Saturday, January 16, 2010

امریکی عدالت میں درج چارج شیٹ کتنی سچی؟

عزیز برنی


ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ایک وقت یہ بھی تھا کہ جب کوئی اجمل عامر قصاب اور 9 دہشت گرد لاشوں کے علاوہ کسی گیارہویں دہشت گرد کی شمولیت کا گمان بھی کر تا تو اسے سختی سے روک دیا جاتا تھا ۔روزنامہ راشٹریہ سہارا کی اشاعتوں پر ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں کی جانب سے صرف اسی بنیاد پرمتواتر الزام تراشی کی جاتی رہی ،حتیٰ کہ راقم الحروف کو دہشت گردوں کا حامی اوریہاں تک کہ غدار وطن تک کی تشبیہ دی گئی،جو میرے لئے انتہائی افسوس ناک ہے ۔ آج بھی انٹر نیٹ پر ایسے لوگوں کے خطوط دیکھے جا سکتے ہیں ملاحظہ فرمائیں گوگل کی ویب سائٹ، نام ”عزیر برنی “ ٹائپ کرنے پر اس ضمن میں بہت کچھ مل جائے گا۔ بلکہ اتنا ہی نہیں ، پرائم منسٹر آفس اور ہوم منسٹر کو بھی راشٹریہ سہارا کی خبروں کے تراشے جھوٹے الزامات کے ساتھ تبدیل کر کے بھیجے گئے،ہم دیکھتے رہے ، پڑھتے رہے ،سنتے رہے مگرہم اس بحث میں نہیں پڑے ۔ہم نے اپنی توجہ ملک اور قوم کے تحفظ کے پیش نظر اسی جانب مرکوز رکھی کہ آخر یہ دہشت گردانہ حملہ کس کس کے ذریعے کیا گیا ؟ حملہ آور کون تھے؟ سازش رچنے والا کون تھا ؟ جنھیں ماسٹر مائنڈ قرار دیا جا رہا ہے، کیا واقعی صرف وہی حملہ آور و ماسٹر مائنڈ ہیں یا پس ِ پردہ کوئی اور بھی ہے ۔
یوں تو پرت در پرت راز کھلتے جائیں گے اور اس کا سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے ۔مگر کیا سچ مچ ہم اصل دہشت گردوں تک پہنچ پائیں گے ؟ کیا ہم میں اتنا حوصلہ ہے کہ حالات و واقعات ،ثبوت و گواہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں ،ہم اس ضمن میں ان سے بھی کوئی سوال کر سکیں ۔ابھی تو نہیں، مگر شاید جلد ہی ایسا وقت بھی آجائے ،کیونکہ ابھی ایک برس پہلے تک بھی تو یہ ممکن نہیں تھا کہ 26/11کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے حوالے سے ہم اتنا بھی کہہ سکیں کہ ان دس کے علاوہ کوئی گیارہواں دہشت گرد بھی ہو سکتا ہے، بھلے ہی اس کا تعلق انھیں مدد پہنچانے تک ہی محدود رہا ہو۔تب تو ایسا ایک جملہ بھی برداشت نہیں کیا جاتا تھا، مگر اب تویہ بحث زبان زد عام ہو گئی ہے، صرف سچ ہی نہیں مختلف اخبارات یہ بات لکھ رہے ہیں اور وہ بھی صرف ہندوستان میں ہی نہیں ،دنیا بھر میں۔ لہٰذا یہ بات پوری طرح صاف ہو چکی ہے کہ صرف دس نہیں گیارہواں ،بارہواں ،تیرہواں ہی نہیں اور نہ جانے کتنے چہرے بے نقاب ہونے ہیں ،کچھ تو ہو بھی چکے ہیں ۔اس ضمن میں مجھے جو کہنا ہے وہ کہتا رہا ہوں اور آگے بھی کہتا رہوںگا، مگر آج تو میں ان حقائق پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ،جنھیں روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ہماری انویسٹی گیٹیو رپورٹس اور مضامین کی اشاعت کے بعد دیگر ذمہ داروں نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے ۔خواہ وہ ہمارا قومی میڈیا ہو ،پارلیمنٹ میں بحث کے دوران پارلیمنٹ کے رکن… اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ امریکہ کے شہر شکاگو میں ہیڈلی اور تہور حسین رانا کے خلاف جو چارج شیٹ دائر کی گئی ہے ،اس کے مطابق جمعرات کے روز شکاگو میں تفتیشی ایجنسی کی جانچ رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا گیا ہے جو کہ شکاگو کی ایک عدالت میں امریکی استغاثہ کی جانب سے فرد جرم کی شکل میں داخل کی گئی ہے ۔اس کے مطابق پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے مشتبہ دہشت گرد داﺅد گیلانی عرف ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو ممبئی حملوں کی سازش رچنے اور اسے انجام تک پہنچانے کے لئے اٹھائیس ہزار امریکی ڈالر دئے گئے تھے ۔ تیس ہزار ڈالر کی ہندوستانی کرنسی بھی اس میں شامل تھی۔لشکر طیبہ کے سرغنوں نے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو ٹریننگ بھی دی تھی ۔اس ٹریننگ کے دوران اسے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس )ڈیوائس کو سمجھنے کی تربیت بھی دی گئی تھی ۔اتنا ہی نہیں دہشت گردانہ وارداتوں کے دوران استعمال ہونے والی جدید تکنیک کی جانکاریاں بھی اسے فراہم کی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق ہیڈلی نے اپنے بچپن کے دوست تہور حسین رانا جو آرمی اسکول میں اس کے ساتھ پڑھتا تھا، مل کر ممبئی حملے کی سازش رچی تھی ۔ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ہیڈلی اور رانا نے اس رقم کا استعمال ممبئی حملوں کی سازش رچنے میں کیا ۔لشکر طیبہ نے ممبئی میں 26نومبر 2008کو کئے گئے دہشت گردانہ حملوں کی سازش کم سے کم تین سال پہلے یعنی 2005میں ہی رچ لی تھی ۔الزامات کے مطابق جولائی 2006میں Aکو شکاگو میں دائر کی گئی چارج شیٹ میں اس تیسرے دہشت گرد کو A کے نام سے ہر جگہ پکارا گیا ہے ۔ہمارے پاس اس مقدمے کی کارروائی کی پوری تفصیلات موجود ہیں، جو سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہیں ۔کام جاری ہے ، جلد ہی اس کو بھی منظر عام پر لایا جائے گاکہ آخر اس میں ایسا کیا ہے جسے ابھی تک ہمارے ذریعہ منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے ۔بہر حال شکاگو میں دائر چارج شیٹ کے مطابق ہیڈلی کو جو اٹھائیس ہزار امریکی ڈالر دئے گئے وہ ممبئی میں فرسٹ ورلڈ کا دفتر کھولنے کے لئے اور وہاں رہنے کے دوران اپنا خرچ اٹھانے کے لئے تھے۔یہ دفتر کیا کام کرتا تھا،تہور حسین رانا کہاں رہتا ہے ،کیا کام کرتا ہے ، اس کا پاسپورٹ کب بنا ، اس بارے میں کچھ حد تک تو ہم لکھ چکے ہیں اور بہت کچھ باقی ہے ۔ فی الحال ذکر صرف فرد جرم کا جس میں بتایا گیا ہے کہ لشکر کے بے نام رکن مشتبہ دہشت گرد ڈیوڈ کولمےن ہیڈلی اور تنظیم سے منسلک دیگر ارکان کو 2005 کے آخر میں بتا دیا گیا تھا کہ وہ لشکر کے لئے اہم ٹھکانوں کی تلاش میں ہندوستان جائے گا۔ Aنے ہیڈلی اور دیگر دہشت گردوں کے لئے رابطہ کا کردار بھی ادا کیا ۔2006میں لشکر کے رکن Aاور لشکر کے ساتھیوں نے ہیڈلی کے ساتھ اس بارے میں تبادلہ خیال کیا کہ کیا وہ ممبئی میں امیگریشن دفتر کھول سکتا ہے جس کی آڑ میں ان کی سرگرمیاں چل سکیں ۔
جون 2006میں ہیڈلی مبینہ طور پر شکاگو گیا اورکنا ڈےن شہری تہور حسین رانا کو ہندوستان میں لشکر طیبہ کے منصوبے کے بارے میں بتایا ۔شکاگو میں فرسٹ ورلڈ امیگرےشن سروسس چلا رہے رانا نے اس سے اتفاق کیا کہ ممبئی میں اس کا دفتر کھولا جائے ۔استغاثہ نے یہ بھی بتایا کہ رانا نے فرسٹ ورلڈ سے منسلک شخص کو ممبئی میں ہیڈلی کے ذریعے دفتر کھولے جانے کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دی ۔اس نے ہیڈلی کو بتایا کہ وہ ہندوستان جانے کے لئے ویزا کس طرح حاصل کرے گا ۔ہیڈلی نے ویزا کی درخواست میں اپنا اصل نام اپنے والد کا اصل نام تبدیل کر دیا اور سفر کا مقصد بھی غلط لکھا ۔فرسٹ ورلڈ کا دفتر کھولنے کے بعد ہیڈلی ستمبر 2006اور ستمبر 2007اپریل اور جولائی 2008کے دوران پانچ مرتبہ ممبئی گیا ۔ہر مرتبہ اس نے وہاں کی اہم جگہوں کی تصاویر لیں۔ ویڈیو ٹیپ بنائے ،ان میں وہ مقامات بھی شامل تھے جہاں 26نومبر 2008کو حملہ کیا گیا۔ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ان تمام کاموں کو ہیڈلی نے فرسٹ ورلڈ امیگریشن سروس کے دفتر کی آڑ میں کیا۔فرد جرم میں مزید کہا گیا ہے کہ ہیڈلی جب جولائی 2008میں ہندوستان گیا تو Aنے اسے رانا کے ذریعے پیغام بھیجا تھا ،26نومبر 2008سے 28نومبر 2008کے درمیان لشکر طیبہ کے تربیت یافتہ دس دہشت گردوں نے ممبئی میں الگ الگ مقامات پر حملے کئے ۔
امریکی کورٹ نے تہور حسین رانا اور ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے خلاف چارج شیٹ دائر کر دی ہے۔ ان دونوں پر 26/11کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے علاوہ ڈنمارک کے اخبار پر حملے کی سازش رچنے کا الزام بھی طے کیا گیا ہے ۔ گزشتہ سال دسمبر میں ہیڈلی کے خلاف کل 12 معاملے درج کئے گئے ہیں اور تہور حسین رانا پر تین الزامات عائد کئے گئے ہیں ۔جس میں ڈنمارک اور ہندوستان میں دہشت گردانہ کارروائی کے لئے سامان فراہم کرانے کے علاوہ ماسٹر مائنڈ جیسے الزامات شامل ہیں ۔ چارج شیٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کے دوران دہشت گردوں نے جن لوگوں کو یر غمال بنالیا تھا ،ان کا استعمال قصاب کو چھڑانے کے لئے کیا جانا تھا ، لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو پایا ۔
شکاگو کی عدالت میں دائر کی گئی اس چارج شیٹ کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے ۔ ، اس پر بھی لگاتاربات ہوگی ،مگر اس چارج شیٹ میں جتنی ایسی باتیں کہی گئی ہیں ،جو ہمارے شکوک و شبہات کو مضبوط کرتی ہیں اور جن کا ذکر پہلے بھی ہم اپنے مضامین میں کر چکے ہیں ،ان کا اس وقت حوالہ دینا ضروری نہیں ہے ۔قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فرد جرم جو اب شکاگو کی عدالت میں دائر کی گئی ہے ،یہ 26/11کو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کی پرانی داستان سے الگ ہے۔ صرف ایک زندہ پکڑے گئے دہشت گرد اجمل عامر قصاب کے بیان سے الگ ہے جسے اب تک ہم نے حرف بہ حرف صحےح مانا تھا۔
پولس تمام گوا ہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں اسی بیان کو درست مانتی تھی۔ پارلیمنٹ میں ہمارے وزیر داخلہ کا بیان بھی تقریباً وہی تھا جو اجمل عامرقصاب نے دیاتھا ۔26/11کے بعد سے لگاتار ہم تو بس اسی ایک بیان کی روشنی میں بات کرتے رہے ،نتیجے نکالتے رہے تھے ،اب اگر امریکی عدالت میں داخل فرد جرم کسی اور کو ماسٹر مائنڈ بتا رہی ہے تو پھر اب تو ہمیں اپنی تفتیش کا رخ بدلنا پڑے گا اور جن دہشت گردوں کے بارے میں لگاتار ایک برس تک بات کی جاتی رہی اور اس طرح کی جاتی رہی کہ اس کے علاوہ کوئی اور بات گوارہ ہی نہیں تھی ،لیکن اب تو امریکی عدالت میں درج چارج شیٹ کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک پر دہشت گردانہ حملہ کرنے والے ابھی اور بھی ہیں ۔میں اس چارج شیٹ کے آخری پیرا گراف پر اپنے قارئین اور حکومت ہند کی توجہ دلانا چاہوںگا،جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ ان پر ہندوستان میں دہشت گردانہ حملے کے لئے سامان فراہم کرانے اور ان کے ماسٹر مائنڈ ہونے جیسے الزامات ہیں ۔اگر یہ ماسٹر مائنڈ ہیں تو جرم ان کا بڑا ہے یا ان کے ہتھیار اجمل عامر قصاب یا ان 9 دہشت گردوں کا جو مر چکے ہیں ۔کیونکہ ابھی تک تو ہم زندہ بچے دہشت گرد اجمل عامر قصاب کو ہی مان رہے تھے کہ وہ ماسٹر مائنڈ ہے ۔اس سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ اجمل عامر قصاب یا باقی 9 دہشت گردوں کا جرم کچھ کم ہو گیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑے مجرم ابھی اور بھی ہیں اور جو ماسٹر مائنڈ جیسے خطر نا ک جرم میں شامل ہیں ،جنہوں نے حملے کے لئے ساز و سامان فراہم کیا ہے ،جنھوں نے باقاعدہ اس حملے کے لئے ٹریننگ لی ہے ، جنھوں نے ہندوستان آکر کن کن جگہوں کو نشانہ بنایا جانا ہے ان کے فوٹو لئے ہیں ، ویڈیو گرافی کی ہے ۔ایسے تین مجرموں کو تو واضح طور پر اب امریکی عدالت نے ہمارے سامنے رکھ ہی دیا ہے ،مگر کیا یہ فہرست یہیں مکمل ہو جاتی ہے۔ کیا ہمیں لفظ بہ لفظ اس چارج شیٹ کو صحیح مان لینا چاہئے ؟
اب دو بیان ہمارے سامنے ہیں ۔ایک بیان اجمل عامر قصاب کا جو ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا سارا سچ ہمیں بتا چکا ہے ، اس کے پہلے بیان میں کہیں بھی ہیڈلی رانا یا A”کا ذکر نہیں تھا ۔ GPSگلوبل پوزیشننگ سسٹم کی جانکاری کس سے ملی ،دہشت گردانہ حملوں کے لئے ساز و سامان ہیڈلی اور رانا نے مہیا کیا ۔قصاب نے اپنے بیان میں اس وقت ان باتوں کا ذکر نہیں کیا تھا ۔رانا کی کمپنی فرسٹ ورلڈ کس طرح سے سازش کو انجام دینے میں اہم رول ادا کر رہی تھی ،اس کا بھی حوالہ نہیں تھا ۔اب ایک دوسرا بیان ،جو چارج شیٹ کی شکل میں سامنے آچکا ہے ،جو فرد جرم امریکی عدالت میں دائر کی جا چکی ہے ۔کیا اسے اب پوری طرح سچا مان لیں ؟ یا کسی تیسرے دہشت گرد چہرے کا کوئی تیسرا بیان بھی آے گا ۔اگر اجمل عامر قصاب کے بیان میں کچھ جھوٹ ہو سکتا ہے تو ہیڈلی اور رانا کے بیان میں بھی کچھ جھوٹ ہو سکتا ہے ۔انتہائی معذرت کے ساتھ صرف تصور کے لئے ایک جملہ ہماری پولس اس پر برہم نہ ہو ،اگر اپنی آسانی کے لئے کسی بھی معاملے میں وہ مجرم سے ایسا بیان دلوانے میں کامیاب ہو سکتی ہے جو اس کی راہ آسان کرنے والا ہو ،اس کا پسندیدہ ہو ، تو کیا امریکی پولس ایسا نہیں کر سکتی ؟کیا اس سمت میں نہیں سوچنا چاہئے کہ ہیڈلی اور تہور رانا کا یہ بیان امریکی پولس کی مرضی کے مطابق ہو سکتا ہے،اس لئے کہ راقم الحروف جب ہندوستانی وزیر اعظم کے ساتھ امریکہ جا رہا تھا ،تو سفر خرچ کے لئے امریکی ڈالرس کی ضرورت تھی ۔ائیر پورٹ پر جب کرنسی ایکسچینج کاﺅنٹر پر ہندوستانی کرنسی کے بدلے امریکی کرنسی یعنی ڈالر حاصل کرنے کی ضرورت سامنے رکھی تو متعلقہ افسر کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ 2000امریکی ڈالر لے کر آپ امریکہ جا سکتے ہیں ۔ واضح ہو کہ اس سفر کے دوران تقریباً 1500ڈالر تو ہوٹل میں رہائش گاہ کے کراےے کی شکل میں ہی ادا کرنے تھے ۔یہ بتانے پر بھی کسی رعایت کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہیڈلی 28000ڈالر اور ایک بڑی ہندوستانی رقم لے کر ہمارے ملک میں داخل ہو سکا ۔اسے امریکی ائیر پورٹ پر ہی کیوں نہیں روک لیا گیا ۔کیا ہم امریکی حکومت سے یہ دریافت کریں گے کہ جاری کئے گئے پاسپورٹ کے مطابق وہ ایک امریکی شہری تھا جسے بدلے ہوئے نام ،بدلی ہوئی ولدیت کے ساتھ ایک نیا پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔ کیا امریکہ میں یہ اتنا آسان کام ہے ؟ کیا لشکر طیبہ کی امریکی پاسپورٹ اور ویزا افسران پر پکڑ اتنی مضبوط ہے کہ وہ دہشت گردوں کے لئے بآسانی امریکہ میں پاسپورٹ بھی بنوا سکتے ہیں ،ویزا بھی لگوا سکتے ہیں جبکہ وہ امریکہ میں ہی ایک سزا یافتہ مجرم ہو ۔ وہ باربار ہندوستان پاکستان کا دورہ کرے۔ 9/11کے بعد جو امریکی حکومت سیکورٹی کے معاملے میں اتنی سخت ہو کہ اس کی ائیر لائنس ہمارے سابق صدر جمہوریہ کو طیارے میں داخل ہونے سے روک لے،جو ہمارے وزیر دفاع (جارج فرنانڈیز)کو جوتے اور کپڑے اتارنے کے لئے مجبور کر دے ۔اسے کبھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ ان کا ایک سزا یافتہ مجرم بار بار ہندوستان اور پاکستان جا رہا ہے ۔اس کا تعلق پاکستان کی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ سے ہے،جس کا ریکارڈ ان کے پاس ہے ۔جسے انھوں نے خود لشکر طیبہ میں شامل کرایا ہے ،اس کا استعمال کیا ہے ،اگر ان کا وفادار لشکر طیبہ کا وفادار ہو کر ان کے ہی خلاف کوئی سازش رچ رہا ہو تو کیا اس پر نظر نہیں رکھی جانی چاہئے ،یا امریکی حکومت کا یقین اس پر اتنا مضبوط تھا کہ وہ کسی حالت میں بھی امریکہ کے خلاف تو کچھ کرے گا ہی نہیں ۔اگر ایسا ہے تو پھر کیسے مان لیں کہ اس کا تازہ بیان جس کی بنیاد پر یہ فرد جرم داخل کی گئی ہے ،سچا ہے اور اس میں امریکہ کو بچانے کی کوشش شامل نہیں ہے ۔

1 comment:

Bilal Bijrolvi said...

جناب عالی !جس بلند ہمتی اور کوہ کنی کے ساتھ حقائق کا انکشاف کےا گیا ہے،وہ تو آپ ہی کا حصہ ہے۔امریکی عدالتیں وہی کچھ کریں گی،جو امرےکہ کے مفاد مےں ہوگا۔جس ملک کا وزیرِ خارجہ عراق مےں حربی آلات کے حوالہ سے صراحةً جھوٹ بول دے ،جےساکہ بعد مےں کولن پاوےل نے اقرار کےا ہے،اس سے صدق اور انصاف کی کےا امےد کےجاسکتی ہے۔ممبئی حملہ کے فوری بعدپرمغزتحاریر کا جو سلسلہ جاری کےا تھا،اس کو جاری رکھےے۔منافقین آپ کو کےا کہتے ہےں،اس کی پرواہ نہ کےجےے۔