Tuesday, November 3, 2009

وہ بحرین تھا یا ماضی کا ہندوستان

اکتوبر بروز پیر لکھا گیا میرا پچھلا مضمون مہاراشٹر، ہریانہ اور اروناچل میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے تعلق سے تھا۔ ان میں بھی بالخصوص مہاراشٹر کے ریاستی انتخابات پر میری خصوصی توجہ تھی۔ اس لےے کہ گزشتہ برسوں میں جس طرح ایک علیحدگی پسند تحریک نے اس خطہ میں جنم لیا، اسے میں ایک بڑے خطرے کا الارم مانتا ہوں۔ جنہیں میرے اس جملے پر اعتراض ہو، وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کشمیر کے علیحدگی پسند بھی کیا کشمیری عوام کے لےے ایسا ہی خطرہ ہیں، جیسے کہ یہ علیحدگی پسند جو مراٹھی اور غیرمراٹھی کے نام پر شمال اور جنوب سے ممبئی آکر بسنے والوں کے لےے بنے ہوئے ہیں، یہ تو ممبئی کے سینے پر لگنے والا تازہ زخم ہے۔

اس سے قبل ریاست مہاراشٹر فرقہ پرست طاقتوں کا مرکز رہی ہے، ہاں اترپردیش میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد کے حالات کو دیکھ کر ریاست مہاراشٹر کو فرقہ پرستی کا مرکز قرار دینے میں مجھے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔ وجہ ہے 6دسمبر1992کے بعد ممبئی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پر جسٹس شری کرشن کمیشن کی رپورٹ ، جس میں شیوسینا کے ذریعہ مسلمانوں پر کےے گئے ظلم کی طویل داستان بیان کی گئی ہے، جو اب تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ بال ٹھاکرے کی شیوسینا جہاں ریاست میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی تھی، وہیں اب راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نونرمان سینا نے شمالی اور جنوبی بھارت کے رہنے والوں کا جینا مشکل کیا ہوا ہے۔ یہی وہ علیحدگی پسند تحریک ہے، جسے میں ملک کے لےے ایک بڑا خطرہ مانتا ہوں۔

لہٰذا پوری کوشش یہی رہی کہ وہ طاقتیں برسراقتدار نہ آپائیں، جو ملک اور قوم کے لےے سوہان روح ثابت ہوں۔ ان میں شیوسینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے خطروں کو سمجھنا اب کسی بھی ہندوستانی کے لےے مشکل نہیں ہے۔ گزشتہ 26نومبر2008کو ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کا ذکر مجھے اس وقت نہیں کرنا ہے، مگر مالیگاونویسٹی گیشن کے دوران جو دہشت گرد چہرے سامنے آئے اور جن کے بچاﺅ میں شیوسینا کے سربراہ بالاصاحب ٹھاکرے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران نے زمین و آسمان ایک کردیا، اس سے یہ اندازہ ہوچلا تھا کہ اگر انہیں برسراقتدار آنے کا موقع ملا تو یہ ریاست کس طرح دہشت گردی کی نذر ہوسکتی ہے اور پھر اس دہشت گردی کا الزام کس کے سر جاسکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس دوران میں نے جو کچھ بھی لکھا، اس میں اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ یہ مضامین کس کے حق میں اور کس کے خلاف جارہے ہیں۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ تحریر کو غیرجانبدار بنانے کی کوشش میں کہیں قارئین تک یہ اشارہ نہ چلا جائے کہ ادھر بھی جاسکتے ہیں اور ادھر بھی جاسکتے ہیں۔ ویسے بھی اس دوران گمراہ کرنے والوں کی کچھ کمی نہیں تھی، جو عوام کو کسی فیصلہ تک پہنچنے کی بجائے ذہنی الجھن کا شکار زیادہ بنارہے تھے۔مذکورہ بالا ریاستوں میں 13اکتوبر کو ووٹ ڈالے جانے کے بعد جب میں نے کچھ راحت کی سانس لی اور16اکتوبر کو ”امارات“ ائیرلائنس کے طیارے سے بحرین کے سفر پر نکلا تو نتائج کا انتظار تو تھا، مگر ایک حد تک یہ اطمینان بھی کہ قلم کی معرفت میں جو پیغام دے سکتا تھا، اسے اپنے قارئین تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔بہرحال تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد جب میں بحرین کے ہوائی اڈہ پر پہنچا تو مجھے لگا کہ میں اپنے ہی ملک کے کسی شہر کے ہوائی اڈے پر ہوں۔

ماحول بہت شناسا سا لگا، کوئی بھی اجنبیت نہیں تھی، بلکہ امیگریشن کی کارروائی بھی ایک رسم سے زیادہ نہ لگی، کچھ ہی منٹوں میں بغیر کسی الجھن یا حفاظت کے نام پر کی جانے والی تذلیل کے بغیر ائیرپورٹ کے باہر تھا، جہاں میرے منتظر تھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے ممبرو بحرین میں منعقد کےے جانے والے پروگرام کے میزبان علی اکبراور لندن سے خصوصی طور پر اس پروگرام کے لےے تشریف لانے والے عاصم خان۔ علی اکبر صاحب کی موجودگی تو متوقع تھی، لیکن عاصم خان صاحب کا لندن سے بحرین پہنچ کر میرا خیرمقدم کرنا بہت اچھا لگا۔ ائیرپورٹ سے ہوٹل تک کا فاصلہ زیادہ طویل نہیں تھا۔ 10-12منٹ میں ہی ہم ہوٹل ”گولڈن تولپ “ میں تھے، جس کے کنونشن ہال میں سرسید ڈے کی تقریبات کا سلسلہ پورے عروج پر تھا۔

میں جس وقت پہنچا، سعودی عرب کی شاعرہ عذرا نقوی اپنا کلام پیش کررہی تھی اور اس کے بعد جہاں متعدد ہندوستانی اور غیرملکی شعرائے کرام کا کلام سننے کا موقع ملا، وہیں مشہور شاعر منوررانا اور نواز دیوبندی کے درمیان ”ماں سے محبت“ کے موضوع پر کی گئی شاعری کا ایک ناقابل فراموش منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ بہرحال اس روز کی تقریبات مشاعرہ تک ہی محدود رہیں۔ اگلے دن یعنی 17اکتوبر کو ”سرسیدڈے“ منایا جانا تھا۔

دوپہر میں تمام غیرملکی مہمانوں کے لےے کھانے کا پرتکلف اہتمام کیا گیا تھا۔ اسی دوران میری ملاقات اترپردیش جونپور کے پروفیسر قاضی مظہر صاحب سے ہوئی، جو شاید میرا نام جاننے کے بعد ارادتاً کھانے کی ٹیبل پر میرے ساتھ تھے اور جب انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ ان کے آبائی وطن جونپور سے ان کی بیٹی کا ایک میسج ملا ہے، جس میں اس نے تحریر کیا ہے کہ آج کے اس پروگرام میں آپ کے مہمان خصوصی عزیزبرنی وہ شخص ہیں، جن کے لےے ہماری مساجد میں نمازوں کے دوران دعائیں کی جاتی ہیں۔ میری سہیلی جس کا تعلق اعظم گڑھ سے ہے، اس کے بھائی کو پولیس اٹھاکر لے گئی تھی، اس نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مجھے یہ سب کچھ بتایا ہے۔

پروفیسر صاحب نے اپنی بیٹی سے کہا کہ کیا عزیز برنی صاحب کے ذریعہ راشٹریہ سہارا میں تحریک چلانے سے اس لڑکی کا بھائی واپس آگیا؟ اس نے کہا یہ تو مجھے نہیں معلوم، لیکن علاقہ میں اس طرح کے واقعات میں بڑی کمی آئی ہے اور لوگوں میں بڑا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ قاضی مظہر صاحب نے مجھے اس واقعہ کی تفصیل بتائی تو ان کی یہ بات دل کو چھوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ نیٹ پر میرے بیشتر مضامین کا مطالعہ کیاہے اور میرے اور راشٹریہ سہارا کی تحریک کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ کھانے کی میز پر بات چیت کا یہ سلسلہ شروع ہونا تھا کہ یکے بعد دیگرے بحرین میں مقیم ہندوستانی اور کچھ پاکستانی نے بھی، جن میں ایک میرے ہم نام بھی تھے، میرے قسط وار مضامین پر گفتگو کا سلسلہ شروع کردیا، جو میں نے بٹلہ ہاوس، 9/11،26/11 اور مالیگاوں انکشافات سے متعلق لکھے تھے۔

میں حیران تھا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں میں اس سے پہلے کبھی نہیں گیا، میرے مضامین اور میرے اخبار سے لوگ اس حد تک واقف ہیں کہ اجنبیت کا احساس ہو ہی نہیں رہا۔ غرضیکہ رات کو ”سرسیدڈے“ کی اس تقریب میں جب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کررہا تھا تو تقریر کے دوران میرا ایک ایک لفظ جذبات میں ڈوبا تھا۔ وہ روایتی جملے، وہ میرے بولنے کا انداز نہ جانے کہاں کھو گیا تھا، مجھے لگ رہا تھا کہ میں 1947سے پہلے کے ہندوستان میں ہوں اور جس جگہ میں تقریر کررہا ہوں، وہ کوئی بیرون ملک نہیں، بلکہ میرے ہی گھر کا آنگن ہے۔ وجہ شرکت کرنے والوں اور منتظمین میں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد تھی اور وہ سب ایک دوسرے سے اس قدر ہم آہنگ تھے کہ ان کے درمیان سرحدوں کا فاصلہ مٹ سا گیا تھا۔

سرسیداحمدخاں بھی تو یہی چاہتے تھے، شاید اسی لےے انہوں نے ہندی اور اردو کو دو سگی بہنیں قرار دیا اور ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھوں سے تعبیر کیا تھا۔ میں جس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہا تھا اور جب جب یہ ترانہ سنتا تھا: ”جو ابر یہاں سے اٹھے گا، وہ سارے جہاں پر برسے گاہر جوئے رواں پر برسے گا، ہر کوہ گراں پر برسے گاہر سرووسمن پر برسے گا، ہر دشت و دمن پر برسے گاخود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن پر برسے گاہر شہرطرب پر گرجے گا، ہر قصر طرب پر برسے گا تو ایسا لگتا تھا کہ چونکہ ہم سرسید سے عقیدت اور اس درسگاہ سے محبت کا جذبہ رکھتے ہیں، اس لےے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز میں کرتے ہیں، مگر جب ہندوستان کے باہر جاکر متعدد ملکوں میں سرسیدڈے کی تقریبات میں شرکت کرنے کا موقع ملا تو مجھے لگا کہ یہ ترانہ تو ایک مکمل حقیقت ہے۔

آج سرسیداحمد کے ذریعہ جلائے گئے علم کے چراغ کی روشنی پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ آج کی ا س تحریر میں اپنی تقریر کو دوہرانے کا کوئی ارادہ نہیں، ہاں مگر ایک اور واقعہ ضرور میرے دل کو چھو گیا۔سرسید ڈے تقریبات کے دوران ایک فلاحی تنظیم اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، بحرین نے کچھ اشیا جمع کی تھیں، جن کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم فلاحی کاموں میں خرچ کی جانی تھی۔ ایک ایک کرکے جب متعدد اشیا کی نیلامی کی جانے لگی اور بحیثیت مہمان خصوصی وہ اشیا میرے ذریعہ کامیاب بولی لگانے والوں کے سپرد کی جانے لگیں تو مجھے احساس ہوا کہ کچھ تو میری جانب سے بھی ہونا چاہےے، لہٰذا میں نے اپنی جیب سے قلم نکالا اور ان اشیا کی فہرست میں شامل کردیا، جو نیلام کی جارہی تھیں۔

میرے لےے یہ ایک اور خوشگوار حیرانی کا موقع تھا کہ بڑھتے بڑھتے اس قلم پر بولی ایک لاکھ روپے (ہندوستانی کرنسی) کو بھی تجاوز کرگئی اور اس وقت رکی جب یہ احساس ہوا کہ ہر بار بڑھ چڑھ کر بولی لگانے والے عدیل ملک (ڈائریکٹر موبیٹیل کمیونی کیشن) کسی بھی قیمت پر اس قلم کو خریدنا چاہتے ہےں۔ ان کے اس جذبے سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اپنے قلم کی معرفت قوم کی جو خدمت میں انجام دے رہا ہو، اس کا اثر اب ہندوستان کے باہر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بہرحال آج کا مضمون ختم کرنے سے قبل میں یہاں اپنی تحریر میں منتظمین کے چند نام اس لےے شامل کرنے جارہا ہوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک سے باہر جاکر بھی نہ اپنی روایتوں کو بھولے ہیں، نہ اپنی قوم کو بھولے ہیں اور نہ سرسیدکے پیغام کو بھولے ہیں۔

وہ نام ہیں: شفیق الرحمن صاحب، عمران ایوب، منیجنگ ڈائریکٹر مارس کمپیوٹر ٹیکنالوجی، رضوان خلیل، گروپ منیجنگ ڈائریکٹر ماس کمپیوٹر ٹیکنالوجی، شارق فیاض خان، احمد علی بخداش، سرور صاحب، وسیم احمد صاحب، محمد نجیب صاحب، محمد مرغوب عابدی صاحب، ندیم احمد صاحب، ڈاکٹر مصباح الدین احمد صاحب، محمد سہیل عزیز صاحب، محمد حسیب صاحب، محمد خورشید عالم صاحب، ڈاکٹر پرویز صاحب، محمد مبشر صاحب، شکیل احمد صاحب، تنویر احمد خاں صاحب، محمد سلیم صاحب، پروفیسر قاضی مظہر صاحب اور خالد صاحب۔

واپسی سے قبل بحرین میں ہندوستان کے سفیرڈاکٹر جارج جوزف سے ملاقات بھی قابل ذکر رہی اور قابل ذکر رہا ”کوذوے“ (Cause way)کا سفر، یعنی وہ فلائی اوور جو بحرین اور سعودی عرب کی سرحدوں کو جوڑتا ہے اور جہاں یہ اپنی خوبصورتی اور افادیت کے لےے قابل ذکر ہے، وہیں اس بات کے لےے بھی کہ بحرین کے عوام کے لےے یہ پل سعودی عرب کے شاہ فہد کی طرف سے ایک سوغات ہے۔

لندن اور قبرص کے سفر کی داستان آئندہ قسطوں میں....

No comments: