Monday, February 22, 2010

پوری ایمانداری کے ساتھ دہشت گردی سے لڑنا ہے تو

9/11

کی طرز پر امریکہ میں ایک اور حادثہ، اتنا شدید تو نہیں، مگر انداز وہی۔ ایک طیارہ ٹیکساس میں ’آسٹن آفس‘ کی عمارت سے ٹکرایا، جو ایف بی آئی کے مقامی دفتر سے چند قدم کے فاصلے پرتھی۔ اس طیارے کو بم کی شکل میں تبدیل کردینے والا خودکش(نہیں میں اسے خودکش دہشت گرد نہیں لکھ سکتاکیوں کہ تمام ذرائع ابلاغ اور امریکی حکومت اس دوران یہی ثابت کرنے میں لگی ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں تھا) ہواباز ’جواسٹیک‘ کوئی تربیت یافتہ پائلٹ نہیں، بلکہ ایک سوفٹ وئیر انجینئر تھا۔ اس نے یہ دہشت گردانہ رویہ کیوں اپنایا، اسے کس سے کیا شکایت تھی، اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ کیوں امریکی حکمراں اور ذرائع ابلاغ اسے دہشت گرد نہ ثابت کرنے پر آمادہ ہیں؟ کیوں اس کی تصویر کچھ اس طرح ساری دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہے کہ اس سے ہمدردی پیدا ہو؟ اسے معصوم سمجھا جائے؟ آج یہ میری ریسرچ کا موضوع ہے۔ بہت کچھ مواد ’جواسٹیک‘ کے حوالہ سے میرے مطالعہ میں ہے۔ کل شام لکھنوکے ”ارم ڈگری“ کالج کی ایک استقبالیہ تقریب میں اپنی تقریر کے دوران بھی میں نے اس واقعہ کا حوالہ دیا تھا۔ ارادہ تو یہی تھا کہ میں آج اسی موضوع پر لکھوں گا، مگر لکھنوسے دہلی پہنچتے پہنچتے آج کی ایک اور بڑی خبر میری نگاہوں کے سامنے تھی۔ ”پنجاب میں بڑے دہشت گردانہ حملہ کی سازش ناکام“ مبارکباد ہماری خفیہ ایجنسیوں اور مقامی انتظامیہ کو کہ بروقت کارروائی کرکے انہوں نے ملک کو ایک اور دہشت گردانہ حملہ سے بچالیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ خبر آپ کی نگاہوں سے گزری یا نہیں، یہ خیال بھی اس لےے پیدا ہوا کہ ایک ایڈیٹر اور صحافی ہونے کے ناطے درجن بھر سے زیادہ اخبار میرے مطالعہ میں رہتے ہیں۔ اردو،ہندی کے بھی اور انگریزی کے بھی۔ میں نے اس خبر کو زیادہ تر اخبارات میں نہیں پایا۔ خدا جانے انہوں نے اس خبر کو زیادہ اہمیت کے لائق نہیں سمجھا۔ شاید ہمارے پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کو اس میں بڑی خبر کے لائق کچھ خاص نہیں ملا یا پھر وجہ یہ رہی کہ دہشت گرد ’کے ایل ایف، ببرخالصہ اور خالصتان زندہ آباد‘ وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ القاعدہ، لشکرطیبہ، انڈین مجاہدین جیسی کسی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ نہیں تھے۔ قبل اس کے کہ میں اس خبر کے حوالہ سے اپنی بات شروع کروں، ضروری لگتا ہے کہ پہلے یہ خبر اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائے، جو دہلی سے شائع ہونے والے ایک ہندی روزنامہ نے صفحہ اوّل پر شائع کی ہے۔ پھر اس کے بعد میری گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔

پنجاب مےںبڑے دہشت گردانہ حملہ کی سازش ناکام”

نابھا،پی ٹی آئی: پنجاب مےں دہشت گردی کے پھر سراٹھانے کے اندےشوں کے مابےن پولس نے اتوار کوپٹےالہ کے قرےب نابھا سے دوخوںخوار دہشت گردوںکو پکڑلےا۔گرفت مےںآئے دہشت گرد رےاست میں کوئی بڑی واردات کرنے کے فراق مےںتھے۔پولس نے خالصتان لبرےشن فرنٹ (کے اےل اےف) کے دونوں دہشت گردوں کے قبضہ سے 8کلو دھماکہ خےز سمےت جلےٹن کی 40 چھڑےں، 2پستول اورکثےرمقدار مےںگولہ بارودبرآمد کےا ہے۔پولس انسپکٹر جنرل پی اےس گل نے دہشت گردوںکی گرفتاری کو بڑی کامےابی قراردےاہے۔ ان کاکہنا ہے کہ گرفتاری سے قبل دونوںدہشت گرد کسی بڑی واردات کوانجام دےنے کا منصوبہ بنارہے تھے، لےکن پولس نے انہےں عےن موقع پر گرفتارکرکے دہشت گردوں کے ناپاک منصوبوںپر پانی پھےردےا۔پولس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اےک بڑی دہشت گردانہ سازش کو ناکام کردےا۔ واضح رہے کہ کے اےل اےف نے 18فروری کو باقاعدہ بےان جاری کرکے نابھامےں انڈےن آئل کے باٹلنگ پلانٹ، چنڈی گڑھ کے نزدےک زےرک پور مےں اےئرفورس اسٹےشن اورلدھےانہ مےں ہلوارہ فوجی ہوائی اڈہ کے سامنے دھماکہ خےز اشےاءرکھنے کی ذمہ داری لی تھی۔کے اےل اےف نے ای- مےل سے جاری بےان مےں کہا تھا کہ تکنےکی خرابی کے سبب دھماکہ کرنے کا ان کا منصوبہ بھلے ہی ناکام ہوگےاہے لےکن اہم سرکاری مقامات پر حملہ کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔ تفتےش کے دوران پولس کو کے اےل اےف کے ای-مےل کے بارے مےںبھی پتہ چلا،جس مےں نابھا سمےت دےگراہم مقامات پر دھماکہ کرنے کےلئے بگھےل سنگھ نام کے کسی شخص کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔اس ای-مےل کے انکشاف کے بعد حکام نے کہا تھا کہ رےاست مےںدہشت گرد تنظےموں کے نئے سرے سے سرگرم ہونے کے امکان سے ہم انکارنہےںکرتے ہےں۔دہشت گردی کے دور مےں 1982سے 1995 کے دوران کے اےل اےف پنجاب مےں کافی خوں خوارطرےقہ سے سرگرم تھا۔خفےہ ذرائع نے بھی آگاہ کےا ہے کہ ’کے اےل اےف‘ کے ساتھ ساتھ ببرخالصہ اورخالصتان زندہ آباد فورس بھی اپنے نےٹ ورک کی توسےع کرنے مےں لگے ہےں۔“

گزشتہ دنوں ایک خبر پڑھ کر مجھے بیحد مسرت ہوئی۔ یقینا آپ سب بھی بیحد خوش ہوئے ہوں گے یہ جان کر کہ امریکہ ہندوستان کی ترقی کی رفتار دیکھ کر حیران ہے۔ بیشک امریکہ ہی نہیں، تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک ہندوستان کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھ کر حیران ہوں گے اور ان کی یہ حیرانی اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہوگی، جب وہ یہ دیکھتے ہوں گے کہ ہندوستان دہشت گردانہ حملوں سے نبردآزما ہے۔ تازہ دہشت گردی کی وبا کے علاوہ نکسلائٹس،سی پی آئی ایم ایل، پیپلز وار گروپ، پیپلز لبریشن آرمی، الفا، رنویر سینا اور بورولینڈ کا مطالبہ کرنے والوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو ذہن میں رکھےں تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر ہندوستان تمام طرح کی دہشت گردی سے پاک رہتا تو آج اس نے ترقی کی کتنی منزلیں طے کرلی ہوتیں۔ وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کس مقام پر کھڑا ہوتا۔ بیشک ہم سبھی اپنے ملک کو ایک ایسا ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتے ہیں، جس کا کوئی ثانی نہ ہو اور اگر دہشت گردی پر قابو پالیا جائے تو یہ عین ممکن نظر آتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ آج صرف سرکار کی ہی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ہندوستان کے ہر فرد کو اس دہشت گردی کو سرے سے ختم کرنے کے لےے عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا، تبھی ہمارا ملک ترقی کی منزلیں طے کرپانے میں کامیاب ہوگا اور پھر یہ کہنے کی ضرورت ہے ہی نہیں کہ اگر ملک ترقی کرے گا تو ملک کا ہرشہری بھی ترقی کرے گا۔

اب میں واپس آتا ہوں، اس خبر کی طرف جس کے حوالہ سے آج میں کچھ قلمبند کرنا چاہتاہوں۔ اس خبر کی اہمیت کم کیوں تھی، یہ تمام اخبارات کی سرخی کیوں نہیں تھی، اسی طرح کے واقعات جب الگ الگ موقعوں پر، الگ الگ شہروں میں، الگ الگ طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی شکل میں نظر آتے ہیں تو کیا ہمارا عمل ایسا ہی ہوتا ہے؟ یہاں میں ایک بار پھر یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دہشت گرد ’دہشت گرد‘ ہوتا ہے، اس کا مذہب، اس کا دین و ایمان سب کچھ ’دہشت گردی‘ ہی ہوتا ہے۔ وہ صرف ملک دشمن ہی نہیں، انسانیت دشمن بھی ہوتا ہے، اس کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب سے ہو، کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے ہو یا کسی بھی ملک سے۔اس بات کو بار بار کہنے کی ضرورت اس لےے ہے کہ جب تک یہ بات ہمارے ذہنوں میں مکمل طور پر پیوست نہیں ہوجاتی، ہم پوری ایمانداری کے ساتھ دہشت گردی سے نہیں لڑسکتے۔

بیشتر اخبارات، ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ پر موجود نیوز سروس میرے مطالعہ میں رہتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے آج کی دو خبروں کے حوالے سے کچھ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اگر دہشت گردانہ عمل کسی دیگر مکتبہ فکر کے دہشت گرد یا افراد سے تعلق رکھنے والا ہے تو پھر اسے نہ تو اس قدر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، نہ اس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، جبکہ اگر ایسے ہی دہشت گردانہ عمل میں کوئی مسلم نام والا ملوث پایا جائے تو پھر ہمارا طرز عمل ایک دم مختلف ہوتا ہے۔ میں اس کے نقصانات پر توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ خدارا میری اس کوشش کو مذہب کے چشمہ سے نہ دیکھیں، کسی کا دفاع، کسی کابچاو ¿نہ سمجھےں، میرے ذہن میں صرف اتنا ہے کہ اگر ہندوستان میں دہشت گردانہ عمل جاری رکھنے والے ’ہیڈلی‘ کا نام رکھ کر ایک بدلی ہوئی ولدیت اور ہمارے دوست سمجھے جانے والے ممالک کا پاسپورٹ لے کر ہماری زمین پر قدم رکھیں گے تو بڑے سے بڑے دہشت گردانہ حملے کرتے رہیں گے اور ہماری توجہ اس جانب یا تو جائے گی نہیں یا پھر تب جائے گی، جب واردات ہوچکی ہوگی اور ایسے مجرم اگر بے نقاب ہو بھی گئے تو اس وقت ہوں گے، جب وہ ہماری گرفت سے باہر نکل چکے ہوں گے۔ ’انڈین مجاہدین‘ کے دہشت گردانہ عمل سے منسوب ہندوستان کے متعدد شہروں میں بم دھماکے ہوئے۔ ایک امریکی شہری ’کین ہے ووڈ‘ کا نام سامنے آیا، مگر وہ ہمارے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، کیوں کہ ایسے نام کے لوگوں کو ہمارے ملک میں دہشت گرد کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس لےے نہ تو سرحدپار کرتے وقت اور نہ ہی ہوائی جہاز میں بیٹھتے وقت انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ’ہیڈلی‘ کے بارے میں ہوا۔ ہماری اس سوچ سے دہشت گرد تنظیمیں بخوبی واقف ہیں۔ اگر وہ اس کا فائدہ اٹھاکر بدلے ہوئے ناموں کے ساتھ ہمارے ملک میں دہشت برپا کرتے رہیں تو پھر ہم اس دہشت گردی سے کیسے نمٹےںگے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دہلی ائیرپورٹ کے نزدیک واقع ہوٹل ’ریڈیسن‘ سے گرفت میں آئے دو برطانوی شہری کس نیت کے ساتھ ہمارے یہاں ٹریفک کنٹرولر اور پائلٹ کے درمیان ہورہی گفتگو سن رہے تھے، ریکارڈ کررہے تھے اور اپنے پاس موجود راڈار سے ہمارے آسمان پر اڑنے والے طیاروں پر نظر رکھ رہے تھے، مگر چونکہ ان کے نام ایسے نہیں تھے، جیسے ناموں پر ہمیں دہشت گرد ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ ان کا تعلق ایسے ملک سے نہیں تھا، جنہیں ہم اپنا دشمن ملک یا دہشت گردی کو فروغ دینے والا ملک تصور کرتے ہیں، لہٰذا ہمارا رویہ ان کے تئیں انتہائی نرم رہا۔ ہم نے شاید یہ بھی نہیں سوچا کہ القاعدہ اور لشکرطیبہ جو آج دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیمیں مانی جاتی ہیں اور جن کے نام ہمارے ملک میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ وہ اپنے کسی ناپاک منصوبے کے لےے کسی ایسے ملک کے شہری کا بھی استعمال کرسکتے ہیں، جس ملک کو ہم اپنا دوست مانتے ہوں۔ وہ ایسے مذہب کے لوگوں کا بھی استعمال کرسکتے ہیں، جس مذہب کے ماننے والوں پر ہم شک نہیں کرتے۔ القاعدہ میں لادن کی جگہ لینے کا دعویٰ کرنے والا ایک امریکی شہری تھا، جس کا نام تھا ’ایڈم یحییٰ‘۔ اب بھلے ہی یہ کہا جائے کہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، وہ مسلمان ہوگیا تھا، مگر سچائی کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ دہشت گردی کے لےے کچھ ایسے لوگوں کا بھی استعمال ہوسکتا ہے، لہٰذا ہمیں ایسے لوگوں کو بھی سرسری طور پر نہیں لینا چاہےے، بلکہ اپنے ملک کے تحفظ کے پیش نظر ہر زاویہ سے ان کی مشکوک سرگرمیوں کو جاننا اور سمجھنا چاہےے، ورنہ ایک طے شدہ اندازِفکر ہمیں دہشت گردی کی اس خطرناک جنگ میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔

No comments: