Sunday, August 10, 2008

(اگست کرانتی 9 اگست1942ء)
سے یوم آزادی 2008 تک
محمد علی جناح سیکولر یا فرقہ پرست
مسلمانوں کے دوست یا دشمن؟

چلئے بات جنگ آزادی کے دور سے شروع کرتے ہیں، ان میں کون آپ کا دوست تھا، کون آپ کا سچا رہنما تھا ۔جنہوں نے آزادی کی جنگ میں اپنی جان کی قربانی دی، وہ سب تو وطن دوست تھے ،اپنی قوم کے سچے سپاہی تھے ،آپ ان پرفخر کرسکتے ہیں۔ مگر وہ اقتدار جن کا مقصد تھا۔ کیا وہ بھی آپ کے اپنے تھے ؟ ان کا نام آپ کے جیسا ہو سکتا ہے وہ آپ کے مذہب کے نام پر اپنی حکومت کے لیے ایک ملک بنا سکتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی اپنے مفاد کے لیے آپ کو ایک ایسے اندھے کنوےںمیں دھکیل بھی سکتے ہیں جہاں نہ آپ چین سے زندہ رہ سکتے ہیں اور نا سکون سے مرسکتے ہیں۔

محمد علی جناح شائد وہ مسلمانوں کے سچے دوست نہیں تھے تو کیا دشمن تھے اور اگر انہیں مسلمانوں کا دشمن قرار نہ بھی دیا جائے کیونکہ انہوں نے پاکستانی مسلمانوں کومذہب کے نام پر ایک ملک دے دیا تو بھی اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دور اندیش نہیں تھے۔ تمام مسلمانوں کے بارے میں یا تو سوچتے نہیں تھے، یا سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ اب انہیں بے صلاحیت لکھنا یا کہنا تو اس لئے مناسب نہیں لگتا کیونکہ بہر حال وہ بے صلاحیت نہیں تھے ۔ ہاں تنگ نظر ضرور کہہ سکتے ہیں مگر یہ تنگ نظری ان کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے ۔ ہوسکتا ہے وہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک ملک ذہن میں رکھتے ہوں۔

مگر جغرافیائی اعتبار سے یہ ممکن نہ ہوتے دیکھ کر انہوں نے مسلمانوں کے نام پر زمین کا جتنا بڑا ٹکڑا ملا اسی پر اکتفا کرلیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے الگ سے کوئی ملک چاہتے ہی نہ ہوں، بلکہ مکمل ہندوستان پر حکومت کرنے کی خواہش رکھتے ہوں۔ مہاتما گاندھی کے ذریعے باری باری سے حکومت کی تجویز تو ان کی اسی خواہش کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کی وجہ سے انہیں اپنا یہ خواب حقیقت میں بدلتا نظر نہ آرہا ہو، اس لیے انہوں نے ہندوستان کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے یعنی پاکستان کا قائد اعظم بننے پر ہی اکتفا کرلیا ہو۔........

محمد علی جناح کو بے شک گزشتہ 60 برسوں سے ایک کٹر فرقہ پرست مسلمان کہا جاتا رہا ہو، مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے قد آور لیڈر لال کرشن اڈوانی کا اپنے سفر پاکستان کے دوران محمد علی جناح کو سیکولر کہنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جو پارٹی محمد علی جناح کو فرقہ پرست ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی ، اگر اس پارٹی کا سب سے بڑا لیڈر بھی یہ بات تسلیم کر لے کہ وہ فرقہ پرست نہیں تھے تو مان لینا ہوگا کہ محمد علی جناح فرقہ پرست نہیں تھے۔............ میں نے محمد علی جناح کے تعلق سے جب لکھنا شروع کیا تو انہیں کم از کم ہندوستانی مسلمانوں کا دوست نہیں دشمن قراردیا۔ تنگ نظر اور خودپرست بھی کہا۔ بھلے ہی یہ سب لکھنے اور سننے میں ٹھیک لگتا ہو مگر ایسا نہیں ہے کہ ہم سارا الزام محمد علی جناح پر تھوپ کر خود بری الذمہ ہوجائیں۔

آخر محمد علی جناح نے ایساکیا کیا جو سیاستداں کرتے۔ بس انہو ںنے وہی کیا جو اس وقت ان کی سیاست کی ضرورت تھی۔ اب اگر اس میں سارے ہندوستانی مسلمانوں کا بھلا نہیں ہوسکتا تھا تو کیا ہندوستان کے طول و عرض میں چپے چپے پر بکھرے ہوئے مسلمانوں کو یہ نہیں سوچنا چاہئے تھا کہ اگر محمد علی جناح، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کی مشترکہ رضا مندی سے ملک کو تقسیم کردیا گیا تو اس کا سب سے بڑا نقصان ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہی ہوگا۔ نقصان تو بہر حال پاکستانی مسلمانوں کو بھی ہوا ۔انہو ںنے ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءالحق اور بے نظیر بھٹو کو بین الاقوامی سیاست کے چلتے کھودیا اور برطانیہ کے شکنجے سے نکل کر امریکہ کے غلام ہو گئے۔ مگر اس وقت بات صرف ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے ............

محمد علی جناح کے بعد بھی ہندوستان میں قد آور مسلمان تھے جو مسلمانوں کو بھی سمجھا سکتے تھے اور پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل پر بھی دباﺅ ڈال سکتے تھے کہ ملک کی تقسیم عمل میں نہ آئے۔ مہاتما گاندھی تقسیم وطن کے بعد اگر مسلمانوں پر ہوئے ظلم کی داستان سن کر افسردہ ہوسکتے ہیں ، مرن برت پر بیٹھ سکتے ہیں اور ان کا یہ فیصلہ حالات میں تبدیلی لاسکتا ہے تو ایسا ہی قدم ملک کی تقسیم کو روکنے کے لیے بھی اٹھایا جاسکتا تھا۔ انھیں اس وقت بھی تمام صورت حال سے آگاہ کیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ملک کے دو ٹکڑے ہونے تھے، ہوئے۔اور اسی طرح مسلمانوں کو پہلے دو پھر اس کے بعد تین ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اتنا ہی نہیں پھر اس کے بعد انہیں ہندوستان میں تقریباً 60برس تک ملک کی تقسیم کا داغ اپنے دامن پر برداشت کرتے ہوئے سرجھکاکر رہنا پڑا، وہ ناکردہ گناہوں کی سزا پاتے رہے اور خاموش رہے۔

آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا اور ہم نہیں سوچیں گے کہ ان سب کی وجہ کیا ہے؟اس سب کے لئے ذمہ دار کون ہے؟
میں نے بہت کچھ لکھا۔ بم دھماکوں کے پہلے بھی، بعد بھی اور ہر فرقہ وارانہ فساد کے بعد بھی، ہر بار جلد از جلد جائے واردات پر پہنچنے کی کوشش کی۔تمام حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، پھر لکھا۔ جے پور، بنگلور، حیدرآباد، ممبئی، مالیگاﺅں، میرٹھ، ملیانہ، ہاشم پورہ ہی نہیں، لندن اور نیویارک (امریکہ) تک بھی گیا، تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں اس جگہ کو جس نے اس دور میں مذہبی منافرت کی وہ فضا پیدا کی جسے ہموار کرنے میں شاید صدیوں کا سفر طے کرنا پڑے۔ پھر اچانک لکھنا کم کردیا نیو یارک سے واپسی کے بعد سفر کی داستان بھی نہیں لکھی۔ لگا کس کے لیے لکھ رہا ہوں اور کیوں لکھ رہا ہوں۔

آخر ایسا کیا ہے جو لوگ نہیں جانتے اور میں ان کے سامنے لانے کی کوشش کررہا ہوں۔ سب کچھ تو وہ جانتے ہی ہیں۔ میں ان کے زخموں کو کرید کر ان کی تلخ یادوں کو تازہ کردیتا ہوں۔ کیا مجھے ایسے ہی کرتے رہنا چاہیے۔ نہیں، آج میں زخموں کو کریدنے کی بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں اپنے اور اپنوں پر ہوئے ظلم کی داستان بیان کرنا نہیں چاہتا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں جس کے لیے ہم صدیوں تک روتے رہیں اور دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے تلخ تجربات کے باوجود بھی ہم جاگے ہی نہیں۔

ہم نے سچائی کو سمجھا ہی نہیں۔ ہم نے خود اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کی ہی نہیں، اس لیے آج کی اس تحریر میں اگر ماضی کے کچھ تلخ حوالوں کا ذکر ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم صف ماتم بچھائیں اور عزاداری کا سلسلہ شروع کردیں، بلکہ یہ حوالے تو اس لیے ہیں کہ ماضی کی روشنی میں ہم اپنا بیتا ہوا کل دیکھیں۔ آج کے حالات کا جائزہ لیں اور کم از کم اب تو یہ فیصلہ کرلیں کہ ہمارا اپنا مستقبل کسی اور کے نہیں ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ ہم اگر متحد ہوجائیں گے تو پھر کوئی طاقت نہ ہمارا استحصال کرسکے گی، نہ موردِ الزام ٹھہراسکے گی اور نہ ہم اپنے ہی ملک میں دو نمبر کے شہری کی طرح سر جھکاکر جینے کو مجبور ہوں گے۔

کون نہیں جانتا مولانا حسرت موہانی، علی برادران، شہید اشفاق اللہ خاں اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے بے شمار نام ہیں جنھوں نے اس ملک کو آزادی دلانے کے لیے اپنی قربانیاں پیش کیں اور یہ بھی کون نہیں جانتا کہ تقسیم وطن کے بعد وہی مسلمان حاشیہ پر چلا گیا جو انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے سامنے آیا، مگر اقتدار ہاتھ میں آتے ہی پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کا عمل مسلمانوں کے تئیں کیا رہا۔ کیا ان تاریخی حقائق کو جھٹلایا جاسکے گا جنھیں خود مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب India wins Freedom میں لکھا۔
میری تحریر کا سلسلہ جاری رہے گا مگر میں چاہتا ہوں کہ پہلے بغیر کسی ردّوبدل کے ان کے جملے آپ کے گوش گزار کردوں تاکہ اس دور کی کہانی انھیں کی زبانی آپ کی خدمت میں پیش کردی جائے، پھر میرے پاس تو لکھنے کے لیے 1947 سے لے کر تا حال اتنا کچھ ہے کہ شاید اتنی زندگی بھی نہیں کہ سارے کا سارا سچ آپ کے سامنے رکھ سکوں۔ ہاں مگر اتنا یقین ضرور ہے کہ سچ سے روبرو ہونے کا اب یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ ایک نہیں ہزار عزیز برنی آئیں گے آپ کو سچائی سے روشناس کرائیں گے اور پھر آئے گا وہ دن جس کے لیے یہ سب لکھنے کا سلسلہ جاری ہو ا ہے ۔........جاری

No comments: