Thursday, March 18, 2010

ہمیں تو بس اپنا فرض یاد رہتا ہے!

عزیز برنی

کچھ داغ تھے میری قوم کے دامن پر جنہیں چھڑانا بہت ضروری تھا۔ بات صرف مسلمانوں کی نہیں تھی، بات میرے ملک ہندوستان کی فلاح و بہبود کی تھی۔ جمہوری قدروں کے تحفظ کی تھی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اتحاد و اخوت کی تھی، اس لےے کہ جس نفرت کی آگ میں ہم گزشتہ 61برس سے جل رہے تھے ، ہم نہیں چاہتے تھے کہ اسی نفرت کی آگ کا سامنا ہماری آنے والی نسلوں کو بھی کرنا پڑے، اس لےے انتخاب کیا کچھ ایسے ہی موضوعات کا جو نفرتوں کی بنیاد بن گئے تھے۔
تقسیم وطن کا داغ ایک ایسا داغ تھا، جسے اگر دھویا نہیں جاتا تو صدیاں گزر جاتیں اور ہم اسی ہزار بار بولے گئے جھوٹ کو سچ مان لینے کے لےے مجبور ہوگئے ہوتے کہ آزادی کے فوراً بعد ملک تقسیم ہوا دو قومی نظریہ کے تحت۔ مسلمانوں کو ملا پاکستان، اس لےے کہ مسلمان اپنے لےے الگ ملک چاہتے تھے۔ ہم نے لکھا، متواتر لکھا اور بولا بھی کہ آزادی کی جنگ لڑی ہندو اور مسلمانوں نے کاندھے سے کاندھا ملا کر۔ ملک آزاد ہوا ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ کوشش سے۔ آزاد ہندوستان پر سبھی کا حق تھا اور یہ حق ملک کے بٹوارے کے لےے نہیں تھا۔ دراصل آزادی کے بعد ملک پر حکومت کرنے کے خواہش مند ایک سے زیادہ تھے اور یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک ہی وقت میں ملک کی باگ ڈور ایک سے زیادہ ہاتھوں میں تھما دی جائے، لہٰذا ملک پر حکومت کے خواہش مند سیاستدانوں کی سیاست رنگ لائی اور سبھی کو اپنے اپنے حصے کی زمین مل گئی، جس پر وہ حکومت کرسکتے تھے۔ بٹ گیا ہندوستان اور ہندوستانی قوم، لیکن یہ داغ لگا مسلمانوں کے دامن پر۔ آج پھر اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لےے کہ گزشتہ 20ـ5برسوں میں ہم نے اس موضوع پر بہت لکھا ہے اور جو کچھ ہم نے لکھا اور بولا، اسے تقویت ملی بھارتیہ جنتا پارٹی کے قدآور لیڈر لال کرشن اڈوانی کے پاکستان دورہ پر دئے گئے بیان سے، جب انہوں نے محمدعلی جناح کو سیکولر قرار دیا۔ اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک اور سینئر لیڈر جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’جناح، انڈیاـپارٹیشنـانڈیپنڈنس‘‘ کے ذریعہ تاریخی حوالوں کے ساتھ یہ ثابت کردیا کہ دراصل محمدعلی جناح کا کردار کیا تھا اور تقسیم کی وجہ کیا تھی۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاستدانوں کے ذریعہ یہ سچ سامنے نہیں آیا ہوتا، تب بھی میں تمام ہندوستان کے سامنے یہ بات رکھنا چاہتا تھا کہ اگر کوئی غلطی ہمارے آباواجداد سے سرزد ہوئی ہے توبھی اس کی سزا آج کی نسلوں کو تو نہیں دی جاسکتی۔ ایسا تو کوئی قانون نہیں ہے کہ دادا کسی کا قتل کرے اور دنیا سے گزر جائے، پھر اس کے کےے گئے جرم کی سزا پوتے کو ملے اور اسے پھانسی پر چڑھا دیا جائے، لیکن ایسی دلیلوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی، بات خود بخود واضح ہوتی چلی گئی اور اب کہا جاسکتا ہے کہ بہت حد تک یہ داغ ہمارے دامن سے دھل چکا ہے۔
دہشت گردی ہمارے دامن پر ایک اور ایسا گھنائونا داغ تھا، جس نے بین الاقوامی سطح پر ہماری شبیہ کو مسخ کرکے رکھ دیا تھا اور اسلام کی جو تصویر ساری دنیا کے سامنے پیش کی جارہی تھی، وہ سراسر غلط تھی۔ ہماری دینی درسگاہوں کو، یعنی اسلامی مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتا کر ان کے وقار، ان کی عظمت کو داغ لگایا جارہا تھا۔ ہم نے پھر اپنی اشاعتوں کی معرفت یہی سچ سامنے رکھنے کی کوشش کی کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، دہشت گرد صرف اور صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔ جو بات ہم لکھ کر اور بول کر ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے، ہمارے دینی مدارس اور سماجی رہنما دہشت گردی کے خلاف جلسے جلوس منعقد کرکے واضح کررہے تھے، اس کو بہت بہتر انداز میں اور جامع طریقے سے ثابت کیا شہیدہیمنت کرکرے نے کہ دہشت گرد کوئی بھی ہوسکتا ہے، اسے کسی مخصوص مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہےے۔ ہم نے اچھادھاری بابا کے نام سے غلط راہ اختیار کرنے والے دِویدی کے کارناموں کو مذہب سے نہ جوڑنے کی درخواست کی اور صرف اس بنا پر نریندر مودی کا نام اس شخص کے ساتھ جوڑے جانے کو غلط کہا، اس لےے کہ اکثروبیشتر سیاستداں جانے انجانے میں ایسی جگہوں پر جاتے رہتے ہیں، جہاں انہیں لوگوں کا ہجوم ملتا ہے۔ اس سب کے پیچھے ہمارا مقصد صرف وہی تھا کہ مذہب کو کسی ناپسندیدہ عمل سے نہ جوڑا جائے۔ مجرموں کو ان کے عمل سے پہچانا جائے، ان کے مذہب سے نہیں۔ بہت حد تک آج یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں جب میں جمعیۃ علماء ہند کے ایک اجلاس میں شرکت کے لےے گیا، جہاںمسلمانوں کے ریزرویشن پر بات ہورہی تھی، قبلہ محترم مولانا ارشدمدنی صاحب نے اپنی تاریخی تقریر میں بہت سی باتیں کہیں۔ میں ان میں صرف ایک جملہ کا اضافہ اپنی جانب سے کرنا چاہتا تھا، جو اس وقت اپنی تحریر کی معرفت کررہا ہوں۔ انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے جنگ آزادی میں کردار کو تفصیل کے ساتھ سامنے رکھا۔ آج میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ بات چاہے ریزرویشن کی ہو یا دیگر مساوی اختیارات کی ہمارے آبا واجداد نے ملک کی آزادی کے لےے اپنا خون دیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ملک کی آزادی کے لےے چندہ دیا ہے۔ ہم سود نہیں چاہتے۔ اپنا دیا ہوا قرض واپس چاہتے ہیں۔ ہمیں برابری کا حق دیا جانا، ہمارے قرض کی ادائیگی ہے، ہم پر کیا جانے والا رحم نہیں۔
مسلمانوں کے دامن پر ایک اور داغ جو اکثر لگایا جاتا رہا ہے، وہ یہ کہ مسلمان گندی بستیوں میں رہتے ہیں، ان کے دروازوں پر ٹاٹ کا پردہ ہوتا ہے۔ میں نے میوات کے ایک جلسہ میں ایک مثال کے ذریعہ اس مجبوری کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ میں نے کہا: فرض کریں اگر کوئی شخص اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک ایسے کشادہ بنگلہ میں رہتا ہو، جس میں ہر فرد کے لےے ایک الگ کمرہ ہو، باتھ روم ہو، متعدد ڈرائننگ روم، ڈائننگ ہال، لابی اور لیونگ روم ہوں، مگر پھر دشمنوں کے ذریعہ اس بنگلہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا جائے، صدر دروازے پر بیٹھے پہرےداروں کو قتل کردیا جائے، خطرہ ہر شخص کی جان پر منڈلا رہا ہو تو پھر وہ کشادہ بنگلہ میں رہنے والے تحفظ کی خاطر سمٹ کر ایک کمرے میں آجائےں گے اور جب تک خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا، وہی ایک کمرہ ان سب کی رہائش گاہ بن جائے گا۔ ایک ہی بیت الخلا کا استعمال سب کریں گے، کمرے کا ایک کونہ رسوئی کی شکل اختیار کرلے گا اور پھر اگر کچھ وقت کے لےے اس بنگلہ میں پانی اور بجلی کی سپلائی بھی منقطع کردی جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ایک کمرے کی حالت کیا ہوگی؟ بس اسی مثال کے ذریعہ سمجھیں ان تنگ گلیوں اور ٹاٹ کے پردوں میں رہنے والوں کی مجبوری کو۔ تحفظ کی خاطر وہ اس زندگی کے لےے مجبور ہوگئے ہیں، ورنہ یہ آگرہ کا تاج محل دیکھو، دہلی کا لال قلعہ دیکھو، یہ سب کیا ہے، یہ رہائش گاہیں ہیں اسی مذہب کے ماننے والوں کی، جن پر یہ الزام ہے کہ تنگ اور گندی بستیوں میں رہتے ہیں۔
ایک اور داغ جو مسلمانوں کے دامن پر لگایا جاتا ہے اور جس کے ازالے کے لےے گزشتہ چند روز سے میں نے قلم اٹھایا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلم خواتین کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق نہیں ہے، انہیں گھروں کی چہاردیواری میں قید رہنے کے لےے مجبور کردیا گیا ہے۔ پردے کے نام پر ان سے ان کی آزادی سلب کرلی گئی ہے۔ یہ کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ، اس وقت اس بحث میں پڑے بغیر میں ’خواتین ریزرویشن بل‘ کے تعلق سے لکھ رہا ہوں۔ حالانکہ اس سچ سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مسلم خواتین کی بات چھوڑئےے، ہمارے ملک میں جنہوں نے خواتین کو بھرپور آزادی دینے کے دعوے کےے ہیں، آخر کتنے فیصد ان کی نمائندگی پارلیمنٹ اور ہماری ریاستی اسمبلیوں میں ہے۔ پھر میں نے مسلم ممالک میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب سامنے رکھا۔ میں جانتا ہوں کہ اس موضوع پر ایک دقت طلب راہ سے گزرنا ہے۔ آج صبح جب میں دہلی سے ممبئی کے سفر پر تھا تو آل انڈیا مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ کی صدرشائستہ عنبر نے انتہائی افسردگی کے ساتھ کہا کہ آپ کی تحریر سے بڑا حوصلہ ملا، ورنہ گزشتہ چند روز میں بذریعہ ٹیلی فون اور براہ راست ملنے والے طنزیہ جملوں کے سبب جینا محال ہوگیا تھا، حتیٰ کہ کچھ ذرائع ابلاغ بھی ہمارے خلاف ماحول بنارہے ہیں۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ درد صرف ایک شائستہ عنبر کا نہیں، بہت سی مسلم خواتین کا ہوگا۔ پھر میرے سامنے تاریخ اسلام اور مغلیہ دور سے تاحال ایسی مسلم خواتین اور ان کی شاندار کارکردگیوں کی طویل فہرست ہے، جس سے یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ نہ تو اسلام نے مسلم خواتین سے ان کی آزادی کا حق چھینا ہے اور نہ مسلم معاشرہ انہیں چہاردیواری کے اندر قید رہنے کو مجبور کرتا ہے۔ ہاں، کچھ مکتب فکر کے لوگ ایسے ہوسکتے ہیں، جو انہیں یہ اجازت نہ دیتے ہوں، لیکن صرف انہیں کے نظرےے کو سب کا نظریہ مان لینا درست نہیں ہوگا۔
پردے کا چلن صرف اسلام نے ہی نہیں بتایا، گھونگھٹ ہندوستانی تہذیب کی دین ہے۔ عیسائی ننس کا لباس دیکھیں، جس میں وہ سر سے پیر تک چہرے اور ہاتھوں کے سوا اپنے جسم کو ڈھکا رکھتی ہیں۔ اگر ہندوستان میں یہ آزادی خواتین کو حاصل نہیں تھی، جسے مکمل آزادی کہا جاسکتا تو یہ ہندو خواتین کو بھی نہیں تھی اور مسلم خواتین کو بھی نہیں تھی۔ آج اگر ’خواتین ریزرویشن بل‘ کے حوالے سے بات کی جائے تو ہمارے علمائے کرام سے کہیں زیادہ خواتین ریزرویشن بل کی مخالفت وہ کررہے ہیں، جو خود سیاست میں ہیں اور جن کا تعلق غیرمسلم طبقے سے ہے۔ لالوپرسادیادو کا کہنا ہے کہ یہ بل ان کی موت کے بعد ہی پاس ہوسکتا ہے، اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی رابڑی دیوی کو بہار کا وزیراعلیٰ کس نے بنایا تھا؟ اگر آپ عورتوں کے سیاست میں آنے کو ناپسند کرتے ہیں تو پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ملائم سنگھ یادو بھی خواتین ریزرویشن بل کے حق میں نہیں ہےں، اب یہ سوال انہیں اپنے آپ سے کرنا ہوگا کہ اپنے بیٹے اکھلیش یادو کی خالی کی گئی سیٹ فیروزآباد پر ان کی بہو ڈمپل یادو سماجوادی پارٹی کی امیدوار کیوں تھیں؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خواتین ریزرویشن بل ایک سیاسی معاملہ ہے، اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کیوں جائے؟ ہم کیوں اپنی خواتین کو احساس کمتری کا شکار بنائیں؟ کیوں یہ مان لیں کہ وہ کامیاب سیاستداں نہیں بن سکتیں؟ کیوں ان کے ذہنوں میں یہ بات پیوست کردی جائے کہ وہ صرف امورخانہ داری کے لےے بنی ہیں؟ یہ بھی ہمارے دامن پر ایک داغ ہے، جسے ہم دھونا چاہتے ہیں۔
بار بار لفظ ہماری یا مسلمان کے حوالے سے بات کہنے کو خدارا تنگ نظری نہ سمجھ لیا جائے، میں صرف ایک ہندوستانی صحافی کی حیثیت سے یہ مضمون قلمبند کررہا ہوں۔ میری ذمہ داری ہے معاشرے کو حقائق سے روشناس کرانا۔ جب جو طبقہ کسی بھی وجہ کی بنا پر نشانہ بنتا ہے تو ایک صحافی اور مضمون نگار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لے۔ یہی ذمہ داری کبھی تقسیم وطن، کبھی دہشت گردی اور مسلم خواتین کی پسماندگی کے سوال پر مسلمانوں کا دفاع کرتی نظر آتی ہے تو یہی صحافتی ذمہ داری اور حقیقت پسندی اچھا دھاری بابا کو ہندو مذہب کا نمائندہ کہنے کو غلط قرار دیتی ہے اور یہی ذمہ داری پھر اس کے آشرم میں چلے جانے یا اس کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے ہوجانے کی بنیاد پر نریندر مودی جیسے شخص کا نام بھی اس کے ساتھ جوڑے جانے کا دفاع کرتی ہے۔

No comments: