Tuesday, March 9, 2010

انہیں سوامی، سنت یا بابا کہہ کر دھرم کو بدنام نہ کریں

جمعیة علماءہند کی میرٹھ کانفرنس میں آج مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی تاریخی اہمیت کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ اس تقریر کا ہر ہر جملہ رقم کےے جانے کے لائق ہے، مگر آج کا مضمون اس موضوع پر ممکن نہیں ہے۔ 8مارچ 2010 کا دن ہندوستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ثابت ہوسکتا ہے۔ بیشک آج پارلیمنٹ میں خواتین ریزرویشن بل پر کوئی آخری فیصلہ نہیں ہوسکا، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس بار اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دینا ممکن نہیں ہوگا۔ کوئی نہ کوئی فیصلہ لینا ہی ہوگا اور جیسی کہ توقع ہے جو بل جس شکل میں پیش کیا جارہا ہے، باوجود تمام طرح کی مخالفتوں کے اسی شکل میں پاس بھی ہوجائے گا۔ میں آج ہی اس موضوع پر لکھنا چاہتا تھا اور بھی کئی ڈیولپمنٹ ایسے تھے جن کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہےے، مثلاً انگریزی روزنامہ ”ٹائمس آف انڈیا“ سمیت ملک کے متعدد قومی اخبارات نے 9/11کے تعلق سے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کا جو بیان شائع کیا ہے، وہ بات روزنامہ راشٹریہ سہارا میں اسی کالم کے ذریعہ مسلسل کہی جاتی رہی ہے، کیوں کہ 11ستمبر2001سانحہ کے بعد پوری دنیا کا منظرنامہ بدل گیا۔ کئی مسلم ممالک تباہ ہوگئے یا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے، لہٰذا اس موضوع کو گئے زمانے کی بات کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ایک بار اس سانحہ کی وجوہات زیربحث لانی ہوںگی، اس لےے کہ یہی انسانی قدروں کا تقاضا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر قیام امن کی کوششوں کا تقاضا ہے، لہٰذا اس موضوع پر بھی لکھا جانا ضروری ہے۔

گزشتہ 2روز سے متواتر قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین جناب شفیع قریشی صاحب کے اوایس ڈی جناب نعیم احمد صدیقی صاحب تسلیمہ نسرین کے کنڑ اخبار ”کنڑاپربھا“ میں شائع ہوئے مضمون ”پردہ ہے پردہ“ کا اردو اور انگریزی ترجمہ چاہتے تھے، جس کا ذکر میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں کیا تھااور جو اتفاق سے آج ہی یعنی 8مارچ کو شکاگو(امریکہ) کے اردو اخبار ”اتحاد“کے ادارتی صفحہ پر شائع کیا گیا ہے۔ میں نے اپنے خط کے ساتھ یہ تمام مطلوبہ مواد اس امید کے ساتھ انہیں فراہم کردیا ہے کہ یقینا قومی اقلیتی کمیشن حکومت ہند کے سامنے اس موضوع کی سنجیدگی کو رکھے گا اور پھر جب اس پر کوئی بھی کارروائی سامنے آئے گی تو میں اپنی تحریر کی معرفت اپنے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔

اس درمیان 6مارچ کو میوات (ہریانہ) کے مختلف جلسوں میں اپنے قارئین کے روبرو پہنچ کر ان سے خطاب کا موقع ملا اور7مارچ کو جے پور (راجستھان) میں مسلم ریزرویشن کے موضوع پر منعقد کی گئی کانفرنس میں شرکت کی۔8مارچ کو اترپردیش کے شہر میرٹھ میں جمعیة علماءہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی کی تاریخی اہمیت کی تقریر سننے کا موقع ملا، جس کا ذکر میں نے آج کے مضمون کی ابتدا میں ہی کیا ہے۔ یہ تمام تفصیلات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مجھے اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس ہوئی، اس لےے کہ اس درمیان مختلف ریاستوں کے مختلف شہروں میں اپنے قارئین کے بیچ جانے، ان سے گفتگو کرنے پر یہ اندازہ ہوا کہ انہیں ہرروز میری تحریر کا انتظار رہتا ہے اور جب یہ نہیں ہوتی تو انہیں مایوسی ہوتی ہے۔ میں ان کے جذبے کو سمجھتا ہوں، اس کی قدر کرتا ہوںاور یہ شاید انہیں کی دعائیں ہیں کہ لکھنے کا یہ تسلسل جاری ہے۔ آج اگر کئی روز تک نہ لکھنے کی یہ وجوہات سامنے نہ رکھتا تو بقول ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے خدشات کا ازالہ نہ ہوتا۔

آئےے! اب ذکر کرتے ہیں آج کے مضمون کا۔ یہ تو وہ موضوعات تھے، جن پر لکھنے کی ضرورت تھی اور ہے، مگر مندرجہ بالا وجوہات کی بناپر نہیں لکھا جاسکا، لیکن انشاءاللہ آئندہ قسطوں میں ضرور ان سب پر گفتگو ہوگی۔ سوامی نتیانند کا سیکس اسکینڈل اور دہلی میں بابا شیومورت دویدی کے حوالے سے شائع کی جانے والی مختلف خبریں میرے سامنے ہیں۔ حسب سابق میں پہلے ان کے چند تراشے آپ کے سامنے رکھنے جارہا ہوں، اس کے بعد میری تحریر کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اےک تمل اداکارہ کے ساتھ سوامی نتےانندکی سےکس سی ڈی آنے کے بعد اب کئی سےاست دانوں کے بھی ان کے ساتھ گہرے تعلقات سامنے آرہے ہےں۔اس مےںگجرات کے وزےراعلیٰ نرےندرمودی اورکرناٹک کے وزےراعلیٰ وی اےس ےدوےروپا کے نام سب سے اوپر ہے

۔11ستمبر2009مےں بڑودہ مےں منعقد اےک پروگرام مےں خود مودی اور نتےانند اےک ہی اسٹےج پر پہنچے۔

”اس پروگرام مےں مودی نے نتےانند کی کھل کر تعرےف کی تھی اورےہاںتک کہا تھا کہ ’مےں سوامی جی کو آج سے نہےں جانتا،مےں انہےں برسوں سے جانتاہوں۔ سوامی جی کے ہرغےرملکی دورہ پر ہماری نظرہوتی ہے۔ سوامی جی بہت نےک انسان ہےں۔ کسی سنت کے پاس جب جاتے ہےںتو سنت رواےت کے مطابق اسے کچھ دےناہوتاہے لےکن ےہاں الٹا ہورہاہے۔ سنت نتےانند ہمےں کچھ دے رہے ہےں۔“

سےکس وےڈےوکاانکشاف ہونے کے بعد کئی بڑی سےاسی شخصےات سے ان کے روابط ہونے کی بات منظر عام پر آئی ہے۔ سوامی نتےانند کے بھکتوںکی فہرست مےں گجرات کے وزےراعلیٰ نرےندرمودی اورکرناٹک کے وزےراعلیٰ بی اےس ےدوےروپا کے علاوہ کرناٹک کے گورنر ٹی اےن چترویدی کا نام بھی شامل ہے۔مودی کا نام نتےانند سے وابستہ ہونے کے بعد سےاسی حلقوںمےں کھلبلی مچ گئی۔

واضح رہے کہ سوامی کی جنوبی ہند کی ہےروئن کے ساتھ مبےنہ سی ڈی سامنے آنے کے بعد مودی کے ساتھ ان کے تعلقات کے معاملہ کی گونج جمعرات کو گجرات اسمبلی مےں سنائی دی۔ کانگرےس نے نتےانند کے ساتھ مودی کی ملاقات کی تفصےلی رپورٹ طلب کی ہے۔ نتےانند فرارہے اور کرناٹک پولس اب تک اسے تلاش نہےں کرپائی ہے۔

جنوب کے معروف سنت سوامی نتےانند کا مبےنہ سےکس وےڈےواےک ٹی وی چےنل پر دکھائے جانے کے بعد سے ےہ معاملہ طول پکڑتاجارہاہے۔ سڑکوںپر مظاہرے شروع ہوگئے ہےں، مظاہرےن اس معاملہ مےں مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کررہے ہےں۔حالانکہ سوامی نتےانند کے آشرم کی جانب سے کہا گےاہے کہ وےڈےو فرضی ہے۔

تمل ناڈوپولس نے خود کو مذہبی رہنمابتانے والے سوامی نتےانند کے خلاف جعل سازی کامقدمہ درج کےاہے۔ دوسری جانب کرناٹک حکومت نے سوامی کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی ےقےن دہانی کرائی ہے۔ ادھر سےکس رےکٹ مےںپھنسے اچھا دھاری باباشےومورت دوےدی کو دہلی کی عدالت نے پانچ دن کی پولس حراست مےں بھےج دےا ہے۔

تمل ناڈوکے وزےراعلیٰ اےم کروناندھی نے جمعرات کوکہا کہ رےاستی حکومت باباکی اےسی بدکارےوںکو قطعی برداشت نہےں کرے گی۔بابا کے خلاف 6 وکلا نے دھوکہ دہی اور فحاشی پھےلانے کی شکاےت کی تھی۔ ےہ معاملہ کرناٹک اسمبلی مےں بھی اٹھا۔ رےاست کے وزےر داخلہ وی اےس آچارےہ نے کہا کہ تمل ناڈوحکومت سے معلومات حاصل ہونے کے بعد نتےانند کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

مجھے سخت اعتراض ہے ان تمام خبروں کے انداز پر۔ انہیں سوامی یا اچھا دھاری بابا لکھے جانے پر۔ انہیں صرف اور صرف ان کے اصل ناموں سے پکارا جانا چاہےے اور انہیں ناموں کے حوالے سے ان کے کالے کارناموں کو سامنے رکھنا چاہےے۔ انہیں سوامی یا بابا کہہ کر نہیں۔ وہ ایک سیکوریٹی گارڈ تھا، بہروپیا تھا، بھیس بدل کر جسم فروشی کے دھندے میں شامل ہوگیا، اسی کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسے سوامی کہہ کر دھرم کو بدنام کرنا سراسر غلط ہے۔ پہلی بار اور شاید آخری بار بھی میں اس معاملے میں نریندر مودی کے بچاو ¿ میں کچھ کہنا چاہوںگا۔ نتیانندکے آشرم میں یا اس کے جلسوں میں نریندر مودی کی شرکت ایک سیاستداں کی سیاسی مجبوری یا ضرورت بھی ہوسکتی ہے، صرف اس بنیاد پر نریندر مودی کا اس گھناونے کھیل سے رشتہ جوڑا جانا پوری تحقیق اور ثبوت کے بغیر مناسب نہیں ہے۔ ہاں، مگر دہلی اور کرناٹک کے ان دونوں پاکھنڈیوں کا طرزعمل ہماری آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ کیسے پولس اور انتظامیہ کی ناک کے نیچے یہ سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں، کیسے راتوں رات ایک سیکوریٹی گارڈ اپنے آپ کو ایک سوامی یا بابا کی شکل میں پیش کرکے کروڑوں روپے کی املاک اکٹھا کرلیتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر اپنے جنسی کاروبار کو چلاتا رہتا ہے۔ معاشرے کی گندگی دور کرنے کے نام پر معاشرے میں گندگی پھیلاتا رہتا ہے۔ کیا یہ سب پولس اور انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہوسکتا ہے؟ ہمارے سیاستداں بھی جہاں ہجوم دیکھتے ہیں، اپنا چہرہ دکھانے پہنچ جاتے ہیں اور ان کی آستھا سارے دھرموں سے بھی جڑجاتی ہے اور کبھی کبھی ایسے پاکھنڈیوں سے بھی۔ انہیں یہ احساس ہونا چاہےے کہ کسی بھی جگہ ان کی شرکت کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ ان کی موجودگی ایسے لوگوں کو اپنے گورکھ دھندے کی جڑےں جمانے اور اسے پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، لہٰذا جانے انجانے غلطی تو وہ بھی کرتے ہی ہیں۔ اس لےے کھلے دل سے انہیں اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے مذہب کے نام پر جسم کی منڈی چلانے والوں کے خلاف ایسے عبرتناک قدم اٹھانے چاہئےں، جس سے کہ پھرکبھی کسی کو بھی مذہب کو بدنام کرنے کا موقع نہ ملے۔ انہوں نے صرف ناجائز جنسی کاروبار کے ذریعہ ہی معاشرے کو پراگندہ نہیں کیا، بلکہ مذہب کی اعلیٰ قدروں کو پامال کیا ہے۔ مذہبی رہنماوں کے قابل احترام کردار کو بھی داغ لگایا ہے، لہٰذا ان کے جرم کو ان تمام حقائق کی روشنی میں دیکھا جانا چاہےے اور جو میڈیا متواتر انہیں سوامی یا اچھادھاری بابا کے ناموں سے ان کی تشہیر کرتے رہے ہیں، انہیں بھی تنبیہ کی جانی چاہےے کہ کسی بھی مجرم کا جرم سامنے آجانے پر، اس کے ثابت ہوجانے پر اسے اس کے جرم کی روشنی میں ہی دیکھا جائے، اس کے مذہب کی روشنی میں نہیں۔

........................

No comments: