Thursday, March 11, 2010

کامیابی کا فارمولہ ہے اس کہانی میں

عزیز برنی

ایک زمانہ تھا جب بچے ہر روز رات ہونے کا انتظار کرتے تھے، اس لےے کہ وہ نیند کی آغوش میں جانے سے قبل اپنی نانی یا دادی سے کوئی کہانی سننا چاہتے تھے اور یہ دادی یا نانیاں بھی ہر روز ایک نئی کہانی اپنے ذہن میں تیار رکھتی تھیں۔ کبھی پریوں کی کہانی، کبھی راجا اور رانی کی کہانی، کبھی لکڑہارے کی کہانی اور کچھ کہانیاں تو ایسی بھی ہوتی تھیں، جن کا حقیقت سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ خالص ان کے ذہن کی اختراع ہوتی تھیں، مگر پھر بھی بہت خوب ہوتی تھیں، اس لےے کہ وہ ان کہانیوں کے ذریعہ بچوں کو سونے سے پہلے کوئی پیغام دینا چاہتی تھیں۔ باقی کہانیوں سے بھی یہی مقصد ہوتا تھا۔ ایمانداری کا، سچائی کا، بہادری کا غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں یہ کہانیاں ان بچوں کی رہنمائی کرتی تھیں، مگر وقت بدل چکا ہے۔ اب بچوں کو کہانیوں کا انتظار نہیں رہتا، وہ ٹیلی ویژن پر کارٹون فلم دیکھتے دیکھتے سو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ دنیا اسی لےے کارٹون کی شکل میں ڈھلنے لگی ہے، یعنی ہم پر منفی سوچ غالب آنے لگی ہے، کیوں کہ ہماری نئی نسل نے اپنی توجہ کا مرکز اب ان عبرتناک کہانیوں کو بنانا چھوڑ دیا ہے، جو انہیں صحیح راہ پر چلنے کے لےے آمادہ کرتی تھیں۔ شاید اس بدلتے وقت نے اب ہماری دادیوں اور نانیوں سے بھی اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا سر اپنی گود میں رکھ کر کہانی سنانے کا چلن چھین لیا ہے، اس لےے کہ شاید اب ان کی آنکھیں ٹیلی ویژن سیریلس پر جمی رہنے لگی ہیں، جہاں ہر گھر سازش کی زد میں نظر آتا ہے۔ بہرحال میرا مقصد نہ ٹیلی ویژن پر تنقید ہے اور نہ میں وقت کے اس بدلتے مزاج کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ہاں، مگر جو سلسلہ ٹوٹ گیا تھا، اسے پھر سے جوڑنا چاہتا ہوں، شاید اسی لےے اب میں نے کبھی کبھی کہانیاں سنانے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کہانیاں نیند کی آغوش میں جانے سے قبل سنائی جاتی تھیں اور یہ کہانیاں نیند سے بیدار ہونے کے بعد۔ وہ کہانیاں بچوں کے معصوم ذہن کو سامنے رکھ کر سنائی جاتی تھیں اور یہ کہانیاں پختہ ذہنوں کو ایک انقلاب برپا کرنے کے لےے آمادہ کرنے کی نیت سے سنائی جاتی ہیں۔ ہاں، مگر مقصد آج بھی وہی ہے، جو گزرے زمانے میں تھا۔کل میں نے اپنے مضمون کا آغاز محمدعلی کلے کی کہانی سے کیا تھا۔ دراصل اس کہانی کے ذریعہ میں ایک ساتھ کئی پیغام دینا چاہتا تھا۔ یقینا وہ پیغام آپ تک ضرور پہنچا ہوگا، پھر بھی اپنے دل کی تسلی کے لےے میں ان نکات کو آج وضاحت کے ساتھ پیش کردینا چاہتا ہوں، جن کو ذہن نشیں کرنے کے لےے میں نے محمدعلی کلے کی کہانی سنائی تھی۔ محمد علی کلے جن کا پرانا نام ’کاشس مارکیولس کلے‘ (Cassius Marcellus Clay) تھا،7جنوری942کو امریکی شہر لوئسلی کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش کے وقت امریکہ میں چاروں طرف نسل پرستی کا ماحول تھا۔ اس وقت میں جن سے مخاطب ہوں، انہوں نے امیر گھرانوں میں آنکھیں کھولی ہوں یا غریب گھروں میں،مگر کم و بیش اس حقیقت کا سامنا تو انہیں بھی کرنا ہی پڑا ہوگا۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارا ملک نسل پرستی کا شکار نہیں ہے۔ یہاں مختلف مذاہب، رنگ ڈھنگ اور زبانوں کے بولنے والے ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان میں امتیاز نہیں برتا جاتا، مگر یہ بات صدفیصد ہر آدمی پر لاگو نہیں ہوتی۔ ایسے بھی لوگ ہیں، جو آج تک دو قومی نظرےے کے دائرے سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ بس یہ بات انہیں کو سمجھانے کے لےے ہے کہ اگر ایک فیصد یا اس سے کم بھی کسی نہ کسی شکل میں ایسے کسی امتیاز کا شکار ہوتے ہیں تو محمد علی کلے کی کہانی کا یہ ابتدائی دور ان کے لےے حوصلہ افزا ثابت ہوسکتا ہے، اس لےے کہ بہرحال ہندوستان میں تو امریکہ جیسی نسل پرستی کا عالم نہیں ہے۔ اگر وہاں اس ماحول میں ایک غریب گھر میں پیدا ہوکر محمدعلی کلے نے تاریخ رقم کی تو پھر آپ بھی ایسا کرسکتی ہیں، کرسکتے ہیں۔دوسری بات جو انتہائی اہم اور دل کو چھو لینے والی ہے، وہ یہ کہ کاشس کلے اپنے چھوٹے بھائی سے کہتے تھے کہ مجھے پتھر مارو یعنی چھوٹے بھائی سے پتھر کھانے کا حوصلہ بھی تھا ان میں۔ چھوٹا بھائی انہیں پاگل سمجھتا تھا یعنی ان کے اپنے بھی اگر انہیں پاگل سمجھ رہے تھے تو وہ اس سے بھی بے پروا اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اب اگر کوئی سمجھتا ہے آپ کو پاگل یا جاہل تو سمجھنے دیجئے، وہ آپ سے چھوٹا ہے اور آپ کو پتھر ماررہا ہے تو دل برداشتہ نہ ہوں اور یاد رکھیں، پھر اسی بھائی کا کہنا تھا کہ میں پوری طاقت سے ان کو پتھر مارتا، بار بار اور لگاتار مارتا، مگر وہ ہر بار بچ جاتے۔ بس یہی فن،یہی حوصلہ، یہی بہادری ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی ہے۔ پتھر اگر ہر زاوےے سے آرہے ہیں تو آئیں، کوئی ایک پتھر بھی ہمیں چھو کر نہ گزرے، کاشس کلے کی کہانی ہمیں یہی درس بھی دیتی ہے۔کاشس کلے کی سائیکل کسی نے چرالی اور وہ روتے ہوئے ایک پولس والے کے پاس پہنچے، جہاں اس نے کہا آئو میں تمہیں مکے بازی کی ٹریننگ دیتا ہوں، تاکہ تم اس چور کی دھنائی کرسکو، جس نے تمہاری سائیکل چرائی ہے۔ میں آپ کو کسی کی دھنائی کرنے کی ترغیب تو نہیں دوں گا، لیکن ہاں جو کچھ آپ کا چرا لیا گیا ہے، چھین لیا گیا ہے، اسے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پھر سے حاصل کرنے کی بات ضرور کہوں گا۔ اب آپ یہ بہتر جانتے ہیں، جانتی ہیں کہ آپ سے آپ کا کیا چھین لیا گیا ہے یا چرا لیا گیا ہے۔ ’جومارٹن‘ نام تھا اس پولس والے کا، جس نے کاشس کلے کو پہلا سبق دیتے ہوئے کہا تھاکہ اپنے حریف کو چیلنج کرنے سے پہلے لڑنا سیکھو، یہ گُر کی بات ہے، جو ہم سب کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہےے۔ نہ تو میں موضوع سے بھٹکا ہوں اور نہ ہی اس غلط فہمی کا شکار ہوں کہ جومارٹن کی طرح آپ کو درس دینے کی جسارت کررہا ہوں۔ مجھے یاد ہے ’خواتین ریزرویشن بل‘ کے حوالے سے جو بات شروع کی تھی میں نے، اسی کو آگے بڑھا رہا ہوں۔ میرا خطاب انہیں مسلم خواتین سے ہے، جو دنیا کے ہر ملک میں نسل پرستی کا شکار ہیں اور ان میں مسلمان عورتیں کچھ زیادہ ہی ہیں، چاروں طرف سے ان پر پتھر برسائے جاتے ہیں، آپ یہاں پابندیوں کو پتھر تصور کرسکتے ہیں۔ بس انہیں حالات کے درمیان سے گنجائش نکالنی ہے، راستہ تلاش کرنا ہے، آگے بڑھنے کا۔ میں پھر کل کی کہانی کا خلاصہ پیش کرنے کی طرف واپس لوٹتا ہوں۔جومارٹن نے کہا تھا کہ اپنے حریف کو چیلنج کرنے سے پہلے لڑنا سیکھو۔ یہ جملہ یا سبق ہم سب کے لےے بہت کارآمد ہے۔ سیاست ایک بہت بڑا چیلنج ہے، بلکہ میرا ماننا ہے کہ کسی خوفناک طوفان سے گزرجانا آسان ہے، سیاسی مراحل طے کرنا آسان نہیں ہے۔ اس لےے کہ کسی خوفناک طوفان سے اگر کوئی ایک ہمدرد بھی آپ کو نکالنا چاہتا ہے تو اس کے مخلص ہونے پر آپ کو شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن سیاست میں 100لوگ بھی آپ کے تئیں مخلص ہونے کا دعویٰ کریں، تب بھی ان پر اعتبار کرنا مشکل ہے، اس لےے کہ وہ 100کے 100 آپ کو ڈبو سکتے ہیں، پھر بھی چلنا ہے آپ کو اس راستے پربے خوف ہوکر۔ پیدا کرنی ہیں اپنے اندر وہ صلاحیتیں کہ جب آپ اپنے حریف کو چیلنج کریں تو وہ آپ سے خوفزدہ ہو، آپ اس سے خوفزدہ نہ ہوں۔جومارٹن کا کہنا تھا کہ کاشس کلے میدان میں صرف اس لےے کامیاب رہا کہ وہ پکے ارادے والا تھا، اس میں منزل کو حاصل کرنے کے لےے قربانی کا جذبہ تھا۔ اس کی کوئی حوصلہ شکنی نہیں کرسکتا تھا۔ وہ بہت سخت جان تھا، یہی وجہ ہے کہ کامیابی اس کے قدم چومتی رہی۔ دراصل یہی وہ خوبیاں ہیں کہ جس کے اندر پیدا ہوجائیں، اسے کامیابیوں سے ہمکنار ہونے سے روکنا تو دور تاریخ رقم کرنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر یہ تمام خوبیاں آپ اپنے اندر پیدا کرسکیں، جس کی واقعی آپ کو آج بے پناہ ضرورت ہے اور صرف اپنے لےے نہیں، اپنے خاندان کے لےے نہیں، بلکہ اپنی قوم و ملک کو تاریخ ساز کامیابی کی طرف لے جانے کے لےے یہ خصوصیات آپ کی بنیادی ضرورت ہےں۔ایسے بہت سے واقعات اور کہانیاں ہیں میرے ذہن میں، جنہیں آپ کی حوصلہ افزائی کے لےے آپ کے سامنے رکھنا کارگر ہوسکتا ہے، لیکن میں آج آپ کو نہ کوئی اور نئی کہانی سنانے کا ارادہ رکھتا ہوں، نہ اس موضوع سے ہٹ کر کوئی اور بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں، جس وقت میں نے اس موضوع پر لکھنے کا فیصلہ کیا تھاتو مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں یہ قیاس کیا جارہا ہوگا کہ میں ان ایشوز پر بات کروں گا، جنہیں سامنے رکھ کر مسلم خواتین کو سیاست کے لےے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ میں تعلیم اور پردے کے موضوع پر بات کروں گا۔ بیشک یہ سب بھی ایسی باتیں ہیں، جن پر غوروفکر کی ضرورت ہے، مگر سب سے پہلے ضروری ہے وہ عزم اور ارادے کی پختگی، اس ذہن کی تعمیر جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرسکے۔ کسی کی سوچ کی مخالفت اگر ہمارا مقصد بن گئی تو پھر ہم اس سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتے، جس پر کہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ تمام خدشات اپنی جگہ ہیں، جن کی طرف ہمارے مذہبی رہنما اشارہ کرتے رہے ہیں، مگر ہمیں ان کی بات کو رد کےے بغیر تمام اصولوں کا پابند رہتے ہوئے، ان کے تمام خدشات کو دور کرتے ہوئے ایسی کامیابیاں حاصل کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہے، جسے وہ بھی قابل تعریف اور قابل تقلید کہہ سکیں۔ آج کے اس مضمون کو ختم کرنے سے قبل اعدادوشمار کے حوالے سے صرف ایک بات کہنا چاہوں گا، وہ یہ کہ یوں تو سیاسی میدان میں خواتین کی نمائندگی مردوں کے مقابلے میں دنیا کے ہر ملک میں کم ہے، مگر اس وقت چونکہ بات مسلم خواتین کو سامنے رکھ کر کی جارہی ہے، ہندوستانی سیاست کے تناظر میں کی جارہی ہے، اس لےے یہ وضاحت کردینا ضروری لگتا ہے کہ آج بھی ہندوستان کے مقابلے خواتین کی نمائندگی اعدادوشمار کے اعتبار سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں زیادہ ہے۔ جہاں ہندوستان میں 543ممبران کی لوک سبھا میں خواتین کی نمائندگی 59(0.8فیصد) ہے اور یہ آزادی کے بعد ہوئے پہلے پارلیمانی انتخابات یعنی 1952سے لے کر پندرہویں لوک سبھا کے لےے 2009میں ہوئے انتخابات تک سب سے زیادہ ہے، جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں خواتین کی نمائندگی کا فیصد2.2اور8.6 ہے۔یہ اعدادوشمار واضح کرتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے مسلم اکثریت والے ممالک میں بھی ہندوستان میں خواتین کی نمائندگی کے مقابلے بہتر نمائندگی ہوسکتی ہے تو پھر یہ سوچ لینا کہ مسلم خواتین کے لےے مواقع بہت کم ہےں، کس حد تک مناسب ہوگا۔ اب رہا سوال اس بات کا کہ ہندوستان میں مسلم خواتین کا مقابلہ دیگر مذاہب کی خواتین سے ہے اور وہ اس مقابلے میں کمزور ثابت ہوسکتی ہیں، شاید یہ بھی ہمارا خدشہ ہے، بہرحال اس موضوع پر گفتگو اس تحریر کی آئندہ قسطوں میں۔

No comments: