Sunday, February 21, 2010

مسلم ریزرویشن کے سوال پر طوفان کیوں؟

گزشتہ چند روز سے عارضی طور پر میں نے اپنے لکھنے کے انداز میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ اب میں شروعات اپنی بات سے نہیں کرتا، بلکہ میرے سامنے کوئی نہ کوئی خبر ہوتی ہے اور میں اسے لفظ بہ لفظ قارئین کے سامنے رکھ دیتا ہوں، پھر اس کے بعد میرا تبصرہ، تجزیہ، نظریہ یا مضمون، آپ جو بھی سمجھیں۔ دراصل یہ اس لےے کہ اکثر سیاستداں میڈیا پر بآسانی یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد یہ نہیں تھا، ان کے الفاظ تبدیل کردئےے گئے ہیں۔ ان کی بات کو ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا ہے۔ لہٰذا مجھے لگا کہ جب میں ایسے نازک مسئلوں پر گفتگو کررہا ہوں تو جس کے، جس جملہ پر بات کی جانی ہے، پہلے اسی کو پوری طرح سامنے رکھ دیا جائے، پھر آگے اپنی بات شروع کی جائے۔ ویسے تواس درمیان دو اور ایسے موضوع تھے، جن پر گفتگو کی جانی چاہےے تھی اور جن پر میں لکھ بھی رہا تھا، ایک تو پنے کا بم بلاسٹ اور دوسرا دہلی ائیرپورٹ کے نزدیک ہوٹل ’ریڈیسن‘ سے دو برطانوی شہریوں کا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پایا جانا۔ حالانکہ اب ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ دونوں ہی برطانوی شہری بغیر کسی دقت کے چند روز میںہی اپنے ملک واپس چلے جائیں گے اور پھر اس معاملہ کو رفع دفع کردیا جائے گا۔ اس بات کا اندیشہ میں نے ”آل انڈیا تنظیم ائمہ مساجد“ کے ایک خصوصی اجلاس میں ہفتے کے روز اپنی تقریر کے دوران بھی ظاہر کیا تھا اور جس وقت میں ان دونوں برطانوی شہریوں کو لے کر اپنا خدشہ ظاہر کررہا تھا، ملک کی متعدد معزز شخصیتیں موجود تھیں اور بالخصوص ملک بھر سے آئے ہمارے ائمہ کرام۔ ظاہر ہے وہاں ہر فرد اپنے آپ میں ایک انجمن کی اہمیت رکھتا تھا۔ ”وہ برطانوی بآسانی واپس چلے جائیں گے“ اس وقت میں نے یہ جملہ اس لےے لکھا کہ نارتھ ایسٹ سومرسیٹ سے ہمارے ایک ممبرپارلیمنٹ ڈین نورس(Den Norris)نے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ واضح ہو کہ ڈین نورس رابطہ کار کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے وکیل راجیواوستھی نے بھی نیوز لائن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکلوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانے جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔

جہاں تک میرا خیال ہے اگر یہ دونوں شہری مسلمان ہوتے اور کسی مسلم ملک افغانستان، پاکستان یا بنگلہ دیش سے ان کا تعلق ہوتا تو پھر اتنے صاف لفظوں میں ان کی حمایت کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو مسلمان ہونے پر ایسے لوگوں کے لےے وکالت کی ذمہ داری نبھانے والے کو بھی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ امام آرگنائزیشن کے اجلاس میں اپنے ان خیالات کا اظہار کرکے جب میں باہر آیاتو ’ٹائمس گروپ‘ کے جرنلسٹ مسٹر شکلا نے میرے خیال کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور یہ افسوسناک ہے۔ بہرحال میں پنے بم دھماکہ اور ان دو برطانوی شہریوں کا مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے کو دو بڑے معاملے مانتا ہوں اور اس پر تحقیق کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن اس وقت بات اس موضوع پر جس کا اشارہ ابتدائی چند سطروں میں دیا گیا تھا۔ جی ہاں، مسلم ریزرویشن کے معاملہ پر بی جے پی کے نئے صدر و دیگر سینئر لیڈران کا بیان تو ملاحظہ فرمائیں کہ اپنی اندور کانفرنس میں مسلم ریزرویشن کے تعلق سے 19فروری کو انہوں نے کن نظریات کا اظہار کیا، اس کے بعد میری گفتگو۔

مسلمانوں کو ریزرویشن بڑی سازش: بی جے پیبی رمن

” اندور: مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو ریزرویشن دینے اور دیگر پسماندہ طبقات میں مسلمانوں کا حصہ بڑھا کر15 فیصد کرنے کی رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کو بی جے پی نے جمعہ کو مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بڑی سازش بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی ہر قیمت پر مخالفت کرے گی اور قربانی دینا ہوا تو اس کے لئے بھی تیار رہے گی۔

بی جے پی کے تین روزہ قومی اجلاس کے آخری روزجمعہ کو یہاں رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پارٹی صدر نتن گڈکری نے کہا کہ اس رپورٹ سے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے دل میں زبردست خوف ہے کہ اگر ےہ سفارش نافذ ہوگئی تو ان کا ریزرویشن کم ہوجائے گا۔ پارٹی کے ایک دیگر سینئر لیڈر گوپی ناتھ منڈے نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دیگر پسماندہ طبقے میں مسلمانوں کا ریزرویشن بڑھا کر15 فیصد کرنا اور دلت مسلمانوں نیز عیسائیوں کو ریزر ویشن دینا ایک بڑی سوچی سمجھی سیاسی سازش ہے۔ ایسا کرکے مسلمانوں کو سیاست میں بھی ریزرویشن دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دلت عیسائیوں اور مسلمانو ںکو ریزرویشن مل گیا اور دیگر پسماندہ طبقات کو ملے27 فیصد ریزرویشن میں مسلمانوں کا ریزرویشن15 فیصد کردیا گیا تو اس سے اسمبلیوں، پارلیمنٹ اور دیگر منتخب اداروں میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی اپنے آپ ہی بڑھ جائے گی۔ منڈے نے کہا کہ یہی نہیں اعلیٰ ایڈ منسٹریٹیو سروسز میں بھی اس بنیاد پر مسلمانوں کا دخل بڑھ جائے گا۔ اس موضوع پر گڈکری ، منڈے اور ایم ونکیا نائیڈو سمیت اپنی بات رکھنے والے پارٹی کے مختلف مقررین نے کہا کہ ہندو سماج کے ریزرویشن میں ایک فیصد کی کمی کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پارٹی نے پورے ملک کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کھیل کی مخالفت کرنے کے لئے سڑکوں پر اتریں اور اس کے لئے اگر قربانی دینے کی ضرورت پڑے تو وہ بھی دیں۔ نائیڈو نے کہا کہ آزادی سے قبل مذہب پر مبنی ریزرویشن کی تقسیم کی شکل میں ملک نے بہت بڑی قیمت پہلے ہی چکائی ہے اور اب مستقبل میں ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کانگریس کی سازش کو ناکام کرنے کے لئے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

قومی کونسل کی میٹنگ میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی، جس میں کہا گیا کہ دلت مسلمانوں کو ریزرویشن دینا اور دیگر پسماندہ طبقات کے ریزرویشن میں مسلمانوں کا فیصد بڑھانا نہ صرف مسلمانوں کو سیاست میں ریزرویشن دینے جیسی خطرناک سازش ہے، بلکہ اس سے تبدیلی مذہب کو بھی بڑے پیمانے پر شہ ملے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کی سازش کی بی جے پی پارلیمنٹ میں زبردست مخالفت کرے گی اور اس کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے کے لئے11 مارچ کو پارلیمنٹ کے باہر ایک مظاہرہ بھی کرے گی۔“

بی جے پی کے سابق صدر اور سینئر لیڈر وینکیانائیڈو نے مسلم ریزرویشن کے موضوع پر بولتے ہوئے کہا کہ ”مذہب کے نام پر تقسیم کی شکل میں یہ ملک بہت بڑی قیمت پہلے ہی ادا کرچکا ہے۔ اب مستقبل میں ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔“ یہاں میں واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ تقسیم وطن کا مسلمانوں سے یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ایک سیاسی سازش تھی، جس کا شکار ہمارا ملک ہوا، جس کے شکار مسلمان بھی ہوئے اور ہندو بھی۔ ہاں مسلمانوں کو اس کا زیادہ بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا اور آج بھی بھگت رہے ہیں۔ میں یہ بات گزشتہ 25برسوں میں اپنے اخبارات میں بارہا لکھ چکا ہوں۔ سیکڑوں، ہزاروں اجلاس میں اس موضوع پر بول چکا ہوں اور اب تو ان کی اپنی پارٹی کے جسونت سنگھ بھی محمد علی جناح پر کتاب لکھ کر اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں۔ میں نے اس وقت اس موضوع پر قلم اٹھایا تو گفتگو بہت طویل ہوجائے گی، جبکہ میں آج بی جے پی کے مسلم ریزرویشن کے سوال پر ان کے نظریات کی روشنی تک ہی اپنی بات کو محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ اس وقت میں لکھنو ¿ میں ہوں۔ آج صبح 11بجے لکھنو ¿ کی انٹیگرل یونیورسٹی میں مسلمانوں کے تعلق سے تعلیمی مسائل پر غور کرنے کے لےے کچھ منتخب حضرات کو مدعو کیا گیا تھا۔ میزبان وسیم اختر، وائس چانسلرانٹیگرل یونیورسٹی کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پی کے عبدالعزیز، اترپردیش اقلیتی کمیشن کے چیئرمین مسٹر کاظم، سینئر آئی اے ایس انیس انصاری و دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ جناب انیس انصاری نے پسماندہ مسلمانوں کے ریزرویشن کے تعلق سے بڑی ریسرچ کی ہے۔ ان کا موقف بڑا واجب ہے کہ ایک نائی، دھوبی، کہار، ملاح وغیرہ وغیرہ چھوٹے موٹے کام کرنے والے چاہے وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا اسلام مذہب سے، انہیں الگ الگ نظرےے سے کیوں دیکھا جائے۔ اگر کسی ریزرو سیٹ پر کسی ملاح کو الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے تو پھر وہ ہندو ہو یا مسلمان، اسے یہ موقع ملنا چاہےے۔ یہ چند سطریں تو بطور حوالہ ہیں، کیوں کہ ان کا تعلق بھی ریزرویشن سے تھا، اس لےے ضمناً ذکر میں شامل کرلیا، ورنہ ان کی کارکردگی کا احاطہ کرتے ہوئے الگ سے ایک مفصل مضمون کی ضرورت ہے۔ میں اس وقت گفتگو کررہا تھا، بی جے پی میں مسلمانوں کے ریزرویشن پر اٹھے طوفان پر۔ اسی اجلاس میں پارٹی کے ایک دوسرے سینئر لیڈر گوپی ناتھ منڈے نے کہا کہ’ ’پچھڑا ورگ‘ (پسماندہ طبقات) میں مسلمانوں کا ریزرویشن 15فیصد کرنا اور دلت مسلمانوں و عیسائیوں کو ریزرویشن دینا ایک سیاسی سازش ہے۔ ایسا کرکے مسلمانوں کو سیاست میں مواقع دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔‘ منڈے صاحب میں آپ کے الفاظ آپ ہی کو لوٹانے جارہا ہوں۔ ٹھیک کہا آپ نے، اب آپ اندازہ کیجئے کہ اگر آپ کے نزدیک مسلمانوں کو سیاست میں حصہ داری ملنا ایک سیاسی سازش ہے تو انہیں حصہ داری سے محروم رکھنا کیا سیاسی سازش نہیں تھی؟ جو طبقہ 61برس سے اس سیاسی سازش کا شکار ہے، اسے اس کا حق ملے، آج اس موضوع پرغوروفکر کرنا بھی آپ کو گوارا نہیں ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کو سامنے لانا اور سمجھنا بیحد ضروری ہے۔ ذرا منگوائےے ریزرو کونسٹیونسی کے اعدادوشمار، آپ پائیں گے کہ اکثریت ایسے حلقوں کی ہے، جہاں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں۔ آپ نے مزید خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 27فیصد ریزرویشن میں مسلمانوں کو15فیصد ریزرویشن دے دیا گیا تو پارلیمنٹ اور اسمبلی کے لےے منتخب ہونے والے مسلم ممبران کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوجائے گا اور پھر اس طرح اعلیٰ ایڈمنسٹریٹوسروسز میں مسلمانوں کی حیثیت بڑھ جائے گی۔ یعنی آپ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو یہ مواقع ملیں۔ آپ کی پارٹی کی یہ سوچ تو پہلے ہی سے جگ ظاہر تھی، اب آپ کی زبان سے اس کا منظرعام پر آنا ثابت کرتا ہے کہ آپ کے جو چند جملے بدلاوکی فضا پیدا کرنے کی کوشش سمجھے جارہے تھے اور آپ جو نئی سوچ کے ساتھ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان کا فاصلہ کم کرنے کی بات کررہے تھے، وہ محض آپ کے لفظوں کا فریب ہے، جس کے پیچھے آپ کا سیاسی ذہن کارفرما ہے۔ ذہنیت بدلی نہیں ہے۔ اب ایک آخری بات ’آپ جو مسلم ریزرویشن کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آنے کی بات کہہ رہے ہیں، بلیدان دینے کے تیار رہنے کی بات کررہے ہیں اور11مارچ کو پارلیمنٹ کے باہر ایک بڑا مظاہرہ کرنے کا اعلان کررہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ اس میں آپ اپنی پارٹی کا کچھ بھلا دیکھتے ہوں،جیسا کہ بابری مسجد کی شہادت اور کارسیوا کے نام پر ہندووں اور مسلمانوں کا خون بہا تھا، اس وقت اسے بھی بلیدان ہی کہا گیا تھا۔ اس بلیدان نے اگر کامیابی حاصل کرلی ہوتی تو کیا آج آپ یہ کہتے کہ مسلمان رام مندر بنانے میں مدد کریں اور ہم مسجد بنوائیں گے۔ چلئے حقیقت اب آپ بھی سمجھنے لگے ہیں، پھر بھی اس ذہنیت سے ہٹ نہیں پارہے ہیں۔ ہر بات کو سیاست سے جوڑ دینا، سڑکوں پر اتر آنا، بلیدان کے نام پر بے گناہوں کو خون بہانے کے لےے آمادہ کرنا، کیا ملک کی فلاح و بہبود کا باعث بن سکتا ہے۔ نہیں نہ، آپ کیوں نہیں سنجیدگی اور ایمانداری سے جسٹس راجندرسچر کی رپورٹ پر غور کرتے ہیں، جس میں انہوں نے آج کے مسلمانوں کو دلتوں سے بھی پچھڑا بتایا ہے اور یہ ان کی برسوں کی محنت و تحقیق کا نچوڑ ہے۔ جس طرح ملک کی ترقی کے لےے آزادی کے بعد دلتوں کو ریزرویشن دینا ضروری سمجھ گیا، تاکہ ایک دبے کچلے طبقہ کو اوپر اٹھنے کا موقع ملے تو پھر آج اس سے بدتر حالت میں مسلمانوں کے پہنچ جانے پر، ان کے ریزرویشن پر اس قدر طوفان کیوں؟

No comments: