جامعۃ القاسم کے بانی ومہتمم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے کہاکہ آزادی سے قبل مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے عظیم صحافتی خدمات انجام دی تھیں،اسی مناسبت سے دورحاضر میں عظیم صحافتی خدمات کے عوض جناب عزیز برنی صاحب کو ’’مولانا آزاد ایوارڈ‘‘دینا ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔
کنونشن میں سب سے پہلے مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا او روزیراعلیٰ و عزیز برنی کا 45کلو کے پھولوں کا ہارپہناکر استقبال کیا۔اسٹیج پر وزیراعلیٰ سمیت ممبرپارلیمنٹ جناب علی انور، مولانا عیسیٰ منصوری (لندن)، مولانا سلیم محمد کریم (سائوتھ افریقہ)، مولاناسید شاہد سہارنپوری ،مولاناثناء الہدیٰ قاسمی (امارت شرعیہ)، اور رکن اسمبلی منظرعالم موجودتھے۔
جب اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے عزیز برنی کا نام پکاراگیا تو پورے مجمع میں خوشی کی لہردوڑگئی ،اس موقع پر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عزیز برنی نے مجمع عام سے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں کہا کہ’پھنیشورناتھ رینو، للت نرائن مشرا اور سہاراشری سبرت رائے سہارا کی اس سرزمین کو میں سلام کرتا ہوں ۔اس علاقے کے بھولے بھالے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے، مجھے اس بات کااعتراف کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ نتیش کمار جی کی سربراہی میں بہارترقی کی راہ پر گامزن ہے، اس کے لیے وزیراعلیٰ یقینی طورپر مبارکباد کے مستحق ہیںلیکن میراخیال ہے کہ ابھی بہارکو مزیدترقی کی ضرورت ہے ۔‘ عزیز برنی نے اپنے خطاب میںعوام کو آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاوہ قول مشعل راہ ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے تین دوست ہیں اور تین دشمن۔ دوستوں میں سے ایک تووہ ہیںجو حقیقی دوست ہیں،دوسرے دوستوں کے دوست اور تیسرے وہ ہیںجو ہمارے دشمنوں کے دشمن ہیں،اسی طرح تین دشمن بھی ہیں جن کو ہمیں پہچاننا چاہیے،ایک توجو ہمارے دشمن ہیں، دوسرے وہ ہیں جو ہمارے دشمنوں کے دوست ہیں اور تیسرے وہ ہیں جو ہمارے دوستوں کے دشمن ہیں، چنانچہ دوست اور دشمن کو پہچاننے کا یہی پیمانہ ہوناچاہیے۔انہوں نے سیمانچل کے مسائل کی جانب وزیراعلیٰ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ وہ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے قیام میں آنے والی جملہ رکاوٹوں کو دورکرنے کے ساتھ ساتھ ارریہ میں تعمیر شدہ اقلیتی ہاسٹل کی قانونی اڑچنوں کودورکرکے اسے اقلیتوں کے حوالے کریں۔برنی صاحب نے کہا کہ کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی والے اس خطہ کے عوام امن پسند ہیں، اس لیے یہاں سے پیام انسانیت کی ہرتحریک کے اثرات دوررس ہوں گے۔‘واضح ہوکہ ایک دن قبل ارریہ شہرکے ایورگرین ہوٹل میں اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے آندھراپردیش کے آئی جی احسن رضا، جماعت اسلامی شمالی بہارکے امیر نیرالزماں،ریٹائرڈ چیف انجینئر زبیراحمد، ماہرتعلیم محمد محسن،علاقائی زبان کے مشہورشاعر ہارون رشیدغافل اور علاقے کے ممتاز دانشوروں نے عزیز برنی کو سیمانچل کے مسائل پر توجہ دلا ئی تھی اوران سے توقع ظاہرکی تھی کہ اگر وہ وزیراعلیٰ کی توجہ مبذول کرائیںگے تو اس کا فائدہ ضرورہوگا۔خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ برنی صاحب کی تقریر کے بعد وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی تقریر کے دوران ان کی ہر بات کو تسلیم کرتے ہوئے عوام کو یقین دہانی کرائی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں آنے دی جائے گی اور دیگر تمام مشوروں پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔
اس لحاظ سے عزیز برنی کا یہ دورہ سیمانچل کے عوام کے لیے ایک یادگار تحفہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دیکھنا ہے اب یہ سلسلہ کس مقام تک پہنچتا ہے۔

No comments: