Thursday, August 21, 2008

مسلمانانِ ہند ماضی ،حال اور مستقبل ؟؟؟

اصل مجرم کون ہے خود سے پوچھئے....

ہندوستان میں مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے علماءدین بشمول جمیعت علماءہند اور دارالعلوم دیو بند کا جدو جہد آزادی میں کیا کر دار رہا ۔کس قدر انگریز ان کے مخالف ہو گئے ۔انھیں قید خانوں میں ڈالا گیا۔پھانسی پر لٹکایا گیا۔یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔جسے کچھ حد تک گزشتہ دو ہفتے سے قسط وار مضامین کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔پہلے اگست کرانتی یعنی 9 اگست 1942سے یوم آزادی 2008تک کے عنوان سے ایک مسلسل مضمون جو کہ آٹھ قسطوں میں شائع کیا گیا۔اس کے بعد مسلمانان ِ ہند ماضی،حال اور مستقبل کے تحت ایک اور قسط وار مضمون شروع کیا گیا۔جس کی چوتھی قسط اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اوریہ سلسلہ ابھی جاری رہیگا۔کیونکہ بہت سے حقائق منظر عام پر لانا ہے۔مگر اس درمیان جو واقعات پیش آجاتے ہیں۔انھیں بھی تاریخ کی روشنی میں بیان کرنا وقت اور حالات کا تقاضہ لگتا ہے۔

جس طرح احمد آباد دھماکوں کے بعد مفتی ابو البشر کی گرفتاری ہوئی اور بعد میں ان کا اقبال جرم جو پولیس کے ذریعے سامنے رکھ دیا گیا۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔لہٰذا کل کی قسط مفتی ابو البشر اور جدو جہد آزادی میں ہندوستانی علماءدین کے کردار پر مشتمل ہوگی۔آج کی قسط میں میں گزشتہ 10-05-08کو اردو پارک نئی دلی میں دہشت گردی کے خلاف منعقد کئے گئے ایک عظیم الشان جلسے میں کی گئی اپنی تقریر کو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

وہ اس لئے کہ تقریباً پچھلے چھ ماہ سے ملک گیر سطح پر علماءکرام کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ایک زبردست مہم چھیڑی گئی۔جس کاا ٓغاز دارالعلوم دیو بند کے آنگن سے25فروری2008 کو ہوا اور یہ سلسلہ یکم جون 2008کو شاہی امام سید احمد بخاری ان کے بھائی جناب یحیٰ بخاری کے ذریعے ہوٹل تاج مان سنگھ نئی دلی میں منعقد کی گئی۔دہشت گردی کے خلاف عالمی کانفرنس تک جاری رہا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بڑی تعداد میں ہندوستانی مسلمان دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔

مسلم تنظیمیں دہشت گردی کے خلاف بڑے بڑے جلسے منعقد کر رہی ہیں۔ ایسے میں دیندار مسلمانوں کو بم دھماکوں میں ملوث ثابت کر کے آخر پولیس اور انتظامیہ کیا ظاہر کرنا چاہتی ہیں؟ اگر واقعی کہیں کوئی شخص ان بم دھماکوں میں ملوث ہے تو تمام سچائی ثبوتوں کے ساتھ سامنے کیوں نہیں رکھی جاتی؟ کیوں ایسے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے کے قوم مشتعل ہو؟مذہبی اور سیاسی رہنما احتجاجی جلسے کرنے پر مجبور ہوں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلم علماءکرام کی دہشت گردی کے خلاف تحریک سے مذہبی منافرت کے ذریعے سیاست کرنے والے پریشان ہو گئے ہوں اور انھیں یہ محسوس ہونے لگا ہو کہ اگر آئندہ الیکشن تک فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا نا ہوئی تو اپنے ووٹ بنک کو کس طرح اپنی جانب متوجہ کیا جائیگا۔

میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تقسیم وطن کی بنیاد مذہب نہیں سیاست تھی اور اس حقیقت کو تاریخی حوالوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور دہشت گردی کے تعلق سے بھی میرا ماننا یہی ہے کہ اس کی وجہ بھی مذہب نہیں سیاست ہے۔ یہی مرکزی خیال تھا دہشت گردی کے خلاف منعقد کئے گئے جلسے میں کی گئی میری تقریر کا جسے اس وقت آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔تاکہ دہشت گردی اور اس کے اسباب کو آپ کے سامنے رکھا جا سکے

برادران اسلام! اسلام علیکم،

آج کے اس عظیم الشان جلسہ کے صدر محترم، مولانا ارشد مدنی صاحب ،اسٹیج پر تشریف فرما علماءکرام، بہن تیستا سیتلواڑ، بھائی کلدیپ نیر صاحب اورعزیزان محترم!
میں جس وقت یہاں حاضر ہوا سب سے پہلے میں نے تیستاسیتلواڑ صاحبہ کو سنا۔ لگاکہ تپتی ہوئی زمین پر ایک ہوا کا ایسا شیتل جھونکا ہمارے نزدیک موجود ہے جہاں ابھی ہم سانس لے سکتے ہیں۔
مولانا سلمان صاحب کے بعد میں نے کلدیپ نیرصاحب کو سنا، ایک ایسے دیپ کو سنا، جس نے سرحد پر محبت کا دیا جلایا، میں سلام کرتا ہوں ان شخصیتوں کو۔

عزیزان محترم! ہمارا ملک جب انگریزوں کا غلام تھا تب اس غلامی سے نجات دلانے کے لیے آگے آیا دارالعلوم دیوبند اور اس کے عطیہ سے، اس کی دعاو
¿ں سے،اس کی قربانیوں سے اس ملک کو آزادی نصیب ہوئی اور آج ایک بار پھر جب یہ ملک غلام ہے دہشت گردی کا، تب ایک بار پھر یہ آواز بلند ہوئی، اسی دارالعلوم کے آنگن سے اور یہ آواز آج عالم گیر سطح پر پہنچ رہی ہے۔ یقیناً یہ وہ آواز ہے جو آج پوری دنیا کے دہشت گردوں کو یہ بتائے گی کہ دہشت گرد کون ہے؟ اور وہ جو کہتے رہے تھے کہ ہندوستان میں چلنے والے مدرسے دہشت گردی کے اڈے ہیں آج وہ سمجھ لیںگے کہ ہندوستان میں چلنے والے مدرسے اس ملک کو آزادی بھی دلاتے ہیں اور دہشت گردی سے نجات بھی دلاتے ہیں۔

جانتا ہوں وقت بہت کم ہے، اخبار کا ایڈیٹر ہوں اس لیے میری یہ کوشش ہوتی ہے کسی بات کا ریپٹیشن (repeatation) نہ ہو اس لیے اپنی تقریر کی ایڈیٹنگ بھی کرتا رہا اور صدر محترم کو اپنی بات مکمل کرنے کا موقع بھی رہے یہ احساس بھی ہے مگر چند باتیں گوش گزار ضرور کرنا چاہتا ہوں، وجہ یہ بھی رہی کہ میرے نزدیک اس وقت ایک ٹیلی ویژن چینل کی خاتون آج کے صدر محترم سے چند سوال کررہی تھیں۔ پہلا سوال یہ تھا کہ آج کے اس دہشت گردی کے خلاف جلسہ کا ادّیشیہ کیا ہے؟ مقصد کیا ہے؟ کیا دہشت گردی کے خلاف منعقد کیے جانے والے اس جلسہ کے انعقاد کا مقصد سوائے اس کے بھی اور کچھ ہو سکتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اتحاد کے لیے کھڑے ہوئے ہیں؟ امن کا الم اپنے ہاتھوں میں لے کر کھڑے ہوئے ہیں یہی جواب ہے ہمارا۔

اگلا سوال تھا کہ اس ملک میں دہشت گردی کے لیے آپ کن کو ذمہ دار مانتے ہیں؟ مولانا کا جواب تھا آر ایس ایس، پھر فرمایا اس کے بعد؟ مولانا کا جواب تھا بجرنگ دل، پھر پوچھا اس کے بعد؟

مولانا نے اس کے آگے جواب نہیں دیا۔ بہن تیستاسیتلواڑ صاحبہ سے بھی اس سے ہی ملتے جلتے سوال کیے گئے۔ شاید جس نام کا انتظار تھا انہیں میں لے دیتا ہوں وہ نام ۔ اگر آپ کو انتظار تھا داو
¿دابراہیم کے نام کا تو سن لیجئے کہ اگر وہ نام داو
¿د ابراہیم تھا تو اس کی دہشت گردی کیا ہے؟ یہ آپ عدالت کی روشنی میں دیکھیں پھر قرار دیں، میں بھی اسے مجرم قرار دوںگا اور ہمت ہے تو انصاف کے تقاضہ کے ساتھ آپ بھی اسے مجرم قرار دیں۔

28فروری 2002کو گجرات جل اٹھا اس لیے کہ 27فروری کو سابرمتی ایکسپریس میں ایک حادثہ ہوا، آپ اسے حادثہ قرار دیں یا یہ کہیں کہ دانستہ عمل تھا حالانکہ سی ایف ایل کی رپورٹ ہے کہ آگ باہر سے نہیں اندرسے لگائی گئی تھی، تاہم 58بے قصور لوگوں کی جانیں گئیں، اس کا ہمیں دکھ ہے۔ اور اس کا فطری ردعمل تھابقول چیف منسٹرگجرات نریندرمودی کے 2ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کرادیا گیا ان میں وہ بھی شامل تھے جنہوں نے ابھی دنیا میں قدم نہیں رکھا تھا، جنہیں شکم مادر میں ہی قتل کردیا گیا۔ آج سوال کیجئے اس فطری ردعمل کا اور خود پوچھئے اپنے آپ سے اپنے گریبان میں جھانک کر کہ اگر 58لوگوں کے قتل کا جواز تھا 3ہزار بے گناہ انسانوں کا قتل اور وہ عمل کا فطری ردعمل تھا تو 6دسمبر 1992کی بابری مسجد شہادت کے بعد مارچ 1993کا بمبئی بم بلاسٹ بھی فطری ردعمل تھا۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، ہمارا جمہوریت میں یقین ہے، ہمارا پارلیمنٹ میں یقین ہے، ہمارا عدالت وانصاف میں یقین ہے اگر جرم ایک ہے تو سزا بھی ایک ہی ہوگی۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک عمل کے ردعمل میں 2ہزاربے گناہوں کا قتل کردے اور چیف منسٹر بنارہے؟ اور ایک کے اوپر ابھی الزام ثابت نہیں ہوا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جن لوگوں کی جانیں گئیں ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی تھے اگر ان کا ردعمل تھا بمبئی کا بم بلاسٹ تب بھی یہ فرق کرنا ہوگا ایک ملک کا وہ ذمہ دار شخص تھا جس کے اوپر ایک ریاست میں امن کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری تھی۔ دوسرا شخص ملک کی کوئی ممتاز شخصیت نہیں تھا۔ یہ ہے میرا جواب جو اس وقت آپ کو نہیں ملا۔ ازراہِ کرم نوٹ کرلیں اور پوچھیں عدالت سے بڑا مجرم کون ہے نریندرمودی یا داو
¿دابراہیم؟
دہشت گرد اسلام ہے، دہشت گرد مسلمان ہے، ماناکہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں مگر سچ یہ ہے کہ وہ سب دہشت گرد جو پکڑے گئے وہ مسلمان ہیں۔ آج میں کچھ سوال آپ سے کرتا ہوں، آزادی کے بعد 30جنوری 1948کو قتل کیا گیا مہاتما گاندھی کا جو اہنسا کے پجاری تھے، ان کا قاتل کون سا مسلمان تھا؟ کیا نام تھا اس کا؟ کیا بتائیںگے آپ؟ ہماری بہن تیستاسیتلواڑ نے کہا، عورتوں کو آگے آنا چاہیے، ہمارے ملک کی خاتون ہندوستان کی وزیر اعظم محترمہ اندراگاندھی آگے تھیں کیا قصور تھا ان کا؟ ان کی جان لی ایک دہشت گردی کے ذریعہ۔ کیا وہ مسلمان تھا؟ نام بتائے وہ کون سامسلمان تھا جس نے اندراگاندھی کی جان لی؟

راجیوگاندھی کا قتل ہوا کوئمبٹور میں، محترمہ پرینکا گاندھی ملنے گئیں ان کی قاتل نلنی سے، کون تھا اس کا قاتل؟ کیا کوئی مسلمان؟ بہت تعریف کی میڈیا نے، میں بھی میڈیا سے تعلق رکھتا ہوں، میں بھی تعریف کرتا ہوں محترمہ پرینکا گاندھی جی کی، بڑا حوصلہ کیا انہوں نے نلنی سے ملنے گئیں۔ اگر میںچلاجاو
¿ں ملنے داو
¿د ابراہیم یا بن لادن سے تو کیا کہیںگے آپ؟ کیا پروردگارعالم نے رحم کا ایک دل صرف آپ ہی کے سینے کے لیے ہی دیا ہے؟

آئیے تاریخ کی بات کیجئے پہلے اس ملک کے تقسیم وطن کی، میں طویل گفتگو نہیں کروںگا، مجھے معلوم ہے صدر محترم کو خطاب کرنا ہے مگر بات ادھوری رہ جائے گی دہشت گردی کے تعلق سے اٹھنے والے سوالات کا اگر جواب نہ دیا گیا تو.... ملک بانٹا مسلمانوں نے، 60سال سے یہی بات کہی جاتی رہی، اس سے بڑا جھوٹ کچھ بھی نہیں ہے، سچ یہ ہے کہ 14اگست 1947کو ملک نہیں بنٹا تھا مسلمان بٹے تھے، دانستہ مسلمانوں کو بانٹا گیا تھا اس لیے کہ ملک کو چلنا تھا ڈیموکریٹک پیٹرن پر، جمہوری طریقہ پر اور فیصلہ ووٹ سے ہونا تھا کہ جسے ووٹ زیادہ ملیںگے وہ ہی اس ملک پر حکومت کرے گا، حکومت کے دعویدار ایک سے زیادہ تھے، ملک ایک تھا، پنڈت جواہر لعل نہرو بھی حکومت کرنا چاہتے تھے، سردار پٹیل بھی حکومت کرنا چاہتے تھے، محمد علی جناح بھی حکومت کرنا چاہتے تھے، محمد علی جناح بھی بیرسٹر تھے، جواہر لعل نہرو بھی بیرسٹر تھے، دونوں بہترین انگریزی بولتے تھے، دونوں کا عوام پر اچھا اثر تھا، دونوں بہترین مقرر تھے، دونوں انگریزوں کے بہت نزدیک تھے، دونوں ہی حکومت کے دعویدار تھے۔

اس وقت کے سیاستداں ڈرگئے کہ 600برس کی مغلیہ سلطنت کا دور اگر ایک بار پھر شروع ہوگیا تو آزادی ہمارے لیے بے معنی ہوجائے گی۔ اس لیے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دے کر محمد علی جناح کو الگ کردیا گیا تاکہ مسلمان ہمیشہ کے لیے اقتدار سے محروم رہیں۔ ہم بے قصور ہیں، ہم بے گناہ ہیں، گنہگار ہے سیاست۔ اٹھاکر دیکھیں مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب Indias wins freedomصاف صاف انہوں نے لکھا ہے کہ دلّی کی گلیوں میں جہاں اس وقت کھڑے ہوکر میں آپ سے خطاب کررہا ہوں، مسلمانوں کو کتے اور بلیوں کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا، کون تھے وہ دہشت گرد جنہوں نے انہیں کتے اور بلیوں کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔

یہ پوچھئے سوال اپنے آپ سے؟ ہم بڑے افسوس میں ہیں، ہم بڑی تکلیف میں ہیں کہ جب بم پھٹتا ہے مکی مسجد حیدرآباد میں تب بھی وہ نمازی جو اس وقت ہلاک ہوتے ہیں، شہید ہوتے ہیں اس کا الزام بھی کسی مسلمان پر اور جب بم پھٹتا ہے کسی عیدگاہ میں اس وقت بھی مجرم مسلمان ہیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ اس ملک کی آزادی میں پھانسی پر چڑھ جانے والے شہید اشفاق اللہ بھی مسلمان تھے، آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ 1965میں پاکستان کو منھ توڑ جواب دینے والاویر عبدالحمید بھی مسلمان تھا، آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کارگل کی جنگ میں شہید ہونے والا بھی کیپٹن حنیف الدین تھا۔یہ نام آپ کو یاد نہیں رہتے مگر وہ نام آپ کو یاد رہتے ہیں جنہوں نے انگریزوں کے دور میں غلامی کے پروانے پر دستخط کیے تھے، آپ انہیں اس ملک کے مسنداقتدار تک پہنچاتے ہیں، آج انہیں کے پرائم منسٹر ان ویٹنگ سے میں صرف ایک سوال کرنا چاہتا ہوںکہ جس وقت آپ ہندوستان میں تھے، ہمیشہ کہتے رہے کہ فرقہ پرست مدرسے والے ہیں، فرقہ پرست مسلمان ہیں مگر جب آپ کے قدم پاکستان کی زمین پر پڑے تو آپ کی آواز نکلی، آپ کی زبان نے کہا جناح سیکولر تھے، اگر محمد علی جناح سیکولر تھے تو فرقہ پرست کون تھا؟

یہ سوال اپنے آپ سے پوچھو۔ ایک آخری بات اور اس کے بعد اجازت اس لیے کہ جب جب اس ملک میں دہشت گردی کا ذکر ہوتا ہے، شروعات کشمیر سے ہوتی ہے، میں کہتا ہوں تاریخ کی روشنی میں اس لیے نہیں کہ مسلمان ہوں، اس لیے نہیں کہ اردو کا ایڈیٹر ہوں بلکہ اس لیے کہ ایک ہندوستانی ہوں، ایک سچا اور پکا امن پسند ہندوستانی ہوں۔ تاریخ کے اوراق بیان کر رہاہوں اگر کشمیری مسلمان دہشت گرد ہوتا، ہندوستان کے ساتھ رہنا نہ چاہتا تو جس وقت ملک بٹا تھا وہ سرحدی صوبہ تھا، اس کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیتا یا الگ اپنے وجود کی بات سامنے رکھتا، اگر اس وقت اس نے ہندوستان کے ساتھ رہ جانے کا فیصلہ کیا تو یہ اس کی وطن سے محبت کی سب سے بڑی دلیل ہے اس کے بعد جب لاہور سے آنے والی ریلوں میں ہندوو
¿ں کی لاشیں ہوتی تھیں، دلّی میں مسلمانوں کو مارا جارہا تھا اس وقت اگر کشمیر میں پنڈت اورڈوگرا محفوظ رہے، تب بھی وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی تو بتائیے کہ وہ کب فرقہ پرست تھا؟ کب دہشت گرد تھا؟ آپ کو سوچنا ہوگا کہیں آپ نے انصاف میں کوئی چوک تو نہیں کی ہے؟

میں ایک مثال کے ذریعہ اپنی بات واضح کردینا چاہتا ہوں ایک معصوم بچہ بازار جاتا ہے، اپنے ماں باپ کے ساتھ، اپنی پسند کا ایک کھلونا خریدتا ہے۔ اس کی پوری کائنات وہی ایک کھلونا ہے، وہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کھلونے کو عزیز رکھتا ہے مگر جب وہ پریشان ہوتا ہے جب وہ تکلیف میں ہوتا ہے، جب وہ بھوکا ہوتا ہے، وہ روتا ہے، چیختا ہے، چلاتا ہے اپنے ماں باپ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے، ماں باپ اس کی چیخ نہیں سنتے، اس کی آواز نہیں سنتے، اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تووہ اپنے آس پاس کے سامان کو زمین پر پھینکنا شروع کردیتا ہے، ماں باپ پھر بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے تب وہ اپنے محبوب کھلونے کو زمین پر پٹخ کر توڑ دیتا ہے، کیا یہ بچہ دہشت گرد ہے؟ کیا یہ بچہ دہشت گردی کے معنی جانتا ہے؟ دنیا کی جنت کشمیر میں رہنے والے آج اگر جہنم کے شعلوں میں جلنے کو مجبور ہیں تو سوچئے آپ... جب تک آپ کہتے رہیںگے کہ کشمیر ہمارا ہے،کشمیر ہمارا ہے، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

جب آپ کہیں گے کشمیری ہمارا ہے، کشمیری ہمارا ہے، صرف زمین ہی نہیں، زمین پر رہنے والا ہمارا ہے تب یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور ہم سے پوچھتے ہو دہشت گردکون ہے تو افغانستان میں اسپتالوں اورمعصوموں پر گرتے ہوئے بموں کو دیکھواور دیکھو کہ ان کو گرانے والا کون ہے؟ دہشت گرد وہ ہے جب دیکھنا ہے آپ کوکہ دہشت گرد کون ہے تو آپ کربلا کی اس سرزمین کو دیکھو جو 1400برس بعد ایک بار پھر دور حاضر کے ظالم کے ذریعہ نذرآتش کردی گئی۔ خون آلودہ کردی گئی، ان پر بم برسانے والا کون تھا؟ پھر بھی اگر آپ کو دکھائی نہیں دیتا کہ دہشت گرد کون ہے؟

تو آپ سمجھ لیجئے کہ آپ سچ کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ اگر حق کے لیے انصاف کے لیے باطل کے خلاف آواز اٹھانا ہی جہاد ہے اگر اسی کو آپ دہشت گردی سمجھتے ہیں تو مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستان کی سرزمین پر پیدا ہوا جہاں شری رام نے دھنش اٹھایا تھا؟ راون کے خلاف، وہ دھنش تھا انیائے( ناانصافی) کے خلاف، یہ اس ملک کی تاریخ ہے جہاں شری کرشن پانڈوو
¿ں کے ساتھ تھے، کوروو
¿ں کے خلاف تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان میں سے کوئی دہشت گرد نہیں تھا، اس ملک کے رہنما تھے۔ وہ جانتے تھے جو جنگ آنے والے کل میں کربلا کے میدان پر حسین لڑیںگے اس جنگ کو ہم آج ہندوستان میں لڑکر دکھارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کربلا کے میدان سے امام حسین نے ہندوستان کی طرف آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ میں اس ہندوستان کو سلام کرتا ہوں اور سلام کرتا ہوں اِس اسٹیج پر بیٹھے اُن تمام علماءکرام کو جن کا تعلق آزادی دلانے سے بھی ہے اور دہشت گردی سے نجات دلانے سے بھی ۔ شکریہ،خدا حافظ، جے ہند

No comments: